۱۸ فروری کو جامعہ ملیہ اسلامیہ لاہور کی سالانہ تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ جامعہ مفکرِ اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے شاہدرہ لاہور میں امامیہ کالونی سے گزر کر عمرؓ چوک کے بائیں جانب محمود کالونی میں قائم کر رکھا ہے۔ علامہ صاحب خود تو مانچسٹر برطانیہ میں قیام رکھتے ہیں جبکہ ان کی نگرانی میں مفتی عزیر الحسن صاحب اور ان کے رفقا کی ٹیم اس ادارہ کو چلا رہی ہے۔ حضرت علامہ صاحب سال میں ایک بار تشریف لا کر چند ہفتے لاہور میں قیام کرتے ہیں اور اس دوران جامعہ اشرفیہ میں دورۂ حدیث کے طلبہ کو مؤطا امام مالک کے اسباق پڑھانے کے علاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سالانہ اجتماع کا اہتمام کرتے ہیں جو ’’جلسۂ ولایت‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوتا ہے اور اس میں کسی نہ کسی بزرگ کی خدمات و فیوض کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس سال یہ تقریب عالمِ اسلام کی دو عظیم شخصیات حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت اویس قرنیؒ کے حوالہ سے منعقد ہوئی اور مختلف مقررین نے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی علمی، دینی اور روحانی خدمات اور فیوض و برکات کا تذکرہ کیا۔ اور مجھے ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی حاضری اور کچھ گفتگو کا اعزاز حاصل ہوا۔ حضرت علامہ صاحب نے اپنی تفصیلی اور پرمغز گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ اسلام کی دعوت و فروغ میں حضرات صوفیائے کرام اور اولیائے عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ بنیادی کردار رہا ہے جو آج بھی جاری ہے بلکہ آنے والے حالات میں حضرات صوفیائے کرامؒ کے پیغامِ محبت اور اسلوبِ وحدت کو زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے ان بزرگوں نے ہمیشہ محبت بانٹی ہے اور لوگوں کو جوڑ کر رکھنے کی بات کی ہے جس کی اہمیت و ضرورت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔
راقم الحروف نے اپنی گزارشات میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا تذکرہ کیا اور ان کے بہت سے امتیازات کا حوالہ دیا جن میں دو تین بطور خاص قابل ذکر ہیں:
- ایک یہ کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین کے ہاں سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی ولادت ہوئی۔ جبکہ مدینہ منورہ کی فضا میں ایک بات عام طور پر گردش کر رہی تھی کہ یہودیوں نے مہاجر مسلمانوں پر جادو کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ اس ماحول میں عبد اللہ بن زبیرؓ کی ولادت پر مسلمانوں میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا۔
- ان کا ایک اور بڑا اعزاز یہ ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانۂ خلافت میں جمع و ترتیب دیے ہوئے مصحفِ قرآنی کو قریش کی لغت پر دوبارہ لکھوایا اور اس کے متعدد نسخے تیار کرائے۔ یہ مصحف انہوں نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ہی لکھوایا جنہوں نے سابقہ مصحف تحریر کیا تھا مگر ان کے ساتھ چند اور افراد کو شریکِ کار بنایا جن میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ بھی تھے۔ اس موقع پر حضرت عثمانؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو ہدایت کی کہ اگر کسی لفظ کے تلفظ اور لہجے میں اختلاف ہوگیا تو اس میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی رائے حتمی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ قریشی تھے اور زبان و لغت کے عالم تھے۔
- اسی طرح یزید کو خلیفہ بنائے جانے پر حضرت امام حسینؓ کی طرح حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے بھی اس کی بیعت سے انکار کیا تھا مگر محاذ آرائی سے بچتے ہوئے مناسب موقع کا انتظار کیا اور کربلا کے المناک سانحہ کے بعد یزید کے خلاف اہلِ مدینہ کی بغاوت کے موقع پر انہوں نے اپنی خلافت و امامت کا اعلان کر دیا جس کا تسلسل ان کی شہادت تک قائم رہا۔
میں نے دوسری گزارش یہ کی کہ حضرت علامہ خالد محمود بڑے باذوق بزرگ ہیں، ان کی جدوجہد اور گفتگو کے بہت سے افق ہوتے ہیں کہ وہ بات ایک رخ پر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کے سامنے اس مسئلہ کے دوسرے بہت سے پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ جس کی ایک مثال ان کا قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی ہے۔ جامعہ ملیہ کا ٹائٹل ایک خاص تاریخی پس منظر رکھتا ہے جس کا مختصرًا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب پورے برصغیر پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو پہلے سے چلا آنے والا نظامِ تعلیم ختم کر کے اس کی جگہ نئے تعلیمی نظام کا آغاز کیا گیا جس میں عربی و فارسی زبان اور دینی علوم کو تعلیم و تدریس کے دائرہ سے خارج کر دیا گیا۔ اس سے ملک میں دوہرے نظام تعلیم کی شروعات ہوئیں جس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دینی مدارس نے عصری تعلیم کو اپنے نصاب سے الگ کر دیا اور دو الگ الگ تعلیمی نصابوں اور نظاموں کا سلسلہ شروع کیا، یہ کہہ کر عصری اور دینی تعلیم کے الگ الگ ہونے کی ذمہ داری دینی مدارس پر ڈال دی جاتی ہے، حالانکہ یہ بات تاریخی طور پر غلط اور خلافِ واقعہ ہے۔ ۱۸۵۷ء سے قبل درس نظامی کا یہی نصاب ہر جگہ پڑھایا جاتا تھا جو اب دینی مدارس کے نصاب کی بنیاد ہے اور اس میں عصری علوم مثلاً فلسفہ، ریاضی، فلکیات، فارسی زبان اور طب وغیرہ بھی شامل تھے۔ مگر انگریزی حکومت نے نئے تعلیمی نظام سے دینی علوم کو خارج کر کے اس تقسیم کی بنیاد رکھی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم جب درس نظامی کا یہ نصاب اپنے نظام کے تحت پڑھاتے تھے تو دینی اور عصری علوم دونوں کو بیک وقت پڑھاتے تھے، اس تسلسل کو اگر باقی رکھا جاتا تو دینی مدارس کے الگ نظام کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ مگر جب عربی و فارسی زبانوں اور قرآن و حدیث کے علوم کو ملک کے تعلیمی نصاب سے خارج کر دیا گیا اور ان علوم و فنون کا مستقبل خطرے میں نظر آیا تو علماء کرام نے ان کی حفاظت و فروغ کے لیے دینی مدارس کا سلسلہ شروع کر دیا جو اسی نہج پر بدستور کام کر رہا ہے۔ اور چونکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی ریاستی نظامِ تعلیم نے عربی زبان، قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت کی تعلیم و تدریس کو اپنی ذمہ داریوں میں ابھی تک شامل نہیں کیا اس لیے دینی مدارس کے الگ نظام و نصاب کی ضرورت و اہمیت آج بھی قائم ہے اور ریاستی نظامِ تعلیم میں دینی علوم کو ضرورت کے مطابق شامل کرنے تک یہ ضرورت و اہمیت بہرحال باقی رہے گی۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دینی اور عصری تعلیم کی تقسیم کی ذمہ داری علماء کرام پر نہیں بلکہ جدید تعلیمی نظام کے بنانے اور چلانے والوں پر ہے جس کا دینی حلقوں کو خواہ مخواہ الزام دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس تقسیم کو ختم کرنے اور دونوں طبقوں کے درمیان بعد اور دوری کو کم کرنے کی بات بھی سب سے پہلے دینی حلقوں کی طرف سے اٹھائی گئی تھی۔ یہ بات تحریکِ آزادی کے نامور راہنما اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے فرمائی تھی کہ جدید اور قدیم تعلیمی نظاموں کے طلبہ اور فضلا کے درمیان دوری کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس مقصد کے لیے وہ خود بڑھاپے اور علالت و ضعف کے باوجود علی گڑھ تشریف لے گئے اور ان کی تحریک پر ۱۹۲۰ء کے دوران مولانا محمد علی جوہرؒ، حکیم محمد اجمل خانؒ، ڈاکٹر انصاریؒ اور دیگر زعمائے ملت نے ’’جامعہ ملیہ‘‘ کا آغاز کیا جو دونوں تعلیمی نظاموں کے امتزاج پر مبنی تھا۔ یہ جامعہ ملیہ پانچ سال علی گڑھ کے ماحول میں کام کرنے کے بعد دہلی منتقل ہوگیا اور آج بھی پوری طرح مصرفِ عمل ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ لاہور کا قیام میرے خیال میں اسی سوچ اور جذبہ کا تسلسل ہے جس پر حضرت علامہ خالد محمود ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر امتِ مسلمہ کی راہنمائی کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔