(جمعیۃ علماء اہل سنت ضلع گجرات کے زیراہتمام منعقدہ سیرت کانفرنس سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے اور آپ سب کے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ ہم یہاں جناب سر ور کائناتؐ کے ذکر مبارک کے لیے جمع ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے تذکرہ کے حوالہ سے مل بیٹھے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارا مل بیٹھنا قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق دیں، اور جو بات دین کی علم میں آئے اس پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین۔
جناب سرور کائناتؐ کا تذکرہ جس حوالہ سے بھی ہو اور جس پہلو سے بھی ہو باعث برکت ہے، باعث ثواب ہے، باعث رحمت ہے، باعث ہدایت ہے، اور آنحضرتؐ کے ذکر مبارک سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ میرے سامنے آپ میرے کسی دوست کا اچھے انداز میں تذکرہ کریں گے تو مجھے خوشی ہو گی، اللہ تعالیٰ کے حبیب کا ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوتے ہیں اور رحمت و برکات سے نوازتے ہیں۔ حضور نبی اکرمؐ کے ذکر سے اجر و ثواب بھی ہوتا ہے، رحمت و برکت کا نزول بھی ہوتا ہے، اور ہدایت و راہنمائی بھی ملتی ہے۔ بلکہ سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ ہم سرور کائناتؐ کا ذکر کر کے ان کی سنت و سیرت سے راہنمائی حاصل کریں، اسی سے ہمیں دنیا و آخرت کی سعادت اور نجات حاصل ہو گی۔
جناب نبی اکرمؐ کے تذکرہ کے سینکڑوں پہلو ہیں اور ہر پہلو کے بیسیوں رخ ہیں، اس لیے سیرت طیبہ پر گفتگو کرنے والوں کو سب سے پہلے اس امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ سیرت مبارکہ کا کون سا پہلو بیان کیا جائے اور کون سا پہلو چھوڑ دیا جائے؟ جبکہ یہ ’’کون سا چھوڑ دیا جائے‘‘ کا پہلو زیادہ آزمائش والا ہوتا ہے کہ حبیبِ خدا کی سیرت کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں جسے چھوڑ دینے کا آسانی کے ساتھ فیصلہ کیا جا سکے، مگر ظاہر ہے کہ مختصر وقت میں بات صرف ایک ہی پہلو پر ہو سکتی ہے اور وہ بھی اختصار کے ساتھ۔ اس لیے میں آج کی اس محفل میں آپ حضرات کے سامنے سیرت طیبہؐ کے صرف ایک پہلو پر چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا کہ کیا جناب نبی اکرمؐ کا منصب صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا دین اور احکام پہنچا دیں یا دین میں خود بھی کوئی اتھارٹی رکھتے تھے؟
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرمؐ کی اطاعت کا حکم اور اس کے ساتھ ساتھ اتباع کا حکم بھی دیا ہے۔ اطاعت کا معنٰی ہے حکم ماننا جبکہ اتباع کا مفہوم اس سے کچھ مختلف ہے جس میں حکم ماننے کے ساتھ نقش قدم پر چلنا بھی شامل ہے، جسے ہم ’’فالو‘‘ کرنا کہتے ہیں۔ نبی اکرمؐ جو حکم دیں اس کی تعمیل ہم پر ضروری ہے اور جس طریقے سے وہ کام کر کے دکھائیں اس کی پیروی بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یعنی جو حکم وہ دیں وہ مانیں اور جیسے وہ کریں ویسے ہم کریں۔ دین میں جس طرح قرآن کریم اتھارٹی ہے اسی طرح جناب اکرمؐ بھی اتھارٹی ہیں اور قرآن کریم نے ’’اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول‘‘ (سورہ النساء ۵۹) کہہ کر دونوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ آج کے دور میں یہ بیماری مسلسل پھیلتی جا رہی ہے کہ جب کوئی مسئلہ بیان کیا جائے، خواہ وہ جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے حوالہ سے ہی بیان کیا جائے، تو کوئی نہ کوئی صاحب یہ سوال کر دیتے ہیں کہ کیا یہ مسئلہ قرآن کریم میں ہے؟ بظاہر یہ سوال اس لیے ہوتا ہے کہ قرآن کریم سے بھی یہ مسئلہ بیان ہو جائے لیکن اس کے پیچھے اکثر یہ ذہن کار فرما ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر قرآن کریم اس مسئلہ میں خاموش ہے تو پھر اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات بہت خطرناک ہے کیونکہ کسی مسئلہ میں یہ شرط لگانا کہ وہ صرف قرآن کریم سے بیان کیا جائے اس سے جناب نبی اکرمؐ کے خود اتھارٹی ہونے کی نفی ہوتی ہے، العیاذ باللہ۔
یہ سوال کہ کسی مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا جائے کہ کیا یہ قرآن کریم میں موجود ہے؟ بہت پرانا ہے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک بار بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے کسی شخص کو دیکھا کہ وہ طواف کر رہا ہے اور اس نے احرام کی دو چادریں باندھنے کے علاوہ کوئی سلا ہوا کپڑا بھی پہن رکھا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اسے متوجہ کر کے فرمایا کہ بھائی! احرام کی حالت میں مرد کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں ہے، اس نے پلٹ کر سوال کیا کہ کیا یہ مسئلہ قرآن کریم میں ہے؟ میں اس موقع پر عرض کیا کرتا ہوں کہ کوئی ہمارے جیسا ڈھیلا ڈھالا مولوی ہوتا تو کہتا کہ جی یہ مسئلہ قرآن کریم میں تو نہیں ہے، مگر وہ بہت تگڑا مولوی تھا، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تھے۔ فرمایا کہ ہاں یہ مسئلہ قرآن کریم میں موجود ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا‘‘ (سورۃ الحشر ۷) اور جناب نبی اکرمؐ سے میں نے خود سنا ہے کہ احرام کی حالت میں مرد کے لیے سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے۔
جناب نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ اور رسول ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جو کہیں وہ کرو اور جس سے روکیں رک جاؤ، اس لیے کہ نمائندہ اور رسول کی حیثیت سے جناب نبی اکرمؐ کی ہر بات اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے تو اس سوال کا جواب اس انداز سے دیا مگر حضرت عمران بن حصینؓ اس قسم کے سوال پر غصے میں آگئے تھے۔ مسند دارمی کی ایک روایت کے مطابق ان سے کسی شخص نے کوئی مسئلہ پوچھا اور ساتھ شرط لگا دی کہ مسئلہ قرآن کریم سے بیان فرمائیں۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس سوال کو پسند نہیں کیا اور الٹا اس شخص سے سوال کر دیا کہ تم نے آج صبح کی نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں؟ اس نے جواب دیا کہ دو رکعتیں پڑھی تھیں، پوچھا کہ کیا صبح کی دو رکعتوں کا ذکر قرآن کریم میں ہے؟ قرآن کریم تو نہ نمازوں کی تعداد بیان کرتا ہے، نہ رکعتوں کا ذکر کرتا ہے اور نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ ایک رکعت میں سجدے کتنے ہیں اور رکوع کتنے ہیں؟ یہ ساری تفصیلات جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ سے ملتی ہیں، اس لیے جس طرح قرآن کریم کے حکم پر نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح جناب نبی اکرمؐ کی بتلائی ہوئی تفصیلات اور طریقے کے مطابق نماز پڑھنا بھی فرض ہے۔ یہی صورتحال باقی فرائض مثلاً زکوٰۃ، روزہ اور حج کی بھی ہے۔
میں اس کی ایک مثال اور بھی دینا چاہوں گا کہ حالت سفر میں نماز دوگانہ پڑھنے کا حکم ہے مگر قرآن کریم میں اس اجازت کے ساتھ یہ شرط ہے ’’لا جناح علیکم ان تقصروا من الصلوٰۃ ان خفتم أن یفتنکم الذین کفروا ‘‘ (سورہ النساء ۱۰۱) سفر میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر تم دشمن کی طرف سے آزمائش میں ڈالے جانے کا خوف رکھتے ہو۔ یعنی اگر دشمن کا خوف ہو تو نماز دوگانہ پڑھ سکتے ہو، اس کا ظاہری مطلب یہ بنتا ہے کہ قصر نماز کا تعلق حالت جنگ اور حالت خوف سے ہے اور حالت امن میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اشکال سب سے پہلے حضرت عمرؓ کے ذہن میں آیا جب وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرمؐ کے ساتھ تھے، سارے سفر میں آتے ہوئے اور جاتے ہوئے جناب نبی اکرمؐ نے دوگانہ نماز پڑھی۔ حضرت عمرؓ کو خیال آیا کہ فتح مکہ اور جزیرۃ العرب پر غلبہ اور کنٹرول کے بعد تو حالت خوف باقی نہیں رہی اور خاص طور پر حجۃ الوداع کا سفر اسلام کے غلبہ اور قوت کے بھر پور اظہار کا سفر ہے، اب ہم دوگانہ نماز کیوں پڑھ رہے ہیں جبکہ قرآن کریم نے قصر نماز کو ’’ان خفتم أن یفتنکم الذین کفروا‘‘ کے ساتھ مشروط کیا ہے؟ انہوں نے اس اشکال کا تذکرہ جناب نبی اکرمؐ سے کیا تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہربانی ہے، اسے واپس کیوں کر رہے ہو؟ میں اس کا ترجمہ یوں کیا کرتا ہوں کہ ہم حالتِ امن میں قصر کر رہے ہیں اور وحی کا سلسلہ بھی جاری ہے مگر اللہ تعالیٰ اس سے منع نہیں فرما رہے تو تم اس مہربانی پر اشکال کا اظہار کیوں کر رہے ہو؟
میں یہاں جس بات پر بطور خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حالت خوف میں قصر نماز ہم قرآن کریم کے حکم کے مطابق پڑھتے ہیں مگر حالت امن میں قصر نماز جناب نبی اکرمؐ کی سنت کی وجہ سے پڑھتے ہیں، اور دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس لیے کہ جس طرح قرآن کریم دین میں اتھارٹی ہے اسی طرح جناب نبی اکرمؐ بھی اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندہ ہونے کی وجہ سے اتھارٹی ہیں، اور جس طرح قرآن کریم کے حکم سے کوئی عمل واجب ہوتا ہے اسی طرح جناب نبی اکرمؐ کے حکم سے بھی عمل واجب ہو جاتا ہے، کیونکہ جناب نبی اکرمؐ کا کوئی بھی ارشاد یا عمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نکیر نہ ہونے کی صورت میں حکماً وحی کا درجہ اختیار کر لیتا ہے اور وحی کی خاموشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم بن جاتا ہے۔
حضرت امام شافعیؒ اس مسئلہ میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئے ہیں، تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت امام شافعیؒ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا حالت احرام میں بھڑ مارنا جائز ہے؟ تو فرمایا کہ ہاں جائز ہے۔ سوال ہوا کہ کیا یہ قرآن کریم میں ہے؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’وما اٰتاکم الرسول فخذوہ‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم پر میرے ساتھ میرے خلفاء راشدینؓ کی سنت بھی لازم ہے‘‘۔ یہ مسئلہ حضرت عمرؓ نے بتایا کہ حالتِ احرام میں بھڑ مارنا جائز ہے۔ گویا حضرت عمرؓ کا فرمان جناب نبی اکرمؐ کا فرمان ہے اور نبی اکرمؐ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
یہاں ایک فرق کی وضاحت ضروری ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا ہر ارشاد براہ راست قرآن کریم کا حصہ تو نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ارشاد گرامی ’’وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا‘‘ کے مطابق قرآنی تعلیمات کا حصہ ضرور ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ارشاد کا مطلب یہی ہے اور حضرت امام شافعیؒ کے فرمان کا مقصد بھی یہی ہے۔ جبکہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت جناب نبی اکرمؐ نے خود بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’الا وانی أوتیت القرآن ومثلہ معہ‘‘ خبردار مجھے قرآن کریم بھی دیا گیا ہے اور اس جیسے اور احکام بھی دیے ہیں۔ اسی ارشاد گرامی میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس چیز کو میں حرام قرار دیتا ہوں وہ بھی ویسے ہی حرام ہے، جیسے وہ چیز حرام ہے جسے قرآن کریم نے حرام کہا ہے۔
اس موقع پر ایک صاحب نے چٹ کے ذریعے سوال کیا کہ جناب نبی اکرمؐ نے اپنے اوپر شہد حرام کیا تھا جس سے قرآن کریم نے منع فرما دیا تھا، اس کا جواب مولانا زاہد الراشدی نے یہ دیا کہ جناب نبی اکرمؐ کی حیات طیبہ میں صورتحال یہ تھی کہ آپ کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہوتی تو اس پر وحی کے ذریعہ نکیر ہو جاتی تھی، اور ایسی چند باتوں کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے۔ لیکن جناب نبی اکرمؐ کے وصال اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد آپؐ کا ہر وہ ارشاد اور عمل وحی کا درجہ اختیار کر گیا ہے جس پر آپؐ کی زندگی میں وحی کے ذریعہ نکیر نہیں ہوئی۔ مثلاً قرآن کریم نے خنزیر کو حرام کیا ہے مگر کتے کا ذکر نہیں کیا، اور کتے کے حرام ہونے کا اعلان جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا تھا جس پر وحی خاموش رہی ہے، اس لیے جیسے خنزیر حرام ہے اسی طرح کتا بھی حرام ہے۔
حضرات محترم! میں نے جناب نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے صرف ایک پہلو پر مختصرًا کچھ گزارشات پیش کی ہیں کہ نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف پیغامات پہنچانے کے لیے نہیں آئے تھے بلکہ وحی اور پیغامات پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کے لیے نمونہ اور اسوہ بھی تھے اور دین پر عملدرآمد کے حوالہ سے آئیڈیل اور اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے جس طرح قرآن کریم کے ارشادات کی تعمیل ضروری ہے اسی طرح جناب نبی اکرمؐ کے فرمودات اور سنتوں کی پیروی بھی لازم ہے، بلکہ قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ ’’من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ‘‘ (سورہ النساء ۸۰) جس نے رسول اللہؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی وہی قبول ہو گی جو جناب نبی اکرمؐ کی اتباع کی صورت میں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔