روزنامہ پاکستان لاہور ۴ دسمبر ۱۹۹۶ء کی ایک خبر کے مطابق سعودی عرب کے ایک جلاوطن لیڈر اسامہ بن لادن نے سعودی حکومت کی یہ پیشکش مسترد کر دی ہے کہ اگر وہ سعودی حکومت کو ایک اچھی اسلامی حکومت قرار دیں تو انہیں سعودی عرب واپس آنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ قریبی ذرائع کے مطابق اسامہ بن لادن کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے متعدد قوانین ایسے نافذ کر رکھے ہیں جو قرآن و سنت کے منافی ہیں، نیز سعودی شاہی خاندان دولت کی ریل پیل کی وجہ سے انتہائی کرپٹ ہو چکا ہے اور امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی مسلح افواج کی جزیرۂ عرب میں مسلسل موجودگی سے سعودی عرب کی خودمختاری اور حرمین شریفین کا تقدس مجروح ہو رہا ہے، اس لیے ان حالات میں وہ سعودی حکومت کی اس پیشکش کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اسامہ بن لادن سعودی عرب کے ایک متمول خاندان کے فرزند ہیں جو ’’بن لادن فیملی‘‘ کے نام سے تجارتی حلقوں میں خاصا معروف ہے۔ اسامہ نے روسی جارحیت کے خلاف افغان مجاہدین کے جہادِ آزادی میں نمایاں حصہ لیا۔ مجاہد گروپوں کی دل کھول کر مالی مدد کی اور خود بھی عملاً جہاد میں سالہا سال تک شریک رہے۔ اسامہ بن لادن نے سوڈان میں اسلامی اصلاحات کی حمایت کی اور سوڈان کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کا منصوبہ دیا، اس منصوبہ پر خود سوڈان میں بیٹھ کر عملدرآمد کرایا، مالی مدد کی اور بھرپور تعاون کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو سوڈان ہمیشہ قحط زدہ ملک سمجھا جاتا رہا ہے ان زرعی اصلاحات اور ترقی کی وجہ سے گندم برآمد کرنے والے ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ اسامہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی جہادی تحریکات کی عملی سرپرستی اور معاونت میں ایک عرصہ سے سرگرم ہیں جس کی وجہ سے امریکہ نے انہیں سرکاری طور پر دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، اسی وجہ سے انہیں سعودی عرب سے جلاوطن ہونا پڑا اور پھر سوڈان سے بھی مسلسل امریکی دباؤ اور دھمکیوں کی وجہ سے نکلنا پڑا۔ آج کل اسامہ بن لادن افغانستان میں ہیں اور وہاں سے انہیں نکالنے کے لیے امریکہ طالبان کی حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔
اسامہ بن لادن کا موقف یہ ہے کہ
- جزیرہ عرب سے امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی فوجوں کو بلا تاخیر نکال دینا چاہیے،
- سعودی عرب اور تمام ممالک میں خالص اسلامی شرعی حکومت قائم ہونی چاہیے، اور
- عالمی سطح پر خلافتِ اسلامیہ کا احیا ہونا چاہیے، اس مقصد کے لیے وہ مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس کے ساتھ سعودی علماء کی اس جدوجہد کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو انہی مقاصد کے لیے کئی سالوں سے جاری ہے۔ ۱۹۹۳ء میں سرکردہ سعودی علماء نے حکومت کی خدمت میں ایک یادداشت پیش کی جس میں
- امریکی فوجوں کی واپسی،
- خالص اسلامی حکومت کے قیام،
- سودی معیشت کے خاتمہ، اور
- نظامِ مملکت میں شرعی اصلاحات
کے مطالبے کیے گئے ہیں۔ اس کی پاداش میں سینکڑوں علماء اور دانشور گرفتار کر لیے گئے جن میں الشیخ سفر الحوالی اور الشیخ سلیمان عودہ جیسے سرکردہ سلفی علماء شامل ہیں اور وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ انہی علماء کا ایک گروپ لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے اور ’’لجنۃ الدفاع عن الحقوق الشرعیۃ‘‘ کے نام سے سعودی علماء کی مذکورہ یادداشت کے مطابق جدوجہد میں مصروف ہے۔
حرمین شریفین کی حفاظت اور خدمت کے باعث سعودی عرب کی شاہی حکومت کو عالمِ اسلام میں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس مناسبت سے یہ احترام سعودی حکومت کا ایک حد تک حق بھی ہے۔ لیکن سعودی عرب کے دینی حلقوں اور علماء کی جدوجہد اور مطالبات بھی ایسے نہیں جنہیں آسانی کے ساتھ نظرانداز کیا جا سکے۔ حالات اس قدر پوشیدہ اور مخفی نہیں ہیں کہ انہیں معلوم کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو کی ضرورت ہو۔ اس لیے ہمارے خیال میں پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے دینی حلقوں اور اداروں کو اس سلسلہ میں مصلحت بلکہ مداہنت سے کام لینے کی بجائے کھلی آنکھوں سے صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے اور سعودی عرب کے علماء اور دینی حلقوں کی اس دینی جدوجہد کی حمایت میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔