مارچ میں ’’سہ روزۂ ختم نبوت‘‘

   
فروری ۲۰۱۸ء

’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیت کے تعاقب کا سب سے بڑا محاذ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ’’مجلس احرار اسلام پاکستان‘‘ اور ’’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘‘ پوری دل جمعی کے ساتھ اس محاذ پر مسلسل سرگرم عمل ہیں، جبکہ مختلف مذہبی مکاتبِ فکر کی متعدد دیگر جماعتیں بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ عقیدۂ ختم نبوت اور ناموس رسالت ؐ کے تحفظ کی جدوجہد مسلمانوں کے تمام حلقوں اور طبقات کی مشترکہ محنت سے جاری ہے اور اس کے لیے جو بھی کسی دائرہ میں کام کر رہا ہے لائق تحسین ہے اور اس کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔

چنانچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملک کے تمام صوبوں میں صوبائی سطح پر بڑی بڑی ’’ختم نبوت کانفرنسیں‘‘ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق پنجاب کی صوبائی ختم نبوت کانفرنس ۱۰ مارچ کو بادشاہی مسجد لاہور میں منعقد ہو رہی ہے، جبکہ اس سے ایک روز قبل ۹ مارچ کو ایوان اقبالؒ لاہور میں مجلس احرار اسلام پاکستان نے امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی یاد میں ’’امیر شریعت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے، اور ایک روز بعد انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ نے ایوان اقبالؒ لاہور میں ہی ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ تینوں کانفرنسیں یکے بعد دیگرے منعقد ہو رہی ہیں اور چونکہ باہمی تعاون کی فضا بحمد اللہ تعالیٰ ہر سطح پر موجود ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان تینوں جماعتوں نے ’’سہ روزۂ ختم نبوت‘‘ منانے کا پروگرام بنایا ہے جو تحریک ختم نبوت میں پیشرفت کے حوالہ سے ان شاء اللہ تعالیٰ اہم سنگ میل ثابت ہو گا بالخصوص اس سے دیوبندی حلقوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران اس سلسلہ میں محسوس کئے جانے والے سست روی کے تاثر کی بھی تلافی ہوجائے گی۔

ان تینوں کانفرنسوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم ملک بھر کے دینی حلقوں اور کارکنوں سے گزارش کرتے ہیں کہ انہیں کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن تعاون کریں اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی اس مبارک محنت میں بھرپور حصہ ڈالیں، البتہ اس موقع پر ایک سال قبل یکم فروری ۲۰۱۷ء کو اسلام آباد میں قومی سطح پر منعقد ہونے والی’’ آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے بطور یاددہانی یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ ختم نبوت کے سلسلہ میں اس کانفرنس کے موقف اور فیصلوں کی روشنی میں ملک کی عمومی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ’’سہ روزۂ ختم نبوت‘‘ کے دوران اس ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ کا اجلاس دوبارہ منعقد کرنا بھی ضروری ہے تاکہ نئی صورتحال اور تقاضوں کے مطابق اجتماعی موقف کی تجدید ہو جائے۔ یہ کانفرنس یکم فروری ۲۰۱۷ء کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت منعقد ہوئی تھی جس میں جناب سراج الحق، راجہ محمد ظفر الحق، پروفیسر ساجد میر، مولانا سمیع الحق، علامہ ساجد علی نقوی، صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جناب اعجاز الحق، محترم پیر معین الدین گوریچہ، چودھری پرویز الٰہی، حافظ عاکف سعید، پیر اعجاز احمد ہاشمی، مولانا اللہ وسایا، پیر سید کفیل شاہ بخاری اور راقم الحروف ابو عمار زاہد الراشدی شریک تھے اور کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ درج ذیل تھا:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

ملک بھر کی دینی، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور تمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام اور مشائخ عظام کا مشترکہ اجتماع ایک بار پھر اس حقیقت کو دہرا رہا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان، اللہ اور اس کے رسول مقبول خاتم النبیینؐ کے نام پر حاصل کی گئی ہے اور یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلامی نظریہ پر وجود میں آئی ہے لیکن مغربی دنیا اور ان کی این جی اوز ایک منظم سازش کے ذریعے سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے درپے ہیں۔

وطن عزیز میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور بالخصوص آنحضرتؐ کی عزت و ناموس کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ لیکن ہر پانچ، چھ سال کے بعد اس ایمانی، شرعی اور آئینی قانون میں ترمیم یا تبدیلی کی قرارداد لانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 295C کے قانون میں ترمیم یا مقدمہ کے اندراج کے طریقہ کار میں تبدیلی اور سزا میں کمی کے اعلان سے عاشقان رسولؐ اور اسلامیان پاکستان کو اضطراب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے سندھ اسمبلی میں اسلام قبول کرنے کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کا قانون منظور کیا گیا اور پھر علماء اور اسلامیان پاکستان کے دباؤ پر قانون واپس کر لیا گیا۔ لیکن سینٹ میں پیپلز پارٹی کے ہی ایک سینیٹر کی جانب سے ایسی مذموم کاوشوں پر یہ اجتماع گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے ہتھکنڈوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ہر ایسی میں مذموم سازشوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا۔ یہ اجتماع حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی سازشوں پر نظر رکھے اور ایوان بالا اور ایوان زیریں میں توہین رسالتؐ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ لانے کا دو ٹوک اعلان کرے۔

  • امت مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ رحمت دو عالمؐ اللہ رب العزت کے آخری نبی ہیں۔ مرحوم بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی نے اس بنیادی عقیدہ کے باغی قادیانیوں کا دین اسلام سے متصادم موقف سننے کے بعد انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت سمیت ملک کی تمام عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں اس قانون کو مبنی برحق قرار دیا۔ لیکن قادیانی گروہ آئین پاکستان سے انحراف اور عدالتوں کے فیصلوں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم کہلوانے پر مصر ہیں۔
  • قادیانیوں نے چناب نگر میں اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں، اپنے اسٹام پیپر شائع کرتے ہیں، گواہوں کے سمن جاری ہوتے ہیں، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی رٹ قائم کی جائے، اس گروہ کی آئین شکنی کا نوٹس لیا جائے اور انہیں آئین کی پابند بنایا جائے۔
  • حال ہی میں قادیانی ڈاکٹر عبد السلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو منسوب کیا گیا، حالانکہ ڈاکٹر عبد السلام نے پاکستان کو لعنتی ملک کہا ہے۔ یہ نمائندہ اجتماع اس اقدام پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس غلط فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
  • آئین کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی وہ قادیانیت کو اسلام کہہ سکتے ہیں، آئین میں ان پر واضح پابندیاں ہیں، لیکن قادیانی چینلز پاکستان کے آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات اور پیمرا قادیانی چینلز کی اسلام مخالف مہم اور آئین کی بغاوت کا نوٹس لے اور ان نشریات پر پابندی عائد کرے۔
  • پاکستان کے سابق وزیر اعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا لیکن قادیانی تعلیمی اداروں کو واپس کرنے کے اقدامات کی خبریں گاہے بگاہے سنی جا رہی ہیں۔ حکومتوں نے اربوں روپے ان اداروں پر خرچ کیے ہیں اور ان اداروں میں پچانوے( 95) فیصد عملہ اور زیر تعلیم طلبہ مسلمان ہیں۔ قادیانیوں کو تعلیمی ادارے واپس کرنا گویا نوجوان نسل کو قادیانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہو گا، حکومت ایسا کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہے۔
  • اس سال 12 ربیع الاول کو دوالمیال ضلع چکوال میں میلاد النبیؐ کے جلوس پر قادیانیوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک مسلمان شہید اور کئی مسلمان زخمی ہوئے لیکن قادیانیوں کو قانون شکنی پر سزا دینے کی بجائے مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا اور مختلف ذرائع سے اب دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ مسلمان قادیانیوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات واپس لیں۔
  • یہ اجتماع پاکستان کی اسلامی تشخص اور قومی خود مختاری کے خلاف بڑھتے ہوئے مسلسل عالمی دباؤ اور بین الاقوامی اداروں کی یلغار پر تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور دینی حلقوں کو توجہ دلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور قومی خودمختاری کے معاملات کو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے دینی قوتوں کو خود کردار ادا کرنا ہو گا۔
  • یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ:
    1. 295C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس قانون کے بہرحال تحفظ کا دو ٹوک اعلان کیا جائے۔
    2. ادارہ فزکس کا ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام پر رکھنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
    3. چناب نگر میں ’’ریاست در ریاست‘‘ کا ماحول ختم کیا جائے۔ حکومت کی دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور متوازی عدالتیں ختم کر کے ملک کے قانونی نظام کی بالا دستی بحال کی جائے۔
    4. قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔
    5. قادیانی تعلیمی ادارے، انہیں واپس کرنے کی پالیسی عوامی جذبات اور ملک کے نظریاتی اساس کے منافی ہے۔ حکومت اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور قوم کو اعتماد میں لے۔
    6. دوالمیال چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ علاقہ کے مسلمانوں کے مطالبات کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔ شہید کے بارے میں ایف آئی آر (F.I.R) درج کی جائے، بے گناہ مسلمانوں کو رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یہ اجتماع حکومت پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ یہ مطالبات رسمی اور وقتی نہیں ہیں۔ پوری قوم کے جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ انہیں جلد از جلد منظور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر ایک ماہ تک یہ مطالبات منظور نہ کئے گئے اور حکومت کے طرز عمل میں واضح تبدیلی دکھائی نہ دی تو آل پارٹیز ناموس رسالت کانفرنس کی طرف سے ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter