روزنامہ جنگ لاہور ۲۲ مارچ ۲۰۰۱ء کے مطابق وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز اسلام آباد میں چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کی زیر صدارت اجلاس میں دینی مدارس کے حوالے سے ایک نئے پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت دینی مدرسوں کے طلبہ مدرسہ کی تعلیم کے علاوہ قومی تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور سائنس، انگریزی اور دوسرے پیشہ وارانہ مضامین کی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ خبر کے مطابق اس پروگرام کے تحت ’’وفاقی مدارس تعلیمی بورڈ‘‘ بنے گا جبکہ اسلام آباد، سکھر اور کراچی میں تین ماڈل دینی مدرسے قائم کیے جائیں گے، ان میں سے ایک مدرسہ طالبات کے لیے ہو گا، یہ مدرسے اس سال جون تک کام شروع کر دیں گے۔
خبر کے مطابق چیف ایگزیکٹو نے اجلاس میں کہا کہ ہم دینی مدارس کے طلبہ کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ روزگار کے مواقع تک ان کی رسائی ہو۔ ہم کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنا چاہتے، یہ پروگرام مدرسوں کے لیے اختیاری اور رضاکارانہ ہو گا۔ اس پروگرام سے مدارس کے تقریباً دس لاکھ طلبہ کو اقتصادی اور سماجی زندگی کے مین اسٹریم میں لانے میں مدد ملے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آہنگ اسلامی معاشرہ قائم ہو۔ کابینہ نے مذہبی امور کے وفاقی وزیر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس بورڈ کے ساتھ الحاق کرنے والے مدارس کے لیے نصاب تجویز کرے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر زبیدہ جلال کمیٹی کے ارکان ہیں۔
وفاقی کابینہ کے فیصلہ کی تفصیلات آپ کے سامنے ہیں اور اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ایک عرصہ سے دینی مدارس کے سلسلہ میں جو حکومتی عزائم سامنے آ رہے ہیں وہ اب عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں، اور حکومت نے اس کے لیے پیشرفت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہاں تک حکومت کے سربراہ کی طرف سے
- مدارس کے نظام میں مداخلت نہ کرنے،
- دینی مدارس کے طلبہ کو سماجی زندگی کی مین اسٹریم یعنی اجتماعی دھارے میں لانے،
- اور ہم آہنگ معاشرہ قائم کرنے کے عزم کا اظہار ہے،
یہ بظاہر بہت خوش آئند بات ہے، لیکن جب ہم اسے دینی مدارس کے حوالے سے عالمی استعمار کے منظم پروگرام کے پس منظر میں دیکھتے ہیں، اور دینی مدارس کے اس آزادانہ نظام سے مغرب کو درپیش شکایات کو سامنے رکھتے ہیں، تو ہمیں اس سارے پروگرام میں ’’ڈپلومیسی‘‘ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ دینی مدارس کے اس نظام سے مغرب کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ یہ اجتماعی دھارے سے الگ جداگانہ تشخص اور کردار رکھتا ہے، اور اس کے اسی جداگانہ تشخص اور امتیازی کردار کے نتائج و ثمرات سے نمٹنا مغرب اور عالمی استعمار کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ دینی مدارس کے امتیازی تشخص اور جداگانہ کردار کو ختم کر کے اس کے اساتذہ و طلبہ کو مین اسٹریم اور اجتماعی دھارے میں ضم کر دیا جائے، تاکہ ان سے طالبان طرز کی وہ کھیپ ہی نہ نکل سکے جو عالمی اور قومی اجتماعی دھارے کے سامنے کھڑی ہو کر اس کے فیصلوں کو مسترد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔
جبکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بلکہ دین و ملت کا سب سے اہم تقاضہ اسی امتیازی تشخص اور جداگانہ کردار کو باقی رکھنا اور اسے اپنی پوری روایات اور جذبات کے ساتھ نئی نسل تک منتقل کرنا ہے، جس کے لیے دینی مدارس شب و روز جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ورنہ ہمیں اگر اجتماعی دھارے کے ساتھ ہی چلنا ہے تو قوم کے سامنے ہاتھ اور جھولی پھیلا کر اور ہر قسم کے طعنے اور طنز کے تیر سہہ کر یہ لمبے چوڑے پاپڑ بیلنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے؟
جنرل صاحب سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری دینی مدارس ضرور قائم کریں، اور ہم آہنگ اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے بھی اقدامات کریں، لیکن مغرب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ ملی ضروریات کے حوالے سے اس کارِ خیر کا آغاز کریں۔ اور اس کا دائرہ صرف غریب دینی مدارس تک محدود نہ رکھیں بلکہ محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام چلنے والے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی ایک نظر ڈالیں کہ وہ ’’ہم آہنگ اسلامی معاشرہ‘‘ کے قیام کے لیے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ اور قومی دولت کے ایک بڑے حصہ کو تعلیم کے نام پر کن مصارف پر خرچ کیا جا رہا ہے؟ ورنہ صرف دینی مدارس کے خلاف چلنے والے اس ’’ون وے ٹریفک‘‘ کو آزادانہ تعلیمی نظام کے خلاف مغرب کے ایجنڈے کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ محض اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کے شوق میں اپنے جداگانہ تشخص اور امتیازی کردار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔