چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ― دورِ اول کے مدعیانِ نبوت

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۰۱۸ء

بعد الحمد والصلوٰۃ- حضرات علماء کرام! آج منحرف مذاہب کے حوالے سے بات کریں گے۔ منحرف مذاہب سے مراد وہ مذاہب ہیں جو نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ میں نے ان کو منحرف مذاہب کا عنوان صرف فرق بتانے کے لیے دے رکھا ہے ورنہ تو یہ غیرمسلموں میں ہی ہیں۔ یہ اس وقت کون کون سے ہیں؟

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپؐ کے بعد اب تک بہت سے لوگوں نے مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں نبوت اور نئی وحی کا دعویٰ کیا۔ آنحضرتؐ نے اپنی امت میں تیس مدعیان نبوت کی پیشینگوئی بھی فرمائی تھی۔ ”سیکون فی امتی“ میری امت کہلانے والے۔ ”ثلاثون کذابون دجالون“ اور ایک روایت میں ”سبعون کذابون دجالون“ بھی ہے کہ نبوت کے ستر دعویدار پیدا ہوں گے۔ ”یزعم انہ نبی“ دعویٰ یہ کریں گے کہ ہم اللہ کے نبی ہیں، جبکہ میں ہی آخری نبی ہوں۔

پہلے میں ان کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو دور نبویؐ اور دور صحابہؓ میں مدعیان نبوت تھے۔ یہ کون کون تھے اور ان کا دعویٰ کیا تھا اور حضورؐ اور صحابہؓ کا ان کے ساتھ طرز عمل کیا تھا۔ وہاں سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے کہ اگر کسی مسلم سوسائٹی میں کوئی نبوت اور وحی کا دعویٰ کرے تو مسلم سوسائٹی کا اس کے بارے میں کیا طرز عمل ہونا چاہیے۔ رسول اللہؐ کے زمانے میں تین شخصوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، مسیلمہ، طلیحہ اور اسود عنسی۔ چوتھی ایک خاتون ہے سجاح، جس نے آپؐ کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔

(۱) مسیلمہ

مسیلمہ یمن حجاز کے علاقے کا تھا، بنو حنیفہ قبیلے کا سردار تھا، اسے اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا، اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی۔ جناب نبی کریمؐ کی نبوت، وحی اور دین کا دائرہ پھیلتے دیکھ کر اسے شوق آیا کہ میں بھی ایک علاقے کا بڑا آدمی ہوں، اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور ”الفاروق“ کے نام سے وحی کا مجموعہ بھی بنایا، اس کی بہت سی آیات نشانی اور علامت کے طور پر مختلف مفسرین نے نقل کی ہیں۔ لیکن ایک بات جو عام طور پر ہم نظرانداز کر جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیلمہ نے آپؐ کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ آپؐ کے مقابلے پر نہیں کیا بلکہ حضورؐ کی تابعداری کے دعوے کے ساتھ کیا۔ وہ پہلے آنحضرتؐ کی رسالت کا اقرار کرواتا تھا اور پھر اپنی نبوت و رسالت کی بات کرتا تھا۔ وہ آپؐ کی نبوت کی نفی کر کے نبوت کا مدعی نہیں تھا۔ احادیث میں اس کے بہت سے قرائن موجود ہیں۔

پہلے شہیدِ ختمِ نبوت حبیب بن زید انصاریؓ جنہوں نے مسیلمہ کذاب کے ہاتھوں شہادت پائی، ان کو جب مسیلمہ کے سامنے پیش کیا گیا تو مسیلمہ نے ان سے جو سوال کیے ان میں پہلا سوال تھا ”اتشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ؟“۔ فرمایا ”اشھد ان محمدًا رسول اللّٰہ“۔ پھر سوال کیا ”اتشھد انی رسول اللّٰہ؟“ فرمایا، نہیں۔ اس پر اس نے آپؓ کو شہید کیا۔

بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت سے وہ خط مذکور ہے جو مسیلمہ نے آپؐ کو لکھا تھا، اس خط کا عنوان تھا ”من مسیلمۃ رسول اللّٰہ الی محمد رسول اللّٰہ“ مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ آگے خط کا مضمون یہ تھا ”اشرکت معک فی الامر ولٰکن قریشا قوما یعتدون“ مجھے نبوت کے معاملے میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے لیکن قریش بڑے ظالم لوگ ہیں کسی کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ یعنی اس کا دعویٰ شریک نبی کا تھا، حضورؐ کی نبوت کے ساتھ شراکت کا تھا۔

اس کے سفیر جو اس کا خط لے کر آپؐ کی خدمت میں آئے تھے، ان سے جناب نبی کریمؐ نے پوچھا ”اتشھد ان انی رسول اللّٰہ؟“ تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو انہوں نے کہا ”نشھد انک رسول اللّٰہ“ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر آپؐ نے ان سے پوچھا ”اتشھد ان مسیلمۃ رسول اللّٰہ؟‘ کیا تم مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا ”نعم نشھد ان مسیلمۃ رسول اللّٰہ“ ہم مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول مانتے ہیں۔ حضورؐ نے ان کے جواب میں ایک جملہ ارشاد فرمایا، وہی ہمارے دینی ردعمل اور دینی فیصلے کی بنیاد ہے۔ فرمایا ”لولا ان الرسل لا تقتل لضربتا عناقکما“ اگر یہ قاعدہ قانون نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا کہ مجھے رسول ماننے کے بعد کسی اور کو اللہ کا رسول ماننا یہ تو ارتداد ہے اور ارتداد کی سزا قتل ہے۔ لیکن چونکہ بین الاقوامی ضابطہ ہے کہ قاصد کو قتل نہیں کیا جاتا اس لیے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔

اس پر السنن الکبریٰ میں امام بیہقیؒ نے حضرت عثمانؓ کے زمانے کا واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوفہ میں منصب قضا پر فائز تھے، ایک دن آپؓ کوفہ کے بازار میں جا رہے تھے کہ ایک شخص پر نظر پڑی۔ شک پڑنے پر اسے بلوایا اور فرمایا تجھے کہیں دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مسیلمہ کا خط لے کر جو دو آدمی حضورؐ کی خدمت میں آئے تھے، ان میں ایک تم تھے۔ اس کا نام ابن نواحہ تھا۔ اس نے کہا، ہاں ان دو میں سے ایک میں تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے پوچھا کیا اب بھی مسیلمہ کو اللہ کا رسول مانتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی مانتا ہوں۔ آپؓ نے پوچھا اب تم کسی قوم کے سفیر تو نہیں ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ اس پر اسے گرفتار کر لیا اور ضابطے کے مطابق تین دن کی مہلت دی، تین دن تک اس نے توبہ نہ کی تو عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے قتل کرا دیا اور اس کی لاش کوفہ کے بازار میں لٹکا دی کہ حضورؐ کے بعد کسی کو نبی ماننے والے کی سزا یہ ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیلمہ کی نبوت کو ماننے والے حضورؐ کی نبوت کو بھی مانتے تھے۔ اور بھی شواہد ہیں جو میں ابھی نظرانداز کر رہا ہوں۔ چنانچہ مسیلمہ نے خط میں تقاضا بھی یہی کیا کہ اگر آپ مجھے اپنے ساتھ شریک نہیں مانتے تو پھر آپ مجھے اپنا جانشین نامزد کر دیں، یا پھر تقسیم کر لیجیے ”لنا وبر ولک مدر“ شہری حلقے آپ کے اور دیہاتی حلقے میرے۔ یعنی شہروں کے نبی آپ ہوں گے اور دیہاتوں کی نبوت میرے سپرد کر دیں۔

مسیلمہ ایک دفعہ خود جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں بہت بڑا جرگہ لے کر آیا، رسول اللہ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ آپؐ اس سے ملاقات کے لیے جب تشریف لے گئے تو اپنے ساتھ ثابت بن قیس بن شماسؓ کو لے کر گئے جو خطیب الانصار، خطیب رسول اللہ کے القاب سے ملقب تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ مسیلمہ کا بڑا زعم خطابت کا تھا، اور مذاکرات بھی انہی کے حوالے کیے۔ مسیلمہ کی پیشکش کے جواب میں دو جملے فرمائے کہ ”ان الارض للّٰہ یورثھا من یشاء من عبادہ“ (الاعراف ۱۲۸)۔ خلافت دینا، شہر دیہات تقسیم کرنا میرا کام نہیں یہ اللہ کا کام ہے، وہ جس کو چاہے خلافت دے گا، جسے چاہے گا شہر دے گا جسے چاہے گا دیہات دے گا، یہ اللہ کا کام ہے، اس میں مجھے کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور تم ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکو گے، اگر تم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اللہ تمہاری جڑ کاٹ دے گا۔ اس کے بعد فرمایا، میں اپنا نمائندہ ثابت بن قیس چھوڑ کر جا رہا ہوں اب تم جانو اور یہ جانے، باقی مذاکرات اس سے کر لو۔

میں نے اس سے یہ بات واضح کی ہے کہ مسیلمہ کا دعویٰ آپ کی نبوت کو مانتے ہوئے آپ کے ساتھ کارِ نبوت میں شراکت کا تھا۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰہے۔ حضورؐ کے زمانے میں مسیلمہ مقابلے پر نہیں آیا، دور صدیقی میں چونکہ اس کا مطالبہ خلافت کا بھی تھا، وہ مقابلے پر آیا اور پھر جو ہوا تفصیلات آپ کے علم میں ہیں۔

(۲) طلیحہ اسدی

طلیحہ بن خویلد اسدی، بنو اسد قبیلے کا تھا۔ بنو اسد خیبر کے علاقے کا قبیلہ تھا۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا، دعویٰ کر کے لشکر اکٹھا کیا اور بغاوت کر دی۔ جناب نبی کریمؐ نے معروف کمانڈر ضرار بن ازور کو حکم دیا کہ طلیحہ سے جا کر نمٹو۔ یہ گئے اس سے مقابلہ ہوا، طلیحہ شکست کھا کر بھاگ گیا اور بھاگا رہا۔ جب وصال نبویؐ کے بعد مسیلمہ اور مرتدین کے ساتھ جنگیں ہوئیں تو پھر اپنے علاقے میں آیا اور لشکر اکٹھا کر کے مقابلے پر آگیا۔ پہلی جنگ میں معروف صحابی عکاشہ بن محصن فزاری اسدیؓ، جو بڑے کڑیل خوبصورت نوجوان تھے اور طلیحہ کے کزن تھے، ان کا اور طلیحہ کا آمنا سامنا ہوا تو طلیحہ کے ہاتھوں حضرت عکاشہؓ شہید ہو گئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ مسیلمہ کذاب کے لشکر کو شکست دے کر واپس تشریف لا رہے تھے تو حضرت صدیق اکبرؓ نے ان کو حکم دیا کہ راستے میں طلیحہ کا قضیہ بھی نمٹاتے آؤ۔ پھر طلیحہ کا مقابلہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ ہوا، اس میں پھر شکست کھائی، بھاگ گیا اور روپوش ہوگیا۔

ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں تفصیل سے یہ واقعہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں طلیحہ نمودار ہوا لیکن نبوت کے دعوے پر نہیں بلکہ نبوت سے توبہ کر لی۔ اب یہ اس تلاش میں تھا کہ حضرت عمرؓ کے سامنے کوئی ذمہ دار آدمی سفارشی بن کر میرے ساتھ چلے تو میں جا کر توبہ کر لوں، وہ میری بات سنے بغیر ہی کوئی فیصلہ نہ فرما دیں۔ یہ آج کل بھی ہوتا ہے کہ کوئی بڑا مجرم ہو تو سرنڈر ہونے سے پہلے کسی کو درمیان میں ضامن بناتا ہے، تھانے میں پیش ہونے کے لیے بھی، تاکہ پتہ ہو کہ یہ پیش ہوا ہے، ویسے ہی کہیں ”پار“ نہ ہو جائے۔ بہرحال کسی نے اسے بتایا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ اس علاقے میں آئے ہوئے ہیں ان سے مل لو۔ اس نے کہا نہیں! اس کے پاس نہیں جانا وہ تو مجھے مار دے گا، کوئی اور آدمی بتاؤ۔ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عمرو بن العاصؓ ہیں۔ اس نے کہا، ہاں وہ ٹھیک ہیں۔

حضرت عمرو بن العاص میں اللہ تعالیٰ نے تینوں صلاحیتیں رکھی تھیں کہ (۱) جنگ کے آدمی بھی تھے، (۲) میز کے آدمی بھی تھے، (۳) اور ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ حالانکہ اعلیٰ سطح پر یہ تینوں صلاحیتیں بہت کم اکٹھی ہوتی ہیں۔ چنانچہ طلیحہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے پاس آیا اور کہا میں توبہ کرنا چاہتا ہوں اور امیر المؤمنین کے سامنے پیش ہونا چاہتا ہوں، آپ مجھے گارنٹی کے ساتھ حضرت عمرؓ سے ملوا دیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر مدینہ میں حضرت عمرؓ کے سامنے اسے پیش کیا، اس نے اپنا تعارف کرایا کہ میں طلیحہ ہوں۔ فرمایا، میں نے پہچان لیا ہے۔ کیسے آئے ہو؟ اس نے کہا ایمان قبول کرنے آیا ہوں، توبہ کرتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا، توبہ تو تم کر لو گے لیکن میں عکاشہؓ کا کیا کروں گا، مجھے وہ نہیں بھولتا جو تمہارے ہاتھوں جنگ میں مارا گیا۔

طلیحہ بڑا ذہین آدمی تھا، اس نے جواب دیا، حضرت!

  1. کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس کو میرے ہاتھوں جنت میں پہنچا دیا اور مجھے اس کے ہاتھوں جہنم میں نہ جانے دیا۔
  2. دوسری بات اس نے یہ کی کہ حضرت! کیا کل قیامت کے دن آپ کو یہ منظر اچھا نہیں لگے گا کہ میں اور عکاشہ قاتل و مقتول دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جنت میں جا رہے ہوں گے۔

اس کی یہ باتیں سن کر حضرت عمرؓ مسکرائے اور فرمایا، ٹھیک ہے کلمہ پڑھو۔ اس نے کلمہ پڑھا، توبہ کی، ایمان قبول کیا، ایک صالح مسلمان کی حیثیت سے باقی زندگی گزاری، اور ایران کی کسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ صحابہ کرامؓ کا تذکرہ کرنے والے محدثین حافظ ابن حجر، ابن عبد البر، ابن الاثیر وغیرہ نے طلیحہؓ کا ذکر صحابہؓ میں اور شہداء میں کیا ہے۔

(۳) اسود عنسی

تیسرے مدعی نبوت اسود عنسی کا تعلق یمن سے تھا۔ یمن کا علاقہ لڑائی سے فتح نہیں ہوا تھا، اکثر قبائل خود حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے تھے۔ آپؐ نے یمن کے ایک حصے کا گورنر حضرت معاذ بن جبلؓ اور ایک حصے کا گورنر حضرت ابو موسٰی اشعریؓ کو مقرر فرما دیا۔ محصولات کی وصولی کے لیے حضرت علیؓ کو بھیجا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی بعض علاقوں میں گئے، یہ سب حضرات مختلف ڈیوٹیوں پر یمن میں تھے، پورا یمن آپؐ کی حیات مبارکہ میں اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن صنعاء کے ایک سردار عیہلہ یا عبہلہ، جس کا رنگ کالا ہونے کی وجہ سے اسود کہلاتا تھا، نے بغاوت کر دی، اس نے نبوت کا دعویٰ کر دیا، وہ شعبدے بھی دکھایا کرتا تھا، اس کو بھی اپنی خطابت پر ناز تھا۔ اس نے آپؐ کے صنعاء پر مقرر کردہ گورنر شہر بن بازانؓ کو شہید کر دیا، شاہی محل پر قبضہ کر لیا اور اعلان کر دیا کہ یمن کا دارالحکومت میرے قبضہ میں ہے۔

بعض روایات کے مطابق حضورؐ کے چند عمّال یمن سے نکل کر نجران میں آگئے تھے۔ رسول اللہ کی بیماری کا آغاز ہو چکا تھا، آپؐ کے آخری ایام تھے، آپؐ کو خبر ملی کہ اسود نے صنعاء کے علاقے میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے، تو آپؐ نے مجلس میں ذکر کیا کہ کون ہے جو اس کو سنبھالے گا؟ تو یمن کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اسود کے قبیلے کے صحابی حضرت فیروز دیلمیؓ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورؐ کی اجازت سے یمن جا کر ایک جتھہ بنایا، ان سے آمنے سامنے جنگ نہیں کی بلکہ چھاپہ مار کارروائی کی۔ پہلے اہل خانہ سے سازباز کی، سابقہ گورنر کی بیوی جس کا نام آزاد بتاتے ہیں، اسود عنسی نے چھین کر اس کو اپنی باندی بنا لیا تھا جو کہ فیروز دیلمیؓ کی چچازاد تھی، اس سے رابطہ کیا، پلاننگ کر کے رات کو اسے شراب پلائی، جب اس کو نشہ آیا تو قتل کر دیا اور صبح ہوتے ہی محل کی چھت پر چڑھ کر جھنڈا لہرا دیا کہ میں فیروز ہوں میں نے اسود قتل کر دیا ہے اور ہم نے قلعے پر قبضہ کر لیا ہے، سارے واپس آجاؤ۔ اس طرح دوبارہ یمن پر مسلمانوں کا اقتدار بحال ہو گیا۔ اس کے بعد جناب نبی کریمؐ کی خدمت میں خبر بھجوائی لیکن خبر لانے والا قاصد آپؐ کے وصال کے دو دن بعد پہنچا۔ البتہ جناب نبی کریمؐ کو وحی کے ذریعے اسی وقت اطلاع مل گئی تھی۔ حضورؐ نے وصال سے دو دن پہلے بستر علالت پر فرمایا، فاز فیروز، فاز فیروز۔ فیروز اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا، فیروز نے اپنا ٹارگٹ پا لیا۔ جب حضورؐ نے یہ فرمایا تو بہت سے لوگ نہ سمجھ سکے کہ اس فیروز سے کون مراد ہے اور وہ کیسے کامیاب ہوا۔ ان کو تب پتہ چلا جب حضرت فیروز دیلمیؓ آپؐ کی وفات کے چند دن بعد مدینہ پہنچے۔ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو خبر پہنچائی، اس سے لوگوں کو علم ہوا کہ حضورؐ نے جو فرمایا تھا اس کا مطلب کیا تھا۔

(۴) سجاح

چوتھی مدعی نبوت سجاح کا تعلق بنو تغلب سے تھا، وہ بھی بڑی فصیح خطیبہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چالیس ہزار کا لشکر اس نے اکٹھا کر لیا تھا۔ اس زمانے میں قبائلی سسٹم تھا، قبائل ساتھ دیا کرتے تھے۔ جب یہ یمامہ کے قریب پہنچی تو لوگوں نے اسے کہا تم اور مسیلمہ الگ الگ لڑنے کی بجائے اکٹھے کیوں نہیں ہو جاتے؟ آپس میں صلح کر لو اور اکٹھے حملہ کرو تو تم مدینہ والوں کو شکست دے سکتے ہو۔ اس سلسلہ میں دونوں گروپوں کے درمیان صلح کے لیے مذاکرات کا اہتمام کیا گیا۔ سجاح مذاکرات کے لیے مسیلمہ کے خیمے میں گئی اور اس میں سے تین دن کے بعد باہر نکلی اور کہا کہ ہماری صلح ہو گئی ہے، ہم نے آپس میں نکاح کر لیا ہے۔ قوم والوں نے پوچھا، مہر کیا مقرر کیا ہے؟ کہنے لگی یہ تو میں بھول گئی تھی، دوبارہ جا کر پوچھتی ہوں۔ اس نے کہا، مہر یہ ہے کہ تمہاری نمازیں معاف ہیں۔ مسیلمہ اور سجاح کا مجموعی لشکر اَسی ہزار بتایا جاتا ہے۔

مسلمانوں کا پہلا لشکر حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کی قیادت میں گیا، اس نے شکست کھائی اور حضرت صدیق اکبرؓ سے ڈانٹ بھی کھائی۔ دوسرا لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں گیا تو ان کو فتح ہوئی۔ اسی یمامہ کی جنگ میں سب سے زیادہ صحابہؓ شہید ہوئے۔ مسیلمہ کذاب جب قتل ہوا اور اس کے لشکر کو شکست ہوئی تو سجاح روپوش ہو گئی اور بھاگ گئی۔ حضرت معاویہؓ کے زمانے تک روپوش رہی، پینتیس چالیس سال کے بعد ظاہر ہوئی، اس کی وجہ بھی یہ بنی کہ اس کے علاقے میں قحط پڑ گیا، خشک سالی ہو گئی، لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ سجاح دمشق میں امیر المؤمنین حضرت معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی، توبہ کی، ایمان قبول کیا، پھر حضرت معاویہؓ کے حکم سے اس کو کوفہ میں بسایا گیا، وہیں اس نے زندگی گزاری۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی عابدہ، زاہدہ اور صالحہ خاتون بن گئی تھی۔ وہیں فوت ہوئی اور اس وقت کے گورنر حضرت سمرہ بن جندبؓ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔

یہ دور نبویؐ اور دور صحابہؓ کے چار مدعیان نبوت کا میں نے تذکرہ کیا۔ دو حوالوں سے میں ان کا ذکر کیا کرتا ہوں۔ ایک اس حوالے سے کہ حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کا جھوٹے مدعیان نبوت کے متعلق طرزعمل کیا تھا کہ انہوں نے کسی کے دعویٰ نبوت کو قبول نہیں کیا، بلکہ برداشت نہیں کیا۔ اور دوسرے اس حوالے سے قادیانیوں سے کہتا ہوں کہ جو ہونا تھا ہو چکا، جو تم نے کرنا تھا کیا، جو تمہارے ساتھ ہونا تھا وہ ہوا، میں ان کو غوروفکر کی دعوت دیا کرتا ہوں کہ اسود عنسی اور مسیلمہ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے تمہارے پاس دوسرا راستہ طلیحہ اور سجاح کا بھی موجود ہے۔ ہمیشہ کے لیے مصیبت میں رہنے اور مسلمانوں کو بھی مصیبت میں ڈالنے سے بہتر ہے یہ راستہ اختیار کر لو اور واپس آجاؤ۔ ہم قبول کریں گے، سینے سے لگائیں گے۔

اس کے بعد تیرہ سو سال میں کون کون مدعیان نبوت تھے، ان کے حالات بھی پڑھنے چاہئیں۔ ان کی تفصیل پڑھنے کے لیے مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوریؒ جو کہ حضرت شیخ الہندؒ کے شاگرد تھے، وزیرآباد کے قریب دلاور چیمہ گاؤں کے باشندے تھے، پھر لاہور میں رہے، بڑے مصنف تھے، ان کی کتاب ”الصلوٰۃعماد الدین“ معروف کتاب ہے، انہوں نے جھوٹے مدعیان نبوت پر ایک کتاب لکھی ”ائمہ تلبیس“ کے نام سے، اس میں مسیلمہ کذاب سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی تک سینکڑوں مدعیان نبوت کا ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ”ایمان کے ڈاکو“ کے نام سے سو دو سو صفحے کا بھی ہے، لیکن علماء کو پوری کتاب ہی پڑھنی چاہیے، یہ دونوں کتابیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کی ہیں۔

2016ء سے
Flag Counter