برطانیہ کی ختم نبوت کانفرنسیں ۔ توقعات اور نتائج

   
۱۹ اگست ۱۹۹۹ء

ان دنوں برطانیہ میں مذہبی کانفرنسوں کا سیزن ہے اور ہر سال جون، جولائی اور اگست میں ان کانفرنسوں کا انعقاد یہاں کی مذہبی روایت کا درجہ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے علماء کرام مختلف عنوانات سے دینی اجتماعات منعقد کرتے ہیں۔ اہل تشیع کے اجتماعات بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد آتی ہے اور دو تین ماہ خوب چہل پہل رہتی ہے۔ میرا بھی چونکہ انہی مہینوں میں لندن میں قیام ہوتا ہے اس لیے بہت سے اجتماعات میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔ گزشتہ روز ہمارے محترم رفیق کار مولانا مفتی برکت اللہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اس موسم میں آپ کا یہاں آنا ہمارے لیے کچھ سود مند نہیں ہے کیونکہ آپ کا اکثر وقت اجتماعات میں گزر جاتا ہے، اس لیے آپ لندن میں قیام کے مہینے تبدیل کریں تاکہ جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم اور ابوبکر اسلامک سنٹر ساؤتھال کے تعلیمی و فکری کاموں کی طرف پوری توجہ دے سکیں جن کے لیے آپ یہاں آتے ہیں۔ حالات کی رفتار سے لگتا ہے کہ مجھے یہ مشورہ بالآخر قبول کرنا ہی پڑے گا اگرچہ مجھےاس کا نقصان یہ ہوگا کہ گرمی کی شدت کے مہینے پاکستان میں آئیں گے جو سالہا سال سے گرمیاں لندن میں گزارنے کی عادت پڑ جانے کے بعد خاصے دشوار نظر آرہے ہیں۔

ان کانفرنسوں میں سیرت کانفرنسوں، سنی کانفرنسوں اور دعوت اسلام کی کانفرنسوں کے علاوہ وہ ختم نبوت کانفرنسیں بھی ہیں جو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور منکرین ختم نبوت کے تعاقب کے جذبہ کے ساتھ منعقد ہو چکی ہیں۔ جبکہ چھٹی کانفرنس ۸ اگست اتوار کو مرکزی جامع مسجد برمنگھم میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چودھویں سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کے طور پر منعقد ہو رہی ہے۔ ۱۸ جولائی کو مانچسٹر کے ٹاؤن ہال میں اسلامک اکیڈمی نے علامہ ڈاکٹر خالد محمود کی زیرصدارت ختم نبوت کانفرنس منعقد کی جبکہ ۲۵ جولائی کو لندن میں جماعت اہل سنت کی طرف سے لندن کے دو مقامات پر تاجدار ختم نبوت کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ یکم اگست کو اٹین لائن ایسٹ لندن کے ایک ہال میں انٹرنیشنل ختم نبووت موومنٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس ہوئی اور اسی روز جامعہ نظامیہ رضویہ ڈربی میں بھی ختم نبوت کانفرنس منعقد کی گئی۔

ان کانفرنسوں میں روئے سخن زیادہ تر قادیانیوں کی طرف ہوتا ہے۔ چونکہ برصغیر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کا زیادہ تر سابقہ قادیانیوں سے پڑتا ہے، اکثر و بیشتر علماء بھی انہی ممالک سے آتے ہیں، اور انہی دنوں قادیانیوں کا سالانہ عالمی اجتماع بھی لندن میں ہوتا ہے اس لیے قادیانیت ہی ان کانفرنسوں کے مقررین کی گفتگو کا مرکزی عنوان ہوتی ہے۔ اور علماء کرام روایتی جوش و خروش کے ساتھ قادیانیوں کے خلاف غیظ و غضب کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے اگلے سال تک کے لیے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ ادا کر دیا ہے۔

ان ختم نبوت کانفرنسوں میں ہونے والی گفتگو کا مواد اور انداز بھی وہی روایتی یعنی موچی دروازے اور لیاقت باغ والا ہوتا ہے جس سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آکر آباد ہونے والے حضرات کا ’’ٹھرک‘‘ تو پورا ہو جاتا ہے اور وہ بہت محظوظ ہوتے ہیں کہ کافی عرصہ کے بعد انہیں اپنے محبوب خطباء کے خطابات سننے اور پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن یہاں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے نوجوانوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اس لیے ان اجتماعات میں نوجوانوں کی شرکت کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور جو چند نوجوان عقیدت کے پیش نظر آجاتے ہیں وہ بھی محض ثواب کی نیت سے مقررین کے چہروں کی زیارت کرتے رہتے ہیں۔

برمنگھم کی مرکزی جامع مسجد میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس حاضری کے اعتبار سے سب سے بڑی کانفرنس ہوتی ہے اور مختلف ممالک سے علماء کرام کی نمائندگی کے حوالہ سے بھی بھرپور ہوتی ہے۔ چند سال پہلے کی بات ہے کہ اس کانفرنس میں راقم الحروف نے اپنے خطاب میں انسانی حقوق کے عنوان سے قادیانیوں کی تگ و دو کا پس منظر اور اس کی کچھ تفصیلات بیان کیں اور پنجاب کے سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل چوہدری نذیر احمد غازی نے انگلش میں قادیانیت کے تاریخی پس منظر اور اس سے متعلقہ کچھ امور پر گفتگو کی تو کانفرنس کے بعد جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے ایک نوجوان نے مجھے روک لیا اور کہا کہ راشدی صاحب! ہم صبح دس بجے سے شام سات بجے تک خطبات سنتے رہے ہیں مگر ان میں صرف آپ کی بات کچھ سمجھ میں آئی ہے یا نذیر غازی صاحب کی گفتگو ہم سمجھ پائے ہیں۔ ورنہ سارا دن صرف ثواب کی خاطر بیٹھے رہے ہیں ہمارے پلے کچھ نہیں پڑا۔

یہ المیہ کم و بیش ہر کانفرنس میں شریک ہونے والے نوجوانوں کا ہے اور اب تو ان کانفرنسوں کے منتظمین کے اجلاسوں میں بھی دبے لفظوں میں یہ بات زیر بحث آنے لگی ہے کہ ان کانفرنسوں کا آخر فائدہ کیا ہے؟ راقم الحروف ایک عرصہ سے ان کانفرنسوں کے منتظمین سے یہ گزارش کر رہا ہے کہ ان کانفرنسوں کی افادیت صرف اتنی ہے کہ پہلے سے عقیدہ ختم نبوت سے وابستگی اور تحریک ختم نبوت کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمانوں میں بیداری قائم رہتی ہے، نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے اور تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اس سے زیادہ ان کانفرنسوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ جبکہ ختم نبوت کے حوالہ سے کرنے کے اصل کام اور ہیں جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف قادیانیوں بلکہ دیگر منکرین ختم نبوت مثلاً ایران کے بہائیوں، امریکہ کے نیشن آف اسلام اور بلوچستان کے ذکری گروہ کے بارے میں عام فہم زبان میں اور مناظرانہ اسلوب سے ہٹ کر معلومات لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع کیا جائے، اور الیکٹرانک میڈیا سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے نئی نسل کو ان فتنوں سے واقف کرانے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اکثر لوگ سرے سے ان گروہوں سے واقف ہی نہیں ہیں۔

ابھی گزشتہ روز کی بات ہے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب عبد المقیت جو گزشتہ تیس برس سے یہاں مقیم ہیں، ایم ون پر واقع بستی ملٹن کینز سے مولانا فداء الرحمان درخواستی اور راقم الحروف کو لندن لانے کے لیے گاڑی لے کر وہاں پہنچے۔ وہ علماء سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں مگر ان کی معلومات کا حال یہ تھا کہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ مولوی صاحب احمدی فرقہ کا بانی کون ہے؟ میں نے بتایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اس نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ پھر سوال کیا کہ وہ کون سی صدی میں گزرا ہے؟ اس سے اندازہ کر لیں کہ علماء سے تعلق رکھنے والے اور دینی ذوق رکھنے والے حضرات کی معلومات کا حال یہ ہے کہ تو جو لوگ مسجد اور مولوی کے قریب پھٹکنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کی واقفیت کا عالم کیا ہوگا؟

اس لیے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے عنوان سے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں سے گزارش ہے کہ وہ سطحیت اور جذباتیت کے خول سے باہر نکلیں، حقائق کا ادراک حاصل کریں، نئی نسل کی ذہنی سطح اور نفسیات کا اندازہ کریں اور عالمی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، منکرین ختم نبوت کے تعاقب او رنئی نسل کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت کے لیے اپنی جدوجہد کی ترجیحات اور طریق کار پر نظر ثانی کریں۔ ورنہ اگر وہ اپنی موجودہ روش پر ہی قانع رہے تو اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter