ہزارہ میں انسدادِ سود پر چند اجتماعات

   
تاریخ : 
۱۵ ستمبر ۲۰۱۷ء

بالاکوٹ کئی بار جانے کا اتفاق ہوا لیکن اس سے آگے جانے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا جبکہ کاغان ناران کا تذکرہ دوستوں سے بار بار سننے کے باعث وہاں جانے کا اشتیاق تھا۔ بہت سے دوستوں نے مختلف مواقع پر وہاں آنے کی دعوت دی مگر میرے لیے مدرسہ کی چھٹیوں سے ہٹ کر اتنا لمبا سفر مشکل ہوتا ہے۔ اس سال صفہ سویٹ ہوم بھارہ کہو اسلام آباد کے مولانا جمیل الرحمان فاروقی کے ہمراہ دو تین روز کا پروگرام تشکیل پا گیا جس میں شوہال بالاکوٹ، گڑھی حبیب اللہ اور ایبٹ آباد میں مولانا مسعود احمد اور مولانا ثناء اللہ غالب کی مشاورت سے طے پانے والے دو تین اجتماعات بھی شامل تھے۔ عید کے تیسرے روز صبح گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر ظہر تک ٹیکسلا پہنچا جہاں جناب صلاح الدین فاروقی کے ساتھ دینی تحریکات کا پرانا ریکارڈ جمع کرنے کے حوالہ سے ان کے کام کے بارے میں صلاح مشورہ ہوا۔ وہ ان دنوں ٹیکسلا اور اردگرد کی دینی جدوجہد کے تناظر میں اپنی یادداشتیں مرتب کر رہے ہیں، ان سے آگاہی حاصل کی۔ تحریکوں کا ریکارڈ جمع کرنا اور بڑے خطباء کی تقاریر آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں مرتب کرنا صلاح الدین فاروقی صاحب کا خصوصی ذوق ہے جو کم و بیش نصف صدی سے جاری ہے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران اکابر علماء کرام کی تقاریر پر مشتمل ان کی کاوشوں کا ایک مجموعہ حال ہی میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کیا ہے۔ شام کو خانپور ڈیم کالونی میں مولانا عبد الحمید فاضل نصرۃ العلوم کے پوتے کی دعوت ولیمہ میں شرکت کے بعد رات ٹیکسلا میں قیام کیا ۔

منگل کو صبح مولانا جمیل الرحمان فاروقی کے ہمراہ اگلے سفر پر روانگی ہوئی۔ انہوں نے کراچی کے بعض اصحاب خیر کے تعاون سے مانسہرہ، بھارہ کہو اور راولپنڈی میں ’’صفہ سویٹ ہوم‘‘ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ قائم کر رکھا ہے جہاں یتیم اور بے سہارا بچوں اور بچیوں کو سنبھالا جاتا ہے اور ان کی رہائش اور دیگر ضروریات کے معیاری انتظامات کے ساتھ دینی و عصری تعلیم کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان تینوں مقامات پر سینکڑوں بچے اور بچیاں زیرکفالت اور زیرتعلیم ہیں۔ ہم ٹیکسلا سے سیدھا مانسہرہ پہنچے اور مولانا فاروقی کے بھائی مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لے کر آگے روانہ ہوگئے۔ ظہر کی نماز ہم نے کاغان کی مرکزی جامع مسجد میں پڑھی جہاں میرے ایک پرانے ساتھی اور رفیقِ سبق مولانا شیر زمان مرحوم (فاضل نصرۃ العلوم) ایک عرصہ خطیب رہے ہیں۔ انہوں نے بہت دفعہ تقاضہ کیا مگر ان کی زندگی میں وہاں حاضری مقدر میں نہ تھی۔ وہ کچھ عرصہ قبل وفات پا چکے ہیں، خیال تھا کہ ان کے بچوں سے ملاقات ہو جائے گی مگر وہ وہاں سے فاصلے پر رہائش پذیر ہیں، ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔

ناران پہنچے تو پروگرام یہ بنا کہ آج شام کو قریب ہی لالہ زار کی سیرگاہ تک جائیں گے اور کل صبح جھیل سیف الملوک دیکھیں گے۔ مگر لالہ زار سے واپسی پر یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ شنکیاری میں مولانا جمیل الرحمان فاروقی کے جواں سال بھتیجے اسد الرحمان کو ابھی کچھ دیر پہلے کسی نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم سیر کا باقی ماندہ پروگرام ختم کر کے صبح نماز کے بعد واپس روانہ ہوگئے۔ مجھے ظہر کے بعد شوہال بالاکوٹ کی جامع مسجد قبا میں ’’تحریک انسداد سود‘‘ کے حوالہ سے ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا اس لیے فاروقی صاحب اور ان کے بھائی مجھے شوہال میں اتار کر شنکیاری کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ظہر کے بعد ان کے شہید بھتیجے کا جنازہ تھا۔ جبکہ اسلام آباد سے مولانا مسعود احمد کے ہمراہ مولانا ثناء اللہ غالب، مولانا حافظ سید علی محی الدین اور جناب سعید اعوان شوہال پہنچ گئے۔

مسجد قبا میں مولانا محمد صابر نے سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے حوالہ سے جلسہ رکھا ہوا تھا جس میں مقررین نے اظہار خیال کیا۔ شوہال آتے ہوئے بالاکوٹ میں ہم نے امیر المجاہدین حضرت سید احمد شہیدؒ کی قبر پر حاضری دی، دعا کی سعادت حاصل کی اور کچھ دیر مجاہدین آزادی کی یاد تازہ کرتے رہے۔ رات ہم نے گڑھی حبیب اللہ میں مولانا مسعود احمد کے مدرسہ ابوہریرہؓ میں بسر کی۔ انہوں نے صبح دس بجے علاقہ کے علماء اور دینی راہ نماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کر رکھا تھا جس میں مولانا ثناء اللہ غالب اور راقم الحروف نے سود کی حرمت اور پاکستان میں سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کے مختلف مراحل پر گفتگو کی۔

اس کے بعد ہم ایبٹ آباد کی طرف روانہ ہوگئے جہاں جامع مسجد عثمان غنیؓ گھاس منڈی میں مولانا مفتی عبد العلیم نے سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے حوالہ سے اجتماع کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے لیے مولانا ثناء اللہ غالب اسلام آباد میں دوستوں کا حلقہ منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ماڈل ٹاؤن ہمک کی جامع مسجد الیاس کے خطیب ہیں اور دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ دینی جدوجہد کا تحریکی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ راقم الحروف نے ان اجتماعات میں جو گفتگو کی اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں سود کے لین دین کو بنی اسرائیل کے ملعون ہونے کے اسباب میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’واخذھم الربوا وقد نھوا عنہ‘‘ کہ انہیں سود سے منع کیا گیا تھا مگر وہ باز نہیں آئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت برسی۔ قران کریم میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ سود اور تجارت کو ایک جیسی بات کہتے ہیں وہ غلط کہہ رہے ہیں ’’واحل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات‘‘ اللہ تعالیٰ سود کے ذریعہ رقم کو بے برکت اور ڈی ویلیو کر دیتے ہیں جبکہ صدقہ کی صورت میں رقم کی قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بے برکتی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں: مثلاً مال کسی نقصان میں ضائع ہو جائے، بے مقصد کاموں پر خرچ ہو جائے، یا وہ کام جو کم مال خرچ کرنے سے ہو سکتے ہوں ان پر زیادہ مال خرچ ہو جائے وغیرہ۔ یوں سمجھ لیں کہ بے برکتی ہماری مصنوعی کرنسی کی طرح ہے کہ گنتی بڑھتی جاتی ہے مگر افادیت اور قدر مسلسل کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ دیگر حرام چیزوں کی طرح سود کوئی عام نوعیت کا حرام نہیں ہے بلکہ سودی کاروبار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ دوسرے لفظوں میں سودی لین دین صرف قانون شکنی نہیں بلکہ خدائی نظام کے خلاف بغاوت شمار ہوتا ہے۔

جناب نبی اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کو اپنی ریاست کا شہری تسلیم کرتے ہوئے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ سود کا کاروبار نہیں کریں گے، اگر انہوں نے سودی کاروبار کیا تو یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ یعنی کسی مسلم ریاست میں غیر مسلموں کو بھی سودی لین دین کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح بنو ثقیف نے اسلام قبول کرنے کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو شرائط پیش کی تھیں ان میں دیگر شرائط کے ساتھ سود کے کاروبار کی اجازت کی شرط بھی شامل تھی۔ مگر جناب رسول اللہؐ نے یہ شرائط مسترد کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اسلام اور اس کے احکام پورے کے پورے قبول کرنا ہوں گے۔

چنانچہ انہی احکام شرعیہ کی وجہ سے دستور پاکستان میں حکومت کو ملک سے سودی نظام کے جلد از جلد خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ ملک میں اسلامی اصولوں کے مطابق معاشی نظام تشکیل دیا جائے۔ جبکہ سپریم کورٹ کا واضح حکم بھی موجود ہے مگر اس کے باوجود ابھی تک سودی نظام سے نجات کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔

اس لیے ملک کے تمام دینی و سیاسی حلقوں سے اپیل ہے کہ وہ اس لعنت کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کرنے والوں سے بھرپور تعاون کریں۔ احباب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک انسداد سود کے سلسلہ میں مولانا محمد رمضان علوی، مولانا ثناء اللہ غالب، مولانا عبد الرؤف محمدی، مولانا محمد سیف الدین، مولانا حافظ سید علی محی الدین اور جناب سعید اعوان پر مشتمل گروپ مصروف عمل ہے جن سے مولانا محمد رمضان علوی کے فون نمبر ۰۳۳۳۵۱۳۱۰۶۲ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter