صفا و مروہ کی سعی
حج کے نظام میں ایک اور اصلاح جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، قرآن کریم نے اس کا اظہار کیا، حضورؐ نے اس کا نفاذ کیا۔ وہ یہ تھا کہ جاہلیت کے زمانے میں حج کی ترتیب یہ ہوتی تھی کہ طواف تو سارے کرتے تھے بیت اللہ کا، اس کے بعد صفا مروہ کی سعی ہوتی ہے، یہ صفا مروہ کی سعی سارے لوگ نہیں کرتے تھے۔ صفا مرہ کی سعی قریشی کرتے تھے اور قریش کے کچھ حلیف قبائل کرتے تھے، اور اس کا ذکر بھی تاریخ میں آتا ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ بعض حضرات تو یہ کہتے تھے کہ صفا مروہ کی سعی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی یاد میں ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ محترمہ، جب وہ اپنے معصوم بچے اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی تھیں، ان کی یاد ہے، تو بعض حضرات کا کہنا یہ تھا کہ قریش کی ماں تھیں، قریش دوڑیں، باقیوں کو دوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن بعض یہ کہتے تھے کہ یہ جاہلیت کی بات ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں ہیں، انصارِ مدینہ کے دو قبیلوں میں، جو صفا مروہ کی سعی کو جاہلیت کی بات کہتے تھے، کہ یہ کیا جاہلیت کی بات ہے کہ ماں ایک دفعہ دوڑی تھی تو قیامت تک دوڑتے ہی رہو۔ تو یہ دو وجہیں باعث تھیں کہ بہت سے قبائل صفا مروہ کی سعی نہیں کیا کرتے تھے۔ انصار مدینہ کے دونوں قبیلے بھی ان میں سے تھے، اوس اور خزرج دونوں۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان لوگوں میں سے تھے جو صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے اور صفا مروہ کی سعی کو گناہ سمجھتے تھے حرج سمجھتے تھے کہ یہ جاہلیت کی بات ہے۔
ہوا یوں کہ فتح مکہ کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے بت خانے صاف کر دیے، بت توڑ دیے، لیکن صفا مروہ تو کھڑے ہیں، تو اب ۹ ہجری کا جو حج تھا، اس میں یہ الجھن پیش آئی غیر قریش کو، جو قریش کے علاوہ قبائل صفا مروہ کی سعی نہیں کیا کرتے تھے اور وہ جاتے تھے اپنے اپنے بت خانوں میں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا بت خانہ تھا مناۃ، قدید کے مقام پر، ہم بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد قدید میں اپنے بت کے دربار میں چلے جاتے تھے اور وہاں حاضری لگاتے تھے ہماری وہی سعی ہوتی تھی۔ لیکن جب حضورؐ نے وہ صاف کر دیا، ختم کر دیا اس کو، تو ہمیں یہ الجھن پیش آئی کہ اب ہم کیا کریں گے؟ قریشی تو طواف کریں گے اور صفا مروہ کی سعی بھی کریں گے، لیکن ہم کیا کریں گے، ہمارا مناۃ تو صاف ہو گیا ہے وہاں تو کوئی چیز نہیں ہے حضورؐ نے ختم کر دیا ہے۔
انصار مدینہ نے اپنی اس الجھن کا ذکر کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، تو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس کی وضاحت فرمائی۔ یہ فرمایا ’’ان الصفا والمروۃ من شعآئر اللہ فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما‘‘ (سورہ البقرہ ۱۵۸) پہلے تو یہ بات واضح کی کہ حضرت ہاجرہؑ کا واقعہ ہوا ہے لیکن صفا مروہ دراصل خود شعائر اللہ میں سے ہیں۔ صرف وہ وجہ نہیں ہے کہ وہ دوڑی تھیں تو سب دوڑیں، جس طرح بیت اللہ شعائر اللہ میں سے ہے، صفا مروہ بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ قرآن کریم نے پہلے ذہن صاف کیا اور پھر کہا کہ جو حج کرے یا عمرہ کرے، وہ جو حرج سمجھتے تھے گناہ سمجھتے تھے، کہا کہ کوئی حرج کی بات نہیں ان کی سعی بھی کرو۔ تو یہ صفا مروہ مستقلًا حج کے مناسک میں شامل ہوئے، یہ اس سے پہلے سب لوگوں کے لیے نہیں تھا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی آئی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحات سے۔
عرفات کا وقوف
ایک اور بڑی تبدیلی ہوئی، وہ یہ کہ حج کا سب سے بڑا رکن تو عرفات کا وقوف ہے۔ ۹ ذی الحج کو صبح منٰی سے چلنا اور مغرب تک عرفات میں رہنا اور وہاں سے پھر مزدلفہ واپس انا، اس وقوف میں خطبہ بھی ہے، اس وقوف میں نمازیں بھی ہیں، لیکن اصلًا وہ وقوف ہے کہ وہاں وہ وقت عرفات کے میدان میں گزارا جائے اور ذکر اذکار، نماز، درود شریف، تکبیر، تلبیہ، جو بھی اپنے ذوق کے مطابق کریں۔ لیکن اصل رکن ہے عرفات کا وقوف کہ ۹ ذی الحج کا دن، اس کا بڑا حصہ عرفات میں گزارنا۔
قریش کے لوگ عرفات میں نہیں جاتے تھے، ان کا وہی دعوٰی تھا ’’نحن حمس‘‘ ہم بڑے لوگ ہیں، میں اس کا ترجمہ کیا کرتا ہوں وی آئی پی ہیں ہمارے لیے عرفات کی حاضری ضروری نہیں ہے۔ وہ حرم کی حدود میں رہتے تھے۔ حرم کی حدود جس میں منٰی کا بھی کچھ حصہ ہے اور کچھ حصہ مزدلفہ کا بھی ہے، حرم کی حدود سے باہر نہیں جاتے تھے کہ ہمارے لیے حرم کی حدود سے باہر جانا نہیں ہے، عرفات تک وہ لوگ جائیں جو غیر قریشی ہیں باہر سے آئے ہیں۔
جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بخاری کی روایت ہے، کہتے ہیں، یہ اسی علاقے میں رہتے تھے، طائف کے راستے میں۔ انہی کے والد مطعم بن عدی نے، طائف سے جب حضورؐ واپس تشریف لائے تھے جب حضورؐ پر پتھراؤ ہوا تھا تو مطعم بن عدی نے ہی راستے میں پناہ دی تھی، اسی علاقے میں رہتے تھے یہ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے اونٹ گم ہو گئے تھے، میں اونٹوں کی تلاش میں عرفات تک آیا تو لوگ حج کر رہے تھے، ایک خیمہ میں نے دیکھا تو لوگوں سے پوچھا یہ خیمہ کس کا ہے؟ انہوں نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ میں نے کہا وہ یہاں کیا کر رہے ہیں وہ تو قریشی ہیں، مجھے بڑا تعجب ہوا کہ قریشی اور ہاشمی یہ بزرگ یہاں عرفات میں کیا کر رہے ہیں۔ ان کا مقام تو حرم کے اندر تھا یہ تو باہر نہیں آتے تھے، لیکن کہا گیا کہ حضورؐ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اور قرآن کریم نے حکم دیا، یہ جاہلیت کے زمانے کی جو امتیازی رسم تھی قرآن کریم نے توڑی اور قریش کو حکم دیا ’’ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ‘‘ (سورہ البقرہ ۱۹۹) تم بھی وہں وقوف کرو جہاں لوگ وقوف کرتے ہیں، عرفات میں جاؤ جیسے باقی لوگ جاتے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اللہ رب العزت نے اس حوالے سے بھی یہ اونچ نیچ کا اور برتری کا تصور اور وی آئی پی سسٹم یہ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی ختم کیا، لباس میں بھی ختم کیا اور عرفات کی حاضری میں بھی اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا کہ وہیں جاؤ تم بھی جہاں باقی جاتے ہیں۔
چنانچہ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قریشی، ہاشمی، خود تشریف لے گئے اور سارے صحابہ کرامؓ نے عرفات میں وقوف کر کے حج ادا کیا۔ ایک بڑی تبدیلی یہ بھی تھی۔