الشریعہ اکادمی: اہداف اور کارکردگی

   
۲۹ اگست ۲۰۰۵ء

۲۷ اگست کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی سالانہ تقریب میں بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے صدارت کی، جبکہ جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی مہمان خصوصی تھے اور ان کے ساتھ گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے سینئر رکن چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ بھی خصوصی مہمانوں کی نشست پر تشریف فرما تھے۔ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور اکادمی کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف کرایا۔ اکادمی کے ناظم اور استاذ مولانا حافظ محمد یوسف نے شرکاء کو اکیڈمی کی سرگرمیوں اور فضلاء درس نظامی کے ایک سالہ خصوصی کورس کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ فضلاء درس نظامی کی ایک سالہ کلاس میں اس سال تیرہ فضلاء نے داخلہ لیا، جن میں سے گیارہ نے کورس کی تکمیل کی اور مقالات تحریر کیے۔ جبکہ ان میں سے دو حضرات کورس کی تکمیل اور مقالہ تحریر کرنے کے باوجود کسی وجہ سے سالانہ امتحان میں شریک نہ ہو سکے۔ نو حضرات نے امتحان میں شرکت کی اور کامیابی حاصل کر کے سند کے مستحق ٹھہرے، ان میں سے پانچ حضرات جامعہ دارالعلوم کراچی اور دو حضرات جامعہ خیر المدارس ملتان کے فضلاء ہیں، جبکہ ایک دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور ایک دارالعلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے فاضل ہیں۔ ان حضرات نے کورس کی تکمیل کے ساتھ مختلف عنوانات پر اساتذہ کی نگرانی میں مقالات تحریر کیے، جنہیں شہر کے تین بڑے دینی مدارس مدرسہ نصرۃ العلوم، مدرسہ اشرف العلوم اور جامعہ عربیہ کے اساتذہ نے چیک کر کے ان کی توثیق کی۔

تقریب میں ان فضلاء کو مہمانانِ خصوصی نے اسناد اور انعامات عطا کیے، جبکہ اکادمی کے عملہ میں سے مولانا حافظ محمد یوسف، پروفیسر محمد اکرم ورک اور ڈاکٹر محمود احمد کو حسنِ کارکردگی کے خصوصی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ ڈاکٹر محمود احمد الشریعہ اکادمی کی فری ڈسپنسری کے انچارج ہیں، جن کی توجہ سے فری ڈسپنسری علاقہ کے غریب عوام کی مسلسل خدمت کر رہی ہے اور روزانہ کم و بیش ستر اسی کے لگ بھگ مریض ڈسپنسری کی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر الشریعہ اکادمی کے دو سابق طلبہ کو بھی خصوصی انعامات سے نوازا گیا، جنہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور ان میں ایک اب ڈسٹرکٹ کورٹس گوجرانوالہ میں پریکٹس کر رہے ہیں۔

پانچ روز قبل ۲۴ اگست کو اکادمی میں خواتین کا ایک اجتماع ہوا، جس میں عربی گرامر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم مکمل کرنے والی طالبات کو سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ اس موقع پر جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے شعبہ بنات کی صدر معلمہ نے، جو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی دختر اور مولانا قاری خبیب احمد عمر مہتمم جامعہ حنیفہ تعلیم الاسلام کی اہلیہ ہیں اور سالہا سال سے بخاری شریف پڑھا رہی ہیں، خواتین سے خطاب کیا اور ان کے ساتھ جامعۃ الہدیٰ برمنگھم (برطانیہ) کی معلمہ قاریہ عائشہ ظہیر نے بھی خطاب کیا، جو مولانا خبیب احمد عمر کی دختر اور راقم الحروف کی بھانجی ہیں۔

سالانہ تقریب میں بتایا گیا کہ اکادمی میں دینی مدارس کی طالبات کے لیے تعطیلات کے دوران مختصر مدت کے کورس بھی کرائے جاتے ہیں، جن کے تحت اس سال پانچ شعبان سے انتیس شعبان تک عربی بول چال اور کمپیوٹر ٹریننگ کے ایک کورس کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جبکہ بعض دیگر طلبہ بھی مختلف کورسز کے حوالہ سے مولانا حافظ محمد یوسف اور دیگر اساتذہ سے فارغ اوقات میں تیاری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکادمی میں اردگرد کے عام مسلمانوں خصوصاً تاجر حضرات کے لیے تین تین ماہ کے دورانیہ کے ”فہمِ دین کورسز“ کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں مجموعی طور پر ایک سو سے زائد حضرات نے شرکت کی۔

پروگرام کے مطابق فضلاء درس نظامی کی اگلے سال کی کلاس کے لیے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں اور شہر کے معروف علاقے واپڈا ٹاؤن کے عقب میں کوروٹانہ کے مقام پر کھیالی کے ایک مخیر دوست حاجی ثناء اللہ طیب نے ایک ایکڑ جگہ ”الشریعہ اکادمی“ کے لیے وقف کی ہے، جہاں تعمیر کا کام شروع کیا جا رہا ہے۔ پروگرام کے مطابق عید الاضحیٰ سے قبل یا اس کے فوراً بعد وہاں حفظ قرآن کریم کی کلاس کا ان شاء اللہ تعالیٰ آغاز ہو جائے گا، جس میں پرائمری پاس بچوں کو چار سال میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ کے نصاب کے مطابق مڈل بھی کرایا جائے گا۔

تقریب میں حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی اور مولانا عبد الرؤف فاروقی نے بھی خطاب کیا اور دورِ حاضر کی ضروریات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الشریعہ اکادمی کی کارکردگی کو سراہا۔ راقم الحروف نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الشریعہ اکادمی کے اغراض و مقاصد اور اس حوالے سے اپنی سوچ اور ایجنڈے کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا، جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہ میرے ایک بہت پرانے خواب کی تعبیر کا آغاز ہے جو آج آپ موجودہ شکل میں الشریعہ اکادمی میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک مدت سے میں یہ سوچ رہا تھا کہ درس نظامی کے فضلا کے لیے کسی ایسے کورس اور تربیت گاہ کا اہتمام ہونا چاہیے جس میں انھیں دور حاضر کے تقاضوں اور ضروریات سے آگاہ کیا جائے اور اس بات کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ اس دور کے لوگوں کی نفسیات اور ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے ان کے سامنے دین کو بہتر انداز میں پیش کر سکیں۔ آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ اس سمت میں سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک زمانے میں یہ بات کی تھی کہ جس طرح اصحاب کہف حالات کے جبر سے بے بس ہو کر اپنا ایمان بچانے کے لیے غار میں گھس گئے تھے اور اپنے ایمان کا تحفظ کیا تھا، اسی طرح ہمارے اساتذہ نے بھی حالات کے جبر کو بھانپتے ہوئے ہمیں مدارس کی غاروں میں داخل کر دیا ہے۔ اصحاب کہف جب تین صدیوں کے بعد غار سے نکلے تھے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ زبان بدل چکی تھی، سکہ تبدیل ہو چکا تھا اور حالات انقلابات کا شکار ہو چکے تھے۔ اسی طرح جب ہم ان مدارس کی غاروں سے نکل کر سوسائٹی میں آتے ہیں تو ہمیں بھی سب کچھ بدلا ہوا ملتا ہے۔ سوسائٹی کی عام زبان ہمارے لیے نامانوس ہوتی ہے اور ہمارا سکہ آج کے دور میں مارکیٹ میں قبول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہم اپنی ہی سوسائٹی کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔

حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی کی بیان کردہ یہ تمثیل ہمارے موجودہ ماحول اور معاشرتی تناظر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے خاصا کام دیتی ہے اور الشریعہ اکادمی کا بنیادی مقصد اسی اجنبیت کو کم کرنا اور دینی مدارس کے فضلا کو معاشرے کے عمومی ماحول سے باخبر اور مانوس کرنا ہے تاکہ وہ لوگوں کی زبان، نفسیات اور ذہنی سطح کا ادراک کرتے ہوئے ان کے سامنے دینی تعلیمات کو پیش کر سکیں۔

ہمارا دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ دینی مدارس آج کے عالمی ماحول سے واقف ہوں، اپنے معاصر مذاہب اور فکری وعلمی تحریکات سے آگاہ ہو ں اور علمی وفکری کام کرنے والوں کے طریق کار اور ہتھیاروں سے باخبر ہوں۔ آج دنیا کے عالمی ماحول سے بے خبر یا لا تعلق رہ کر کوئی دینی، علمی یا فکری تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دین کی بات کرنے والے کی بات اس قدر عام فہم اور باعث کشش ہو کہ اس کی بات ہر جگہ توجہ سے سنی جائے اور اس پر غور کیا جائے کیونکہ کوئی بات کتنی ہی سچی اور حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو، اگر اس میں کشش نہیں ہوگی تو وہ قابل توجہ نہیں سمجھی جائے گی۔ غالباً مولانا روم کی بیان کردہ کہاوتوں میں ذکر ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ سفر پر جا رہا تھا۔ ان میں ایک صاحب کو اذان دینے کا بہت شوق تھا، مگر آواز اس قدر مکروہ تھی کہ سننے والے آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے۔ ایک جگہ وہ غیر مسلموں کی بستی کے پاس سے گزرے۔ وہاں نماز کے لیے ٹھہرے اور ان صاحب نے بڑے شوق کے ساتھ اذان دی، مگر جب نماز سے فارغ ہوئے تو بستی سے ایک غیر مسلم مٹھائی کا ٹوکرا اٹھائے ہوئے ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ وہ اذان دینے والے بزرگ کون ہیں؟ میں یہ مٹھائی ان کے لیے لایا ہوں۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر کیوں؟ اس نے جواب دیا کہ میری ایک جوان لڑکی ہے جو کچھ دنوں سے اسلام کی طرف مائل نظر آ رہی تھی اور ہم اسے سمجھا بجھا کر اسلام قبول کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہماری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ آج آپ حضرات کا قافلہ آیا تو میری بیٹی پھر بے تاب ہو نے لگی۔ اتنے میں اس موذن نے اذان دی تو اس کی آواز سن کر میری بیٹی کا ارادہ بدل گیا ہے۔ اس خوشی میں مٹھائی کا یہ ٹوکرا لایا ہوں اور شکرانے کے طور پر موذن صاحب کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہم اس بات کے دعوے دار نہیں ہیں کہ ہم جو کچھ درس نظامی کے فضلا کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، وہ انھیں ایک سال کے اس عرصے میں دے دیتے ہیں اور نہ یہ بات ممکن ہے۔ البتہ ہمیں اس قدر اطمینان ضرور حاصل ہے کہ ہم ان کے دلوں میں ان ضروریات کا احساس اجاگر کر دیتے ہیں اور اس خلا کو پورا کرنے کے راستوں کی طرف نشان دہی کر دیتے ہیں جس سے اس سمت میں ان کا اگلا سفر قدرے آسان ہو جاتا ہے۔

ہم اس مشن کے لیے آپ حضرات سے تعاون کے خواست گار بھی ہیں، راہ نمائی اور تجاویز کے طلب گار بھی ہیں اور خصوصی دعاؤں اور توجہات کے متمنی بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلوص اور محنت کے ساتھ پیش رفت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین

   
2016ء سے
Flag Counter