بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
برطانیہ کا پہلا سفر میں نے ۱۹۸۵ء میں اور امریکہ کا پہلا سفر ۱۹۸۷ء میں کیا تھا۔ دونوں ممالک کے اس سفر کا ابتدائی داعیہ قادیانی مسئلہ تھا۔ ۱۹۸۴ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی اصطلاحات کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے سے قادیانیوں کو روک دیا اور ان کے لیے اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مذہبی شعائر و اصطلاحات کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دے دیا تو قادیانیوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز لندن کو بنا لیا اور وہاں ’’اسلام آباد‘‘ کے نام سے نیا مرکز بنا کر اپنی سرگرمیوں کو اسلام کے نام پر ہی جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔
اس سے پہلے قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ربوہ (چناب نگر) میں ہوتا تھا اور اس کے مقابلے میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں ہوا کرتی تھی جس سے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام خطاب کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ء میں قادیانیوں نے سالانہ جلسہ لندن میں منعقد کرنے کا اعلان کیا تو بعض علماء کرام کو خیال ہوا کہ اس موقع پر مسلمانوں کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس بھی لندن میں ہونی چاہیے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی نے انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے نام سے ایک فورم قائم کر کے لندن میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تیاریاں شروع کر دیں۔
میں ایک دن اپنے ایک کام کے لیے لاہور شیرانوالہ گیٹ گیا تو وہاں یہ حضرات اس سلسلے میں صلاح مشورہ کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ نے کہا کہ اچھا ہوا، تم بھی آ گئے ہو۔ ہم یہ مشورہ کر رہے ہیں اور چونکہ تم لکھنے پڑھنے کا کام اچھی طرح کر لیتے ہو اور وہاں تمھاری ضرورت پڑے گی، اس لیے تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ اس زمانے میں برطانیہ کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، صرف پاکستانی پاسپورٹ سفر کے لیے کافی ہوتا تھا اور لندن ایئر پورٹ پر مختصر انٹرویو کے بعد ویزا لگ جایا کرتا تھا۔ یہ حضرات جس تاریخ کو کانفرنس منعقد کرنے کا مشورہ کر رہے تھے، اس کے دو تین ہفتے بعد حج کا موقع آ رہا تھا، اس لیے میں نے کہا کہ اگر واپسی پر حج کی سہولت مل جائے تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پروگرام بھی یہی ہے، اس لیے تم تیاری کرو۔ چنانچہ ہم نے پروگرام بنا لیا اور لندن کے لیے پہلا سفر میں نے حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی کی رفاقت میں ترکش ایئرلائنز سے کیا۔ راستے میں ہم ایک روز استنبول ٹھہرے اور لندن پہنچ کر ہم نے ختم نبوت کانفرنس کے لیے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ جمعیۃ علماء برطانیہ نے اس سلسلے میں بھرپور تعاون کیا اور انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے زیر اہتمام لندن کے ویمبلے کانفرنس سنٹر میں اگست ۱۹۸۵ء کے دوران عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ بعد میں یہ انٹرنیشنل ختم نبوت مشن، مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان میں ضم ہو گیا اور دونوں کے اشتراک سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت تشکیل پائی، مگر معاملات زیادہ دیر تک اکٹھے نہ چل سکے تو انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے حضرات نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے الگ ہو کر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے نام سے ایک نئی جماعت قائم کی جو اب تک مسلسل کام کر رہی ہے۔
میں ابتدا میں انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے ساتھ تھا اور اس کے لیے کام کرتا رہا، مگر مجلس تحفظ ختم نبوت میں اس کا انضمام میری سمجھ سے بالاتر تھا اور میرے ذہن میں نقشہ یہ تھا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت حسب معمول پاکستان میں کام کرتی رہے، جبکہ عالمی سطح پر یہ کام انٹرنیشنل ختم نبوت مشن کے فورم سے ہو اور دونوں آپس میں تعاون کا کوئی طریق کار طے کر لیں۔ میرے خیال میں ان دونوں کا آپس میں ایک جماعت کے طور پر کام کرنے کا پروگرام قابل عمل نہیں تھا، اس لیے میں نے کنارہ کشی میں عافیت سمجھی، چنانچہ جب دوبارہ علیحدگی کے بعد انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی مدظلہ اور حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے بار بار اصرار کے باوجود میں نے اس کے نظم کا حصہ بننے سے معذرت کر لی اور اب میری پوزیشن یہ ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے مشن اور کاز کے لیے دونوں کا خادم ہوں اور ہر ممکن تعاون کی کوشش کرتا ہوں، مگر نظم میں کسی کا حصہ نہیں ہوں۔
بہرحال یہ پس منظر ہے میرے برطانیہ کے پہلے سفر کا جس کے بعد کم و بیش ہر سال برطانیہ جانے، ختم نبوت کانفرنس میں شریک ہونے اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت سرانجام دینے کا معمول بن گیا، جو ایک عرصہ تک جاری رہا کہ موسم گرما کے دو تین ماہ کے لیے میں برطانیہ چلا جاتا تھا، البتہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں اسباق کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کر نے کے بعد سے یہ معمول تبدیل ہو گیا ہے۔ اب صرف شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران دو اڑھائی ہفتے کے لیے برطانیہ جانے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت اس وجہ سے کئی برسوں سے نہیں ہو رہی۔
امریکہ کے پہلے سفر کا پس منظر بھی یہی تھا کہ ۱۹۸۷ء میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امداد کی بحالی کی شرائط میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے اور انہیں اسلام کے نام پر سرگرمیاں جاری رکھنے سے روکنے کے صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کی شرط بھی شامل کر دی اور قومی سطح پر قادیانی مسئلہ کے سلسلے میں عالمی دباؤ ایک نئی صورت اختیار کر گیا۔ اس پر حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری نے ایک روز مجھ سے کہا کہ اگر ہم دونوں امریکہ کا سفر کریں اور قادیانیت کے سلسلے میں وہاں اپنے موقف کی وضاحت کے لیے محنت کریں تو یہ بہت مفید رہے گا۔ حضرت میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے انگلش میں گفتگو کی اچھی صلاحیت سے نوازا ہے اور قادیانی مسئلہ کے مالہ و ماعلیہ سے بحمد اللہ تعالیٰ مجھے کچھ نہ کچھ واقفیت حاصل ہے، اس لیے مجھے یہ جوڑ اچھا لگا اور میں نے آمادگی کا اظہار کر دیا۔ حضرت میاں صاحب نے ہی ویزا لگوایا اور سفر کے اخراجات برداشت کیے، لیکن جب ہم امریکہ پہنچے تو اس مشن کے لیے کوئی منظم کام نہ کر سکے اور مکی مسجد بروکلین نیویارک میں کم و بیش ایک ہفتہ تک قادیانیت کے موضوع پر میرے روزانہ دروس کے علاوہ اس عنوان پر اور کچھ نہ کیا جا سکا۔ لیکن ویزا چونکہ پانچ سال کا لگ چکا تھا، اس لیے موسم گرما میں برطانیہ آمد کے موقع پر میرا کچھ دنوں کے لیے امریکہ حاضر ہونے کا معمول بھی بن گیا جو اب تک کسی نہ کسی طور پر جاری ہے۔
برطانیہ اور امریکہ کے لیے میرے اسفار کا آغاز قادیانی مسئلہ کے حوالے سے ہوا تھا اور کئی برس تک سرگرمیوں کا محور یہی مسئلہ رہا، مگر وہاں کے حالات، مسلمانوں کے مسائل و مشکلات اور مسلمانوں اور مغرب کی فکری و ثقافتی کشمکش کے تناظر میں مشاہدات و محسوسات اور تاثرات کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا رہا، جس سے ملت اسلامیہ کے دیگر مسائل و معاملات بھی تگ و تاز کے اہداف میں شامل ہوتے گئے۔ حتٰی کہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے آغاز میں جب لندن میں حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی رفاقت سے ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کا فیصلہ کیا تو جدوجہد اور سعی و محنت کے مقاصد کا افق اور زیادہ وسعت اختیار کر گیا۔ حضرت مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ساتھ ملاقات اور رفاقت کا معاملہ بھی اچانک اور اتفاقاً ہوا، ہمارا پہلے سے کوئی باہمی تعارف نہیں تھا۔ میں ان دنوں اپٹن پارک میں سیلون روڈ کے اسلامک سنٹر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ آل گیٹ کے علاقے میں سیرت النبیؐ پر ایک جلسہ تھا جس میں مولانا منصوری اور راقم الحروف نے خطاب کیا۔ ہم دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھا اور سنا اور دونوں کا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کے کام کے آدمی ہیں۔ جلسہ کے اختتام پر میں نے مولانا منصوری کو اپنی قیام گاہ پر آنے کی دعوت دی، اگلے روز وہ تشریف لائے۔ کوئی گھنٹہ بھر مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور ہم نے باہمی رفاقت کا رشتہ استوار کر لیا۔ اس کے بعد ورلڈ اسلامک فورم تشکیل پایا اور ہمارے ساتھ اور بھی دوست شامل ہوتے چلے گئے۔
امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ مجھے ایک موقع پر کینیڈا جانے کا بھی موقع ملا اور کچھ دن میں نے وہاں گزارے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک میں سے کسی اور ملک میں جانے کا اب تک اتفاق نہیں ہوا اور کئی بار خواہش اور ارادے کے باوجود کسی اور مغربی ملک میں حاضری کی کوئی صورت نہیں بنی، البتہ ان تین مغربی ممالک میں گزشتہ تئیس سال کے دوران سینکڑوں اجتماعات سے خطاب، بیسیوں تعلیمی اداروں کے ساتھ مشاورت اور ہزاروں افراد سے ملاقاتوں کا موقع ملا، اور مختلف حوالوں سے میں اپنے تاثرات و مشاہدات کو قلم بند بھی کرتا رہا جو متعدد جرائد و اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین اور خطابات کا ایک منتخب مجموعہ عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے زیر نظر کتاب کی صورت میں مرتب کر دیا ہے جو قارئین کے سامنے ہے۔
یہ مضامین و خطابات کسی ایک موضوع پر مرتب و مربوط انداز میں خیالات کی ترجمانی نہیں کرتے، بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مختلف النوع مسائل و مشکلات اور مغرب کے حوالے سے عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف مواقع اور مقامات پر کی گئی گفتگو اور تحریر کیے گئے تاثرات و احساسات کا مجموعہ ہیں، اس لیے قارئین سے درخواست ہے کہ انہیں اسی پس منظر میں دیکھا جائے اور ان کے اصل پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اس سعی کو قبولیت سے نوازیں اور دین و ملت کے لیے کسی نہ کسی انداز میں مثبت اور مؤثر خدمت کا سلسلہ آخر دم تک جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔