چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ حاضر کے مدعیانِ نبوت

   
تاریخ: 
۲۰۱۸ء

میری گفتگو کا ایک دائرہ یہ ہوتا ہے کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں نئی نبوت اور وحی کے دعوے کے ساتھ کون کون سے گروہ دنیا میں موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان سے بھی ہمیں ضرور متعارف ہونا چاہیے، یہ تقریباً چار یا پانچ ہیں، ان کا ذکر کرتا ہوں۔

(۱) ذکری مذہب

ایک تو ذکری مذہب ہے کہ بلوچستان میں مکران اور تربت کی پٹی ان سے بھری پڑی ہے، یہ تقریباً چار سو سال سے چلے آرہے ہیں، ان کی مختصر تاریخ ذکر کر دیتا ہوں۔

محمد مہدی

کم و بیش چار سو سال پہلے کی بات ہے کہ ایک صاحب تھے محمد مہدی۔ میرا قیاس ہے، کوئی حوالہ نہیں ہے، کہ جس زمانے میں ایران میں صفویوں نے قبضہ کیا اور زبردستی لوگوں کو شیعہ بنایا، اس دور میں کچھ لوگ وہاں سے بھاگے تھے، باطنی فرقہ کے لوگ بھی بھاگے تھے، ان میں یہ صاحب تھے محمد مہدی۔ ان میں باطنیت (اپنے مذہب کو چھپانا) تھی۔ یہ ۹۷۷ھ کی بات ہے، سرباز کے علاقے میں آئے۔ وہاں تربت کے علاقے میں ہمارے بزرگ قاضی عبد الصمد سربازیؒ گزرے ہیں۔ مہدی صاحب نے آ کر دعویٰ کیا کہ میں مہدی ہوں، وہاں کا ایک سردار تھا مراد، جس کے نام پر کوہ مراد ہے، وہ سب سے پہلے ایمان لایا۔ جہالت کا دور تھا، لوگ ساتھ ملتے گئے، ایک اچھا خاصا گروہ بن گیا۔ مہدی نے بعد میں نبوت اور وحی کا دعویٰ کر دیا اور کہا کہ میں افضل الانبیاء ہوں۔

”معراج نامہ“

ان سے ایک کتاب منسوب ہے ”معراج نامہ“ جو مجھے مولانا علی محمد قصر قندیؒ نے بتائی تھی۔ تعارف اور پہچان کے لیے اس میں سے ان کی خرافات میں سے ایک نقل کرتا ہوں۔ ”نقل کفر کفر نباشد“۔ اس ”معراج نامہ“ میں لکھا ہے کہ حضور نبی کریمؐ کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ معراج کرانے کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ آپؐ نے کہا میں تمام انبیاء کا سردار ہوں، اللہ کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے عرش پر بلا لیا یہ دکھانے کے لیے کہ انبیاء کا سردار کون ہے، جب حضرت محمدؐ عرش پر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ تعالیٰ بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ ملا محمد مہدی اٹکی بیٹھے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ سے کہا کہ میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے بلایا ہے کہ انبیاء کا سردار یہ ہے جو میرے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے۔

شرعی احکام کی تنسیخ

انہوں نے شریعت کے کچھ احکام منسوخ قرار دے رکھے ہیں، مثلاً نماز منسوخ کر دی اور اس کی جگہ کچھ مخصوص اذکار صبح و شام کے بتا دیے۔ یہی ان کا ٹائٹل بن گیا، اس علاقے کے مسلمانوں کو نمازی جبکہ ان لوگوں کو ذکری کہا جاتا ہے۔ روزے منسوخ کر دیے اور رمضان کی بجائے ذی الحجہ کے عشرے کے دس روزے طے کر دیے۔ اور حج بھی منسوخ کر دیا،کوہ مراد پر ستائیس رمضان کو اکٹھے ہوتے ہیں، کوہ مراد کا طواف کرتے ہیں، اور وہاں ایک میدان کو عرفات کا نام دیا ہوا ہے، وہاں وقوف کرتے ہیں، مصنوعی حج کرتے ہیں۔

ایک زمانے میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے بلوچستان کا دورہ کر کے مصنوعی حج کے خلاف فضا بنائی تھی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے بند کیا جائے۔ لیکن وہ کرتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی آبادی ساحل کے ساتھ بہت ہے، کراچی میں بھی ہے۔ حضرت مولانا علی محمد قصر قندیؒ سابقہ ذکری تھے، بعد میں مسلمان ہوئے۔ جمعیت علماء اسلام میں ہمارے ساتھ کام کیا کرتے تھے، انہوں نے ذکری مذہب کے تعارف پر کتاب لکھی ہے۔ ہمارے ایک دوست حضرت مولانا احتشام الحق آسیا آبادیؒ تھے جو شہید کر دیے گئے، دارالعلوم کراچی کے فضلاء میں سے ہیں، ان کا اسی علاقے میں دارالعلوم رشیدیہ ہے، ان کے بھی ذکری مذہب کے تعارف پر دو رسالے ہیں۔ ذکریوں سے لوگوں کو بچانے اور عام لوگوں کا ایمان محفوظ رکھنے کے لیے جن لوگوں نے سالہاسال محنت کی ہے ان میں سب سے نمایاں نام کراچی میں حضرت مولانا علی محمد قصر قندیؒ کا اور بلوچستان میں حضرت مولانا احتشام الحق آسیا آبادی شہیدؒ کا ہے۔ مولانا آسیا آبادی ایک سیمینار میں ہمارے ہاں کامونکی تشریف لائے تھے، انہیں دو سال پہلے بیٹے سمیت شہید کر دیا گیا۔

ذکری کلمہ

موجودہ دور کے مدعیان نبوت میں ذکری گروہ نئی نبوت، نئی وحی اور نئی کتاب کے نام سے ہمارے ملک میں موجود ہے۔ چار سو سال سے چلے آرہے ہیں، کسی زمانے میں اس پوری پٹی پر ان کی حکومت بھی رہی ہے۔ بلیدی خاندان ایک زمانے میں ذکری خاندان رہا ہے، سو سال سے زیادہ ان کی حکومت رہی ہے۔ مجھے بعض دوستوں نے بتایا کہ کراچی کے بعض قبرستانوں میں اس فرقے کے لوگوں کی قبروں کے کتبوں پر نعوذ باللہ یہ کلمہ لکھا ہوا ہے ”لا الٰہ الا اللہ، نور پاک محمد مہدی رسول اللہ“۔ ذکری لوگ کام سارا مسلمانوں کے انداز سے ہی کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو پہچان نہیں ہوتی، سوائے قریبی لوگوں کے جو اُن کو جانتے ہیں۔

(۲) بہائی مذہب

دوسرا گروہ بہائی ہے جن کو بابی بھی کہا جاتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی سے ربع صدی پہلے کی بات ہے ۱۸۴۵ء اور ۱۸۵۰ء کے دور میں یہ گروہ شروع ہوا۔ اس کا پس منظر عرض کر دیتا ہوں۔

مرزا محمد علی

اہل تشیع کے اثنا عشری فرقے کا عقیدہ ہے کہ بارہویں امام غائب ایک غار سرمن راٰی میں ہیں۔ حکومت کا اصل حق انہی کا ہے، وہی امام العصر ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں مرزا محمد علی نامی ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ امام غائب سے میرا رابطہ ہو گیا ہے، ملاقات ہوئی ہے، امام غائب نے مجھے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ ”الباب“ یعنی میں امام غائب اور امت کے درمیان دروازہ ہوں اور اب امام غائب کی ہدایات میرے ذریعے امت کو ملیں گی۔ یہ دعویٰ تاریخی روایات کے مطابق انہوں نے مکہ مکرمہ میں طواف کے دوران حرم میں کیا۔ ان کو بھی پیروکار مل گئے، لوگ شامل ہوتے گئے۔ چونکہ یہ بات اثنا عشری عقیدے کے خلاف تھی تو اس وقت کی ایرانی سلطنت میں ان کے خلاف مقدمہ چلا اور تبریز چھاؤنی میں مرزا محمد علی باب کو ارتداد اور امام کی توہین کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔

مرزا بہاء اللہ شیرازی اور ”الواحِ مقدسہ“

مرزا محمد علی کے شاگردوں میں ایک صاحب تھے مرزا بہاء اللہ شیرازی۔ انہوں نے دعویٰ کر دیا کہ مرزا محمد علی تو میری بشارت دینے آئے تھے، اصل میں ہوں اور میں امام غائب نہیں بلکہ نبی ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے۔ مرزا شیرازی نے قرآن کریم کی منسوخی کا اعلان کیا۔ ان کی کتاب ”الواح مقدسہ“ کے نام سے ہے، اس میں قرآن کریم کے طرز پر سورتیں بنائی گئی ہیں، اس میں سورۃ الملک کی طرز پر سورۃ الملوک ہے۔ نمازیں منسوخ کر دیں اور قبلہ تبدیل کر دیا۔

جس زمانے میں صفویوں اور عثمانیوں کی کشمکش تھی، صفوی عالم اسلام میں شیعیت کے فروغ کے لیے کام کر رہے تھے، ایران پر تقریبًا کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور پھر عراق اور مصر میں اپنے پاؤں بڑھا رہے تھے، تو عثمانی خلفاء نے مزاحمت کی اور سلطان سلیم اول کے دور میں صفویوں اور عثمانیوں کی بڑی جنگ ہوئی، جس جنگ کے نتیجے میں مصر بچ گیا، ورنہ ایران کی طرح مصر بھی صفویوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ سلطان سلیم اول مقابلے پر آئے تھے۔ عثمانیوں نے صفویوں کا مقابلہ کیا اور اس کا مذہبی پس منظر بالکل واضح تھا۔ میں نے الشیخ مصطفٰی صبری جو کہ خلافت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام اور شیخ زاہد الکوثری کے استاد تھے، ان کی یادداشتوں میں پڑھا کہ صفویوں اور عثمانیوں کی جنگ کے بعد جو معاہدہ ہوا تھا، اس معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ صفویوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ حضرات صحابہ کرامؓ بالخصوص حضرت عمرؓ اور حضرت عائشہؓ کی توہین نہیں کریں گے۔ چنانچہ یہ مسائل اس وقت بھی تھے۔

بہرحال اس کشمکش سے بہاء اللہ شیرازی نے فائدہ اٹھانا چاہا، چونکہ ایران میں سبھی اثنا عشری علماء تھے اور انہوں نے بہاء اللہ شیرازی کو برداشت نہیں کیا تو اس مخاصمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ صاحب قسطنطنیہ چلے گئے تاکہ صفویوں کے خلاف عثمانیوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے سیاسی پناہ دی لیکن کچھ عرصے کے بعد عثمانیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ صاحب ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں تو انہوں نے قسطنطنیہ سے نکال دیا۔

بہائیوں کا قبلہ

پھر بہاء اللہ شیرازی نے فلسطین میں عُکہ نامی جگہ پر اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور آزاد گروپ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اب بہائیوں کا قبلہ عکہ ہی ہے، بہاء اللہ شیرازی عکہ میں فوت ہوئے، وہیں ان کی قبر ہے، ان کے بیٹے مرزا عبد البہاء نے بھی عکہ ہی کو مرکز رکھا اور انہوں نے دنیا میں پھیلنا شروع کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کے فلسطین کے صدر محمود عباس بہائیوں میں سے ہیں، اور یہ بھی فلسطین کے تنازعے میں عکہ کے حوالے سے فریق ہیں۔

بہائی مذہب کے امتیازات میں یہ ہے کہ نماز منسوخ کر دی، الواح مقدسہ کے نام سے نئی تعلیمات دیں، اور یہ تصور دیا کہ ہم تمام مذاہب کے جامع ہیں۔ ان کے مطابق پہلے تمام انبیاء نہریں تھیں اور بہاء اللہ شیرازی سمندر ہے جس میں ساری نہریں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ کہتے ہیں ہم مجمع البحار ہیں، بہاء اللہ شیرازی خاتم الانبیاء ہے، اس کی تعلیمات نسل انسانی کی رہنما ہیں۔ عورت اور مرد کی ہر لحاظ سے مساوات کا تصور مذہبی طور پر انہوں نے پیش کیا کہ عورت اور مرد کے احکام اور معاشرت میں کسی حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا مغرب کے ساتھ جھگڑا ہے کہ مرد اور عورت کی نفسیات، خلقت، اور فطری فرائض میں فرق ہے، اس لیے احکام بھی دونوں کے یکساں نہیں ہیں۔

اتحاد بین المذاہب

اتحاد بین المذاہب بہائیوں کا ٹائٹل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم تمام مذاہب کو حق سمجھتے ہیں اور تمام مذاہب کے اتحاد کے قائل ہیں۔ عملی طور پر اس کا ایک مظہر میں نے خود دیکھا ہے۔ ۱۹۸۸، ۱۹۸۹ء کی بات ہے، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں شکاگو (امریکہ) میں جناب ریاض حسین وڑائچ کے مہمان تھے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ شکاگو میں بہائیوں کے عالمی مراکز میں سے ایک مرکز ہے۔ ان کے تین چار عالمی مراکز ہیں، دہلی، شکاگو اور لندن وغیرہ میں۔ میرا ذوق یہ ہے کہ ایسی جگہوں میں جاتا ہوں اور معلومات حاصل کرتا ہوں کہ ان کا دائرہ کار کیا ہے اور کام کا طریقہ کار کیا ہے، اور ان سے تبادلہ خیالات کرتا ہوں تاکہ پوری پوزیشن معلوم ہو۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ سے میں نے بات کی کہ ہم بہائیوں کے مرکز چلتے ہیں، دیکھتے ہیں کیا نوعیت ہے؟ ہم تینوں وہاں گئے، جا کر جب ریسیپشن پر کارڈ لیا تو انہوں نے ہمیں پہچان لیا۔ پہلے سے ہمیں جانتے تھے، پورے اعزاز کے ساتھ انہوں نے ہمیں وہاں کا وزٹ کروایا۔

اس میں سے ایک بات میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔ انہوں نے ہمیں ایک بہت بڑا ہال دکھایا، اس ایک ہال میں ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کے عبادت خانے بنے ہوئے تھے، بالکل ان کے اپنے اپنے ماحول کے مطابق۔ ایک کونے میں مسجد کی طرز کا عبادت خانہ بنا ہوا تھا جس میں مسجد کا ماحول منبر، دریاں، تپائیاں پڑی تھیں۔ دوسرے کونے میں گرجا تھا، ان کے ماحول کے مطابق۔ ایک کونے میں ہندوؤں کا مندر۔ ایک کونے میں یہودیوں کا معبد۔ بالکل وسط میں سکھوں کا گردوارہ اور بدھوں کا عبادت خانہ۔ ایک چھت کے نیچے چھ عبادت خانے بنے ہوئے ہم نے دیکھے۔ انہوں نے بتایا کہ کہ یہاں سب لوگ آتے ہیں، ہم سب کو حق سمجھتے ہیں، ہماری طرف سے اجازت ہے ہر کوئی اپنے عبادت خانے میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرے۔ ہمارے سامنے بھی لوگ آرہے تھے، ایک سکھ گردوارے میں گرنتھ پڑھ رہا تھا۔

اس کے انچارج انڈین تھے اور اردو بولتے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے آپ کو یہ منظر کیسا لگا کہ ہم نے چھ مذاہب ایک چھت کے نیچے اکٹھے کیے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا آپ نے یہ تو کر لیا کہ مندر، مسجد، گرجا اور گردوارہ کو اکٹھا کر لیا،لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک خدا اور تین خدا کے عقیدے ایک چھت کے نیچے کیسے اکٹھے ہو گئے؟ کہنے لگے یہ فلسفے کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا نہیں یہ عقیدے کی باتیں ہیں۔

بہرحال اتحاد بین المذاہب کے عملی مناظر ان کے ہاں ملتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اکبر بادشاہ نے ”دین الٰہی“ کے نام سے جو ملغوبہ بنایا تھا، اس نے بھی یہی کیا تھا۔ یہ نئی بات نہیں ہے، اس دور میں بہائی اس کے مذہبی طور پر دعویدار ہیں۔ آج کا بین الاقوامی موضوع بھی یہ ہے کہ سارے مذہب حق ہیں، سب کا اتحاد ہونا چاہیے، سب کی صحیح باتیں اکٹھی کر کے مشترکہ کام کیا جانا چاہیے، اس پر کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ مکالمہ بین المذاہب کا دائرہ اور ہے، اتحاد بین المذاہب کا دائرہ اور ہے۔

انیس کا عدد

بہائیوں کا ایک اور امتیاز ہے جو ان کے دائرے میں ہی محدود ہے، وہ یہ کہ ان کے ہاں انیس کا عدد بہت متبرک ہے۔ حالانکہ قرآن میں تو انیس کا عدد جہنم کے حوالے سے ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنا الگ کیلنڈر تشکیل دیا ہوا ہے جس میں انیس مہینے، اور ہر مہینے کے انیس دن ہیں۔ اس کا پس منظر کیا ہے، یا نتائج کیا ہیں، یہ ان کو ہی معلوم ہوگا۔ آج سے پچیس سال پہلے اس حوالے سے ہمارے ہاں بھی ایک تحریک چلی تھی کہ انیس کا عدد خاص عدد ہے ریاضی کے حوالے سے، اس کی کچھ خصوصیات ہیں۔

ہمارے ایک مناظر احمد دیدات تھے جو افریقہ کے تھے، عیسائیوں کے خلاف اچھے مناظر تھے، وہ انیس کے عدد کے فارمولے سے بہت متاثر ہوئے بلکہ میں بھی ابتدائی متاثرین میں سے ہوں۔ میں نے بھی اس زمانے میں پنجاب یونیورسٹی کی ایک نشست میں اس موضوع پر بات کی تھی کہ قرآن کریم کے اعجاز کی ایک نئی صورت سامنے آئی ہے۔ اس وقت ہمارا تاثر یہ تھا وجوہ اعجاز میں سے ایک نئی وجہ ریاضی کے قاعدے سے سامنے آئی ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ و آیات حروف ابجد کے حساب سے ”انیس کے فارمولے“ پر فٹ بیٹھتی ہیں۔ اس پر کتابیں اور پی ایچ ڈی کے مقالات بھی آئے، میں نے بھی کچھ لکھا۔ بظاہر یہی تھا اور عام علماء بھی خوش تھے قرآن پاک کے اعجاز کی ایک نئی صورت سامنے آئی ہے۔

احمد دیدات صاحب تو فوت ہو گئے، امریکہ کے ایک صاحب تھے خلیفہ رشاد مصری، انہوں نے اس کو کمپین ہی بنا لیا کہ انیس کا عدد، انیس کا عدد۔ یہ بات تب کھٹکی

  1. جب خلیفہ رشاد نے یہ جملہ کہا کہ قرآن کریم تو انیس کے اس فارمولے پر پورا اترتا ہے، حدیث کوئی نہیں پوری اترتی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ یہ پہلا اسٹیج تھا خلیفہ رشاد کا۔
  2. کچھ سال بعد انہوں نے اگلا قدم اٹھایا اور کہا کہ قرآن کی بھی بعض سورتیں انیس کے فامولے پر پوری نہیں اترتیں، مثلاً آیت ”لقد جائکم رسول من انفسکم“ (التوبہ ۱۲۸) اور معوذتین۔ لگتا ہے یہ الحاقی ہیں، قرآن کریم کی نہیں ہیں۔ یہاں اس فارمولے کو بریک لگ گئی، دنیا بھر میں لوگوں نے کہا کہ ہم اس فارمولے کو قبول نہیں کرتے۔ یہ دوسرا اسٹیج تھا خلیفہ رشاد کا۔
  3. خلیفہ رشاد کا تیسرا اسٹیج یہ تھا کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ بعد میں اپنے ہی ایک مریدکے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

اصل میں اس انیس کے عدد کے فارمولے کے موجد بہائی تھے۔ یہ ان کے امتیازات میں سے ہے اور اسے ان کے ہاں تقدس حاصل ہے۔

بہائیوں اور قادیانیوں میں مماثلت

ایک حوالہ بہائیوں کے بارے سے اور دینا چاہوں گا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ مسئلہ درپیش تھا کہ قادیانی یہاں کلیدی آسامیوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک نے اس کو بریک لگائی، اور یہ تحریک ان کے خلاف بہت بڑی رکاوٹ بن گئی۔ اس کے بعد سے اب تک قادیانی اسی کوشش میں ہیں لیکن الحمد للہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بھٹو مرحوم نے بھی یہ بات کہی کہ احمدی پاکستان میں وہ پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ کوئی فیصلہ ان کی منشا کے خلاف نہ ہو، میں اس کو کیسے برداشت کر سکتا ہوں۔

ایران میں بادشاہت کے دور میں بہائیوں نے یہ پوزیشن حاصل کر لی تھی کہ وہاں کے بڑے جرنیل، بیوروکریٹ حتیٰ کہ ان کے ایک وزیراعظم امیر عباس ہویدا بہائی تھے۔ خمینی انقلاب میں آیت اللہ خلخالی نے بہائیوں کو ٹارگٹ کیا، ان کو نکالا اور قتل بھی کیا۔ یہ اس وقت وہاں سے بھاگے اور مختلف علاقوں میں پناہ لی۔ اس وقت بہت سے بہائی ایران، عرب، فلسطین، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ان کے مراکز پشاور، سیالکوٹ، لاہور، کوئٹہ سمیت بارہ شہروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا اردو ماہنامہ نفحات میرے پاس آتا رہا ہے، پشاور سے چھپتا تھا۔ ان کے مظفر آباد کے ایک بڑے دانشور صابر آفاقی کی اور میری خط و کتابت بھی چلتی رہی ہے۔

یہ میں نے بہائیوں کا تعارف، پس منظر اور دائرہ کار، اور بنیادی امتیاز بیان کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ کہاں کہاں ہیں۔

(۳) نیشن آف اسلام

اس کے بعد ختم نبوت کا انکار کرنے والے ایک اور گروہ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اس وقت متعارف بھی ہے اور موجود بھی ہے۔ یہ ”نیشن آف اسلام“ کے نام سے امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کا بہت بڑا گروہ ہے۔ اس وقت لوئس فرخان ان کے لیڈر ہیں اور دنیا میں ان کو امریکی مسلمانوں کا نمائندہ لیڈر سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے، لوگ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں اور بڑی بڑی کانفرنسوں میں ان کے لیڈر کو دعوت دی جاتی ہے۔ طرابلس کی سالانہ میلاد کانفرنس میں آتے رہے ہیں، پاکستان میں ایک صاحب نے ان کو دعوت دی تھی، ہم نے کوشش کر کے رکوائی۔ امریکی مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر بنگلہ دیش اور عراق کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن یہ جس نیشن آف اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اس کا تعارف عرض کر دیتا ہوں۔

امریکہ میں گوروں اور کالوں کی کشمکش

نیشن آف اسلام کی بنیاد بھی دعویٰ نبوت پر ہے لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امریکہ میں کالوں اور گوروں کا امتیاز اور کشمکش صدیوں پرانی ہے۔ امریکیوں نے اپنی اصل آبادی تو نہ معلوم کہاں کنارے لگا دی ہے، جسے ریڈ انڈین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گورے یورپ کے ملکوں جرمنی، اسپین اور برطانیہ وغیرہ سے جا کر بسنے والے جبکہ کالے افریقہ سے جا کر بسنے والے لوگ ہیں۔ کالوں کو غلام بنا کر لاتے تھے اور ان سے کام لیتے تھے۔ اس کشمکش کے اثرات اب بھی کسی حد تک ہیں۔ اس کشمکش میں کالوں اور گوروں میں فرق عملاً اور قانوناًبہت دیر تک رہا ہے۔ ۱۹۶۴ء میں امریکی صدر جے ایف کینیڈی کے دور تک کالوں اور گوروں کے کالج اور ریسٹورنٹ وغیرہ الگ الگ تھے، دونوں کی کالونیاں الگ الگ تھیں، حتٰی کہ بسوں میں سیٹیں بھی الگ الگ ہوتی تھیں کہ کوئی کالا گورے کی سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتا تھا اور گورا کسی کالے کی سیٹ پر تو بیٹھتا ہی نہیں تھا۔

کالوں اور گوروں کے درمیان کشمکش کے آخری راؤنڈ کا آغاز ایک تاریخی واقعہ سے ہوا۔ ایک دفعہ برمنگھم (الاباما، امریکہ) میں یہ ہوا کہ ایک بس میں کالج کی کالی لڑکی سوار ہوئی، کالوں کی سیٹیں خالی نہیں تھیں تو وہ گوروں کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ گاڑی والوں نے اسے کہا، یہاں سے اٹھو یہ گوروں کی سیٹ ہے۔ اس نے کہا یہ سیٹ خالی پڑی تھی تو میں بیٹھ گئی، کوئی بیٹھنے والا آیا تو میں اٹھ جاؤں گی۔ لوگوں نے اسے اٹھنے پر مجبور کرنا چاہا، اس نے انکار کر دیا۔ اس پر ڈرائیور نے بس روک لی اور پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے آکر اس لڑکی کو گرفتار کر لیا کہ گوروں کی سیٹ پر کیوں بیٹھی ہو؟ اس پر وہاں کے پادری مارٹن لوتھرکنگ نے کچھ لوگ اکٹھے کیے۔ (مارٹن لوتھر دو ہیں، ایک جرمنی کے تھے جنہوں نے پاپائے روم سے بغاوت کر کے پروٹسٹنٹ فرقے کی بنیاد رکھی تھی، اور دوسرے یہ تھے)۔ شام کے وقت ایک پارک میں احتجاجی مظاہرہ کیا کہ یہ زیادتی ہے، لڑکی کو بلاوجہ گرفتار کیا گیا ہے۔ میں نے وہ پارک اور مارٹن لوتھر کا میوزیم دیکھا ہے۔ تو گوروں کی پولیس نے ان کو گھیر کر ان پر فائرنگ کی، ان پر بھوکے کتے چھوڑے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

یہاں سے احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور مارٹن لوتھر کنگ نے پورے ملک میں کالوں کو منظم کیا۔ ایک سال اس نے تحریک چلا کر ۱۹۶۵ء میں ملین مارچ کیا۔ ملین مارچ کی جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے اصل میں یہ اس کی اصطلاح ہے، سب سے پہلا ملین مارچ اس نے کیا تھا۔ پورے امریکہ سے کالوں کو اکٹھا کر کے واشنگٹن میں دس لاکھ انسانوں کا پراَمن جلوس نکالا۔ صدر کینیڈی کا زمانہ تھا، وہ وائٹ ہاؤس سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ کی وہ تقریر دنیا کی شاہکار تقریروں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس میں اس نے کہا میرا خواب ہے کہ میں یہ دیکھوں کالا اور گورا ایک میز پر بیٹھے چائے پی رہے ہیں، میرا خواب ہے کہ میں دیکھوں کہ کالج میں گورا اور کالا اکٹھے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی تقریر ہے اس کے بعد، صدر کینیڈی نے اسے بلایا اور ان کے مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں کالوں اور گوروں کے امتیاز کا قانون ۱۹۶۵ء میں ختم ہوا۔ اس سے پہلے کالوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا، سپریم کورٹ تک لڑائی لڑ کر یہ حق حاصل کیا گیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکہ کی وزیرخارجہ تھی کونڈولیزارائس جو وہاں کے بڑے دانشوروں میں شمار ہوتی ہے، وہ برمنگھم الاباما کی ہے، میں نے اس کا گھر دیکھا ہے، اس کے باپ کو سپریم کورٹ نے ووٹ کا حق دلوایا تھا، جس نے اس کے لیے طویل عدالتی جنگ لڑی تھی۔

ماسٹر فارد محمد

میں نے کالوں اور گوروں کا پس منظر اس لیے بتایا ہے تاکہ ”نیشن آف اسلام“ آپ کو سمجھ آسکے۔ ۱۹۳۰ء میں ایک صاحب ماسٹر فارد محمد افریقہ سے ڈیٹرائٹ شہر میں گئے، وہاں جا کر کالوں سے کہا کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں، مکہ سے آیا ہوں اور کالوں کی نجات کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے، کالوں کو منظم کرنے آیا ہوں اور میں تمہارا نجات دہندہ ہوں۔ نام اس نے اسلام کا استعمال کیا اور نوبل قرآن کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ بنیادی تصور یہ دیا کہ کالے جو افریقہ سے لائے گئے تھے اصلاً مسلمان تھے، ان کو جبرًا عیسائی بنایا گیا تھا، ان کو دوبارہ اسلام کی طرف واپس جانا چاہیے۔ چار سال ان کی تحریک چلتی رہی، ٹیمپل کے نام سے مذہبی مرکز بنایا۔

آلیجا محمد

پھر ان کو ایک صاحب ایلیج پال مل گئے جو آلیجا محمد کہلاتے ہیں، یہ دراصل الیاس کا بگڑا ہوا تلفظ ہے۔ جیسے یعقوب کو جیکب اور آدم کو ایڈم بولتے ہیں۔ ایلیج پال عیسائی تھا جو فارد محمد کے ہاتھوں مسلمان ہوا، بہت متحرک آدمی تھا۔ ۱۹۳۴ء میں فارد محمد غائب ہو گئے اور یہ صاحب کھڑے ہو گئے کہ فارد محمد میری بشارت دینے کے لیے آئے تھے، اصل میں کالوں کا نجات دہندہ میں ہوں۔ میں کالوں کو نجات دلاؤں گا اور اسلام کی طرف لے جاؤں گا۔ پھر ایلیج پال سے آلیجا محمد نام رکھ لیا۔

اس مذہب کی بنیاد گوروں سے نفرت پر تھی۔ نفرت کا اندازہ اس سے کریں کہ ایک دور میں ہر سفید چیز ان کے ہاں حرام ٹھہری، جیسے سفید کپڑا اور انڈہ وغیرہ۔ اور یہ بات ان کے عقیدے میں شامل ہے، میں نے ان کی کسی کتاب میں پڑھا کہ سارے انسان کالے تھے، شیطان کی نسل گوروں سے چلی ہے اور آدم کی نسل کالوں سے چلی ہے۔ اور یہ بھی لکھا تھا کہ آدم کان اسود، نوح کان اسود، یوسف کان اسود، محمد کان اسود۔ اصل میں صدیوں کی نفرت پیچھے چلی آرہی تھی۔ ایک دن میں نے وہاں تقریر میں کہا سیاسی طور پر تو میرا بھی یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ گورے شیطان کی اولاد ہیں لیکن عقیدے کے طور پر نہیں کہ بہرحال وہ انسان ہیں۔

مالکم شہبازؒ

جب آلیجا محمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کو ایک صاحب مالکم لٹل ملے، یہ چوروں کا سرغنہ تھا، جیل میں ان کی ملاقات ہوئی، اس نے آلیجا محمد کے ہاتھ پر ”اسلام“ قبول کیا، آہستہ آہستہ وہ اس کا دست راست بن گیا اور اس کا منسٹر کہلاتا تھا۔ اس نے مالکم لٹل سے مالکم شہباز نام اختیار کیا کہ افریقہ سے ہمارا جو قبیلہ آیا تھا اس کا نام شہباز تھا۔ لیکن بعد میں اس نے آلیجا محمد کا پول کھولا۔ اس کی یادداشتیں میں نے پڑھی ہیں اور اس کی کچھ اقساط چھاپی بھی تھیں۔ مالکم شہباز کہتا ہے دنیا میں گھومتے پھرتے میں حج پر چلا گیا۔ وہاں میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے گوروں کو بھی دیکھا کالوں کو بھی دیکھا۔ شامی، لبنانی، ترکی گورے ہیں۔ تو میں شک میں پڑ گیا کہ کعبہ تو آدم نے بنایا تھا، شیطان کی نسل گورے یہاں کیا کر رہے ہیں؟ میں علماء سے ملا تو پتہ چلا کہ امریکہ میں تو سارا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ اصل اسلام تو یہ ہے۔

مالکم شہباز نے حجاز کے علماء کے ہاتھ پر توبہ کی اور وہ شافعی المذہب سنی مسلمان بن گئے۔ انہوں نے امریکہ واپس جا کر بتایا کہ یہ صاحب جھوٹ بولتے ہیں، صحیح اسلام وہ ہے جو مکہ اور مدینہ میں ہے۔ انہوں نے اپنا گروپ الگ کر لیا جو مالکم شہباز گروپ کہلاتا ہے۔ نیویارک میں ان کا مرکز ہے مالکم شہباز شہید ماسک۔ اچھا مرکز ہے، میں نے وہاں بھی حاضری دی ہے۔ انہوں نے لوگوں کو آلیجا محمد سے باغی کیا لیکن صرف ایک سال کام کر سکے۔ ۱۹۶۴ء میں انہوں نے بغاوت کا اعلان کیا تھا، ایک سال کے بعد ۱۹۶۵ء میں ان کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن ان کا گروپ چلتا رہا۔

عقائد و تعلیمات

آلیجا محمد نے ۱۹۳۴ء میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ۱۹۷۵ء تک وہ نئی نبوت اور وحی کے دعوے پر رہے، اور اس دعوے پر کہ قرآن پرانا ہو گیا ہے اب میری تعلیمات میں نجات ہے۔ ان کا رسالہ نکلتا ہے ”دی فائنل کال“۔ اس کے کچھ صفحات میرے پاس فوٹو کاپی ہیں، اس کے مطابق ان کے بارہ تیرہ عقائد جو اس میں مسلسل چھپتے ہیں، اس میں ایک عقیدہ یہ ہے کہ ماسٹر فارد محمد (پہلا نجات دہندہ) جو ۱۹۳۰ء میں نمودار ہوئے تھے اور ۱۹۳۴ء میں غائب ہوئے تھے، وہ دراصل اللہ تعالیٰ تھے، کالوں کو راستہ دکھانے آئے تھے، چار سال ان میں رہے اور پھر ماسٹر آلیجا محمد کو اپنا نبی بنا کر عرش پر واپس چلے گئے۔ اس کا اگلا جملہ یہ ہے کہ یہ وہی موسٰی ہے جس کا یہود کو انتظار ہے، وہی مسیح ہے جس کا عیسائیوں کو انتظار ہے، اور وہی مہدی و مسیح ہے جس کا مسلمانوں کو انتظار ہے۔

قیامت کے بارے میں ان کا عقیدہ نہ ہندوؤں جیسا ہے اور نہ مسلمانوں جیسا۔ ہندوؤں کا عقیدہ دوبارہ جنم بدلنے کا اور تناسخ کا ہے۔ جبکہ نیشن آف اسلام کے ہاں قیامت اس شکل میں آئے گی کہ دنیا میں گوروں کا تسلط ختم ہو جائے گا۔ اس وقت گورے جنت میں ہیں، کالے جہنم میں ہیں، لیکن دنیا کے حالات پلٹا کھائیں گے اور دنیا پر کالوں کا غلبہ ہوگا، گورے مغلوب اور کالوں کے غلام ہوں گے۔ یہ قیامت ہو گی۔ اس قسم کے عقائد کے ساتھ اس وقت بھی امریکی کالوں میں یہ تعداد کے حوالے سے سب سے بڑا گروپ ہے۔ ایک لطیفہ یہ ہوا کہ میں نے وہاں ایک مجلس میں سوال کیا کہ کالے آدمؑ کی نسل ہیں اور انسان ہیں، گورے شیطان کی نسل ہیں، لیکن ہم ایشین نہ کالے ہیں نہ گورے، ہم گندمی لوگ ہیں تو ہم کس کی نسل ہیں؟

عالمی مکہ باز محمد علی کلے ؒ

سب سے پہلے آلیجا محمد سے مالکم شہباز نے بغاوت کی، پھر بہت سے بڑوں نے بغاوت کی۔ عالمی مکہ باز محمد علی کلے جو چند سال پہلے فوت ہوئے، یہ پہلے آلیجا محمد کے ہاتھ مسلمان ہوئے تھے، جب شہباز نے بغاوت کی تو یہ بھی بغاوت میں ساتھ آئے اور صحیح العقیدہ مسلمان ہوئے۔ ان کے ایک بڑے رہنما امام سراج وہاج ہیں، نیویارک کے ہیں۔ میں ان کے مرکز گیا تھا، بہت بڑا مرکز ہے، ان سے میری ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے بھی پہلے آلیجا محمد کے ہاتھ کلمہ پڑھا تھا، جب مالکم شہباز نے بغاوت کی اور صحیح عقیدے پر آئے تو یہ بھی ان کے ساتھ باغیوں میں سے تھے۔ یہ جتنے بھی باغی ہیں تقریبًا سب اہلسنت شافعی المذہب ہیں۔ امام سراج وہاج اچھا کام کر رہے ہیں، دنیا میں کانفرنسوں میں جاتے ہیں، نمائندگی کرتے ہیں۔

ویلس دین محمد

ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ آلیجا محمد ۱۹۷۵ء میں فوت ہوئے، ۱۹۳۴ء سے ۱۹۷۵ء تک ان کی نبوت کا دور ہے۔ ان کے بیٹے ویلس دین محمد باپ کے مرنے کے بعد اس کے عقائد سے منحرف ہو کر مالکم شہباز کی طرف چلے گئے۔ ان سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے، شکاگو کی ایک بڑی کانفرنس میں ہم اکٹھے تھے۔ یہ بھی شافعی المذہب ہیں، اس وقت کالوں میں صحیح العقیدہ قیادت کرنے والے لوگ امام سراج وہاج، مالکم شہباز کا گروپ اور ویلس دین محمد محنت کر رہے ہیں۔

لوئیس فرخان

لیکن بڑا گروپ آج بھی لوئس فرخان کا ہے جو ماسٹر فارد محمد کو خدا کا پرتو اور آلیجا محمد کو نبی مانتے ہیں۔ دھوکے کی فضا ابھی تک صاف نہیں ہوئی۔ میں جب شکاگو گیا، ۱۹۸۸ء، ۱۹۸۹ء کی بات ہے، مجھے ساتھیوں نے بتایا کہ لوئس فرخان نے ایک کانفرنس کی ہے کہ تمام مسلمان مکاتب فکر اکٹھے ہوں، سب کو اکٹھا کیا، خود بھی اس میں تھا، اس میں رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے نمائندہ اور مہمان خصوصی شیخ علی عبد الرحمٰن الحذیفی امامِ حرمین تھے۔ یہ کانفرنس ہمارے جانے سے ایک ماہ پہلے ہو چکی تھی۔ ساتھی پریشان تھے کہ یہ کیا ہوا؟ میں نے کہا ایسے بات نہیں بنے گی۔ آپ ان کا پورا تعارف لکھیں اور فائل بنائیں۔ میں نے واپسی عمرہ پر آنا تھا، میں نے کہا واپسی پر رابطہ عالم اسلامی والوں سے بات کروں گا۔ انہوں نے پوری فائل بنائی اور شیخ حذیفی اور فرخان کی ایک مجلس کی تصویریں بھی دیں۔ اس وقت کے رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ عمر نصیف تھے، میں مکہ مکرمہ میں مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ فائل ان کو دکھائی، ہم دونوں مل کر رابطہ کے سیکرٹری جنرل سے ملے اور بتایا امریکہ میں یہ صورتحال ہے۔ اس کے بعد رابطے والوں نے ان سے رابطہ منقطع کر لیا۔ اتنا حصہ اس میں ہمارا بھی ہے۔

لوئس فرخان دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے آپ کو مسلم امیریکن لیڈر قرار دے کر جاتے ہیں، کرنل قذافی صاحب کے ہاں لیبیا جاتے رہے ہیں، وہاں سالانہ میلاد کانفرنس ہوتی ہے اس میں ایک بار مہمان خصوصی تھے۔ میں نے وہی فائل جو رابطہ کے سیکرٹری جنرل کو دی تھی، اسی کی کاپی پاکستان آ کر لیبیا کے سفارت خانے کو بھجوائی کہ یہ دیکھو یہ صورتحال ہے، مجھے اس کی وصولی کا خط بھی ملا تھا۔

لوئس فرخان بنگلہ دیش کے دورے پر آئے تھے تو وزیراعظم خالدہ ضیاء صاحبہ نے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا تھا اور وہاں کے ایک مولانا صاحب نے مجھے لندن میں بتایا کہ میں بھی ان کا استقبال کرنے والوں میں شامل تھا کیونکہ مجھے تو پتہ نہیں تھا، میں نے سمجھا کہ مسلمانوں کے لیڈر ہیں۔ ہمارے یہاں محترم شیخ رشید صاحب جب وفاقی وزیر تھے انہوں نے ان کو دعوت دی کہ آپ پاکستان آئیں ہم آپ کا استقبال کریں گے۔ اللہ کی قدرت کہ مجھے اور مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کو پتہ چل گیا تو ہم راجہ ظفر الحق صاحب سے ملے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ چونکے۔ یہ بھی اس وقت وزیر تھے، انہوں نے کہا، مجھے تو علم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ اس طرح یہاں کا دورہ ہم نے رکوایا ورنہ اسلام آباد بھی استقبال کے لیے تیار تھا۔

”نیشن آف اسلام“ کی صورتحال میں نے آپ کے سامنے عرض کی ہے۔

حضرات علماء کرام! میں نے آپ کے سامنے چند گروپوں کا ذکر کیا ہے جو اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے نئی نبوت اور وحی کے نام پر موجود ہیں اور کام کر رہے ہیں، ان کا مختصر تعارف کروایا ہے۔ بڑا گروپ قادیانیت باقی ہے، اس کا تعارف کہ قادیانیت کیا تھی، کیا ہے، اب کیا جھگڑا چل رہا ہے، بین الاقوامی تنازعہ کیا ہے، اور مستقبل کے امکانات کیا ہیں؟ اس پر اگلی نشست میں قدرے تفصیل کے ساتھ بات ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(۴) قادیانیت

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! آپ سے مدعیان نبوت کے حوالے سے گفتگو چل رہی ہے کہ ہمارے زمانے میں نئی نبوت اور نئی وحی کے عنوان سے جو گروہ قائم ہوئے اور اس وقت موجود اور مختلف علاقوں میں متحرک ہیں، ان میں سے ذکریوں، بہائیوں، خلیفہ رشاد اور نیشن آف اسلام ذکر کیا تھا۔ نئی نبوت کا دعویدار بڑا گروہ قادیانیت ہے، اس کا آج ذکر کرتے ہیں۔

چونکہ قادیانیت کا مسئلہ ہمارے علاقے برصغیر کا مسئلہ ہے، ہماری براہ راست ان کے ساتھ تقریباً سوا سو سال سے کشمکش چل رہی ہے، اس لیے زیادہ تر بات ان کے ہی بارے میں کی جاتی ہے اور زیادہ مسائل بھی ان کے حوالے سے ہی درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ختم نبوت کے حوالے سے جتنا کام ہوتا ہے نوے فیصد قادیانیوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔ میں ساتھیوں سے کہا کرتا ہوں کہ دوسروں کا بھی کم از کم تعارف تو کروانا چاہیے۔ اس لیے میں نے آپ کو تین چار گروہوں سے متعارف کرایا ہے کہ وہ بھی اسی حوالے سے کام کر رہے ہیں اور ان سے بھی ہمیں مسائل درپیش ہیں۔ لیکن ہمارا آمنا سامنا اور محاذ آرائی قادیانیت سے ہے اور اعتقادی حوالے سے، سماجی حوالے سے، اور سیاسی حوالے سے ان کے ساتھ ہماری کشمکش چل رہی ہے۔ میں اس کو تین دائروں میں تقسیم کرتا ہوں:

  1. ایک اعتقادی دائرہ ہے جس میں عام طور پر ہمارے مناظرے ہوتے ہیں۔
  2. دوسرا سماجی دائرہ ہے کہ وہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے کیسے رہیں گے۔
  3. تیسرا سیاسی دائرہ ہے کہ ان کے سیاسی عزائم کیا ہیں، ان کے بارے میں سیاسی دنیا کا موقف کیا ہے، اور ہمارے ان کے ساتھ کیا تنازعات ہیں، وغیرہ۔ ان تینوں دائروں کو الگ الگ سمجھنا ضروری ہے۔

قادیانیت پر مسلم مناظرین

اعتقادی دائرہ میں تین چار بڑے مسئلے ہیں۔ قادیانیت کے ساتھ جب ہمارا مناظروں کے عروج کا دور تھا، اس میں استاد محترم فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ جو مسلمان مناظرین میں سب سے بڑے مناظر تھے۔ باقی سبھی تقریباً ان کے شاگرد ہیں۔ مثلاً مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ وغیرہ۔ جبکہ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا عبدالرحیم اشعرؒ وغیرہ ہمارے بڑے بڑے مناظرین تھے۔ قادیانیوں میں قاضی نذیر احمد، جلال الدین شمس، ابو العطاء جالندھری وغیرہ بڑے مناظر تھے۔ ان حضرات کے آپس میں بہت مناظرے ہوئے، ان میں زیادہ تر کون سے مسائل زیربحث رہتے تھے وہ ذکر کرتا ہوں۔

مرزا غلام احمد قادیانی کا مہدی و مسیح ہونے کا دعویٰ

مرزا قادیانی نے ابتدا یہاں سے کی کہ کہا میں مہدی موعود ہوں۔ امام مہدی کے بارے میں صورتحال یہ بھی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں گے سو لائیں گے لیکن مہدی کے نام پر سینکڑوں فتنے دنیا میں پیدا ہو چکے ہیں، یہ امر واقع ہے۔ مہدی سوڈانی، ملا محمد اٹکی ذکری، مرزا غلام احمد قادیانی، بہاء اللہ شیرازی، مرزا محمد علی باب سب نے مہدیت کے دعوے کیے۔

مہدیت کے حوالے سے اسلام کا حوالہ دینے والوں میں تین بڑے دائرے ہیں:

  1. ایک جمہور اہل سنت والجماعت کا دائرہ ہے کہ امام مہدی حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے ہوں گے، روایات میں ان کی تفصیلات مذکور ہیں۔
  2. دوسرا دائرہ اہل تشیع کا ہے، ان کے ہاں امام مہدی بارہویں امام تھے جو پیدا ہو چکے، اب غائب ہیں، وہ ظاہر ہوں گے۔
  3. اور تیسرادائرہ ان مہدیوں کا ہے جنہوں نے خود مہدی ہونے کے دعوے کیے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے مہدی ہونے کا دعویٰکیا، پھر اس نے ایک اور قدم بڑھایا کہ مسلمان حضرت عیسٰیؑ کی تشریف آوری کے بھی منتظر ہیں۔ اس پر قرآن کریم میں اشارات مثلاً ”وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بھا واتبعون“ (الزخرف ۶۱) اور جناب نبی کریمؐ کی واضح پیشین گوئیاں متواتر احادیث میں موجود ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ جدت کی کہ مہدی اور مسیح دونوں کو اکٹھا کر دیا کہ مہدی اور مسیح ایک شخصیت ہیں۔ اس پر مناظرے اور مکالمے چلتے ہیں۔

اہل اسلام کے ہاں مہدی الگ شخصیت ہے، مسیح الگ شخصیت ہے۔ چنانچہ وہ روایت آپ کے سامنے ہوگی کہ امام مہدی دمشق کی جامع مسجد میں فجر کی نماز کی تیاری کر رہے ہوں گے کہ اوپر مینار سے آواز آئے گی کہ میں مسیح ابن مریم ہوں سیڑھی لاؤ، چنانچہ سیڑھی لائی جائے گی اور وہ اتریں گے۔ لیکن مرزا کا دعویٰ یہ ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی ہے اور وہ میں ہوں۔ اب مسیح ابن مریم بننے کے لیے مرزا کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ اہل اسلام کے عقیدے کے مطابق مسیح تو زندہ ہیں، ان پر موت نہیں آئی ”وما قتلوہ وما صلبوہ ولٰکن شبہ لھم“ (النساء ۱۵۷) وہ زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے، قرب قیامت اتریں گے۔ اتنے واضح ارشاداتِ نبویؐ ہیں کہ ابہام کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن مرزا نے ابہام پیدا کر دیا۔ مرزا صاحب کا پہلے یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسٰیؑ آسمانوں پر زندہ موجود ہیں، اس کی صراحت مرزا صاحب کی پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ لیکن خود مسیح بننے کے لیے یہ عقیدہ گھڑنا پڑا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکے ہیں۔ چنانچہ مرزائی حضرات مناظرے میں سب سے زیادہ زور اس پر دیتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہو گئے ہیں۔ جب کوئی شک میں پڑ جائے یا مان لے تو پھر کہتے ہیں، اب جو آئے گا وہ کون ہو گا؟ وہ مرزا قادیانی ہے۔

اس پر ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ ختم نبوت کے محاذ پر ہمارے بڑے بزرگوں میں مولانا محمد علی جالندھریؒ تھے۔ ایک دفعہ تقریر میں فرمایا مرزائی لوگ صدق و کذب مرزا پر بات نہیں کرتے، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کی بات کرتے ہیں۔ مرزا کا مسیح سے کیا تعلق؟ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ حضرت عیسٰیؑ زندہ ہیں یا فوت ہو گئے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا تمہیں اس سے کیا فائدہ؟ اگر بالفرض حضرت عیسٰیؑ فوت ہو بھی گئے ہوں تو اس سے یہ نتیجہ کدھر سے نکل آیا کہ مرزا نبی ہے۔ ان کا ایک مستقل مسئلہ ہے کہ حیات ہیں یا نہیں۔ اس پر مولانا ایک کہاوت سنایا کرتے تھے کہ ایک گاؤں میں میراثی کا لڑکا ماں سے پوچھتا ہے کہ ماں! اگر گاؤں کا نمبردار مر گیا تو پھر نمبردار کون ہو گا؟ ماں نے کہا کہ پھر اس کا بیٹا نمبردار ہو گا۔ اس نے پوچھا، وہ بھی مر گیا پھر کون ہوگا؟ ماں نے بتایا پھر اس کا بھائی ہوگا۔ پوچھا، وہ بھی مر گیا تو کون ہو گا؟ ماں نے کہا اس کا بھتیجا ہو گا۔ پوچھا، وہ بھی مر گیا تو کون نمبردار ہو گا؟ ماں نے کہا، بیٹا میں سمجھ گئی ہوں، سارا گاؤں مر جائے تم نمبردار پھر بھی نہیں بنو گے۔ یہ سنا کر مولانا کہتے تھے کہ مرزا قادیانی کی نبوت کا حضرت عیسٰی کے مرنے سے کیا تعلق ہے؟ اس سے تمہاری نبوت کہاں سے نکل آئی۔ بہرحال قادیانی حضرت عیسٰیؑ کی وفات کے قائل ہیں اور سری نگر میں ان کی قبر مانتے ہیں۔ اور یہ موضوع رفع عیسٰیؑ اور حیاتِ عیسٰیؑ کا ہمارے اور ان کے درمیان ما بہ النزاع اور مناظرے کا بڑا موضوع ہے۔

ختم نبوت کا عقیدہ

اعتقادی دائرے میں دوسرا مسئلہ یہ زیربحث ہوتا ہے کہ نبوت ختم ہو گئی ہے یا جاری ہے۔ اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ نبوت اور وحی منقطع ہو چکی ہے، اس پر سینکڑوں احادیث میں واضح ارشادات ہیں کہ میرے بعد نبوت ختم ہو چکی۔ لیکن قرآن کریم کی کچھ آیات سے اشتباہ پیدا کر کے قادیانیوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ نبوت ختم ہونا ٹھیک بات نہیں، نبوت تو چلتی رہتی ہے، چلتی رہے گی، نبوت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ کی رحمت بند نہیں ہوتی۔ ہاں یہ ہوگا کہ جو نبی آئے گا وہ حضورؐ کے تابع ہو گا۔ اہل اسلام نے یہ بات تسلیم نہیں کی، نہ مستقل نبی، نہ تابع نبی، کوئی نبی بھی نہیں آسکتا۔

حضورؐ کے زمانے میں دو مستقل نبی کھڑے ہوئے تھے اور ایک تابع نبی کھڑا ہوا تھا۔ اسود عنسی اور طلیحہ اسدی مستقل نبوت کے دعویدار تھے جبکہ مسیلمہ تابع نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ مسیلمہ نے مقابلے کا دعویٰ نبی کریمؐ کی زندگی میں کبھی نہیں کیا، حضورؐ پر ایمان لاتا تھا، آپؐ کی رسالت کا پہلے اقرار لیتا تھا، پھر اپنی رسالت کا اقرار کراتا کہ میں بھی ان کی پیروی میں نبی ہوں۔ حضورؐ نے اس کے دعوے کو، کہ آپؐ کی پیروی میں نبی ہوں، مسترد کر دیا اور طلیحہ اسود کا مستقل نبی ہونے کا دعویٰ بھی رد کر دیا۔ لیکن قادیانی اشتباہ اور دجل کے امام ہیں ایسا دجل اور شبہ ڈالتے ہیں کہ اچھا خاصا پڑھا لکھا آدمی بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے۔

متفرق مسائل

اس کے علاوہ یہ بھی گفتگو کا میدان ہے کہ کشف اور الہام، جس کو اہل اسلام بھی مانتے ہیں، بہت سے صوفیاء نے کشف و الہام کی باتیں کی ہیں، اس کو قادیانی وحی کی قسم بتلاتے ہیں کہ ان کو الہام ہو سکتا ہے تو مرزا پر وحی بھی آ سکتی ہے۔

ہمارے مناظرین کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ نبی بننے کے لیے جو معیار درکار ہے مرزا اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں اترتا۔ صدق و کذبِ مرزا پر بات کرتے ہیں۔ نبوت کا پہلا معیار ہی یہ ہے کہ حضورؐ نے مکہ والوں سے پوچھا ”ھل وجدتمونی صادقًا او کاذبًا؟“ اپنے آپ کو پیش کیا۔ جبکہ مرزا دجل اور فریب کا امام تھا، تو مرزا اپنی تحریرات کے حوالے سے نبوت کا اہل ہے یا نہیں، اسی کو دیکھ لیں۔ کردار اور گفتگو کے حوالے سے دیکھ لیں۔

اس کے علاوہ ایک موضوع یہ ہوتا ہے کہ مرزا کی کتابوں میں کئی انبیاء کرامؑ کی گستاخی کی گئی ہے اور نبی کی گستاخی خود کفر ہے اور وجوہِ کفر میں سے ہے۔

یہ دائرہ اعتقادی دائرہ ہے۔ اس پر کتابیں، مناظرے اور مکالمے ہر سطح پر ہوتے رہتے ہیں۔ اس پر ایک مکالمے کا ذکر کرتا ہوں۔

پارلیمنٹ کے ذریعے قادیانیوں کی تکفیر

جب ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہوا کہ قادیانیوں کو دستور میں غیر مسلموں میں شمار کیا جائے تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ یکطرفہ فیصلہ نہ کرو بلکہ قادیانیوں کو بھی بلا لو، ساری بات آمنے سامنے کر لو تاکہ کوئی کل یہ نہ کہہ سکے کہ تم نے فیصلہ یکطرفہ کیا تھا۔ بھٹو نے یہ اچھی بات کہی۔ بھٹو مرحوم کی کئی باتوں سے مجھے اختلاف ہے لیکن بھٹو کی جن باتوں کو میں سمجھداری کی باتیں سمجھتا ہوں ان میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ بھٹو نے کہا کہ حکومتی فیصلہ نہ کراؤ، پارلیمنٹ سے فیصلہ لے لو تاکہ کوئی اعتراض نہ کر سکے۔ مجھ سے فیصلہ کرانا ہے تو میں کر دیتا ہوں لیکن بہتر ہے پارلیمنٹ سے فیصلہ کراؤ تاکہ آج کے معیار کے مطابق قومی فیصلہ شمار کیا جائے۔

قادیانیوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک قادیانی، دوسرا لاہوری۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور لاہوریوں کے سربراہ تھے مولوی صدر الدین۔ دونوں کو بلایا گیا۔ گیارہ دن تک مرزا ناصر احمد نے قومی اسمبلی کے ارکان سے بحث کی۔ تین دن مولوی صدرالدین نے بحث کی۔ صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد فیصلہ کیا گیا۔ اس میں مسلمانوں کی طرف سے بحث مباحثہ کرنے والوں میں پیش پیش یہ حضرات تھے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور سرکاری طور پر جناب یحییٰ بختیار جو اٹارنی جنرل تھے سب سے زیادہ بحث انہوں نے کی تھی۔

لیکن یہ بات حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے ہمیں ایک موقع پر جمعیت کی شوریٰ کی میٹنگ میں بتائی کہ اس مباحثے کے دوران، جو چودہ دن چلتا رہا ہے، ایک دن بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ مفتی صاحب! بات الجھتی جا رہی ہے، آپ بھی قرآن کی آیتیں پڑھتے ہیں، وہ بھی آیتیں پڑھتے ہیں، بیسیوں آیات سے استدلال کرتے ہیں، وہ خاتم کا معنٰی کچھ اور کرتے ہیں، آپ کچھ اور کرتے ہیں، حدیثیں وہ بھی پڑھتے ہیں، آپ بھی پڑھتے ہیں، وہ بھی لغت کی کتابوں کے حوالے دیتے ہیں، آپ بھی دیتے ہیں۔ ہم لوگ (جو دینی علم نہیں رکھتے ان بحثوں کو نہیں جانتے) کنفیوژ ہو رہے ہیں۔

آپ سے عرض کروں کہ قادیانیوں کی سب سے بڑی تکنیک یہی ہوتی ہے کہ سامنے والے کو کنفیوژن میں ڈال دو کہ وہ الجھا ہی رہے اور کسی نتیجے پر نہ پہنچے۔ ہر مسئلہ میں شک پیدا کرنا اور الجھانا ان کا کام ہوتا ہے۔ عام آدمی حتیٰ کہ عام عالم دین جو قادیانیت کے لٹریچر سے واقف نہیں ہے، ان کے طریقہ واردات سے واقف نہیں ہے، اگر وہ بحث مباحثہ کرے گا تو وہ بھی کنفیوژن کا شکار ہو جائے گا۔ جس کی قادیانیت کی تاریخ، لٹریچر اور طریقہ واردات پر گہری نظر ہوگی، وہی بحث مباحثہ کر سکتا ہے، دوسرا تو خود کنفیوژ ہو جائے گا۔

تو بھٹو مرحوم نے کہا کہ قرآن سے کوئی واضح آیت بتائیں جس میں ہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کہتے تھے کہ ایک دفعہ تو میں بھی چکرا گیا کہ یہ کیا ہوا۔ اگر اسمبلی کا لیڈر کنفیوژ ہو گیا ہے تو پھر ساری اسمبلی کنفیوژ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذہن میں بات ڈالی۔ میں نے کہا قرآن کریم کی پہلی سورت کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ حل کر دیا ہے اور فرما دیا ہے کہ ”والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ھم یوقنون“ (البقرہ ۴)۔ متقین اور مومنین وہ ہیں جو اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل ہوئی ہے اور جو آپ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اگر بعد میں بھی وحی آنی ہوتی تو ”ومن بعدک“ بھی فرمایا جاتا۔ بھٹو صاحب کو بات سمجھ آگئی کہ قرآن کہتا ہے وحی حضورؐ سے پہلے ہی ہے، بعد میں نہیں ہے۔ بہرحال یہ اعتقادی دائرہ ہے اس قسم کے مسائل پر مناظرہ مباحثہ مکالمہ چلتا رہا لیکن اب قادیانیوں نے ایک عرصہ سے مناظرے کا میدان چھوڑ رکھا ہے۔

مباہلے کا میدان

ایک میدان مباہلے کا ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے خود چھیڑا تھا۔ مباہلے کے چیلنج کرتا رہا، کبھی عیسائی پادریوں کو، کبھی مسلمان علماء کو۔ اس کا ایک بڑا مشہور مباہلے کا چیلنج ہے، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری جو اہل حدیث اور اکابر علماء میں سے تھے، شیخ الہندؒ کے شاگردوں میں سے اور جمعیت علماء ہند کے بانیوں میں سے ہیں۔ جمعیت علماء ہند کا تاسیسی اجلاس امرتسر میں ان کے گھر میں ہوا تھا۔ ان کا بڑا میدان مناظرہ کا تھا، بہت زبردست مناظر تھے، آریہ سماج ہندوؤں کے خلاف بھی، عیسائیوں کے خلاف بھی، قادیانیوں کے خلاف بھی، اور حنفیوں کے خلاف بھی بڑے مناظر تھے۔ محدث گوجرانوالہ حضرت مولانا عبد العزیزؒ اور مولانا امرتسری کا فاتحہ خلف الامام پر مشہور مناظرہ ہے۔ تحریری مناظرہ چھپا ہوا ہے جس میں دونوں نے حَکم مولانا سید سلیمان ندویؒ کو مانا تھا اور سید سلیمان ندویؒ نے فیصلہ دیا تھا کہ اس میں مولانا عبد العزیز صاحبؒ کا موقف ٹھیک ہے۔ مرزا سے بھی مولانا امرتسری کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ امرتسر سے ان کا پرچہ نکلتا تھا۔ مرزا نے ان کو مباہلے کا چیلنج دے دیا اور کہا اگر مولوی ثناء اللہ سچا ہے تو میں اس کی زندگی میں اتنے عرصے کے اندر ذلت کی موت مر جاؤں، اور اگر میں سچا ہوں تو مولوی ثناء اللہ میری زندگی میں اتنے عرصے کے اندر ذلت کی موت مر جائے۔ اس پر اشتہار چھاپے، کتابیں چھاپیں، دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا کہ مولوی ثناء اللہ کی خیر نہیں ہے۔ اس چیلنج کے ایک سال کے اندر مرزا غلام احمد قادیانی صاحب لاہور میں بیت الخلا میں فوت ہو گئے، جبکہ مولانا امرتسری اس کے بعد چالیس سال تک حیات رہے۔

پھر مباہلے کا ایک اور میدان سامنے آیا۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ پاکستان بننے کے بعد چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ چنیوٹ کے قریب ربوہ میں قادیانیوں نے اپنا مرکز بنا لیا۔ مولانا چنیوٹیؒ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مولانا بدر عالمؒ کے شاگرد تھے۔ بڑے مناظر اور متکلم قسم کے بزرگ تھے۔ ہمارا تو زندگی بھر ساتھ رہا ہے، کم و بیش چالیس سال ہم نے اکٹھے کام کیا ہے۔ انہوں نے مباہلے کا ایک نیا رخ اختیار کیا۔ ۱۹۵۲ء یا ۱۹۵۳ء کی بات ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود قادیانیوں کے سربراہ تھے جو مرزا غلام احمد کے بیٹے تھے، ربوہ آگئے تھے۔ مولانا چنیوٹیؒ نے مرزا بشیر الدین محمود کو چیلنج دے دیا کہ مناظرے چھوڑو، دریائے چناب کے اس طرف آپ رہتے ہیں، اس طرف میں رہتا ہوں، درمیان میں ایک خشک پٹی ہے، وہاں دونوں جمع ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے برے انجام کا شکار کر۔

قادیانیوں کی طرف سے کہا گیا کہ تم ایک عام مولوی ہو، کس کے نمائندے ہو؟ اس وقت کی چار بڑی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، تنظیم اہل سنت، اور جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے بڑے بزرگوں، جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد علی جالندھریؒ، تنظیم اہلسنت کے امیر حضرت مولانا نور الحسن شاہ بخاریؒ، اور جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے قائد حضرت مولانا غلام اللہ خان سے لکھوایا کہ یہ ہمارا نمائندہ ہے، اس کی فتح و شکست ہماری فتح و شکست ہو گی۔ اس وقت دیوبندیوں کے دائرے میں بڑی جماعتیں یہی تھیں۔ مولانا چنیوٹیؒ نے اس کے بعد اعلان کیا کہ میں سب کا نمائندہ ہوں، سب سے نمائندگی لے لی ہے، تاریخ مقرر کی، دریائے چناب کے درمیان خشک پٹی پر گئے، سارا دن انتظار کرتے رہے لیکن مرزا بشیر الدین محمود صاحب نہیں آئے۔ اس کے بعد مولانا چنیوٹیؒ کا ہر سال معمول رہا کہ ۲۶ فروری کو باقاعدہ اعلان دہراتے، اشتہار چھاپتے اور وہاں جاتے۔ اب ان کے بعد مولانا محمد الیاس چنیوٹیؒ جاتے ہیں اور فتح مباہلہ کانفرنس بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی مباہلہ کا دائرہ ہے جو چلا آ رہا ہے۔

ایک دائرہ مباہلہ کا اور تھا۔ مرزا طاہر احمد نے، جو سربراہ بنے مرزا ناصر احمد کے بعد، دنیا بھر کے بڑے بڑے مسلم علماء کو دعوت دی مباہلہ کی، کہ اللہ جھوٹے کا جھوٹ ظاہر کر دے۔ کتابچہ چھاپ کر دنیا کے مشہور علماء کو بھیجا، مجھے بھی بھیجا گیا۔ میں اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کا سیکرٹری اطلاعات اور مشترکہ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا رابطہ سیکرٹری تھا، مجھے لندن سے رجسٹری ڈاک کے ذریعے وہ کتابچہ ملا۔ میں بھی اس کے مباہلہ کے مخاطبین میں تھا۔ اس کے جواب میں نے تفصیلی خط لکھا جو روزنامہ جنگ لندن اور ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں چھپا، اب اس کی دوبارہ اشاعت ہوئی ہے۔ اس وقت مباہلہ قبول کرنے کا اعلان جن شخصیات نے کیا ان میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری دامت برکاتہم تھے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے مباہلہ قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ لندن آ رہا ہوں، وہاں مباہلہ کریں گے۔ میں نے خط لکھا کہ مجھے چیلنج قبول ہے، ہمارے ان تین حضرات نے مباہلہ قبول کیا ہے، ان میں سے جس کی دعوت آپ قبول کریں گے مجھے آپ ان کے ساتھ موجود پائیں گے۔ اس پر قادیانی تاویلیں کرنے لگے کہ مباہلے کا یہ مطلب نہیں تھا، ہم نے بھی لکھ دیا آپ نے بھی لکھ دیا، بس کافی ہے، میدان میں آنا ضروری نہیں ہے۔

لندن میں ہائیڈ پارک، جو لندن کے وسط میں بہت بڑی پارک ہے، اس کا ایک کونہ ہے جو ہائیڈ پارک کارنر کہلاتا ہے، یہ کونہ قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے گفتگو کے حوالے سے۔ وہاں جو کوئی جو کچھ کہنا چاہے کہے، کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ کوئی خدا کے خلاف بات کرے یا رسول کے خلاف کرے، جو چاہے کہے۔ شام کو بڑا عجیب منظر ہوتا ہے کہ مختلف ٹولیوں میں لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر ٹولی میں ایک ایک آدمی اپنی بھڑاس نکال رہا ہوتا ہے۔ پریشر ککر کی طرح غصہ نکال کر ٹھنڈے ہو کر گھر چلے جاتے ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ نے کہا میں فلاں تاریخ کو ہائیڈ پارک کارنر آ رہا ہوں تم بھی آجاؤ، مرزا طاہر بھی لندن میں تھے لیکن وہ نہیں آئے۔ مولانا چنیوٹیؒ اپنے ساتھیوں سمیت ایک نہیں دو دفعہ وہاں گئے۔ بہرحال مباہلے کا ایک دائرہ یہ ہے۔

حسن عودہ کا قبولِ اسلام

اس کے نتیجے کے طور پر ایک بات عرض کروں گا کہ مرزا طاہر احمد کے سیکرٹری تھے فلسطینی نوجوان حسن عودہ، اس کے نانا قادیانی ہوئے تھے۔ اس کا خاندان قادیان آگیا تھا۔ حسن عودہ کی پرورش قادیان میں ہوئی، یہ قادیانیوں کے عربی جریدے کے ایڈیٹر تھے۔ میں نے ان سے انٹرویو کیا ہے۔ یہ اس زمانے میں مسلمان ہو گئے، دوست ہیں، میں نے ان کو کہا ”حَسُنَ عَوْدُہٗ“۔ انہوں نے لندن میں مولانا چنیوٹیؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور ویمبلے کانفرنس میں تقریر کی اور کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں مرزا ناصر احمد کی دعوت مباہلہ کا پہلا ثمرہ ہوں ”انا اول ثم رۃ المباھلۃ“ کہ اسے چھوڑ کر اسلام قبول کر رہا ہوں۔

قادیانیوں کے ساتھ سماجی معاملہ

سماجی دائرہ میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اسے بہت پیروکار ملے۔ جماعت احمدیہ کا پھیلاؤ ہوا۔ انگریزوں کا زمانہ تھا۔ اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ وہ ہمارے درمیان رہتے ہیں، حکومت ہماری نہیں ہے، مسلم حکومت ہوتی تو معاملات نمٹ چکے ہوتے۔ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا، یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ جب پیدا ہوا حکومت غیرمسلموں (انگریزوں) کی تھی، فیصلہ کرنے والی اتھارٹی غیرمسلم تھی۔ ہم غیرمسلموں کے تحت تھے، اب قادیانیوں کے ساتھ معاشرتی برتاؤ کیا ہو گا؟ یہ نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ ہمارے غلبے کے دور کے مسائل کی نوعیت اور ہے اور مغلوبیت کے دور کے مسائل کی نوعیت اور ہوتی ہے۔ بہت سے مسائل میں ہمیں اس وجہ سے نیا رخ اختیار کرنا پڑا۔ جبکہ ہماری فقہ کی ترتیب و تدوین غلبے کے دور کی ہے جہاں ہمارا اپنا معاشرہ ہو، ہماری حکومت اور ہمارا نظام ہو۔ مگر پچھلے دو تین سو سال میں ہمیں یہ بھی پیش آیا کہ ہم مغلوب ہو گئے، بحیثیت قوم غلام ہو گئے، حالات متغیر ہو گئے۔ اب یہ نئی بات تھی کہ غیرمسلموں کے غلبے میں ان کے ماتحت وقت گزاریں گے تو کیسے؟ اس کے نئے تقاضے پیدا ہو گئے، اس سے بییسیوں مسائل پیدا ہوئے۔

مثلاً ایک مسئلہ یہ کہ احناف کے ہاں جمعہ کے انعقاد کی شرائط میں ”سلطان او نائبہ“ شرط ہے۔ اب سلطان تو ختم ہو گیا، غیرمسلم سلطان بن گئے، اب کیا کریں؟ بعض حضرات نے جمعہ ساقط کر دیا کہ اب جمعہ فرض ہی نہیں ہے، جمعہ کی جگہ ظہر پڑھنے کا حکم دیا۔ لیکن پورے برصغیر میں جمعہ مستقل معطل کر دینا امت کے اجتماعی مفاد کے خلاف تھا۔ اس وجہ سے ہم نے مسلم سلطان کے آنے تک اس شرط میں تبدیلی کی اور مسجد کے نمازیوں کی اجتماعی رائے کو سلطان او نائبہ کا قائمقام قرار دیا۔ جس کے امام اور خطیب ہونے پر نمازی متفق ہوں وہی سلطان کا نائب ہے۔ اس سے یہ شرط پوری ہو جاتی ہے اور جمعے کو تعطل کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اسی حوالے سے ہمارے بعض مفتیان کرام کا فتویٰ چلا آرہا ہے اور عمل بھی ہوتا ہے کہ چونکہ ہم ایک بڑی شرط کے بغیر مجبوری کے تحت جمعہ پڑھ رہے ہیں اس لیے جمعہ بھی پڑھا جائے اور ظہر احتیاطی بھی پڑھی جائے۔ ظہر احتیاطی کا بھی پس منظر ہے۔ مولانا احمد رضا خانؒ کا فتویٰ یہی ہے۔ غلبے کے دور میں نوعیت اور تھی اور مغلوبیت کے دور میں نوعیت اور تھی۔

علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز

بالکل یہی صورتحال ہمیں قادیانیت کے حوالے سے پیش آئی، غلبے کے دور میں مدعیان نبوت اور ان کے پیروکاروں سے نمٹنا حکومت کا کام تھا لیکن مغلوبیت کے دور میں کس نے کیا کرنا تھا اور اب معاملہ کیا ہوگا؟ اس پر علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز یہ تھی اور انہوں نے انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ قادیانی ہمارے ساتھ معاشرے میں رہیں لیکن انہیں ہمارے ساتھ شمار نہ کیا جائے، ان کو غیر مسلم گروہ کے طور پر ڈیل کیا جائے۔ یہ بات سب سے پہلے علامہ محمد اقبالؒ نے کہی تھی کہ ان کے عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہیں جن کی وجہ سے یہ مسلمان نہیں ہیں، اگرچہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ اس لیے ان کو غیرمسلم اقلیت کے طور پر ڈیل کیا جائے۔ جب اقبالؒ نے یہ کہا کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں تو اس پر اقبال کا پنڈت جواہر لال نہرو سے مکالمہ بھی ہوا۔ نہرو نے کہا، قادیانی کلمہ پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، کعبے کو مانتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں، پھر مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ انگلش مکالمہ تھا، اب اردو میں چھپ گیا ہے۔ قادیانیت کو آج کے سماجی تناظر میں سمجھنے کے لیے سب سے بہتر مکالمہ ان دونوں کا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات سے میں کہا کرتا ہوں کہ اگر ہماری باتیں آپ کو سمجھ نہیں آ رہیں تو اقبالؒ کو پڑھ لو۔ اقبالؒ آپ کو سمجھا دے گا کہ قادیانی مسلمان کیوں نہیں ہیں۔ لیکن جب پاکستان بنا تو اس کی نوعیت پھر بدل گئی، اب سابقہ پوزیشن (مسلم حکومتوں والی) پر واپس جانا ہے یا اس پوزیشن (انگریز کے دور والی) پر رہنا ہے؟

۱۹۵۳ء میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام نے ایک اجماعی اور اجتہادی فیصلہ کیا۔ میں اسے پاکستان کے علماء کا بڑا اجماعی اور اجتہادی فیصلہ کہا کرتا ہوں۔ انہوں نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ قادیانیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ چنانچہ طویل تحریک کے بعد ۱۹۷۴ء میں دستور میں یہ فیصلہ ہوا اور اس وقت سے قادیانی غیرمسلم اقلیت کے طور پر چلے آرہے ہیں۔

آج میں نے قادیانیت کے حوالے سے دو دائرے ذکر کیے ہیں:

  1. پہلا اعتقادی دائرہ جس میں مناظرے کا میدان اور مباہلہ کا میدان ہے۔
  2. اور دوسرا سماجی دائرہ جس میں اقبالؒ کی تجویز، اقبال اور نہرو کا مکالمہ، اور پاکستان کے علماء کا اجماعی فیصلہ ہے۔
  3. اس کے بعد تیسرا دائرہ سیاسی دائرہ ہے جو آج کل زیربحث ہے اور تفصیل کا متقاضی ہے۔
2016ء سے
Flag Counter