بعد الحمد والصلٰوۃ۔ گزشتہ سال کی فکری نشستوں میں وہ نمایاں شخصیات جن کے ساتھ میں نے وقت گزارا ان کا تذکرہ ہوا، اس سال ان فکری نشستوں کا موضوع یہ ہے کہ انسانی معاشرت، سوسائٹی اور سماج کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ کیا ہے؟ حضورؐ کی سیرتِ طیبہ کیا ہے؟ حضورؐ کا معمول کیا رہا ہے؟ اس کے مختلف پہلوؤں پر بات ہو گی۔ آج کا موضوع ہے ’’سیرۃ النبیؐ اور انسانی حقوق‘‘ کہ انسانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں آپؐ کا طرز عمل کیا تھا؟ آج کی دنیا میں انسانی حقوق سب سے بڑا موضوع ہے اور یہ آج کی دنیا میں بات کہنے کا ایک بڑا ہتھیار بھی ہے، بالخصوص اس حوالے سے کہ آپ جب بھی دنیا کے کسی کونے میں اسلامی شریعت کی بات کرتے ہیں تو اسے انسانی حقوق کے خلاف کہہ دیا جاتا ہے، وہ الگ موضوع ہے لیکن سرِدست میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ انسانی حقوق ہیں کیا؟ اور جناب نبی کریمؐ کا اسوۂ حسنہ کیا ہے؟
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ ہماری اصطلاح ’’حقوق اللہ اور حقوق العباد‘‘ کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کی ہے کہ اللہ کا حق کیا ہے؟ اور بندوں کا حق کیا ہے؟ جبکہ مغرب کی اصطلاح ’’انسانی حقوق‘‘ کی ہے، مغرب خدا کے حقوق کی بات نہیں کرتا، ان کے ہاں خدا کا تصور ہو یا نہ ہو ایک ہی بات ہے، خدا کا کوئی حق ہے یا نہیں ہے ایک ہی بات ہے۔ ہمارے نزدیک پہلا حق اللہ کا ہے، اس کے بعد بندوں کے حقوق ہیں۔ قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالٰی نے یہ ترتیب بیان کی ہے کہ حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں۔ ابھی سورۃ الماعون کی تلاوت ہوئی ہے، اس میں چار حق بیان ہوئے ہیں۔ ایک اللہ کا اور تین بندوں کے۔ یتیم کو دھتکارنا، یہ کام کافر کرتا ہے مسلمان کا یہ کام نہیں، جو دین (قیامت) کو جھٹلاتا ہے وہ ہی یتیموں کو دھکے دیتا ہے، ایماندار اور دیندار آدمی یتیم کو دھکے نہیں دیتا۔ یہ بندوں کے حق کا ذکر ہوا۔ مسکین اور محتاج کو کھانا کھلانا، یہ بھی بندوں کا حق ہے۔ اس کے بعد نماز کا ذکر ہے کہ نماز اللہ کا حق ہے۔ نماز نہ پڑھنا اللہ کی حق تلفی ہے۔ نماز میں سستی کرنا اللہ کی حق تلفی ہے۔ اس کے بعد فرمایا ’’ویمنعون الماعون‘‘ (سورہ الماعون ۷) آپس میں استعمال کی چیزیں ایک دوسرے کو دینی چاہئیں، یہ بھی انسانی حقوق میں سے ہے۔ میں نے خلاصہ بیان کیا کہ اس چھوٹی سی سورت میں بھی اللہ تعالٰی نے دونوں قسم کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا۔
اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق قرآن کریم میں اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ایک اور آیت پڑھ دیتا ہوں جس میں اللہ رب العزت نے ترتیب سے ذکر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ کیا ہیں اور حقوق العباد کیا ہیں۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: ’’وعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئًا وبالوالدین احسانًا وبذی القربٰی والیتامٰی والمساکین والجار ذی القربٰی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وماملکت ایمانکم‘‘ (سورہ النساء ۳۶)۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے حقوق کے دس دائرے بیان کیے ہیں جن میں پہلا حق اپنا بیان کیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور نو حق بندوں کے بیان کیے ہیں۔ ان کو دائروں میں تقسیم کر کے پہلے والدین کا حق بیان کیا کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، پھر قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسیوں، وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہے ’’صاحب بالجنب‘‘ سبق کا ساتھی، سفر کا ساتھی، کمرے کا ساتھی وغیرہ، اور مسافروں اور غلاموں کے حقوق درجہ بدرجہ بیان فرمائے ہیں۔ حقوق میں پہلا حق اللہ کا بیان ہوا، پھر نو حق بندوں کے ذکر ہوئے۔ آج لوگ بندوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن پہلا حق اللہ کا ہے۔ بڑی تفصیل کے ساتھ اللہ تعالٰی نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بیان فرمایا۔ یہاں قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی بات ہوئی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ’’واٰت ذالقربی حقہ والمسکین وابن السبیل‘‘ (سورہ الاسراء ۲۶) قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرو، یہ تمہارا احسان نہیں ان کا حق ہے، مسکین اور مسافر پر خرچ کرو، یہ تمہارا احسان نہیں ہے ان کا حق ہے۔
ایک بات میں نے یہ کہی ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتے ہیں، اور اتنی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی دوسرا قانون اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتا مگر ہم قرآن اس لیے پڑھتے ہی نہیں کہ یہ ہم سے کہتا کیا ہے، ہم تو ثواب اور برکت کے لیے پڑھتے ہیں اور وہ ہمیں مل جاتی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ حقوق کے حوالے سے کیا ہے؟ اس پر بیسیوں احادیث ہیں، دو ذکر کروں گا۔ حقوق کے حوالے سے بخاری شریف میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حقوق کے بارے میں حضورؐ کی سنت اور ذوق کیا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کا واقعہ ہے۔ آپ پہلے مجوسی تھے، پھر عیسائی ہوئے، ایک طویل عرصہ عیسائی رہے، پھر یہودیوں کے ایک خاندان کے غلام بنے اور کافی عرصہ غلامی کا گزارا، کہتے ہیں کہ باری باری دس مالکوں کے پاس رہا ہوں۔ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے غلام کے طور پر آئے تھے لیکن یہ غلامی تو آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی، آپ کی قسمت کہ ادھر سے یہ مدینہ پہنچے اور ادھر سے حضورؐ قبا میں تشریف لے آئے، اور پھر انہوں نے اپنی آزادی خریدی۔
میں کہا کرتا ہوں کہ دو آدمیوں کے لیے غلامی اللہ کی بہت بڑی نعمت کا سبب بنی، جیسے حضرت یوسفؑ کے لیے غلامی بادشاہت کا ذریعہ بنی تھی، اسی طرح حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کے لیے۔ زید بن حارثہؓ غلام بن کر مکہ آئے تھے اور پھر اس مقام پر پہنچے کہ حضورؐ نے ابو زید کہلانا شروع کر دیا تھا۔ اور حضرت سلمان فارسی بھی یہودیوں کے غلام بن کر مدینہ منورہ آئے تھے۔ اسی وجہ سے مدینہ میں رہتے ہوئے بدر اور احد میں شریک نہیں ہو سکے، البتہ آزاد ہونے کے بعد غزوۂ خندق میں شریک ہوئے تھے اور خندق انہی کے مشورے سے کھو دی گئی تھی۔ حضرت سلمان فارسیؓ جب مدینہ منورہ آئے تو مہاجر تھے، جناب نبی کریمؐ نے حضرت ابوالدرداءؓ سے ان کی مواخات کرا دی، جیسے حضورؐ کا مواخات کرانے کا معمول تھا۔ باہر سے آنے والے سینکڑوں ہزاروں لوگ ہوں اور ایک آدمی کو ایک خاندان سنبھال لے، یہ تو آسان ہے، اور سب کے لیے اکٹھا انتظام کرنا بہت مشکل ہے۔ حضورؐ نے بڑی حکمت عملی سے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنا دیا۔
حضرت سلمان فارسیؓ کو حضرت ابوالدرداءؓ کے حوالے کر دیا۔ حضرت ابوالدرداءؓ نوجوان آدمی تھے اور حضرت سلمان فارسیؓ عمر رسیدہ تھے، آپؓ کی عمر کے بارے میں اڑھائی سو سال کی بھی روایت ہے، لیکن حافظ ابن حجرؒ نے جو محتاط روایت ذکر کی ہے وہ ایک ۱۸۰ سال کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب آپ مسلمان ہوئے تو ڈیڑھ سو سال کے تھے اور جہاندیدہ آدمی تھے، کئی مذہب بھگتے ہوئے تھے۔ حضرت ابوالدرداءؓ آپ کو اپنے گھر لے کر گئے، وہاں جا کر حضرت سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ گھر میں گھر والی کوئی بات نہیں ہے۔ ام الدرداءؒ کو دیکھا کہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گھر کی کوئی صفائی نہیں ہے۔ حالانکہ عورت گھر میں ہو تو گھر کی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ اس گھر میں کوئی عورت رہتی ہے۔ وہ مکان کو صاف رکھے گی، پردے لٹکائے گی، زیب و زینت کا اہتمام کرے گی، یہ عورت کی فطرت ہے، لیکن وہاں تو گھر والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔
چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ نے جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ام الدرداءؓ سے بات کی اور کہا کہ یہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے، نہ ڈھنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، اور گھر کیا حال کر رکھا ہے، کوئی چیز سلیقے سے نہیں رکھی ہوئی۔ ام الدرداءؓ نے جواب دیا کہ بھائی جان! بات یہ ہے کہ عورت سنورتی بھی ہے، گھر کو سنوارتی بھی ہے لیکن کسی کے لیے سنورتی اور سنوارتی ہے۔ آپ کے بھائی کو کسی بات سے دلچسپی ہی نہیں ہے، میں بھی گزارا کر رہی ہوں، وہ بھی گزارا کر رہے ہیں۔ یہ پہلی بات حضرت سلمان فارسیؓ نے اس گھر میں نوٹ کی۔ دوپہر کا وقت ہوا تو حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے لیے دستر خوان بچھایا اور کھانا لگایا اور کہا لیجیے کھانا کھائیے۔ انہوں نے کہا تم بھی آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ابوالدرداءؓ نے کہا میرا تو روزہ ہے، میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں۔ انہوں نے دوبارہ کہا آؤ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ ابوالدرداءؓ نے پھر انکار دیا کہ میرا روزہ ہے۔ اس پر حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا اچھا ٹھیک ہے، دسترخوان اٹھا لو میں بھی نہیں کھاتا، تم کھاؤ گے تو میں کھاؤں گا۔ اب حضرت ابوالدرداءؓ مجبور ہو گئے کیونکہ مہمان کے سامنے سے دسترخوان کیسے اٹھاتے! لہٰذا حضرت ابوالدرداءؓ کو روزہ توڑنا پڑا اور حضرت سلمان فارسیؓ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے، اور شرعی مسئلہ بھی یہی ہے۔
یہاں میں ایک اصول عرض کروں گا کہ حقوق اللہ بھی ضروری ہیں اور حقوق العباد بھی ضروری ہیں، لیکن دونوں کی ترتیب یہ ہے کہ فرائض و واجبات میں حقوق اللہ مقدم ہیں، جبکہ مباحات اور مستحبات میں حقوق العباد مقدم ہیں۔ فقہاء یہ مسئلہ لکھتے ہیں کہ فرض روزہ کسی کے لیے بھی توڑنا جائز نہیں، جبکہ نفلی روزہ مہمان کے اکرام میں توڑنا پڑے تو توڑ دیں اور پھر اس کی قضاء کریں کہ مہمان کا حق زیادہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوالدرداءؓ روزہ توڑ کر مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے، حضرت سلمان فارسیؓ نے یہ دوسرا کام کیا کہ ان کا روزہ تڑوایا۔ رات کو سونے کا وقت ہوا تو حضرت ابوالدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو بستر بچھا کر دیا کہ آپ آرام فرمائیں۔ انہوں نے پوچھا تمہارا کیا پروگرام ہے؟ کہا، میں تو ساری رات نفل پڑھتا ہوں، رات کو سوتا نہیں ہوں، عبادت کرتا ہوں۔ فرمایا، بستر لاؤ اور میرے ساتھ آرام کرو۔ انہوں نے کہا حضرت! یہ میرا معمول نہیں ہے۔ فرمایا، معمول ہے یا نہیں بستر ادھر لاؤ اور آرام کرو۔ مجبورًا ان کو بستر پر لیٹنا پڑا۔ درمیان میں ایک بات کہتا ہوں کہ حضرت سلمان فارسیؓ حضرت ابوالدرداءؓ کے بڑے بھائی بنائے گئے تھے اور بڑا بھائی تو بڑا بھائی ہی ہوتا ہے، بڑے بھائی کا دبکا مشہور ہے۔ حضرت ابوالدرداءؓ خود کہتے ہیں، میں یہ سوچ کر لیٹ گیا کہ تھوڑی دیر بعد جب حضرت سلمان فارسیؓ سو جائیں گے تو میں اٹھ کر مصلّے پر چلا جاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد اٹھنے کی کوشش کی تو حضرت سلمان فارسیؓ جاگ رہے تھے، کہنے لگے کدھر جا رہے ہو؟ آرام سے سو جاؤ۔ صبح سحری کے وقت حضرت سلمان فارسیؓ اٹھے، مجھے بھی اٹھایا کہ یہ وقت ہے عبادت کا، اٹھو تم بھی نفل پڑھو، میں بھی پڑھتا ہوں۔ اس کے بعد پروگرام یہ بنا کہ فجر کی نماز مسجد نبوی میں جا کر آنحضرتؐ کے پیچھے پڑھیں گے۔ مسجد جانے لگے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداءؓ کو ایک نصیحت کی۔
میں کہا کرتا ہوں کہ اسلام کے فلسفہ حقوق کی بنیاد حضرت سلمان فارسیؓ کی اس نصیحت پر ہے۔ انہوں نے حضرت ابوالدرداء کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ان لربک علیک حقًا ولنفسک علیک حقًا ولزوجک علیک حقًا ولزورک علیک حقًا فاعط کل ذی حق حقہ‘‘ تیرے رب کے تجھ پر حقوق ہیں، تیری جان کے تجھ پر حقوق ہیں، تیری بیوی کے تجھ پر حقوق ہیں، تیرے مہمان کے تجھ پر حقوق ہیں، دین یہ ہے کہ ’’فاعط کل ذی حق حقہ‘‘ ہر حق والے کو اس کا حق وقت پر ادا کرو۔ اللہ کے حق کے وقت میں اللہ کا حق، جان کے حق کے وقت میں جان کا حق، کھانا پینا سونا وغیرہ یہ جان کے حق ہیں، بیوی کے حق کے وقت میں بیوی کا حق، اور مہمان کے حق کے وقت میں مہمان کا حق۔ ہر حق والے کو اس کا حق اس کے وقت پر ادا کرو، یہ ہے دین۔ یہ نصیحت کی اور اور پھر دونوں بھائی جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ فجر کی نماز مسجد نبوی میں آنحضرتؐ کے پیچھے ادا کی۔
نماز فجر کے بعد حضورؐ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھتے تھے، اشراق کے وقت تک بیٹھے رہتے تھے۔ یہ متفرق کاموں کی مجلس ہوتی تھی، اسے میں آج کی اصطلاح کے حوالے سے کھلی کچہری کہا کرتا ہوں۔ کوئی متعین کام نہیں ہوتا تھا، کوئی نئی وحی آئی ہوتی تو اس وقت سنا دیتے، کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو اس کی تعبیر پوچھ لیتا، کوئی مہمان آیا ہے تو اس کا حال احوال پوچھ لیا جاتا، کوئی خاص ہدایات دینی ہوتیں تو وہ دے دیتے، اور سمرۃ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا تو ہم گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ اشراق تک یہ مجلس ہوتی تھی، اس کے بعد آپؐ گھر تشریف لے جاتے تھے، بلکہ بسا اوقات حضورؐ خود پوچھتے تھے کسی نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا۔
ایسے ہی اس دن حضورؐ مقتدیوں کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت ابوالدرداءؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ کو دیکھا تو ان کو بلا لیا۔ حضرت ابوالدرداءؓ سے پوچھا، بھائی کیسا لگا ؟ آپس میں مزاج ملا؟ حضرت ابوادرداءؓ پچھلے ایک دن سے بھرے بیٹھے تھے، موقع ملتے ہی ساری کارگزاری سنا دی کہ یارسول اللہ! انہوں نے جاتے ہی میری بیوی سے انٹرویو کیا، پھر میرا روزہ تڑوا دیا، رات کو مجھے نفل نہیں پڑھنے دیے، مجھ سے زبردستی نیند کروائی، صبح کو یہ نصیحت کی اور ہم یہاں آگئے ہیں۔ اس پر جناب نبی کریمؐ نے ایک جملہ کہا ’’صدق سلمان‘‘۔ صدق فعل پر بھی لگتا ہے اور قول پر بھی لگتا ہے۔ مطلب یہ کہ سلمان نے جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے اور جو کہا ہے ٹھیک کہا ہے۔ اس سے پہلے یہ جملے حضرت سلمانؓ کی نصیحت تھی ’’ان لربک علیک حقًا ولنفسک علیک حقًا ولزوجک علیک حقًا ولزورک علیک حقًا فاعط کل ذی حق حقہ‘‘۔ لیکن حضورؐ کے ’’صدق سلمان‘‘ کہنے سے یہ جملے مرفوع حدیث ہوگئے ہیں۔
یہ جناب نبی کریمؐ کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ کے حق کے لیے بندوں کے حق نہ مارو، اور بندوں کے حق کے لیے اللہ کا حق نہ مارو، ہر ایک کا حق ادا کرو۔ میں کہا کرتا ہوں کہ اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بنیاد قرآن کریم کی ’’واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئًا‘‘ والی آیت ہے اور سلمان فارسیؓ کے یہ جملے ہیں، اور اس میں بھی ترتیب وہی ہے کہ پہلے حقوق اللہ کا ذکر ہے پھر حقوق العباد کا۔
ایک اور روایت ذکر کرتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ حق کا شعور کیا ہوتا ہے اور حق کا یہ احساس و شعور کس نے پیش کیا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، مجلس لگی ہوئی تھی، آپ کی دائیں جانب حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیٹھے ہوئے تھے جو حضورؐ کے چچازاد بھائی ہیں اور شاگرد ہیں، ایک رشتے میں بھانجے بھی لگتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت میمونہؓ ان کی حقیقی خالہ ہیں۔ جبکہ حضورؐ کی بائیں جانب حضرت صدیق اکبرؓ بیٹھے ہوئے تھے جو کہ اکبر الصحابۃ، افضل الصحابۃ ہیں۔ مجلس میں حضورؐ کو پیالے میں کوئی مشروب پیش کیا گیا۔ حضورؐ نے نوش فرمایا، آخر میں کچھ گھونٹ بچ گئے یا بچا لیے، اب یہ کسی کو دینے تھے۔ حضورؐ کے بیان کردہ قانون کے مطابق یہ دائیں والے کا حق بنتا ہے ’’الایمن فالایمن‘‘ اور دائیں طرف ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا، یعنی عبد اللہ بن عباسؓ جو کہ حضورؐ کی وفات کے وقت پندرہ سال کے تھے۔ حق ان کا بنتا تھا مگر جی چاہ رہا تھا بائیں طرف دینے کو، تو جناب نبی کریمؐ نے عبد اللہ ؓسے اجازت مانگی کہ عبداللہ! اجازت ہو تو بائیں طرف دے دوں۔ وہ بھی عبد اللہؓ تھے، کہا، یارسول اللہ! یہ آپ کا تبرک ہے، اس میں کسی کو میں اپنے اوپر ترجیح نہیں دیتا، یہ میرا حق ہے مجھے دیجیے۔ عبداللہؓ نے حضورؐ کو اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ دیکھیں کہ حق کا شعور کسے کہتے ہیں، روایت کے الفاظ یہ ہیں ’فتلَّہ فی یدہٖ‘‘ حضورؐ نے زور سے تھمایا اس کے ہاتھ میں کہ لے پکڑ۔ حضورؐ کا جی بائیں جانب دینے کو چاہ رہا تھا، اجازت مانگی تو اجازت نہیں ملی، غصہ بھی آیا، پیالہ دیا بھی غصے سے، لیکن دیا اسی کو ہے جس کا حق تھا۔ یہ آپؐ کا اسوہ ہے کہ جس کا حق ہے اسی کو ملنا چاہیے۔ وہ اجازت دے تو دوسرا لے سکتا ہے، وہ اجازت نہ دے تو کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔
ایک اور روایت ذکر کر دیتا ہوں، بخاری شریف کی روایت ہے جو ’’حدیث بریرہ‘‘ کہلاتی ہے۔ بریرہؓ ایک خاندان کی لونڈی تھیں۔ خاندان والوں نے مغیثؓ نامی نوجوان سے ان کی شادی کر دی۔ مالک اپنی لونڈی کی کہیں شادی کر دے اس کا حق ہے۔ بریرہؓ نے خاندان والوں سے بات کی کہ اگر تم میرا سودا کر لو، میری قیمت طے کرو تو میں تمہیں قیمت محنت مزدوری کر کے دے دیتی ہوں، جسے فقہی اصطلاح میں مکاتبت کہتے ہیں۔ انہوں نے بات منظور کر لی اور نو اوقیہ طے ہوئے نو قسطوں میں۔ بریرہؓ نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں جا کر عرض کیا، اماں جان! یہ میرا سودا ہوا ہے، میرے ساتھ کچھ تعاون کیجیے تاکہ مجھے آزادی مل جائے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا بیٹا اگر میں ساری قسطیں اپنی طرف سے دے کر تمہیں خرید لوں اور تمہیں آزاد کر دوں، یہ سودا تمہارے خاندان والوں کو منظور ہے؟ ان سے بات کر لو میں یکبارگی سارے پیسے دے دیتی ہوں اور تمہیں آزاد میں کروں گی۔ حضرت عائشہؓ نے خرید کر آزاد کر دیا، اب وہ حضرت عائشہؓ کی خادمہ بن گئیں۔ آزاد ہونے کے ساتھ ہی ان کو ایک اور حق حاصل ہو گیا جسے خیار عتق کہتے ہیں۔ نکاح کے وقت آزاد بالغ عورت کو تو انکار کا اختیار ہوتا ہے لیکن لونڈی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔ مالک نے لونڈی کا اپنی مرضی سے کہیں نکاح کر دیا ہو، لونڈی جب آزاد ہوتی ہے تو اس کا وہ حق بحال ہو جاتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ خاوند کے ساتھ رہے یا نہ رہے۔ بریرہؓ جب آزاد ہوئیں تو وہ سمجھدار تھیں اور مسئلہ مسائل جانتی تھیں، انہوں نے مغیثؓ کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا کہ اب ہمارا نکاح ختم۔ مغیثؓ صاحب بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہوا اور کہا کہ ایسا نہ کرو، لیکن بریرہؓ نے کہا یہ میرا حق ہے اور میں نے اپنا حق استعمال کر لیا ہے۔ مغیثؓ بہت زیادہ پریشان ہوئے، کچھ دن تو سفارشیں بھیجتے رہے، لیکن بریرہؓ نے کسی کی سفارش نہ مانی۔
ایک دن آنحضرتؐ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے ساتھ مدینہ منورہ کے کسی محلے سے گزر رہے تھے تو مغیثؓ کو دیکھا کہ گلیوں میں دیوانہ وار پھر رہا ہے، آنسو بہہ رہے ہیں اور روتے ہوئے آوازیں دے رہا ہے، کوئی اللہ کا بندہ ہے جو بریرہ کو منا دے، میرا گھر اجڑ گیا ہے۔ حضورؐ نے ساتھی سے کہا کہ اس بیچارے کا حال دیکھو یہ اس کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے، اور وہ اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ اللہ کی قدرت ہے اللہ کے کاموں میں کون دخل دے۔ یہ منظر دیکھ کر جناب نبی کریمؓ کو مغیثؓ پر ترس آیا اور آپؐ نے مغیثؓ کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا اور ایسے وقت میں سفارش کرنی بھی چاہیے۔ میں کہا کرتا ہوں ایسے وقت میں کسی کی سفارش کرنا سنت ہے، کسی کی ایسی حالت ہو جائے تو اسے دھکے نہیں مارنے چاہئیں بلکہ سفارش کرنی چاہیے۔ آپؐ نے سفارش کا فیصلہ کیا اور گھر تشریف لائے۔ بریرہؓ کو بلایا اور فرمایا مغیثؓ کا کیا قصہ ہے؟ انہوں نے کہا، یارسول اللہ میں نے اپنا حق استعمال کیا ہے اور مغیثؓ کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا ہے۔ آپؐ نے سفارش کرنا چاہی تو بریرہؓ نے کہا، یارسول اللہ! کیا یہ میرا حق نہیں تھا؟ فرمایا، حق تو تھا۔ کہا، اب میری مرضی میں اس کے ساتھ رہوں یا نہ رہوں۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ جناب نبی کریمؐ نے بریرہؓ سے کہا، بریرہ! کوئی نظرثانی کی گنجائش ہے تو نظرثانی کر لو، اس بیچارے کا بہت برا حال ہے۔ یہاں آپ حضرات ذرا غور کریں کہ سفارش کون کر رہا ہے اور کس سے سفارش کر رہا ہے۔ آنحضرتؐ خود سفارش کر رہے ہیں گھر کی خادمہ سے۔ فرمایا، بریرہ! یہ فیصلہ واپس لے سکتی ہو؟ وہ بھی حضرت عائشہ کی شاگرد تھی، کہا یارسول اللہ! یہ آپ حکم فرما رہے ہیں یا مشورہ دے رہے ہیں؟ یہ فرق وہ جانتی تھی کہ حکم کا درجہ کیا ہوتا ہے اور مشورے کا درجہ کیا ہوتا ہے۔ اگر آپؐ حکم دے دیں تو کس مسلمان کی مجال ہے کہ اس کا انکار کر سکے، اور مشورہ ہو تو اس میں اختیار ہوتا ہے کہ اسے قبول کرے یا نہ کرے۔ حضورؐ نے فرمایا، حکم نہیں ہے مشورہ ہے۔ یہ سنا تو فورًا بولی ’’لاحاجۃ لی‘‘ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس موقع پر کانپ جاتا ہوں کہ کون انکار کر رہا ہے اور کس کے سامنے کر رہا ہے۔ مگر اسی پر قصہ ختم ہو گیا۔ یہ ہے حق کا احساس۔ آج دنیا میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کا شور مچا ہوا ہے، بچوں کے حق کی بات اور عورتوں کے حق کی بات، یہ بات آپ حضرات کی سمجھ میں آئی ہے کہ سب سے پہلے یہ حقوق کس نے پیش کیے ہیں؟
آج میں نے قرآن کریم کی دو آیتیں اور آپؐ کی سیرت مبارکہ کے بیسیوں واقعات میں سے دو واقعے ذکر کیے ہیں کہ حقوق کے بارے میں قرآن کریم کا تصور اور مزاج کیا ہے اور حضورؐ کا مزاج اور سنت مبارکہ کیا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔