امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورِ خلافت کو خلافت راشدہ کا عکس اور تتمہ کہا جاتا ہے اور خود انہیں امت مسلمہ کا مجدد اول شمار کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک صدی کے دوران دین حنیف کی ترویج و تنفیذ کے سلسلہ میں پیدا ہو جانے والی کمزوریوں کا ادراک کیا اور اپنے مختصر دور میں اس کی تجدید کر کے امت کو پھر سے پرانی راہوں پر لوٹا دیا۔ وہ پہلی صدی ہجری کے اختتام پر برسرِ اقتدار آئے اور اڑھائی برس حکومت کر کے دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہی جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کے تجدیدی کارناموں میں جن امور کا بطور خاص تذکرہ کیا جاتا ہے، ان میں چند ایک درج ذیل ہیں:
- انہوں نے طرز حکمرانی کو یکسر تبدیل کر کے حضرت عمرؓ کی حکومتی روایات کا نمونہ از سرِ نو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
- انہوں نے خلافت کی عمومی بیعت سے پہلے مجمع عام میں اعلان کیا کہ چونکہ ان کو خلیفہ مقرر کرنے میں دیگر بہت سے امور کی طرح عام مسلمانوں سے مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا اس لیے وہ یہ خلافت عوام کو واپس کرتے ہیں، وہ جسے چاہیں اپنا خلیفہ چُن لیں۔ ان کے اس اعلان کے بعد لوگوں نے بیک آواز انہی کو اپنا خلیفہ منتخب کرنے کا اعلان کیا اور پھر ان کی بیعت ہوئی۔
- انہوں نے بیت المال کے اثاثوں کو حکمران طبقہ کے خاندانوں کے قبضہ سے واپس لے کر بیت المال کا وہ نظام پھر سے بحال کر دیا جو خلافت راشدہ کے دور میں تھا، وغیر ذلک۔
لیکن علمی دنیا میں ان کا سب سے بڑا تجدیدی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اقوال اور احادیث و سنن کو سرکاری طور پر جمع کرنے کا بندوبست کیا اور مختلف اطراف کے اہل علم کو ہدایت کی کہ وہ احادیث و سنن کے بکھرے ہوئے ذخیروں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے جمع اور مرتب کرنے کا اہتمام کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرات صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کو عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے اور ان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالے کی بھی تلقین کی اور اس مقصد کے لیے بعض اہل علم کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مساجد میں عام لوگوں کے سامنے حضرات صحابہ کرامؓ کے فضائل بیان کریں اور ان کی تعلیمات و ارشادات کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔
یہ حضرات صحابہ کرامؓ کا آخری دور تھا، امت کے اس عظیم طبقہ کو امت کی راہ نمائی کرتے ہوئے ایک صدی کا عرصہ گزر چکا تھا اور ان میں سے چند بزرگ ہی باقی رہ گئے تھے۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان اس دوران متعدد امور پر اختلافات بھی ہوئے، تنازعات بھی پیدا ہوگئے، جھگڑے اور لڑائیاں بھی ہوئیں اور مختلف طبقات بھی سامنے آئے جو انسانی سوسائٹی اور معاشرت کا فطری تقاضہ تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود حضرات صحابہ کرامؓ کی مجموعی حیثیت امت مسلمہ کے سامنے اسوہ اور معیارِ حق کی رہی ہے۔ اور امت مسلمہ نے ہر دور میں صحابہ کرامؓ کو ایک آئیڈیل جماعت اور طبقہ قرار دیتے ہوئے دینی و معاشرتی معاملات میں ان سے یکساں راہ نمائی حاصل کی ہے۔ حضرت عائشہؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اور دیگر بزرگ صحابہ کرامؓ کے درمیان سیاسی تنازعات اور لڑائیوں کے باوجود ان کی علمی و دینی راہ نمائی کے مقام کے بارے میں کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا ، لیکن کچھ لوگوں کی طرف سے دینی راہ نمائی کے باب میں حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں شکوک و شبہات ضرور کھڑے ہونا شروع ہوگئے تھے اور دھیرے دھیرے ایسے سوالات سامنے آنے لگے تھے جن کا ازالہ کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اسے امور خلافت کا حصہ سمجھتے ہوئے صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کے عمومی تذکرہ اور ان کی عقیدت و صحبت کو لوگوں کے دلوں میں بیدار کرنے کے لیے عمومی وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کرایا، جس سے امت میں فضائل صحابہ کرامؓ کا تذکرہ اور ان کی مدحت و منقبت کا چرچا دینی فرائض میں شمار ہونے لگا۔ ہر دور میں محدثین کرامؒ اور مورخین عظامؒ نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔
حضرات صحابہ کرامؓ قیامت تک امت مسلمہ کے لیے بلا امتیاز معیارِ حق اور اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف نزول قرآن کریم کے عینی شاہد ہیں بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اعمال اور احادیث و سنن کے بھی براہ راست راوی ہیں۔ اس لیے ان کے عدل و وثوق پر غیر مشروط اعتماد ہی دین کے اصل مآخذ و روایات کے محفوظ و مامون ہونے کی بنیاد ہے اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت امت مسلمہ کے ایمان و عقیدہ کی علامت ہے۔ اسی وجہ سے محدثین کرامؒ نے حدیث کی کتابوں میں حضرات صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کے مستقل ابواب قائم کیے اور ان کے تذکروں پر ضخیم کتابیں تصنیف کیں، جس کا تسلسل آج تک قائم ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح قائم رہے گا اور اصحاب علم و عزم ہمیشہ اس بحر علم کی غواصی کرتے رہیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ہمارے ایک فاضل دوست مولانا ثناء اللہ سعد بھی اسی بحرِ دخار کے غوطہ زن ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی مختلف تحقیقی کاوشیں ہماری نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کی ہزاروں آیات کریمہ میں مختلف حوالوں سے حضرات صحابہ کرامؓ کے تذکرہ کو موضوع بحث بنایا ہے اور ’’اصحاب النبی الکریم فی آیات القرآن الحکیم‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے جو تین جلدوں میں ہے اور دو ہزار سے زائد صفحات کو محیط ہے۔ انہوں نے ترتیب کے ساتھ قرآن کریم کی کم و بیش سب سورتوں کو سامنے رکھا ہے اور جن آیات کریمہ میں انہیں صحابہ کرامؓ کا کسی بھی طور پر تذکرہ نظر آیا ہے ان کو نقل کر کے اپنے ذوق کے مطابق ان کی وضاحت و تشریح کر دی ہے جو ایک قابل قدر علمی کاوش ہونے کے ساتھ ساتھ آج کے دور میں نوجوان علماء کرام اور عام پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ایک اہم دینی ضرورت بھی ہے جس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
صحابہ کرامؓ کے تذکرہ و منقبت پر یہ ضخیم کتاب میرے لیے خوشی کا باعث بنی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ اس کتاب کے آخر میں ان کے اس اعلان نے میری خوشی میں اضافہ کیا ہے کہ وہ (’’تاریخ شیعیت‘‘ سیاست و مذہب کے تناظر میں) کے عنوان سے دو ضخیم جلدوں میں ایک اور کتاب مرتب کر رہے ہیں جس کی فہرست کے عنوانات دیکھ کر میرے دل سے ایک بوجھ سا اتر گیا ہے۔ میں ایک عرصہ سے اس محاذ پر کام کرنے والے بعض اصحابِ ذوق کو ابھار رہا ہوں کہ وہ جوش و جذبہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ تحقیقی کاموں کی طرف بھی توجہ دیں اور کم و بیش انہی خطوط پر کام کرنے کی میں ان دوستوں کو تلقین کرتا آرہا ہوں جو مجھے اس زیر ترتیب کتاب کے بیان کردہ عنوانات کی فہرست میں نظر آئی ہے۔ اگر یہ کتاب اسی ترتیب کے ساتھ سامنے آگئی جو اس کی فہرست سے ظاہر ہے تو ہمارے سروں سے تاریخ کا ایک قرض اتر جائے گا اور ہم آنے والے دور میں اہل السنۃ والجماعۃ کی زیادہ بہتر طور پر راہ نمائی کر سکیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔