حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ بھی چل بسے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ابھی دو ہفتے قبل وہ گوجرانوالہ تشریف لائے تھے۔ ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم میں آرام فرمایا۔ میں صبح اسباق کے لیے مدرسہ میں پہنچا تو طلبہ نے بتایا کہ حضرت تونسویؒ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں اور مہمان خانے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسباق سے فارغ ہو کر میں مہمان خانے میں گیا تو وہ لحاف اوڑھے لیٹے ہوئے تھے مگر جاگ رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا، مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کر کے واپس پلٹ گیا تاکہ ان کے آرام میں زیادہ خلل نہ آئے۔ دورہ حدیث کے طلبہ نے فرمائش کی کہ حضرت تونسوی صاحبؒ انہیں اپنی سند کے ساتھ حدیث روایت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ میں نے مولانا حاجی فیاض خان سواتی سے کہا کہ وہ مناسب موقع دیکھ کر حضرتؒ سے درخواست کر دیں اور گھر واپس آگیا۔ یہ معلوم ہوتا کہ یہ حضرت تونسویؒ سے میری آخری ملاقات ہے تو شاید انہیں کچھ دیر کے لیے بے آرام بھی کر لیتا، مگر یہ علم اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس ہی رکھا ہے کہ کس کی زندگی نے کب اور کہاں اس کا ساتھ چھوڑ جانا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
حضرت علامہ عبد الستار تونسویؒ کی زیارت پہلی بار غالباً طالب علمی کے دور میں قلعہ دیدار سنگھ کی مدینہ مسجد کے سالانہ اجلاس میں ہوئی تھی جہاں وہ اور ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے دیگر قائدین حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ اور دیگر حضرات تشریف لایا کرتے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ نصف صدی کے دوران متعدد مجالس اور پبلک جلسوں میں ان سے ملاقات رہی۔ مختلف تحریکات میں ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا اور بہت سے مواقع پر ان سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس و وقار کی سربلندی کے لیے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی جدوجہد اور خدمات اس حوالہ سے تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے لکھنو میں بیٹھ کر جو ہمیشہ اہل تشیع کا گڑھ رہا ہے، اہل سنت کے عقائد کا پرچار کیا، حضرات صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس کا پرچم بلند کیا، سنی مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کیا اور اس مشن کے لیے برصغیر کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے ہزاروں علماء کرام کی تربیت کر کے انہیں تیار کیا۔ میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی حضرت لکھنویؒ کے شاگردوں میں سے ہیں بلکہ ان کی وساطت سے ہماری سند حدیث ’’علماء فرنگی محل‘‘ کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جن علماء کرام نے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے اس مشن کو ان کے سکھائے ہوئے طرز اور اسلوب کے مطابق سنبھالا اور مسلسل محنت کر کے اسے ایک مستقل تحریک کی حیثیت دی ان میں حضرت مولانا عبدالستار تونسویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الحئی جام پوریؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ملتان میں تنظیم اہل سنت کے عنوان سے مرکز قائم کیا۔ ایک دور میں ’’دعوت‘‘ کے نام سے تنظیم اہل سنت کا مستقل جریدہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے جس نے اس مشن اور محاذ کے لیے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ سرکردہ علماء کرام کے اس عظیم قافلہ کے ساتھ اس محاذ کے ایک اور عظیم مجاہد سردار احمد خان پتافیؒ اور ان کے علاوہ شاعر اہل سنت خان محمد کمتر مرحوم کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی کی بات ہوگی جن کی خدمات اس حوالہ سے بہت نمایاں ہیں۔
حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کے تین بڑے محاذ تھے، وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اختلافی مسائل پر مباحثہ کے لیے اپنے وقت کے سب سے بڑے سنی مناظر تھے اور انہوں نے اس محاذ پر بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ وہ پبلک جلسوں میں ناموس صحابہؓ اور عقائد اہل سنت کے اثبات و دفاع میں ایک کامیاب خطیب تھے جن کے محققانہ خطبات ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے ہیں اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو سنی شیعہ تنازعات پر مناظرہ کی تیاری کرانا اور سنی کاز کے لیے محنت کرنے کی تربیت دینا ان کا خصوصی مشغلہ تھا جس میں وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک مصروف رہے ہیں اور ان کے تربیت یافتہ ہزاروں علماء کرام نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔
ان کا سیاسی تعلق ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ رہا ہے اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور دیگر اکابر جمعیۃ کے ساتھ ان کا مسلسل ربط و تعلق تھا۔ انہوں نے اپنے محاذ اور مشن کے ساتھ ساتھ تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت، تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور دیگر دینی تحریکات میں بھی متحرک کردار ادا کیا اور ان تحریکوں کی بھرپور سرپرستی کی۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور ان بزرگوں کی باہمی محبت و شفقت کے بہت سے مناظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔
حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کا تربیت یافتہ یہ قافلہ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوگیا ہے اور ان کے اسلوب و طرز کے حوالہ سے پیدا ہونے والا یہ عظیم خلا ہم جیسے حساس کارکنوں کو زندگی بھر پریشان کرتا رہے گا۔ ان میں سے اب صرف حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں اور حضرت تونسویؒ کی خدمات کو قبولیت سے نوازتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔