روزنامہ جنگ لندن ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء کی ایک خبر کے مطابق برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ممبر لارڈ احمد آف رادھرم نے ایک مراسلہ کے ذریعے برطانوی دفترِ خارجہ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان، اور انڈونیشیا و ملائیشیا کی مسلم حکومتوں کو پاپانیوگنی کی مسلم اقلیت کی حالتِ زار کی طرف توجہ دلائی ہے، اور اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وہاں کی حکومت اسلام کو غیر قانونی مذہب قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔
پاپانیوگنی انڈونیشیا اور ملائیشیا کے درمیان ایک جزیرہ ہے جس کی آبادی پچاس لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے، جس میں غالب اکثریت عیسائیوں کی ہے اور صرف سولہ سو مسلمان وہاں آباد ہیں۔ خبر کے مطابق جزیرہ کی حکومت پر عیسائی آبادی کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اسلام کو غیر قانونی مذہب قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی جائے۔ جس پر لارڈ احمد آف رادھرم نے مذکورہ راہنماؤں اور حکومتوں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر اس جزیرہ میں ایسا ہوا تو یہ نہ صرف مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے منافی ہو گا، بلکہ اس کا ردعمل ان ممالک میں ظاہر ہو سکتا ہے جہاں عیسائی اقلیت میں ہیں۔
اس سے قبل انڈونیشیا میں جس طرح منظم پروگرام کے تحت مسلم مسیحی فسادات کا جال پھیلایا گیا ہے، اور مشرقی تیمور میں مسیحی آبادی کو ابھار کر ریفرنڈم کے ذریعے اسے انڈونیشیا سے الگ کرنے کی جو کاروائی سامنے آ چکی ہے، اس کے پس منظر میں اسی علاقہ کے اس جزیرہ کے بارے میں اس خبر سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشرقِ بعید کے ان مسلم ممالک میں مسیحی مشنریوں اور ان کی ہمنوا این جی اوز کا اصل دائرہ کار کیا ہے۔ اور وہ کس طرح مسلم اکثریت کے علاقوں اور ممالک میں ان کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کرنے میں مصروف کار ہیں۔
خبر کے مطابق لارڈ احمد آف رادھرم کو پاپانیوگنی کے باشندے محمد صدیق نے اس صورتحال سے آگاہ کیا ہے، جو نسلاً انگریز ہے مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران مسلمان ہو گیا تھا، اور اپنے خاندان سمیت اس جزیرہ میں مقیم ہے۔ بہرحال ہم لارڈ احمد آف رادھرم کے اس خط کا خیرمقدم کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بھی اس جزیرہ کی چھوٹی سی مسلم اقلیت کو کسی ناگہانی آفت سے بچانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔