شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کے پوتے اور مولانا اشرف علی کے فرزند مولانا مفتی امان اللہ کی المناک شہادت نے پچھلے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں جو ابھی پرانے نہیں تھے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن کے المناک سانحہ کو ایک سال بھی نہیں گزرا کہ دارالعلوم کے نائب مہتمم سفاک قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چند روز قبل جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مولانا مفتی محمد نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر شکیل اوج دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں، اور اب مولانا امان اللہؒ بھی شہداء کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔
کراچی سے اسلام آباد اور پشاور تک پھیلی ہوئی اس دہشت گردی اور قتل و غارت میں جو لسانی بھی ہے، علاقائی تناظر بھی رکھتی ہے اور فرقہ واریت کا عنصر بھی اس میں نمایاں ہے، کسی طرح کم ہونے میں نہیں آرہی بلکہ اس کی شدت اور سنگینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سنی شیعہ کشیدگی ایک نیا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کے حالات کا یہاں پر اثر اندازی کا دائرہ مزید وسعت پکڑنے لگا ہے۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ گزشتہ سال دارالعلوم تعلیم القرآن کے سانحہ کے بعد ہم نے تھوڑی بہت اجتماعیت کا جو ظاہری اہتمام وقتی طور پر کیا تھا، وہ قصۂ ماضی بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں اپنے جھگڑوں سے فرصت نہیں ہے، ہم نے اپنی گروہی ترجیحات کو حق و باطل بلکہ ایمان و کفر کے معیارات قرار دے کر انہی کے لیے لڑنے مرنے کا عزم کر لیا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہی ہمارا مقصد زندگی بن چکا ہے۔ سنی محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کو دیکھ لیجئے۔ اب سے ربع صدی قبل اس میدان میں جو جماعتیں اور حلقے کسی نہ کسی درجہ میں متحرک تھے وہ یا تو مسلسل سکڑتے جا رہے ہیں یا تقسیم در تقسیم کے منحوس سایوں نے آکاس بیل کی طرح انہیں گھیرے میں لے رکھا ہے۔ بلکہ وہ کسی حکمت عملی یا لائحہ عمل کی تلاش میں ’’یعمہون‘‘ کی کیفیت سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے خلافت عثمانیہ کے مرکز ترکی میں سیکولرازم کے غلبہ کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ علماء کرام اور صوفیاء عظام کو اجتماعی اور ملی ضروریات کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں تھی اور ان کی گروہی مصروفیات نے ان کے اوقات اور توجہات کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ملک و قوم اور امت و ملت کے اجتماعی مسائل پر غور کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچا تھا۔ آج ہماری صورت حال بھی اسی طرح کی ہے۔ امت کے دائرہ میں جو مشکلات و مسائل دن بدن سنگین ہوتے جا رہے ہیں ان پر غور و خوض کے لیے ہماری ترجیحات میں کوئی وقت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اہل سنت کو ملکی اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کو سمجھنے کی کوشش بھی ہمارے ہاں تکلف اور ضیاع وقت سمجھی جانے لگی ۔جبکہ مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ کشمکش خوفناک رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اور ہمارے ملک میں اس کے اثرات کا نقشہ مستقبل قریب کے حوالہ سے نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اگر دوستوں نے اس سلسلہ میں پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ کے مضامین اور بیانات غور سے پڑھے ہیں تو اس کا سطحی خاکہ بھی ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل انہی کالموں میں اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں فاطمی دولت کی واپسی کے آثار نظر آرہے ہیں جبکہ ہر آنے والا دن ہمارے اس خدشہ کی خدانخواستہ تصدیق کرتا جا رہا ہے۔ خدا جانے ہم اس صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت کب محسوس کریں گے؟ ستم کی بات یہ ہے کہ عملی تحریک کا کوئی کام تو رہا ایک طرف اس محاذ پر فکری راہ نمائی کا بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی ضرورت کا سرے سے کوئی احساس پایا جاتا ہے۔ بلکہ ہم سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے کہ کسی سانحہ کے بعد وقتی طور پر جمع ہو کر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے جو دعوے ہم اخبارات میں اچھال دیتے ہیں ان پر عمل کس نے کرنا ہوتا ہے؟ ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو فیصلے ہم کرتے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے آسمان سے فرشتے اتریں گے یا اللہ تعالیٰ ہی اپنی طرف سے کوئی صورت پیدا فرما دیں گے۔ ہمارا کام صرف جمع ہونا، تقریریں کرنا، جذبات کا اظہار کرنا اور کچھ بلند بانگ دعوے کر کے گھروں کو واپس لوٹ جانا ہی رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
مولانا امان اللہؒ کی شہادت ہمیں بہت کچھ یاد دلا رہی ہے اور اگر ہمارا حافظہ بالکل جواب نہیں دے گیا تو یہ المناک قتل نہ صرف ہمارے ذہنوں کے دروازوں کو کھٹکھٹا رہا ہے بلکہ دلوں کی کیفیات بھی ٹٹول رہا ہے کہ حس و حرکت کی کوئی رمق باقی بھی رہ گئی ہے یا نہیں۔ اس نوجوان کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کے ہونٹوں پر یہ سوال بھی مچلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کہ الیس منکم رجل رشید؟ اللہ تعالیٰ ان شہداء کی مغفرت فرمائیں اور ہمیں راہ حق پر چلتے ہوئے کچھ نہ کچھ کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔