پاکستانی معاشرے میں عورت کی مظلومیت کی معروضی صورتحال

   
۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ء

مذاکرات کی تفصیلی کہانی تو آئندہ ایک دو کالموں میں ان شاء اللہ تعالیٰ بیان کروں گا، مگر اس کے پہلے مرحلے کے طور پر علمائے کرام کی ان تجاویز اور سفارشات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، جو انہوں نے تحفظ حقوق نسواں بل پر متحدہ مجلس عمل کے تحفظات کے حوالے سے حکمران جماعت اور وزارت قانون کے ذمہ دار افراد کے ساتھ مذاکرات کے دوران عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی طرف سے پیش کی ہیں۔

علمائے کرام کی اس ٹیم میں جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا حسن جان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی، مولانا مفتی غلام الرحمٰن اور دیگر علماء کے ساتھ مجھے بھی شامل کیا گیا تھا۔ ان علماء نے حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی حکمت عملی طے کرتے ہوئے آپس میں فیصلہ کیا ہے کہ حکمران جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی جائے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی مظلومیت کی معروضی صورت حال کیا ہے اور ان کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ کیونکہ جن مسائل کے عنوان سے اکثر این جی اوز اور ذرائع ابلاغ عورتوں کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، ان میں مسائل کم اور اسلام کو بدنام کرنے اور مغربی معاشرے کی تہذیبی برتری کے پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار اور مشرقی معاشرت کو کمزور کرنے کے بہانے زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ علمائے کرام کی کمیٹی نے اپنی طرف سے پاکستانی معاشرے میں عورت کے حقیقی مسائل کی ایک اصولی اور ابتدائی فہرست مرتب کی اور حکمران ٹیم سے تقاضا کیا کہ ان امور کو تحفظ حقوق نسواں بل میں شامل کیا جائے یا ان کے لیے الگ مسودۂ قانون اسمبلی میں پیش کیا جائے۔

ہمیں بتایا گیا کہ جب حکومتی ٹیم نے علمائے کرام کے ساتھ اپنے مذاکرات کی رپورٹ صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کی تو وہ مغربی ممالک کے دورے کے لیے پا بہ رکاب تھے۔ انہوں نے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے علماء کی ان تجاویز پر خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا، مذکورہ علمائے کرام کے دستخطوں کے ساتھ پیش کی جانے والی ان تجاویز کی کاپی حاصل کی اور کہا کہ میں یہ تجاویز مغرب کے دورے میں ساتھ لے جاؤں گا اور دنیا کو بتاؤں گا کہ ہمارے جن علمائے کرام کے بارے میں تم یہ کہتے ہو کہ وہ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اور ان کو مظلوم اور غلام رکھنا چاہتے ہیں، عورتوں کے حقوق اور ان کی مظلومیت کے بارے میں ان علمائے کرام کے خیالات یہ ہیں۔ ان تجاویز میں علمائے کرام نے جن مسائل کو عورت کی مظلومیت کے حقیقی مسائل میں شامل کیا ہے، اس وقت ان کا تذکرہ کر رہا ہوں۔

  • سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وراثت میں ان کا حصہ نہیں ملتا اور عورتوں کی غالب اکثریت بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کی حیثیت سے وراثت میں اپنے حق اور حصے سے محروم رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری تاریخ میں پہلی بار آواز بھی علمائے کرام کی طرف سے اٹھائی گئی تھی اور ۱۹۳۷ء میں سرحد اسمبلی میں جمعیت علمائے ہند کے ایک رکن اسمبلی کی طرف سے ”شریعت بل “ پیش کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شرعی قوانین کے مطابق عورت کو وراثت میں اس کا حق دلوانے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگرچہ وراثت کی شرعی تقسیم کا قانون موجود ہے، لیکن ہماری بعض معاشرتی روایات اور کلچرل مزاج اس میں رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں اور وراثت کی شرعی تقسیم، بالخصوص عورتوں کو ان کا حصہ دلانے کو یقینی بنانے کے لیے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔

  • ہمارے ہاں عورت کی مظلومیت کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بسا اوقات عورت کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا جاتا ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج کرنے کے باوجود بے بس ہو جاتی ہے۔ یہ بات شرعاً غلط ہے، کیونکہ کسی بالغ لڑکی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف نہیں کیا جا سکتا، حتیٰ کہ ایک خاتون نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف ایک شخص سے کر دیا ہے، لیکن وہ اس نکاح پر راضی نہیں ہے، تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو باطل قرار دے دیا۔ بعض قبائل اور برادریوں میں تو عورت کو باقاعدہ وراثت سمجھا جاتا ہے اور وہ وراثت میں اپنا حق حاصل کرنے کی بجائے خود وراثت کا مال بن جاتی ہیں، خاندان کا سربراہ ان کے بارے میں فیصلے کو اپنا حق سمجھتا ہے اور اس کی رائے اور اختیار کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔

    حضرت معقل بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ ان کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور طلاق سے رجوع کرنے پر تیار نہ ہوا، لیکن جب عدت گزر گئی تو دوبارہ نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ بہن اپنے خاوند کے پاس واپس جانا چاہتی تھی، لیکن میں غصے میں اس بات میں رکاوٹ بن گیا کہ اس نے پہلے طلاق کیوں دی تھی اور اگر طلاق دے ہی دی تھی تو عدت کے اندر رجوع کیوں نہیں کیا تھا؟ چنانچہ میں نے اپنی بہن کا رشتہ اس کے پہلے خاوند کو دوبارہ دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۳۲ اتری، جس میں کہا گیا ہے کہ ”اگر وہ باہمی رضامندی سے پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہیں تو اس میں رکاوٹ پیدا نہ کرو۔“ اور سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۹ میں کہا گیا ہے کہ ”اے ایمان والو! اپنی عورتوں کے جبری وارث نہ بنو۔“ اس لیے بالغ عورت کی مرضی کے خلاف اس کے جبری نکاح کو قانوناً جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزا مقرر کی جائے۔

  • تیسرا اہم مسئلہ تین طلاق کا ہے۔ شریعت نے مرد کو تین طلاقوں کا حق دیا ہے، لیکن اس کا اصول اور طریق بھی بیان کر دیا ہے کہ طلاق کی تین صورتیں ہیں:
    1. ایک طلاق رجعی ہوتی ہے، جس کے بعد خاوند کو عدت کے اندر کسی نئے نکاح کے بغیر رجوع کا حق ہوتا ہے۔
    2. دوسری طلاق بائن ہے، جس میں خاوند کو رجوع کا حق تو نہیں ہوتا، لیکن وہ اسی عورت کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔
    3. طلاق کی تیسری قسم طلاق مغلظہ ہے، جس میں نہ رجوع کا حق ہوتا ہے اور نہ ہی عام حالات میں وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔

    فقہائے کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طلاق کا سنت کے مطابق طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دی جائے، جس میں رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور اس انتہائی فیصلے پر پشیمانی کی صورت میں اس کی تلافی کا امکان موجود ہوتا ہے، جبکہ طلاق مغلظہ یا تین طلاقوں کے حق کو یکبارگی استعمال کرنے کو فقہائے کرام ”طلاق بدعت “ کہتے ہیں اور امت کے جمہور فقہاء کے نزدیک اگرچہ طلاق بدعت یا تین طلاقوں کا حق ایک ہی بار استعمال کرنے سے تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور عورت اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے، لیکن طلاق کا یہ طریقہ سنت کے خلاف ہے اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔

    ہمارے پاس اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ایک جملے سے یا ایک مجلس میں تین طلاقیں اکٹھی دینے سے حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں فقہی مذاہب کی رو سے تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، مگر اہلحدیث مکتب فکر کے مفتیان کرام ایک جملہ یا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو ایک ہی طلاق شمار کرتے ہیں اور اس کے مطابق فتویٰ جاری کر دیتے ہیں، جبکہ طلاق کی دستاویز لکھنے والے وثیقہ نویسوں اور عرضی نویسوں نے چند جملے رٹے ہوئے ہیں، جو تین طلاقوں پر مشتمل ہیں۔ وہ بلا سوچے سمجھے رٹے رٹائے جملے تحریر کر کے طلاق دینے والے کو سنا کر اس سے دستخط لے لیتے ہیں، جس سے وہ جمہور فقہاء کے نزدیک رجوع یا دوبارہ نکاح کے حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ حنفی فقہاء اور اہلحدیث مفتیان کرام کے درمیان شٹل بن جاتا ہے اور باہمی فتووں کا تقابل اس کے لیے ایک الگ پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ طلاق کے حوالے سے وثیقہ نویسوں اور عرضی نویسوں کی باقاعدہ بریفنگ، بلکہ تربیت کا اہتمام کیا جائے اور تین طلاقیں اکٹھی دینے کو قانوناً جرم قرار دے دیا جائے۔ تاکہ اس معاشرتی الجھن اور پریشانی کی وجہ ہی باقی نہ رہے، جو ہمارے بہت سے خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا رہتا ہے۔ اس پس منظر میں علمائے کرام نے تجویز کیا ہے کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔

  • قرآن کریم کے ساتھ کسی خاتون کے نکاح کی رسم بھی پاکستان کے بعض حصوں میں موجود ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خاتون کو قرآن کریم کے ساتھ نکاح کے عنوان سے نکاح کے شرعی حق سے محروم کر دیا جاتا ہے تاکہ اسے وراثت سے محروم رکھا جائے اور جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑے۔ یہ انتہائی شرمناک حرکت ہے، اس کے سد باب کے لیے بھی قانون سازی ضروری ہے۔
  • کاروکاری کی رسم بھی شرعی قوانین سے متصادم اور صریح ظلم ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
  • بعض علاقوں میں عورت باقاعدہ فروخت ہوتی ہے، جو شدید ظلم اور حق تلفی کی بات ہے۔ اس مذموم رواج کو ختم کرنے کے لیے بھی قانون سازی ضروری ہے۔
  • وراثت کے ساتھ ساتھ مہر کے حق سے بھی بہت ہی عورتوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔ اکثر علاقوں میں تو مختلف حیلوں بہانوں کے ساتھ مہر کو معاف کرا لیا جاتا ہے، حالانکہ پوری طرح آزادانہ مرضی اور اختیار کے بغیر اپنا حق معاف کرنے کے کسی طریقے کو شریعت جائز تسلیم نہیں کرتی۔ اسی طرح بعض علاقوں میں مہر کی رقم لڑکی کا باپ وصول کرتا ہے اور اسے اپنی ملکیت سمجھتا ہے، حالانکہ یہ رقم خالصتاً عورت کا ذاتی حق ہے، جس سے اس کی مرضی کے بغیر اسے محروم کر دینا بعض صورتوں میں غصب شمار ہوتا ہے۔

یہ اور اس قسم کے اور بہت سے مسائل ہیں، جو ہمارے معاشرے میں عورت کی مظلومیت، محرومیت اور بے بسی کا عنوان بنے ہوئے ہیں۔ علماء کمیٹی کا موقف یہ ہے کہ حکومت اگر واقعتاً عورت کی مظلومیت کو کم کرنا چاہتی ہے اور اس کے حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے تو اسے معروضی سوالات میں ان حقیقی مسائل کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter