جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے اعمال کے حوالے سے بتایا کہ یہ اعمال انسان کے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں۔ وضو ہے، نماز ہے، روزہ ہے، حج ہے۔ یہ اعمال انسان کے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں۔ لیکن وہیں محدثین یہ وضاحت بھی فرماتے ہیں کہ جن گناہوں کا یہ کفارہ بنتے ہیں ان میں فرائض، واجبات اور حقوق شامل نہیں ہیں۔ فرائض اور واجبات، ان کی قضا ہے۔ اور لوگوں کے حقوق، ان کی ادائیگی ہے۔ باقی اللہ تعالٰی کوئی گناہ وضو کی برکت سے معاف کر دیتے ہیں، کوئی نماز کی برکت سے معاف کر دیتے ہیں، کوئی عمرہ کی برکت سے معاف کر دیتے ہیں، کوئی حج کی برکت سے معاف کر دیتے ہیں۔
’’والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ‘‘ جو حج مقبول ہو جائے اس کا بدلہ جنت کے سوا کوئی نہیں ہے۔
یہ حج مبرور کیا ہے؟ فقہاءؒ تو یہ فرماتے ہیں کہ حج مبرور یہ ہے کہ نیت صحیح ہو، اور فرائض، واجبات، آداب، ارکان وغیرہ تسلی سے، اطمینان سے ادا کرے۔ جبکہ صوفیاء کرامؒ فرماتے ہیں، حج مبرور کیا ہے؟ کہتے ہیں حج قبول ہوا ہے یا نہیں، اس کی علامت بتاتے ہیں کہ اگر حج سے زندگی بدلی ہے تو یہ علامت ہے قبول ہونے کی۔ اگر زندگی نہیں بدلی تو نہیں قبول ہوا۔ سادہ سی بات ہے۔ حج کے بعد والی زندگی پہلے کی زندگی سے اچھی ہو گئی ہے، نماز، روزہ، حلال، حرام، جائز، ناجائز، حقوق، معاملات اگر بہتر ہو گئے ہیں تو یہ علامت ہے کہ حج قبول ہو گیا ہے۔ اور اگر پہلے سے بھی معاملہ بگڑ گیا ہے تو پھر کام خراب ہے۔ اللہ تعالٰی معاف فرمائیں، آمین۔