میں ۱۳ اگست کو جدہ پہنچا تھا اور آج ۲۲ اگست کو نیویارک کے لیے روانگی کی تیاری کر رہا ہوں۔ اس دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری اور عمرہ کی سعادت کے ساتھ ساتھ ان دو مقدس شہروں اور جدہ میں متعدد دینی و علمی محافل میں شرکت کا موقع ملا اور مختلف اصحابِ علم سے ملاقاتیں ہوئیں۔ میرے چھوٹے بھائی اور پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے امیر مولانا عبد الحق خان بشیر بھی اہل خانہ سمیت ان دنوں عمرہ کے لیے آئے ہوئے ہیں اور بعض مجالس میں ہم اکٹھے شریک ہوئے ہیں۔
مدینہ منورہ میں تین روزہ قیام رہا اور اپنے ایک عزیز شاگرد قاری ابوبکر یحییٰ کا مہمان رہا، جو گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں اور نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں۔ اپنے استاذ محترم قاری محمد انور کی خدمت میں بھی حاضری دی اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں کا حظ اٹھایا۔ مولانا محمد الیاس فیصل ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں، ان کی کتابوں ”نمازِ پیغمبر“، ”تاریخ مدینہ منورہ“ اور ”صحابہ کرامؓ کے مکانات“ کے حوالے سے دینی حلقے ان سے متعارف ہیں، گزشتہ دنوں پاکستان گئے تو ٹریفک کے ایک حادثہ میں شدید زخمی ہو گئے، ابھی تک چلنے پھرنے سے معذور ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنے گھر میں معذوری کے باوجود علمی و دینی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ ان کے ہاں حاضری ہوئی تو پہلے سے ایک محفل بپا تھی، جس میں اظہارِ خیال کے لیے انہوں نے مجھے دعوت دی۔
محفل میں بطورِ خاص یہ بات زیرِ بحث تھی کہ حنفی مذہب کو بعض اطراف سے بے جا تعصبات اور ان کی بنیاد پر اعتراضات کا سامنا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حنفی مذہب کا دفاع ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے، کیونکہ اس کے لیے اسلوب علمی اور مبنی بر حکمت ہونا چاہیے، تعصبات کا جواب ہم اسی قسم کے تعصبات کے ذریعے دیں گے تو یہ مذہبِ حنفی کی کوئی بہتر خدمت نہیں ہو گی۔ میری طالب علمانہ رائے میں مذہب حنفی کی تین امتیازی خصوصیات ہیں:
- اس کی بنیاد علمی مشاورت پر ہے اور یہ شخصی فقہ کی بجائے اجتماعی فقہ ہے۔
- اس میں عقل کا متوازن استعمال موجود ہے اور یہ وحی اور عقل کے درمیان حسین امتزاج کی آئینہ دار ہے۔
- یہ عملی اور پریکٹیکل فقہ ہے کہ عباسی اور عثمانی اور مغل حکومتوں میں صدیوں تک اسے قانون و دستور کا درجہ حاصل رہا ہے۔
اس لیے ہمیں حنفی فقہ کی ترجمانی اور دفاع میں اس کی امتیازی خصوصیات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ میرے نزدیک حنفی فقہ کی ترجمانی میں سب سے زیادہ آئیڈیل شخصیت امام طحاویؒ کی ہے۔ میں خود متصلب اور شعوری حنفی ہوں، لیکن ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ فقہی مذاہب پر بحث کے دوران باہمی احترام کو ملحوظ ر کھا جائے، بات دلیل کے ساتھ کی جائے، جو مسئلہ جس درجہ کا ہو اسی درجہ میں رہنے دیا جائے اور جن لوگوں سے آپ مخاطب ہیں ان کی نفسیات اور فہم کی سطح کو ملحوظ رکھ کر بات کی جائے۔
بہرحال مولانا محمد الیاس فیصل کے ہاں ایک اچھی علمی محفل ہوئی اور ان کی بیمار پرسی کا موقع بھی مل گیا۔
جمعہ کی نماز ایک مدت کے بعد مسجد نبویؐ میں ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ الشیخ القاضی صلاح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ نے معیشت میں اقتصاد اور میانہ روی پر بہت مفید، معلوماتی اور مؤثر خطبہ ارشاد فرمایا، قرآن کریم کی آیات اور متعدد احادیث نبویہ کے ساتھ اس حوالے سے معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کی اور ان کی اصلاح کی تلقین فرمائی۔ سعودی معاشرے میں ایک بات مجھے ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے کہ کسی مہمان کی دعوت پر بہت زیادہ کھانا پکایا جاتا ہے اور اکثر کھانا ضائع ہو جاتا ہے، الشیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ نے اس کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہوتی ہے۔
جمعہ کے بعد محترم قاری محمدعبد اللہ نے اپنے گھر میں بہت سے احباب کو کھانے پر بلا رکھا تھا اور پاکستان سے علماء کرام کی آمد پر وہ اکثر اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس محفل میں مجھے کچھ عرض کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے گزارش کی کہ اس وقت علمی، اعتقادی اور ثقافتی محاذ پر مغرب کے ساتھ جو ہماری معرکہ آرائی ہے، اس پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور نئی نسل کے ایمان و عقیدہ اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ اس کی وابستگی کو بچانے کے لیے علماء کرام اور دینی حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ محنت کرنی چاہیے۔
شرکاءِ محفل کی طرف سے جامعہ حفصہؓ کے سانحے کے بارے میں متعدد سوالات ہوئے، جو ایک فطری بات تھی۔ میں نے بہت سے امور، خاص طور پر وفاق المدارس کی جدوجہد کے بارے میں صورتحال کی وضاحت کی۔ شکوک و شبہات کی زیادہ تر وجہ اصل حالات سے بے خبری اور غلط اخباری پروپیگنڈہ تھا، میں نے جب حالات سے دوستوں کو آگاہ کیا تو انہیں اطمینان حاصل ہوا اور ایک دوست نے بطور خاص کہا کہ میں بہت سے شکوک و شبہات کا شکار تھا، جو آپ کی گفتگو سے دور ہو گئے ہیں۔
مکہ مکرمہ میں دو روز قیام رہا، مگر کسی بزرگ یا دوست کی خدمت میں حاضری نہ دے سکا۔ مغرب کے بعد مولانا محمد مکی حجازی مدظلہ کے درس میں شریک ہوا، کچھ دیر ان کی باتیں سنیں۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کا تذکرہ کر رہے تھے اور ان کے حوالے سے اپنے مخصوص انداز سے دینی جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر وہاں کھڑا ان کی زیارت سے فیضیاب ہوا، کچھ درس سنا اور پھر ملاقات کے بغیر وہاں سے چلا آیا، اس لیے کہ ملاقات کی صورت میں مجھے ان کے ساتھ حسبِ سابق گھر جانا پڑتا اور میرا مصروفیات کا شیڈول اس کا متحمل نہیں تھا۔
جدہ میں ایک ہفتہ قبل جب میں پہنچا تو پتہ چلا کہ دارالعلوم دیوبند (وقف) کے مہتمم مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ تشریف لائے ہوئے ہیں، ان کی خدمت میں حاضری دی اور کچھ دیر ان کے ساتھ رہا۔ حرمین شریفین سے واپسی پر محترم قاری محمد رفیق نے جدہ میں حسبِ معمول احباب کے اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا، عالمِ اسلام کی موجودہ صورتحال اور پاکستان میں جامعہ حفصہؓ کے سانحے سے پیدا شدہ حالات کے بارے میں گفتگو کی۔ سوالات و جوابات یہاں بھی ہوئے اور ایک دلچسپ سوال کا بھی تذکرہ ہوا کہ پاکستان کے کسی رہنما نے ایک محفل میں کہا ہے کہ جو علماء لال مسجد کے آپریشن کے موقع پر اسلام آباد گئے تھے، وہ منافق ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات مجھ تک بھی پہنچی ہے اور میں نے ایسا کہنے والے بزرگ کی خدمت میں یہ سوال بھجوایا ہے کہ جو علماء لال مسجد آپریشن کے موقع پر اسلام آباد گئے اور کچھ نہ کچھ کرتے اور بولتے رہے وہ تو آپ کے خیال میں منافق ٹھہرے، لیکن جو دینی رہنما اس موقع پر گھر سے ہی نہیں نکلے اور آپریشن کے بعد بھی کئی روز تک ان پر سکتہ طاری رہا، ان کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟
میں نے عرض کیا کہ ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں ہے اور کسی سنجیدہ شخص کو زیب نہیں دیتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے عمل اور کردار کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس سے کہاں اور کون سی غلطی سرزد ہوئی ہے اور کہیں اس المناک صورتحال کے اسباب میں اس کی کسی کوتاہی کا دخل تو نہیں ہے؟ یہ اجتماعی احتساب کا وقت ہے اور ہر شخص، ہر طبقہ اور ہر فریق کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا احتساب کرے، اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا جائزہ لے، اس سانحہ کا کوئی فریق اور اس سے تعلق رکھنے والا کوئی طبقہ یا فرد بھی معصوم نہیں ہے اور نہ ہی احتساب سے مستثنیٰ ہے۔ ہم اگر اپنی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں گے اور ان کی تلافی کی مخلصانہ کوشش کریں گے تو مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کر سکیں گے اور اس وقت ہم سب کی یہی ذمہ داری ہے۔
بہرحال اس قسم کی مصروفیات میں حجاز مقدس میں ایک عشرہ گزارنے کے بعد آج رات امریکا کے لیے روانہ ہو رہا ہوں، جہاں امید ہے کہ رمضان المبارک کے پہلے عشرے کے اختتام تک وطن واپس پہنچ جاؤں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔