بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بخاری شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار میرے ہاں تشریف لائے تو ایک خاتون میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور باتیں کر رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بی بی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے۔ میں نے بتایا کہ یا رسول اللہ یہ فلاں خاندان کی عورت ہے اور ملنے آئی ہے، اس کی نمازوں کی بڑی شہرت ہے، بہت نمازیں پڑھتی ہے، ہر جگہ تذکرہ ہوتا ہے کہ بہت نمازی عورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مہ، علیکم بما تطیقون‘‘ چھوڑو، جتنی بات کی طاقت رکھتے ہو اتنی کیا کرو۔ تم پر اتنے ہی اعمال لازم ہیں جتنے تم نبھا سکو۔ ’’فواللہ لا یمل اللہ حتی تملوا‘‘ اللہ تو کبھی نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاتے ہو۔
یہاں محدثین دو باتیں فرماتے ہیں:
- ایک بات یہ کہ عبادت میں بھی اعتدال چاہیے، یہ نہیں کہ ایک دفعہ جوش و خروش میں سو نفل پڑھ لیے، اگلے دن فرض نماز بھی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض تو کرنے ہی ہیں لیکن اس کے علاوہ کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا ’’ما داوم عليہ صاحبہ‘‘ جس کو ہمیشہ کر سکو۔ نفل اور عبادت پابندی سے جتنی کر سکو۔ ایک آدمی روزانہ دو چار رکعتیں پڑھتا ہے اور معمول کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اور ایک آدمی جوش میں آیا تو ایک دن بیس نفل پڑھ لیے اور دوسرے دن رہ گئے۔ یہ اصول بیان فرمایا کہ عبادت میں بھی اعتدال چاہیے، اپنا معمول دیکھ لو کہ کیا کر سکتے ہو، جتنا کر سکتے ہو اس کے حساب سے کرو۔
- دوسری بات کہ کسی نیکی کی شہرت نہیں ہونی چاہیے کہ جی بہت سخی ہے، بہت وہ ہے۔ اپنے آپ کو شہرت سے بچاؤ۔ اس کی نماز کا بڑا تذکرہ ہے، فرمایا، یہ کیا بات ہوئی۔ اس لیے عبادت میں توازن کا ہونا اور شہرت سے بچنا کہ اپنی نیکیوں کو چھپاؤ اور شہرت کا ذریعہ نہ بناؤ۔
دو باتیں محدثین اس حدیث کے حوالے سے فرماتے ہیں: ایک ہے کہ عبادات میں بھی اعتدال قائم رکھو، جتنا تم نبھا سکو اتنا کرو۔ اور دوسری بات کہ شہرت سے بچو، اپنی عبادات کو اپنی نیکیوں کو لوگوں کے ہاں شہرت کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ ہے۔ ایک زمانے میں محاورہ تھا ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘۔ آج کل ہمارا معمول ہے ’’نیکی کر فیس بک پر ڈال، یوٹیوب پر ڈال، موبائل پر ڈال‘‘۔ یہ موبائل کے فوٹو سیشن غلط ہیں۔ میں نے کسی کو سو روپیہ دینا ہے تو اس کی فوٹو کھنچوانی ہے کہ یہ سو روپیہ دے رہا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند نہیں کیا، نیکی میں توازن رکھنا چاہیے اور شہرت سے اپنی نیکیوں کو بچانا چاہیے، اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔