پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی نے قادیانی گروہ کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں پائے جانے والے ابہامات کی وجہ دستوری تقاضوں اور بعض عدالتی فیصلوں میں ظاہری تضاد کو قرار دیا ہے، اور ایک بیان میں تجویز دی ہے کہ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دستوری و قانونی طور پر قادیانی گروہ کو ایک مستقل امت کے طور پر تسلیم کرنے کی بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات میں گہرے غور و خوض کی متقاضی ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔
چند سال قبل بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس میں اس وقت کے وفاقی وزیر امور مذہبی کی موجودگی میں راقم الحروف نے بھی قدرے مختلف حوالے سے یہی بات کہی تھی جو کانفرنس کے شرکاء کو یاد ہو گی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ملک میں بہت سی جماعتوں کو قانون شکنی اور ملکی سالمیت کے منافی سرگرمیوں کے عنوان سے خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے اور ان کے خلاف مختلف مراحل میں آپریشن اور کریک ڈاؤن کا اہتمام کیا گیا ہے، تو دستورِ پاکستان کی دفعات اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کو قبول نہ کرنے پر قادیانی گروہ کے بارے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح کا ایکشن لینا چاہیے۔ وہی بات آج مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی نے آئینی ترمیم کے حوالے سے فرمائی ہے اور مجھے ان کی بات سے اصولی طور پر اتفاق ہے۔
۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے تاریخی فیصلہ کو قبول کرنے سے قادیانی گروہ کے واضح انکار اور اس کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم جوئی نے جو مسائل کھڑے کر دیے تھے، انہی کے باعث ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نافذ کرنا پڑا تھا، مگر اس کے باوجود صورتحال میں کوئی واضح فرق نہیں پڑا اور قادیانیوں کے بارے میں دستوری اور قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے درمیان آنکھ مچولی بدستور جاری ہے، جس کا اظہار عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی کے سلسلہ میں بھی کچھ عرصہ سے ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کا تقاضہ ہے کہ چونکہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روک دیا گیا ہے اس لیے وہ قربانی نہیں کر سکتے۔ جبکہ قادیانیوں نے متعلقہ فورموں پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور ملکی دستور کے مطابق چار دیواری کے اندر کسی کو عبادت سے نہیں روکا جا سکتا اس لیے گھر کے اندر قربانی سے انہیں روکنا درست نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں گھر کی چار دیواری کے اندر کسی بھی گروہ کی عبادت کو تحفظ دیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ میں یہ صورتحال پیش آئی اور ضلعی امن کمیٹی کے مختلف مکاتب فکر کے ممبر علماء کرام نے اس طرف توجہ دلائی تو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ضلعی سیکرٹری جنرل اور امن کمیٹی کے ممبر بابر رضوان باجوہ نے ایک سوالنامہ مرتب کر کے کچھ مفتیان کرام کی خدمت میں ارسال کیا جس پر میں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والے بعض حضرات کو مشورہ دیا کہ چونکہ مسئلہ قانون کے نفاذ اور تطبیق سے بھی تعلق رکھتا ہے اس لیے اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ سرکردہ مفتیان کرام اور ختم نبوت کے لیے کام کرنے والے سرکردہ وکلاء مل بیٹھ کر اس کے بارے میں کوئی موقف اور لائحہ عمل اختیار کریں تاکہ یہ ابہام دور ہو اور قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے عملاً روکا جا سکے۔
میرے نزدیک اس کے دونوں پہلو اہم ہیں (۱) ایک یہ کہ کسی غیر مسلم کو چار دیواری کے اندر مذہبی سرگرمیوں سے روکنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (۲) دوسرا یہ کہ دستور و قانون اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں اس کے نفاذ اور تطبیق کی عملی صورت کیا ہو گی، اور یہ بھی کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کے حوالے سے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟
یہ مسئلہ حل طلب ہے، دونوں طبقوں کو مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ پیش آمدہ مسائل سے اعراض کی بجائے ان کا سامنا کرنا ہی بہتر طریقہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ سے میرا ایک سنجیدہ سا تاثر چلا آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے قادیانیوں کے بارے میں دستوری و قانونی فیصلہ پر عملدرآمد کے بارے میں ابہام کی فضا قائم کر رکھی ہے اور مختلف تشریحات و تعبیرات کا ماحول ان فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس لیے اس کنفیوژن کو جلد از جلد دور ہونا چاہیے، جس کی ایک صورت وہ ہے جو مولانا مفتی محمد اویس خان ایوبی نے پیش کی ہے کہ قادیانیوں کو مذہبی گروہ تسلیم کرنے کی بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ جبکہ اس سلسلہ میں اسٹیبلشمنٹ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے لیے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر سپاہ صحابہؓ، سپاہ محمدؐ، جماعت الدعوۃ اور سنی فورس سمیت بیسیوں جماعتوں کو قانون شکنی کے عنوان سے کالعدم اور غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے تو جماعتِ احمدیہ پاکستان کو دستور کے واضح فیصلہ سے انکار کی بنیاد پر کالعدم اور غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیا جا سکتا؟ ختم نبوت کی مقدس جدوجہد سے دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔