گھریلو تشدد کی روک تھام کے قانون پر ہمارے تحفظات

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۴ اگست ۲۰۲۱ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ایک نیا قانون ہے جو صوبوں میں نافذ ہو گیا ہے اور مرکز میں نافذ ہونے جا رہا ہے، جس کو ”گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون“ کہتے ہیں۔ اس پر ملک بھر کے دینی حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ شرعی احکام کے خلاف ہے ، ہماری تہذیبی روایات کے خلاف ہے، دستور کے خلاف ہے اور مسلمہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس پر بحث چل رہی ہے اور مختلف مکاتب فکر کے دینی حلقے اپنے اپنے ذوق کے مطابق بات کر رہے ہیں۔ ہمارا ایک مشترکہ علمی فورم ”ملی مجلس شرعی“ ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ سب شامل ہیں۔ ملی مجلس شرعی پاکستان کی طرف سے ان قوانین کے خلاف رائے عامہ کو بیدار کرنے کی مہم کا فیصلہ کیا گیا۔

بل کا عنوان تو یہ ہے کہ ”گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل“ کہ گھر کی چار دیواری کے اندر ہونے والے تشدد کو روکا جائے۔ گھر میں میاں بیوی رہتے ہیں، اولاد ہوتی ہے، چھوٹے بہن بھائی ہوتے ہیں یا زیر کفالت افراد ہوتے ہیں، گھر میں موجود افراد کی آپس میں رشتہ داریاں ہوتی ہیں جو ایک نظم کے تحت گھر میں رہتے ہیں جس کو خاندان اور فیملی کہتے ہیں۔ یہاں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ صرف گھر کا سربراہ ظلم کرتا ہے، اور گھر کے سربراہ کے ظلم سے گھر کے افراد کو بچانے کے لیے یہ قانون نافذ کیا گیا ہے۔ جس تشدد کو روکنے کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے وہ تشدد کیا ہے؟ ایک تو وہ تشدد ہے جسے ہم بھی تشدد کہتے ہیں یعنی مارنا پیٹنا۔ لیکن اس قانون کی زبان میں کسی ماتحت یا گھر کے افراد کو ڈانٹنا بھی تشدد ہے، کسی کو کسی غلطی پر ڈانٹنا کہ یہ تو نے کیوں کیا ہے یہ بھی تشدد ہے۔ گھر کے افراد کی سرگرمیوں کی ٹوہ لگانا کہ یہ کیا کر رہا تھا ، بیٹی دیر سے گھر کیوں آئی ہے، بیٹا رات کو کیا کر رہا تھا۔ یہ ٹوہ لگانا بھی تشدد ہے۔ اسے کوئی دھمکی دینا کہ میں تمہیں جیب خرچ نہیں دوں گا، یا بیوی کو یا بچوں کو یہ دھمکی دینا کہ اگر تم نے یہ حرکت نہ چھوڑی تو میں تمہیں خرچہ نہیں دوں گا، یہ بھی تشدد ہے۔ کوئی ایسی بات کرنا جس سے وہ محسوس کریں کہ میری ہتک ہوئی ہے یہ بھی تشدد ہے۔ تشدد صرف ہاتھ کا نہیں بلکہ زبان کا بھی، لہجے کا بھی، یہ ساری باتیں تشدد میں شامل ہیں اور یہ جرم بن گیا ہے۔اس لیے کوئی آدمی اپنی بیوی کو، بچوں کو، چھوٹے بہن بھائیوں کو کسی بات پر ٹوک نہیں سکتا، کسی بات پر ڈانٹ نہیں سکتا، کسی بات سے روک نہیں سکتا۔ مار پیٹ والا تشدد تو بہت بعد کی بات ہے۔

اس تشدد کی سزا کیا ہے؟ ایک سزا تو وہ ہے جو عدالت میں جرم ثابت ہونے کے بعد ہوگی۔ یہاں ایف آئی آر درج ہونے کے ساتھ ہی سزا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دنیا کا عجیب قانون ہے جس میں ایف آئی آر درج ہوتے ہی سزا شروع ہوجاتی ہے۔ گھر کے کسی فرد نے درخواست دی کہ مجھے خطرہ ہے تو قانون کی نظر میں اس خطرے کو ٹالنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ گھر کے سربراہ کو گھر سے بے دخل کر دیا جائے ،اور دوسری یہ کہ وہ خاندان کے اس فرد کو متبادل جگہ دے۔یعنی یا تو گھر کے سربراہ کو گھر بدر کر دیا جائے دو تین ہفتوں کے لیے کہ جب تک اس کو شکایت ہے تم گھر میں نہیں آ سکتے۔بچے کو شکایت ہے تو باپ گھر میں نہیں آئے گا، اس کو ہوم لیس کہتے ہیں۔ اور یہ نہیں کہ صرف گھر نہیں آ سکتا بلکہ گھر والوں سے رابطہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ فون بھی نہیں کرے گا ،پیغام بھی نہیں بھیجے گا۔ اگر کسی ذریعہ سے پتا چل گیا کہ اس نے فون کیا ہے یا پیغام بھیجا ہے تو اس کو سزا ہوگی۔ مدت مقرر ہو گی کہ اتنا عرصہ یہ گھر نہیں آ سکتا بلکہ ایک حد مقرر ہو گی کہ وہ اتنے فاصلے میں کہیں نظر نہ آئے۔ اور اس دوران گھر کا سارا خرچہ وہی دے گا جوویسے بھی اس نے دینا ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شکایت کرے کہ میں اس گھر میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں تو سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شکایت کرنے والے کو علیحدہ جگہ لے کر دے جتنے عرصے کے لیے وہ خطرہ محسوس کررہا ہے۔ اس جگہ کا کرایہ اور خرچہ اس سربراہ کے ذمہ ہے ۔ یہ سزا وہ ہے جو عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ایف آئی آر درج ہوتے ہی شروع ہو جائے گی۔ پھر عدالت جو فیصلہ کرے قید کرے یا جو بھی کرے، وہ بعد کی بات ہے۔

اس کے ساتھ یہ پابندی کہ گھرکے کسی فرد کے خطرہ محسوس کرنے کے امکان کو ختم کرنے کے لیے پولیس چیکنگ کرے گی اور گھر کے سربراہ کو الیکٹرانک کڑا پہنایا جائے گا کہ کہیں یہ گھر تو نہیں جا رہا۔ اس کا کنٹرول تھانے میں ہوگا جو چیک کریں گے کہ یہ کہاں ہے؟اس لیے کڑا پہنایاجائے گا جو علامت ہوگی اور کنٹرول بھی ہو گا۔ تھانہ اس کو کنٹرول کرے گا، جبکہ ابھی عدالت میں مقدمہ جانا ہے اور وہاں ابھی بحث ہونی ہے۔ یہ سارا گھریلو تشدد کا بل ہے جو چاروں صوبوں میں نافذ ہو گیا ہے۔ اسلام آباد میں نافذ ہونے کے لیے اسمبلی میں زیر بحث ہے۔

یہ ہے ” گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون“ اس پر ہمارے اشکالات کیا ہیں؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ گھر میں موجود افراد میاں بیوی، بچوں، بہن، بھائیوں، زیر کفالت افراد کا پورا سسٹم قرآن مجید نے بیان کیا ہے ’’الرجال قوامون علی النساء،للرجال علیھن درجۃ ‘‘ وغیرہ۔ گھر میں جو افراد رہتے ہیں تو کسی بھی وقت کوئی بھی زیادتی کر سکتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ گھر کا سربراہ ہی زیادتی کرے گا، بیوی بھی زیادتی کر سکتی ہے، بیٹی بھی کر سکتی ہے، باپ بھی کر سکتا ہے۔ ان زیادتیوں کا کوئی علاج شریعت اسلامیہ میں بتایا گیا ہے یا نہیں؟ یہ میرا جامعہ اسلامیہ محمدیہ کے اساتذہ سے سوال ہے۔ ہدایہ، مشکوٰۃ ،قدوری میں کتاب النکاح، کتاب الطلاق، کتاب المعاشرۃ اور کتاب الخلع وغیرہ سب پڑھایا جاتا ہے۔کیا کوئی سسٹم ہے یا نہیں؟ اتنا مضبوط سسٹم دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے جو ہماری شریعت میں ہے۔ کوئی بھی زیادتی کرے اس کے بارے میں قانون موجود ہے۔ جو ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ،میں نے خود بیس سال ”ہدایہ“ پڑھایا ہے۔ ایسی زیادتی جو گھر میں کسی فرد سے کسی فرد کے ساتھ ہو تو اس کا علاج شریعت نے بتایا ہے کہ اس کا یہ علاج ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس مکمل قانون اور نظام موجود ہے اور ہم اس پر عمل بھی کرتے ہیں؟ قاضی صاحبان، جج صاحبان کہاں سے فیصلے کرتے ہیں؟ مفتیان کرام جو فتوے دیتے ہیں وہ کہاں سے دیتے ہیں؟ اسی شریعت کے قانون سے۔ اور لوگ جج صاحبان سے فیصلے لیتے ہیں یا نہیں؟ مفتی صاحبان سے فتویٰ لیتے ہیں یا نہیں؟

اس لیے میرا پہلا سوال یہ ہے کہ جب سب سسٹم موجود ہے تو اپنے سسٹم کو چھوڑ کر امریکہ اور برطانیہ کا سسٹم کیوں لایا گیا ہے؟ جب شریعت کا قانون، قرآن و حدیث کا قانون، فقہ کا قانون مکمل موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر باہر سے کیوں قانون لایا گیا ہے ؟ حالانکہ ہمارا دستور جس کے تحت پاکستان چل رہا ہے ،اس دستور نے اسمبلیوں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ تم نے قوانین کون سے نافذ کرنے ہیں؟ امریکہ اور برطانیہ کے یا قرآن و سنت کے؟ جو دستور نافذ ہے اس دستور نے اسمبلیوں کو قانون سازی کے لیے قرآن و سنت کا پابند کیا ہے تو یہ نیا قانون دستور کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جب ہمارے پاس ایک مکمل قانون موجود ہے جو ہمارے عقیدے کے مطابق ہے، ہماری تہذیب کے مطابق ہے، ہمارے دستور کے مطابق ہے۔ اس قانون کو چھوڑ کر باہر سے قانون لایا گیا اور اس قانون میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ہم نے باہر کے اداروں کے کہنے پر یہ قانون نافذ کیا ہے۔ اسی مسودے میں لکھا ہوا ہے کہ ہم نے فلاں ادارے کے کہنے پر قانون نافذ کیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اور دستور کی ہدایات کو کیوں پامال کیا گیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ ایک گھر جس میں ایک خاندان بستا ہے وہ گھر دوستوں کا کوئی کلب ہے جو شام کو اکٹھے ہو کر گپ شپ لگا کر چلے جاتے ہیں یا کوئی ادارہ ہے؟ گھر کوئی کلب نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ادارہ ہے۔ خاندان دوستانہ گپ شپ کا فورم نہیں ہے بلکہ ایک ادارہ ہے اور کسی ادارے کا کوئی نظم و ضبط ہوتا ہے یا نہیں؟ کسی ادارے کا کوئی سربراہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اور سربراہ کے اختیارات ہوتے ہیں یا نہیں؟ سربراہ کاماتحت افراد پر کنٹرول ہوتا ہے یا نہیں؟ دنیا کا کون سا ادارہ ہے جس کا سربراہ کوئی نہیں ہوتا ؟جس کا سسٹم نہیں ہوتا ؟جس میں ڈسپلن نہیں ہوتا؟ جس میں سینئر کی بالادستی نہیں ہوتی؟ کیا دنیا میں کوئی ایسا ادارہ موجود ہے؟ اور جس ادارے میں سسٹم نہ ہو، ڈسپلن نہ ہو، سینئر کی اطاعت نہ ہو، وہ ادارہ چل سکتا ہے؟ قائم رہ سکتا ہے؟

مثال کے طور پر دنیا کے ہر ملک میں فوج ایک مستقل ادارہ ہے جس کے ذریعے ملک کی حفاظت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی محافظ اور سرحدوں کی محافظ فوج ہے۔ کیا فوج کا کوئی نظم وضبط ہے یا نہیں ؟ سینئرز کی بالادستی ہے یا نہیں؟ کیا جونیئر سینئر کا سامنا کر سکتا ہے؟ فوج میں کسی کا آرڈر چلتا ہے یا نہیں؟ اس آرڈر کی خلاف ورزی پر سزا ہوتی ہے یا نہیں؟ اورکیا سزا ہلکی پھلکی ہوتی ہے؟ فوج ہمارا محترم ادارہ ہے مگر دنیا کا کوئی ادارہ یہ کہے کہ آپ کے ہاں فوج کا جو ادارہ ہے اس میں خلاف ورزی پر سزا کے نام سے تشدد ہوتا ہے۔ آپ کے سینئر جونیئر پر بہت ظلم کرتے ہیں، اس لیے ادارہ جاتی تشدد کے خاتمے کا قانون بناؤ۔ سینئر کی طرف سے سپاہیوں پر یہ تشدد ہوتا ہے اس لیے اس ادارہ جاتی تشدد کو روکنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے تو کوئی قبول کرے گا؟

اسی طرح پولیس کے حوالے سے، رینجر کے حوالے سے، سول بیوروکریسی کے حوالے سے، عدلیہ کے حوالے سے۔ کسی بھی ادارے کے حوالے سے یہ بات کہ اس میں افراد کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ان کو سزائیں دی جاتی ہیں اور نوٹس لیے جاتے ہیں۔ تو یہ تشدد ہے؟اس ادارہ جاتی تشدد کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے؟ کیا ملک کے کسی بھی ادارے کے لیے یہ بات قابل قبول ہوگی؟ اسی طرح خاندان کوئی کلب نہیں ہے، بلکہ ایک ادارہ ہے اور اس ادارے کا ایک سربراہ ہے، ایک ڈسپلن ہے، سربراہ کی بالادستی ہے،تو نظم کی خلاف ورزی پر سزا بھی ہوگی، اگر باقی اداروں میں ہے تو یہاں بھی ہے۔

تیسرا سوال یہ ہےکہ گھر میں ماں باپ ،بیٹے ،بہن بھائی رہتے ہیں۔ گھر کے دس بارہ افراد میں سے تشدد کیا صرف باپ کرتا ہے؟ باقی سب معصوم ہیں؟ بیوی کچھ نہیں کرتی؟ بہن بھائی کچھ نہیں کرتے؟ اولاد جوان ہوکر ماں باپ کے ساتھ کچھ نہیں کرتی؟ کیا یہ سب معصوم ہیں؟ قانون میں اس کا ذکر کہاں ہے؟ صرف باپ کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ گھر کے باقی افراد بھی زیادتیاں کرتے ہیں، ان کی زیادتیوں کا قانون میں کہاں ذکر ہے؟ یہ لنگڑا لولا قانون بنا دیا گیا ہے۔ قانون بنانے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا گھر کے افراد میں سے صرف والد زیادتی کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا؟ کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی توہین نہیں کرتا، کوئی حق تلفی نہیں کرتا ؟سارے معصوم ہیں اور والد مجرم ؟خدا کا خوف کرو کیا کر رہے ہو۔ صرف سربراہ کو ٹارگٹ کرکے باقی سب کو اس پر چڑھا دینا خاندان کے نظام کو تباہ کرنے کی بات ہے۔

اس پر مثال کسی بڑے ادارے کی نہیں چھوٹے ادارے کی دے دیتا ہوں۔ کسی فیکٹری میں جنرل منیجر کو فیکٹری سے نکال دیں کہ یہ دس دن فیکٹری سے باہر رہے گا اندر نہیں آسکے گا اور یہاں کوئی جنرل منیجر نہیں ہوگا۔ تو اس فیکٹری کا کیا حال ہوگا؟ فیکٹری کے جنرل منیجر کو دو ہفتے کے لیے فیکٹری سے بے دخل کر دوکہ اس کو فیکٹری میں آنے کی اجازت نہیں ہے اور اس کا متبادل بھی جنرل منیجر کوئی نہیں ہے تو اس فیکٹری کا جو حشر ہوگا وہی حشر یہ خاندان کا کر رہے ہیں، جو سوسائٹی کا سب سے محترم ادارہ ہے۔

چوتھا اور آخری سوال یہ ہے کہ میرے بھائی! کب سے ہم نے یہ طے کرلیا کہ ملک کی قانون سازی باہر کے اداروں کے کہنے پر کریں گے۔ کب سے ہم نے یہ پالیسی بنا لی ہے؟ ہم نے حدود آرڈیننس میں ترمیم کی تو جنرل مشرف نے کہا بیرونی اداروں کے کہنے پر کی ہے۔ ہم نے اوقاف کے قانون میں تبدیلی کی اور یہ کہہ کر کی کہ بیرونی اداروں کا دخل ہے۔ ہم نے مدارس کے نظام میں تبدیلیاں کی ہیں اور یہ کہہ کر کی ہیں کہ بیرونی اداروں کا تقاضہ ہے۔ اب گھریلو تشدد کے عنوان سے خاندانی نظام میں تبدیلیاں کی ہیں اور یہ کہہ کرکر رہے ہیں بلکہ قانون میں لکھا ہے کہ باہر والوں کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ یہ پالیسی ہم نے کب سے اختیار کرلی ہے کہ جو باہر والے ہمیں کہیں گے وہ ہم کریں گے اور جو ملک کے عوام کہیں گے وہ ہم نہیں کریں گے۔ اسے غلامی ہی کہتے ہیں اور غلامی کا یہ قانون اسمبلی پاس کر رہی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون کہ ہم قانون سازی باہر کے لوگوں کے کہنے پر کریں گے اور کر رہے ہیں ۔پانچ چھ قانون ہم باہر کے اداروں کے کہنے پر بنا چکے ہیں اپنا دستور دیکھے بغیر، اپنی شریعت دیکھے بغیر، اپنے ماضی کے فیصلے دیکھے بغیر، اپنی تہذیب دیکھے بغیر،صرف اس لیے کہ فیٹف نےکہا ہے ،آئی ایم ایف نے کہا ہے، انسانی حقوق کمیشن نے کہا ہے۔ یہ پالیسی ہم نے کب سے اپنا لی ہے؟ یہ قومی غلامی ہے جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

میں نے عرض کیا کہ اس قانون پر ہمارے یہ اشکالات ہیں کہ یہ قانون شریعت اسلامی کے خلاف ہے، ملک کے دستور کے خلاف ہے، ہماری تہذیب و تمدن اور روایات کے خلاف ہے اور ہماری خودمختاری کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے ہم اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں جو ہمارا حق ہے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز بلند کریں ۔ قانون کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، لیکن قانونی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے ہر حق کا استعمال کریں گے۔ ملک بھر کے علماءکرام، تاجر برادری، وکلاء اور دیگر طبقات سے گذارش ہے کہ وہ اس قومی، دینی، اور تہذیبی جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter