نفاذ شریعت کی جدوجہد اور حاجی محمد بوستان کا مکتوب

   
۵ فروری ۲۰۱۴ء (غالباً‌)

طالبان کے ساتھ مذاکرات کی جو فضا بن رہی ہے اس نے اسلام، ملک اور امن کے بہی خواہوں کے دلوں میں امید کی ایک نئی کرن روشن کر دی ہے، وزیر اعظم پاکستان اور تحریک طالبان کی طرف سے مذاکراتی ٹیموں کی نامزدگی دونوں فریقوں کی سنجیدگی کی غمازی کرتی ہے۔ خصوصًا طالبان کی طرف سے ایک متوازن گروپ کے اعلان نے خوشگوار ماحول کی توقع پیدا کر دی ہے جس پر دونوں فریق مبارک باد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔ ہم ان مذاکرات میں مثبت پیش رفت اور ان کی کامیابی کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں اور مذاکرات میں زیر بحث آنے والے دو اہم امور کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کر رہے ہیں۔

حکومت اور طالبان کے مجوزہ مذاکرات میں سب سے زیادہ جن امور پر گفتگو کی توقع کی جا رہی ہے ان میں دستور پاکستان کی بالادستی کو تسلیم کرانا اور ملک میں نظام شریعت کا نفاذ بہرحال نمایاں ہوں گے۔ کیونکہ حالات کے تمام تر اتار چڑھاؤ اور مدو جزر کے باوجود یہ دونوں مسئلے ملک و قوم کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دستور پاکستان ملک کی وحدت و تشخص کی بنیاد ہے جبکہ نظام شریعت پاکستان کے قیام کے مقاصد میں سے ہے اس لیے ہمیں امید ہے کہ کوئی فریق بھی ان دونوں مسئلوں کی اہمیت سے بے خبر نہیں ہوگا اور ان میں سے کسی کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

جہاں تک ملک میں اسلامی قوانین اور شرعی نظام کے نفاذ کی بات ہے، خود دستورِ پاکستان اس کی گارنٹی دیتا ہے اور منتخب پارلیمنٹ کئی بار اس کا فیصلہ دے چکی ہے۔ البتہ اس کے طریقہ کار اور فریم ورک کا مسئلہ ہمیشہ سے زیر بحث چلا آرہا ہے۔ تحریک طالبان کی کوشش یہ ہوگی کہ سوات، دیر، قلات اور دیگر ریاستوں میں پاکستان کے ساتھ ان کے الحاق سے قبل شرعی عدالتوں کا جو فریم ورک موجود تھا اسے بحال کیا جائے اور اسی کے تحت شرعی قوانین کی عدالتی عمل داری کو یقینی بنایا جائے۔ جبکہ حکومتی حلقوں کی طرف سے موجودہ عدالتی نظام کے دائرہ کار کو جوں کا توں برقرار رکھنے اور اس کے اندر شرعی قوانین کے نفاذ کے راستے تلاش کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ ایک پرانا تنازعہ ہے اور قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ کشمکش کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ دونوں موقف یک طرفہ ہیں اور ان کے درمیان کوئی قابل قبول ایڈجسٹمنٹ ہی اسلامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر قابو پا سکتی ہے۔ ہم کئی بار اپنی گزارشات میں عرض کر چکے ہیں کہ اس حوالہ سے آزاد کشمیر میں جو تجربہ کیا گیا ہے اس کی طرف دونوں فریقوں کو توجہ دینی چاہیے لیکن ہماری یہ استدعا نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے۔ البتہ آزاد کشمیر کے بزرگ راہ نما حاجی محمد بوستان صاحب نے اپنے ایک مکتوب میں اس طرف توجہ دلا کر اس تجویز کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ حاجی صاحب محترم تبلیغی جماعت کے بڑے بزرگوں میں سے ہیں، میر پور آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، ایک عرصہ سے برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں قیام پذیر ہیں، دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فروغ کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ مسائل پر سوچنا، ان کے حل کے لیے تجاویز دینا اور متعلقہ حلقوں کو ان کی طرف توجہ دلانا ان کا خاص مشغلہ ہے۔ میرپور آزاد کشمیر میں ایک بڑا دینی مدرسہ جامعہ علوم اسلامیہ کے نام سے چلا رہے ہیں اور اس کے لیے سال میں ایک دو بار برطانیہ سے چند روز کے لیے یہاں آتے ہیں۔ راقم الحروف کے نام ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:

’’کافی عرصے سے دل میں اس بات کا خیال پیدا ہو رہا تھا کہ موجودہ حکومت پاکستان جو طالبان سے مذاکرات کرنے جا رہی ہے، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی میں صوفی محمد کے ساتھ مذاکرات کی طرح بات چیت ناکام نہ ہو جائے۔ اس لیے میں آپ حضرات کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جو شرعی عدالتی نظام ریاست آزاد جموں و کشمیر میں رائج ہے وہ اپنے بعض نقائص کے باوجود بین الاقوامی حالات کے تناظر میں کافی حد تک مملکت پاکستان میں قابل قبول و قابل مروج ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی ہضم ہو سکتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں اگر مناسب خیال کریں تو خاص طور پر حکومت پاکستان اور نمائندگان طالبان کو یہ تجویز پیش کریں کہ وہ متذکرہ شرعی عدالتی نظام کو زیریں عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک نمونے کی حیثیت سے مد نظر رکھ کر اگر اشد ناگزیر ہو تو بعض ترمیمات کے ساتھ رائج کرنے کی کوشش کریں۔

اس کی تفصیلی نوعیت جناب حضرت مولانا مفتی محمد رویس خان صاحب اور ان کے رفقاء کو معلوم ہے۔ لہٰذا آزاد کشمیر میں مروج شرعی عدالتی نظام کو تجاویزاتی مسودے کی شکل میں مرتب کر کے راجہ ظفر الحق رہنما مسلم لیگ نون، سابق وزیر ناصر مجید آف چکوال، مولانا الیاس چنیوٹی صاحب اور رہنما جمعیت علمائے اسلام جناب حافظ حسین احمد صاحب، اور دیگر حضرات جو آپ مناسب خیال کریں، سے انفرادی طور مل کر ان کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف اور وزیر قانون حکومت پاکستان سے ملاقات کر کے متذکرہ تجاویز پیش کریں۔ اور ان سے گزارش کریں کہ اگرچہ طالبان سے مذاکرات کامیاب نہ بھی ہو سکیں تب بھی آئین پاکستان کی رو سے مملکت پاکستان کی بہتری کے لیے ملک میں اسلامی شرعی عدالتی نظام عدل و انصاف کو رائج کریں۔ تاکہ ملک سے جرائم کی بیخ کنی ہو اور امن قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ مزید برآں جس مقصد کے لیے اس مملکت خداداد کا وجود میں آنا ممکن ہوا تھا، وہ پورا ہو۔ بہر صورت ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی سعی جاری رکھیں تاکہ جتنا جلد ہو سکے مملکت اسلامیہ پاکستان میں اسلامی شرعی نظام عدل و انصاف رائج ہو۔ اور بحیثیت مسلمان ہمیں روز محشر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘

حاجی محمد بوستان صاحب کا موقف ہم نے انہی کے الفاظ میں پیش کر دیا ہے اور اس کی تائید کرتے ہوئے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ آزاد کشمیر میں اس مشترکہ عدالتی نظام کی پشت پر دونوں طرف کے اکابر اہل علم و دانش کا تجربہ اور سوچ کار فرما ہے جن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان رحمہ اللہ تعالیٰ اور محترم جسٹس حمود الرحمن مرحوم کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ اور سالہا سال کے تجربات سے گزر کر اس نظام نے اپنی افادیت تسلیم کرا لی ہے۔ اس لیے ہم حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان دونوں سے گزارش کریں گے کہ وہ شرعی قوانین کے نفاذ کے اس عدالتی تجربہ کا ایک بار جائزہ ضرور لے لیں جو کم و بیش گزشتہ ربع صدی سے آزاد کشمیر میں جاری و ساری ہے۔ ہو سکتا ہے اسی سے قدیم و جدید کے قابل قبول اور قابل عمل ملاپ کی کوئی صورت نکل آئے۔

بہرحال ہم دعا گو ہیں کہ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو اور ان مذاکرات کے ذریعہ دستور پاکستان کی بالادستی اور شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ کی خوش خبری قوم کو مل جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter