بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محترم حضرت پیر سید کفیل شاہ صاحب بخاری، حضرات علماء کرام، محترم بزرگو، دوستو، بھائیو، ساتھیو! مجلس احرار اسلام کا شکر گزار ہوں کہ ہمیشہ کی طرح آج پھر اپنی اس بارونق محفل میں یاد کیا اور آپ حضرات سے ملاقات کا شرف بھی بخشا اور کچھ کہنے سننے کا موقع بھی عطا فرمایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس محفل کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں، کچھ مقصد کی باتیں کہنے سننے کی توفیق عطا فرمائیں اور جو بات بھی دینِ حق کی علم میں آئے سمجھ میں آئے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔
ایک عام موضوع پر جو آج دنیا میں اور ہمارے ملک میں بہت گہرائی میں اس پر بحث ہو رہی ہے اور ہمیں بھی اس بحث میں الجھایا جا رہا ہے، اس پر آج کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام کا ریاست سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ کیا خیال ہے؟ ریاست کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ پاکستان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ اور اسلام کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ یہ موضوع مختلف فورموں پر چل رہا ہے، اہل دانش میں بھی چل رہا ہے، اہل حکومت میں بھی چل رہا ہے۔
- ایک طرف ہماری عدالت عظمٰی میں، سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک رٹ چل رہی ہے، میں اس رٹ کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہوں گا کہ عدالت میں زیر بحث مقدمہ ہے اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف، وہ رٹ کیا ہے اس کی تفصیل کیا ہے میں اس میں نہیں جاؤں گا۔ اس کے صرف ایک پہلو پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ کے ایک محترم جسٹس صاحب نے ایک جملہ کہا تھا آج سے چند روز پہلے، کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کوئی قانون بنانے کا حق ہے یا نہیں ہے۔ آپ نے پڑھا ہو گا۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے۔ لیکن مطلق اختیار ہے؟ کسی قانون سازی میں بنیادی ڈھانچے کو پارلیمنٹ کراس کر سکتی ہے؟ کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا، جج صاحب نے ریمارکس دیے۔ اس کے بعد ان رٹوں پر حکومت کی طرف سے جو جواب دیا گیا ہے، محترم اٹارنی جنرل پیش ہوئے ہیں، انہوں نے باقاعدہ تحریری جواب حکومت پاکستان کی طرف سے دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستان کے دستور کا تو کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے ہی نہیں۔ بات ہی ختم کر دی۔ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔ انہوں (جج صاحب) نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قانون سازی کا حق ہے یا نہیں ہے، تو ہمارے اٹارنی جنرل صاحب نے، حکومت پاکستان نے یہ لکھ کر دے دیا کہ پاکستان کے دستور کا کوئی بنیادی ڈھانچہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہاں تو جواب دے دیا، لیکن میں عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ سوال تو اب ہم آپ سے پوچھیں گے، ملک بھر میں پوچھیں گے اور ہر فورم پر پوچھیں گے کہ پاکستان کے دستور کا اگر بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے تو پاکستان کی کوئی بنیاد ہے پھر؟ ایک طرف یہ بحث ہے۔
- دوسری طرف بہت سے اہل دانش اس بات پر دلائل دے رہے ہیں کہ اسلام کا ریاست کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں، اور ریاست کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا نہیں، اس پر بات چل رہی ہے، آپ اخبارات میں پڑھ رہے ہیں۔ میں دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر آج یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلام میں ریاست کا تصور کیا ہے اور ریاست میں اسلام کا تصور کیا ہے۔ ریاست کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ ریاست کا اسلام کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ اور اسلام کا پاکستان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس پر گفتگو کے بہت سے پہلو ہیں لیکن میں شروع کروں گا اس پہلو سے جس کا تعلق ہماری آج کی اس کانفرنس کے عمومی موضوع سے بھی ہے۔ آج کی یہ کانفرنس شہدائے ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد گرامی میں ریاست کا ذکر کرتے ہوئے حکومت کا ذکر کرتے ہوئے اس کا تعلق ختم نبوت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حضورؐ نے ختم نبوت کے ساتھ، اس عقیدے کے ساتھ ریاست و حکومت کا تصور بیان کیا ہے، اس لیے میں یہاں سے آغاز کروں گا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کے حوالے سے خلافت، .حکومت اور ریاست کا کیا تصور پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد کس چیز پر ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ماضی کا قصہ بیان کرتے ہوئے۔ ’’کانت بنی اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی‘‘۔ پس منظر بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت، حکمرانی پیغمبر کرتے تھے، ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا نبی آجاتا۔ اس کی ایک چھوٹی سی جھلک عرض کرنا چاہوں گا۔ یوسف علیہ السلام پیغمبر تھے۔ حکمران بھی تھے یا نہیں؟ یوسف علیہ السلام نے نبوت کی ہے، حکومت بھی کی ہے یا نہیں؟ موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے پیغمبر تھے، کوہ طور پر موسٰی علیہ السلام کو نبوت ملی، گئے تھے آگ لینے کیلئے، اور لے کر آئے نبوت۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت دے کر کس کے پاس بھیجا؟ فرعون کے پاس۔ موسٰی علیہ السلام کو نبوت ملی تو درخواست کی کہ یا اللہ! میں اکیلا ہوں بھائی بھی ساتھ لگا دے۔ اکیلا ہوں، بڑی طاقتور حکومت ہے، بڑے جابر ہیں، بھائی کو بھی ساتھ لگا دے۔ اللہ نے سن لی کہ دونوں بھائی جاؤ ’’اذھبا الیٰ فرعون انہ طغٰی‘‘ فرعون کے پاس جاؤ سرکش ہو گیا ہے، اور اس کو دو پیغام دینے ہیں۔ ایک پیغام یہ ہے کہ اللہ کی سرکشی سے باز آجاؤ، اللہ کے سامنے جھک جاؤ۔ اور دوسرا پیغام کیا ہے؟ ’’ان ارسل معنٰی بنی اسرائیل‘‘ ہم اپنی قوم کی آزادی کے لیے آئے ہیں، ہماری قوم کو غلامی سے آزادی دے دو۔ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘ ہماری قوم کو تم نے غلامی کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے، ہم اپنی قوم کو غلامی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے اور آزادی دلانے کے لیے آئے ہیں، اور نبوت ہمیں اس مقصد کے لیے ملی ہے۔ موسٰی علیہ السلام پیغمبر بھی تھے اور تحریک آزادی کے قائد بھی تھے یا نہیں؟ تحریک آزادی کی قیادت کی ہے یا نہیں؟ دونوں بھائیوں نے۔ اور قوم کو آزادی دلوائی یا نہیں؟
بڑا دلچسپ مکالمہ ہے، موسٰی علیہ السلام آئے اور فرعون کو آ کر پیغام دیا۔ فرعون تو فرعون ہوتا ہے۔ اس نے اپنی پچھلی باتیں یاد دلائیں ’’الم نربک فینا ولیدًا ولبثت فینا من عمرک سنین‘‘ اس نے کہا موسٰی! ہمارے گھر میں ہماری روٹیوں پر پل کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہو۔ ترجمہ غلط تو نہیں کیا میں نے؟ علماء کرام ہیں کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔ ’’الم نربک فینا ولیدًا‘‘ بچپن میں ہم نے نہیں پالا؟ ہماری روٹیاں کھائیں اور ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہو۔ ’’ولبثت فینا من عمرک سنین‘‘ اپنی زندگی کا کتنا حصہ میرے محل میں گزارا ہے تم نے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا ’’وفعلت فعلتک التی فعلت‘‘ یاد ہے کہ مکہ مار کر بندہ ہی مار دیا تھا۔ یہ فرعون موسٰی علیہ السلام کو یاد دلا رہا ہے اپنے محل کی وہ تعیشات، وہ روٹیاں اور قتل یاد دلا رہا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے ایک جواب دیا، خوبصورت جواب دیا، بس اس جواب کے ذکر کے لیے میں نے یہ بات کہی ہے۔ ’’تلک نعمۃ تمنھا علیّ ان عبدت بنی اسرائیل؟‘‘ بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھا ہے کئی نسلوں سے، یہ احسان مجھے جتلا رہا ہے تو؟ میں کسی احسان کو نہیں مانتا، آزادی کے لیے آیا ہوں۔
کیوں جی! حضورؐ نے کیا فرمایا ہے؟ ’’کانت بنی اسرائیل تسوسھم الانبیاء‘‘۔ بنی اسرائیل کی سیاست کون کرتا تھا؟ یوسف علیہ السلام کرتے تھے، موسٰی علیہ السلام کرتے تھے، ہارون علیہ السلام کرتے تھے۔ چلیں کئی مراحل چھوڑ کر صرف ایک حوالہ اور دیتا ہوں۔ داؤد علیہ السلام صرف پیغمبر تھے یا بادشاہ بھی تھے۔ نبوت بھی کی، بادشاہت بھی کی۔ سلیمان علیہ السلام؟ ایسی بادشاہت کی کہ کہہ کر لی بادشاہت۔ ’’رب ھب لی ملکًا لا ینبغی لاحد من بعدی‘‘ یا اللہ! ایسی حکومت دے میرے بعد قیامت تک کسی کو نہ ملے۔ اللہ تعالیٰ نے دی یا نہیں؟ سمجھ میں آگئی ہے بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی ’’کانت بنی اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی‘‘۔ ایک نبی جاتا تو دوسرا آجاتا، تسلسل قائم تھا۔ ’’انہ لا نبی بعدی‘‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ختم نبوت کا اس مسئلہ سے بھی تعلق ہے بھئی۔ پھر یا رسول اللہ! سیاست کون کرے گا؟ فرمایا ’’وسیکون بعدی خلفاء‘‘ میرے بعد یہ نظام کون قائم کرے گا؟ خلفاء۔ ایک پہلو میں نے یہ عرض کیا ہے۔
دوسری بات کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اعلان فرما دیا کہ رسالت بھی ختم اور نبوت بھی ختم ’’لا نبی بعدی ولا رسول‘‘۔ اب کیا ہو گا؟ اب ہوں گے خلفاء۔ قوم کی سیاسی قیادت کا منصب کس نے سنبھالا؟ خلفاء نے۔ اور کس کی جگہ سنبھالا؟ انبیاء کی جگہ۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا ورنہ بری تفصیل ہے کہ ہمارے فقہاء کرام جب خلافت کی تعریف کرتے ہیں کہ خلافت کہتے کس کو ہیں، لمبی بات ہے لیکن میں دو جملوں میں خلاصہ عرض کرتا ہوں کہ خلافت کہتے کس کو ہیں۔ فقہاء یہ فرماتے ہیں کہ خلافت کہتے ہیں امت کے اجتماعی معاملات کو سنبھالنا، حکمرانی کا نظام چلانا ’’نیابتًا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کہتے ہیں اسے۔ خلیفہ اللہ کا نہیں اس کے رسول کا نائب ہے۔ خلیفہ کس کا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے کہہ دیا ’’یا خلیفۃ اللہ‘‘۔ ٹوک دیا ’’لست بخلیفۃ اللہ، انا خلیفۃ رسول اللہ‘‘۔ اللہ کا خلیفہ نہیں ہوں، اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں۔
میں تفصیلات میں جائے بغیر صرف ایک بات کہ خلافت کا آغاز کیسے ہوا؟ آج ہمارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ ریاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہمارے ملک کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے اور دستور کا کوئی بنیادی نظریاتی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ہمارے دانشور یہ کہتے ہیں کہ اسلام کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضورؐ کے ارشاد کے مطابق کوئی ریاست قائم ہوئی تھی یا نہیں؟ کوئی حکومت بنی تھی یا نہیں؟ کون سی حکومت بنی تھی، پہلے خلیفہ کون تھے؟ حضورؐ کی مسند پر کون بیٹھے؟ بطور امام کے یا بطور حکمران کے بھی؟ بطور معلم کے یا بطور کمانڈر کے بھی؟ حکمران بنے تھے، حاکم تھے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو پولیٹیکل سسٹم دیا ہے جو نظام دیا ہے یہ کہہ کر دیا ہے کہ پہلے نبی کرتے تھے اب خلیفہ کریں گے، کام وہی کریں گے جو وہ کرتے تھے، ان کی خلافت کا آغاز کیسے ہوا، خلافت کی بیس (بنیاد) کیا ہے؟ یہ عرض کر کے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے، سقیفہ بنی ساعدہ بیعت ہوئی اس کے بعد مسجد میں ہوئی۔ خطبہ ارشاد فرمایا خلیفۂ اول نے، جانشینِ پیغمبر نے۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور خلافت کا تعارف کروایا کہ میں کون ہوں؟ میں نے کیا کرنا ہے؟ تم نے کیا کرنا ہے؟ یہ پالیسی اسپیچ ہے ان کی۔ پہلا جملہ فرمایا ’’امرت علیکم‘‘ مجھے تم پر حکمران بنا دیا گیا ہے ’’لست بخیرکم‘‘ تم سے بہتر نہیں ہوں۔ یہ ان کی کسر نفسی کا جملہ تھا، اس وقت ان سے بہتر اور تھا کون؟ فرمایا ’’اقودکم بکتاب اللہ‘‘ میں تمہارے نظام کو چلاؤں گا اللہ کی کتاب مطابق اور سنت کے مطابق۔ میں حکومت کس کے مطابق کروں گا؟ ’’اقودکم بکتاب اللہ وسنۃ نبی‘‘ میں تمہارا نظام قائم کروں گا، حکومت کروں گا کتاب و سنت کے مطابق۔ ریاست کی بیس کیا ہے؟ حکومت کی بیس کیا ہے؟ خلافت کی بنیاد کیا ہے؟ رسول اللہ کی قائم کردہ حکومت کی اور حضورؐ کی قائم کردہ ریاست کی بنیاد کیا ہے؟ اگلی بات، صدیق اکبرؓ نے فرمایا اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر فرض ہے، اور اگر میں کتاب اور سنت سے ہٹنے لگوں تو میری اطاعت تم پر فرض نہیں ہے۔ گویا حکومت کا اور رعیت کا تعلق کیا ہے؟ حاکم اور رعایا کا تعلق کیا ہے؟ کتاب و سنت۔ تیسرا جملہ، فرمایا دیکھو! میں تمہیں گارنٹی دیتا ہوں وعدہ کرتا ہوں کہ میں کتاب و سنت کے مطابق چلوں گا، اگر چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، لیکن اگر ٹیڑھا ہو جاؤں پھر؟ اگر میں سیدھا سیدھا چلوں تو میری اطاعت کرنا، میرے ساتھ تعاون کرنا۔ اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو کیا کرنا؟ بڑا زبردست جملہ فرمایا، یہ نہیں کہا کہ مجھے بتا دینا۔ فرمایا مجھے سیدھا کر دینا۔ میں اس کی تعبیر کیا کرتا ہوں کہ یہ عوام کا حق احتساب ہے یہ۔ حضرت صدیق اکبرؓ اسلام کے سیاسی نظام میں پہلی تقریر میں یہ اعلان کر رہے ہیں، عوام کا حق احتساب ہے کہ حکمران اگر ہٹنے لگیں تو پکڑ کر سیدھا کر دے۔
ہر زمانے میں سیدھا کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ آج کا اپنا طریقہ ہے، اس زمانے کی ایک جھلک دکھا کر بات سمیٹتا ہوں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا اپنا مزاج تھا اور حضرت عمرؓ کا اپنا مزاج تھا۔ مزاج کا فرق تو ہوتا ہے نا۔ اور تھا یا نہیں؟ زبردست تھا۔ پہلے خطبے میں حضرت عمرؓ نے بھی یہی باتیں فرمائیں۔ دو اضافے کیے صرف۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا تھا کہ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں گارنٹی دیتا ہوں کہ کتاب اللہ کے مطابق چلوں گا اور سنت رسول کے مطابق چلوں گا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے پہلے خطبے میں خلیفہ بنتے ہی اپنی پالیسی اسپیچ میں ایک جملے کا اضافہ کر دیا۔ فرمایا، قرآن کے مطابق چلوں گا، سنت کے مطابق چلوں گا، اور اپنے پیشرو کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ ماضی کے تسلسل کو قائم رکھوں گا۔ اگلی بات فرمائی۔ اگر میں سیدھا سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو گے، اگر میں ٹیڑھا چلنے لگوں تو کیا کرو گے؟ سوال کر دیا رعیت سے۔ ایک بدو اٹھا، جمعے کا اجتماع تھا، کھڑا ہو گیا۔ تلوار نکالی اور یوں لہرائی۔ او خطاب کے بیٹے! اگر تم ٹیڑھا چلنے لگے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے کسی آئی جی کو اشارہ نہیں کیا، آسمان کی طرف نظر اٹھائی، یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ عمر کی رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمر کو بھی سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
میں صرف یہ بتا رہا ہوں کہ جو ریاست اسلام نے قائم کی، جو ریاست جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی، اس کا کوئی بنیادی ڈھانچہ تھا یا نہیں؟ اس کی نظریاتی بنیاد ہے یا نہیں؟ میں اہلِ دانش سے بھی کہنا چاہتا ہوں اور حکمرانوں سے بھی کہ جو قومیں اپنی بنیادوں سے منحرف ہو جایا کرتی ہیں ان کی بنیادی منہدم ہو جایا کرتی ہیں۔ جو قومیں اپنی بنیادوں سے انحراف شروع کر دیتی ہیں ان کی بنیادیں پھر قائم نہیں رہتیں۔ پاکستان کو قائم رکھنا ہے، اللہ تعالیٰ سلامت رکھیں، اللہ تعالیٰ قائم رکھیں، تو پھر پاکستان کی بنیادوں کو بھی قائم رکھنا ہو گا۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے، قرآن کریم ہے، سنت رسولؐ ہے، خلافتِ راشدہ ہے۔ پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم ہیں، کوئی طاقت، کوئی حکومت، کوئی دانش اسلام اور پاکستان کو الگ نہیں کر سکتی، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔