ترکی میں رفاہ پارٹی کے لیڈر جناب نجم الدین اربکان نے وزیر اعظم کے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے اور پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے۔ رفاہ پارٹی نے، جو ترکی کی سیاسی جماعتوں میں اسلامی نظریات کے سب سے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہے، حالیہ انتخابات میں پارلیمنٹ کی ۵۵۰ نشستوں میں سے ۱۵۸ نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ لیکن صدر سلیمان ڈیمرل نے سابق وزیر اعظم محترمہ تانسو چیلر کو حکومت بنانے کی دعوت دی اور انہوں نے ایک اور لیڈر مسعود یلماز کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی، لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک نہ چل سکی، چنانچہ اب نجم الدین اربکان نے تانسو چیلر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ نجم الدین اربکان کے بارے میں عالمی پریس کا یہ کہنا ہے کہ وہ اسلام پسند لیڈر ہیں اور ترکی کو سیکولرازم کی راہ سے ہٹا کر اسلام کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح وہ اسرائیل کے مخالف ہیں اور اسی وجہ سے مغربی حلقوں بالخصوص امریکہ میں اربکان حکومت کے قیام کو تشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
چنانچہ ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ نے ۸ جولائی ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں امریکی نائب وزیرخارجہ مسٹر ٹالبوٹ کا بیان شائع کیا ہے جس میں انہوں نے ترک وزیراعظم نجم الدین اربکان کے ساتھ حالیہ ملاقات کی تفصیلات بتائی ہیں اور کہا ہے کہ اس ملاقات میں اربکان نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا ہے کہ اسرائیل عربوں کے مقبوضہ علاقے جولان کی پہاڑیوں سمیت خالی کر دے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ’’العالم الاسلامی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق نجم الدین اربکان نے امریکی نائب وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کو اولیت حاصل ہو گی اور وہ عرب ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو بہتر کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
ہم جناب نجم الدین اربکان اور رفاہ پارٹی کو اس عظیم کامیابی اور مبارک عزائم پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے راستے کی مشکلات پر قابو پانے اور نیک مقاصد کی طرف باوقار طریقے سے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔