(ادارۃ الکہف لاہور میں میسج ٹی وی کے جناب عبد المتین اسحاق کا انٹرویو مولانا راشدی کی نظر ثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
تمہید
السلام علیکم میسج ٹی وی میں ایک دفعہ پھر خوش آمدید۔ ناظرین! آپ کو پتہ ہے کہ اس پروگرام کا فارمیٹ اس طرح کا ہے کہ ہم ہر دفعہ کسی مشہور شخصیت، جید عالم دین کے ساتھ آپ کی ملاقات کرواتے ہیں۔ بہت سارے حضرات اس نشست میں پہلے آ چکے ہیں۔ الحمد للہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مولانا سمیع الحق شہیدؒ اور مولانا مکی الحجازی سے لے کر بہت سی بڑی بڑی شخصیات اس نشست میں الحمد للہ ہمارے ساتھ رہیں۔ آج میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میری اپنی ایک آئیڈیل شخصیت ہمارے ساتھ موجود ہیں، کافی عرصے سے یہ خواہش تھی کہ ان کے ساتھ ایک نشست ہو اور ان سے ان کے حالاتِ زندگی اور باقی چیزوں پر بات ہو، الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے آج یہ موقع میسر کیا ہے۔ میرے سمیت بہت سارے لوگوں کی آئیڈیل شخصیت اور میرے ہم نام مولانا عبد المتین صاحب میرے ساتھ موجود ہیں۔ اسکرین پر آپ کو کوئی اور شخصیت نظر آرہی ہو گی، نام میں کوئی اور لے رہا ہوں، لیکن یہ نام اس لیے لے رہا ہوں کہ واقعی ان کا نام عبد المتین ہے، جن کو لوگ شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
انٹرویو
مولانا! السلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔
سوال: مولانا! سب سے پہلے تو لوگوں کو یہی بتا دیں کہ عبد المتین اصل نام اور زاہد الراشدی قلمی نام کیسے ہوا؟
جواب: میرا مکمل نام محمد عبد المتین خان زاہد ہے۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں بھی یہی ہے۔ ہمارے خاندان میں حروف ابجد کے حساب سے ایک بزرگ نام رکھا کرتے تھے۔ آپ میرے نام محمد عبد المتین خان زاہد کے ابجد کے حساب سے اعداد نکالیں گے تو اس کا مجموعہ ۱۳۶۷ بنے گا، جو ہجری اعتبار سے میرا سن پیدائش ہے۔ ہم سب بہن بھائیوں کے اور میری اولاد کے نام بھی ایسے ہی ہیں۔ اس کے بعد وہ بزرگ فوت ہو گئے اور وہ رسم بدل گئی ہے۔
ابتدا میں جب میں نے لکھنا شروع کیا تو زاہد گکھڑوی کے نام سے لکھا کرتا تھا، میرے ابتدائی مضامین ۱۹۶۴ء تا ۱۹۶۶ء کے مضامین زاہد گکھڑوی کے نام سے ہیں۔ شیخ محترم حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز میرے مرشد ہیں، ان سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ غالباً ۱۹۶۸ء کی بات ہے کہ انہوں نے ایک دن فرمایا کہ گکھڑوی ثقیل لفظ ہے۔ میں نے کہا بدل دیتے ہیں، جیسے آپ فرمائیں۔ ہمارا شیرانوالہ کا سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کہلاتا ہے۔ تو میں نے کہا راشدی نسبت ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، تب سے زاہد الراشدی کہلاتا ہوں۔ یہ میرا معروف نام ہے۔
سوال: آپ کی پیدائش کس سن میں ہوئی؟
جواب: میری پیدائش ۱۹۴۸ء کی ہے، پاکستان سے ایک سال چھوٹا ہوں۔ ہجری اعتبار سے ۱۳۶۷ھ اور عیسوی اعتبار سے ۱۹۴۸ء سن پیدائش ہے اور ۲۸؍ اکتوبر یومِ ولادت ہے۔
سوال: حضرت! یہ بتائیں کہ ما شاء اللہ سب جانتے ہیں کہ آپ کے والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے بڑا نام دیا، علمی شخصیت تھے، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ آپ ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے تو کیا آپ کا اپنا رجحان یہ تھا کہ میں نے عالم بننا ہے یا والد صاحب کی خواہش پر عالم بنے یا کیسے ہوا؟
جواب: ابتدا تو والد صاحبؒ سے ہوئی ہے، میری والدہ مرحومہ بھی دینی علمی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور خود بھی گکھڑ میں ساری زندگی پڑھاتی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں گھر میں پرانی طرز کی درسگاہ ہوتی تھی، محلے کے بچے بچیاں آ جاتے تھے، والدہ مرحومہ پچھلے پہر دو تین گھنٹے پڑھایا کرتی تھیں، الحمد للہ بڑی بڑی شخصیات نے ان سے قرآن پاک پڑھا ہے، ترجمہ پڑھا ہے، دو تین گھنٹے کی ایک مستقل کلاس ہوتی تھی، ظہر کے بعد ہمارا گھر درس گاہ بن جاتا تھا۔ ہمارے سابق صدر محترم جناب محمد رفیق تارڑ صاحب مرحوم و مغفور اور سابق آئی جی پنجاب احمد نسیم چوہدری والدہ مرحومہ کے شاگرد ہیں اور بھی بڑی بڑی شخصیات نے ان سے پڑھا ہے۔ عام طور پر قرآن پاک، ترجمہ اور بہشتی زیور پڑھایا کرتی تھیں، بہت سی بچیوں نے ان سے حفظ بھی کیا ہے۔ ان کا یہ معمول تھا تو والدہ سے آغاز ہوا، پھر چلتے چلتے دوسری طرف رخ گیا ہی نہیں۔
سوال: آپ نے درسِ نظامی کی کتب اپنے والد صاحبؒ سے پڑھیں؟
جواب: میں سکول میں چار جماعتیں پڑھا ہوں، اس سے زیادہ سکول کی تعلیم نہیں ہے۔ سیٹھی محمد یوسف صاحب مرحوم گتہ فیکٹری والے، انہوں نے قرآن پاک کی بڑی خدمت کی ہے، ہمارے پڑوس میں تین میل کے فاصلے پر تھے۔ ان کی ترغیب پر گکھڑ میں حفظ کا مدرسہ بنا تو میں نے حفظ وہاں کیا۔ میرے حفظ کے پانچ چھ اساتذہ تھے لیکن بنیادی طور پر حضرت قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرے حفظ کے بڑے استاد ہیں، جو کہ بعد میں باہر چلے گئے اور مدینہ منورہ مسجد نبویؐ میں تقریباً تیس سال انہوں نے حفظ اور ناظرہ کی کلاسیں پڑھائی ہیں اور اب جنۃ البقیع میں مدفون ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں میرا حفظ مکمل ہوا، اس کے بعد میں نے درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں گھر میں والد صاحب سے پڑھیں اور پھر ۱۹۶۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں آ گیا اور ۱۹۶۹ء تک وہیں رہا۔ میں نے درسِ نظامی کی مکمل تعلیم نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی ہے۔ والد محترمؒ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اور استاد محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ میرے بڑے اساتذہ ہیں۔
سوال: آپ نے ایک بات کی جو میرے لیے بڑی حیران کن ہے کہ آپ نے عصری تعلیم چوتھی جماعت تک حاصل کی ہے، مگر آج تو آپ بڑی بڑی یونیورسٹیز اور کالجز میں لیکچرز دیتے ہیں تو یہ کیسے؟
جواب: مشاہدہ اور تجربہ ہے، میں نے تقریباً سب میدانوں میں استفادہ کیا ہے، لیکن چوتھی جماعت سے آگے عصری تعلیم باقاعدہ نہیں پڑھی، باقاعدہ تعلیم صرف درسِ نظامی کی ہے۔
سوال: مدرسے سے نکلنے کے بعد کیا وہیں پر تدریس شروع کر دی؟
جواب: گوجرانوالہ میں سب سے پرانا مدرسہ انوار العلوم، مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں ہے۔ حضرت والد صاحبؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ بھی ۱۹۳۹ء ؍ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ وہیں پڑھتے رہے ہیں۔ وہاں ان کے استاد محترم حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میرا نیاز مندانہ تعلق تھا، وہ مجھے وہاں لے گئے۔ یوں میں دورہ حدیث والے سال ۱۹۶۹ء میں ہی شیرانوالہ مرکزی جامع مسجد چلا گیا تھا۔ وہاں میری ڈیوٹی نائب خطیب کی اور مدرسہ انوار العلوم میں مدرس کی تھی۔ تقریباً بیس سال میں نے وہاں پڑھایا ہے، اور اب تقریباً پچیس تیس سال سے مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھا رہا ہوں، اور خطیب بدستور اسی مرکزی جامع مسجد میں ہوں، الحمد للہ۔
سوال: ایک سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ آپ کے والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کا علمی حوالے سے ما شاء اللہ بہت نام ہے، لیکن ان کی اکثر کتابیں اختلافی موضوعات پر ہیں۔ عوام کو اس کا زیادہ پتہ ہے، جبکہ آپ کا مزاج اس کے بالکل دوسری طرف ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: سارا ہی دوسری طرف نہیں ہے، اسی کا دوسرا پہلو ہے۔ ان کا محاذ مسلکی تھا، انہوں نے حنفیت کا دفاع اور دیوبندی مسلک کا دفاع کیا اور الحمد للہ انہیں جنوبی ایشیا میں دیوبندیت کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ ۱۹۴۱ء، ۱۹۴۲ء میں دونوں بھائیوں نے اکٹھے دارالعلوم دیوبند دورہ حدیث کیا تھا۔ والد صاحبؒ ۱۹۴۳ء میں گکھڑ آ گئے تھے، پھر گکھڑ میں ہی رہے۔ ان کا ذوق مسلکی تھا، پہلے میرا ذوق بھی مسلکی تھا، لیکن میں جب جمعیت علماء اسلام میں متحرک ہوا، شیرانوالہ سے تعلق ہوا اور زمانہ طالب علمی میں ہی حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ ہوا تو میرا میدان کچھ سیاسی اور فکری نوعیت کا ہو گیا، اسے آپ میرے ذوق میں تنوع کہہ لیں یا وسعت کہہ لیں یا تغیر کہہ لیں آپ کی مرضی ہے۔ میں اس پر کام کرتا رہا اور والد صاحبؒ کی سرپرستی میں کرتا رہا۔ وہ میرے مضامین پڑھتے تھے، نقد کرتے تھے، سمجھاتے تھے، باقاعدہ اہتمام اور پوری نگرانی کرتے تھے، الحمد للہ ان کی حیات میں ان کی نگرانی میں ہی سارے کام کیے ہیں۔
سوال: آپ نے لکھنا کب سے شروع کیا؟
جواب: غالباً ۱۹۶۳ء، ۱۹۶۴ء میں آغاز کیا۔ گوجرانوالہ میں ایک دو پرچے تھے ہفت روزہ قومی دلیر اور نوائے گوجرانوالہ، ان کے مدیر صاحبان سے میری دوستی تھی تو وہاں سے میں نے پہلے رپورٹنگ شروع کی۔ میٹنگوں کی رپورٹ، اخباری بیان، پھر آہستہ آہستہ مضامین لکھنے پر آ گیا۔ تب سے مسلسل لکھنے کا معمول چلا آ رہا ہے، اب تک لکھ رہا ہوں اور آج بھی ایک کالم لکھ کر آیا ہوں۔
سوال: یہ بتائیں کہ آج جو لوگ آپ کو دیکھتے ہیں جو شاید آپ کے پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نرم مزاج تو ہیں، صرف اسٹیج کے مقرر ہیں، لیکن آپ نے اپنی عملی زندگی میں سیاست میں بہت رول ادا کیا، جیسے ابھی آپ نے کہا کہ آپ نے جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس جدوجہد کی نوعیت کیا تھی؟
جواب: ۱۹۶۲ء میں جب صدر ایوب خان کا مارشل لاء ہٹا تو جمعیت علماء اسلام بحال ہوئی، تب میں نے جمعیت کا فارم پر کیا تھا، اس وقت سے مسلسل اب تک کوئی وقفہ نہیں ہوا۔ اب نئی ممبر سازی شروع ہوئی ہے تو چند دن قبل فارم پر کیا ہے، مسلسل جمعیت علماء اسلام کا ممبر ہوں، جو جماعتی کام ہوتا ہے اس میں شریک رہا ہوں۔ جبکہ حضرت مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات رہا ہوں، حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ پنجاب کا سیکرٹری جنرل رہا ہوں، اور جمعیت کے آرگن ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کا دس سال ایڈیٹر رہا ہوں۔ میں نے ۱۹۹۰ء میں عہدہ چھوڑ دیا تھا، ویسے میں جو کام کر رہا ہوں جمعیت ہی کا کام کر رہا ہوں، لیکن اب میرا دائرہ علمی، تدریسی، فقہی اور فکری ہے، اس میں جمعیت کے اغراض و مقاصد کے مطابق عملی سیاست کے دائرہ سے ہٹ کر کام کرتا آ رہا ہوں۔
سوال: اتنی نرم خو طبیعت ہونے کے باوجود جب آپ سیاسی میدان میں رہے تو کبھی قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں؟
جواب: الحمد للہ بہت دفعہ قید ہوا ہوں۔ میں پہلی دفعہ ۱۹۷۵ء میں گرفتار ہوا تھا۔ ۱۹۷۵ء میں جمعیت علماء اسلام کا ملک گیر کنونشن نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ہوا تھا، پانچ چھ ہزار علماء ملک بھر سے آئے تھے۔ میں اس میں اسٹیج سیکرٹری تھا۔ جب کانفرنس ہو گئی تو مقدمات درج ہوئے، تقریباً تین ایف آئی آر میرے پاس ریکارڈ میں اب بھی ہیں۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کے خلاف، مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمود صاحبؒ اور مولانا محمد شاہ امروٹیؒ کے خلاف، ملک کی تقریباً اعلیٰ جماعتی قیادت کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی، اس پر جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ نے فیصلہ کر لیا کہ قبل از گرفتاری ضمانت نہیں کروانی۔ ان میں مقامی میں ہی تھا باقی سب دوسرے شہروں کے تھے تو سارا دباؤ مجھ پر تھا۔ پولیس چوکی گھنٹہ گھر کے اے ایس آئی غضنفر شاہ اہلِ تشیع میں سے تھے، شریف آدمی تھا۔ گھنٹہ گھر چوکی پولیس تھی تو مجھے ایک دن کہنے لگے کہ آپ کے خلاف کیس ہے، ضمانت کروا لیں، میں بات گول کر گیا۔ پھر ایک دفعہ کہا کہ آپ کے خلاف کیس ہے تو آپ ضمانت کروا لیں، تب میں نے انہیں بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ضمانت نہیں کروانی۔ وہ چلے گئے کہ اس کو کیا گرفتار کروں۔ تیسری دفعہ اللہ کی قدرت کہ جمعیت علماء اسلام کے ضلعی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام احمد صاحب کے ساتھ جی ٹی روڈ پر جا رہا تھا کہ سامنے سے وہی اے ایس آئی آ گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ مولوی صاحب! ضمانت نہیں کروانی؟ میں نے کہا نہیں، تو کہنے لگے ٹھیک ہے چلیں پھر۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے کہا کہ یار! پرسوں عید ہے، کیا کرنے لگے ہو؟ انہوں نے کہا ٹھیک ہے عید کے بعد آپ آ جائیں۔ عید کے تیسرے دن ڈاکٹر صاحب مجھے چوکی پولیس لے کر گئے تو اے ایس آئی صاحب موجود تھے، کہنے لگے آپ آ گئے ہیں، میں نے کہا جی آ گیا ہوں۔ کہنے لگے مجھے حیا محسوس ہو رہی ہے، آپ بزرگ آدمی ہیں، آپ کو حوالات میں کیا رکھنا ہے۔ میں نے آپ کی گرفتاری ڈال دی ہے، گھر جائیں، صبح مجسٹریٹ کی عدالت میں آ جائیں، میں ریمانڈ لے کر آپ کو جیل پہنچا دوں گا۔ ساتھ ہی جیل تھی۔
صبح میں اور ڈاکٹر صاحب حسبِ وعدہ سٹی مجسٹریٹ اقبال بوسن صاحب کی عدالت میں پہنچ گئے کہ ابھی غضنفر شاہ آئے گا اور ریمانڈ لے کر مجھے جیل چھوڑ آئے گا۔ لیکن میں انتظار کرتا رہا، ایک بج گیا مگر وہ نہ آیا۔ اس پر سچی بات ہے مجھے اس کی فکر پڑ گئی کہ اگر مجھے ریمانڈ لے کر پیش نہ کر سکا تو اس کی ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی، سرکاری کاغذوں میں تو میں حوالات میں ہوں، اور باہر پھر رہا ہوں۔ میں نے تھانے فون کیا۔ اس زمانے میں پی سی او ہوتے تھے، فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ادھر ایک قتل ہو گیا، میں وہاں ہوں۔ میں نے کہا قتل کو چھوڑو، ادھر آؤ۔ وہ بیچارہ سائیکل بھگاتا ہوا آیا اور مجھے اس نے ڈیڑھ بجے بوسن صاحب کی عدالت میں پیش کیا۔ ان سے ریمانڈ لیا، میں جب پیش ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ ملزم کہاں ہے؟ بتایا کہ یہ ملزم ہے۔ کہا کہ اسے ہتھکڑی کیوں نہیں لگائی؟ انہوں نے کہا کہ یہ ہتھکڑی والا ملزم نہیں ہے۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ یہ بھاگ گئے تو؟ اے ایس آئی نے کہا کہ میں ذمہ دار ہوں۔ اس کے بعد مجھے جیل چھوڑ آئے۔ یہ میری پہلی گرفتاری ہے، ۱۹۷۶ء کے آغاز میں گرفتاری ہوئی، سردی کا موسم تھا۔ تقریباً ہفتہ دس دن جیل میں رہا۔ قبل از گرفتاری ضمانت نہ کرانے کا فیصلہ ہوا تھا، بعد میں ہم نے ضمانت کروائی۔
اس کے بعد میری اگلی گرفتاری مسجد نور کی تحریک میں ہوئی۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی مسجد نور کو ۱۹۷۶ء میں محکمہ اوقاف نے اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا تو ہم نے آپس میں فیصلہ کیا کہ قبضہ نہیں دینا۔ نوید انور نوید معروف وکیل تھے، شہر کے کچھ علماء اور مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ، ہم نے طے کیا کہ قبضہ نہیں دیں گے بلکہ مزاحمت کریں گے۔ ہم نے تحریک چلائی، تقریباً پانچ چھ مہینے ہم نے گوجرانوالہ کی سڑکوں پر اودھم مچائے رکھا اور ہلا گلا مچا رہا، ہم جلوس نکالتے تھے، گرفتاریاں دیتے تھے، پونے تین سو کے قریب کارکن گرفتار ہوئے تھے۔ اس میں بھی میں گرفتار ہوا اور تقریباً چار مہینے گوجرانوالہ جیل میں رہا ہوں۔ پھر گورنمنٹ نے آرڈر واپس لے لیا تھا، یہ میری دوسری گرفتاری ہے۔
میری تیسری گرفتاری ۱۹۷۷ء کی قومی اتحاد کی تحریک میں ہوئی، میں پاکستان قومی اتحاد کا پنجاب کا سیکرٹری جنرل تھا، حمزہ صاحب صدر تھے، میں بحمد اللہ تعالیٰ متحرک ترین لوگوں میں سے تھا۔ لاہور میں مارشل لاء لگ گیا، مارشل لاء کے دوران میٹنگ تو نہیں ہو سکتی تھی مگر ہم نے ڈیوس روڈ پر مسلم ہاؤس میں میٹنگ کی۔ چھاپہ پڑ گیا تو ہم تقریباً پچاس کے لگ بھگ لوگ وہیں سے گرفتار ہو گئے اور پھر ہم تقریباً ایک مہینہ کیمپ جیل لاہور میں رہے۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے مارشل لاء کو غیر قانونی قرار دیا تو ہماری رہائی ہو گئی۔
اس میں لطیفہ یہ ہوا کہ ہم مارشل لاء کے تحت گرفتار ہوئے تھے، ہائی کورٹ کے جسٹس جسٹس شمیم قادری تھے۔ ہم عدالت میں پیش تھے تو جب انہوں نے مارشل لاء کو خلافِ قانون قرار دے دیا تو ہمیں کہا کہ آپ جائیں تو میرا ہاتھ ایک ڈی ایس پی نے پکڑ لیا کہ یہ نہیں جا سکتے، ان کے خلاف اور کیس بھی ہیں۔ جسٹس صاحب نے انہیں دیکھ کر پوچھا کہ ان پر اس کے علاوہ کیس کہاں کا ہے؟ بتایا وزیر آباد کا ہے۔ تعمیل ہوئی ہے؟ جی ہوئی ہے۔ جسٹس صاحب نے ڈی ایس پی سے کہا آپ کھڑے رہیں، اور مجھے کہا آپ جائیں۔ میں سیدھا بادامی باغ سے بس پر بیٹھ کر گکھڑ چلا آیا۔ سامان لینے جیل نہیں گیا۔ ہم نے الحمد للہ جیلیں بھگتی ہیں۔
آخری جیل دو گھنٹے کی کاٹی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور کی بات ہے کہ سرگودھا میں تقریر کا کیس تھا۔ اس زمانے میں، میں بہرحال صوبائی سطح کا لیڈر تھا، قومی اتحاد کا سیکرٹری جنرل تھا، اور یہ ہوتا تھا کہ اس لیول کے آدمی کو گرفتاری کے لیے گورنمنٹ سے پوچھنا پڑتا تھا کہ اس کو پکڑ لیں؟ سرگودھا سے پولیس آئی تو ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا کیا کریں؟ میں نے کہا کچھ نہیں کرو بس یہ خبر دے دو کہ میں گرفتار ہو گیا ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ صبح روزنامہ امروز میں میری گرفتاری کی خبر چھپی تو صوبائی حکومت حرکت میں آگئی کہ اس کو کیوں پکڑ لیا؟ میں سرگودھا جیل پہنچ چکا تھا، سرگودھا جیل کے اندر گیا، سپرنٹنڈنٹ نے پیشی کی تو کہنے لگا مولوی صاحب!خبر آپ کی چھپی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ تو اس نے کہا کہ انہیں لے جاؤ۔ یہ میری دو گھنٹے کی گرفتاری تھی، سرگودھا جیل میں سپرنٹنڈنٹ کے کمرے تک گیا، وہاں سے واپس آ گیا۔ اس کے بعد پھر گرفتاری نہیں ہوئی، مقدمات تو بنتے رہتے ہیں۔
سوال: اس کے بعد کیا ہوا؟ سیاسی طور پر غیر متحرک ہو گئے یا علمی کام زیادہ شروع کر دیا؟
جواب: دراصل ۱۹۸۰ء میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر جمعیت علماء اسلام دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی: درخواستی گروپ اور فضل الرحمٰن گروپ۔ میں درخواستی گروپ میں تھا اور خاصا متحرک تھا۔ ۱۹۹۰ء میں ہماری صلح ہوئی اور دونوں جماعتیں اکٹھی ہو گئیں۔ حضرت درخواستیؒ امیر، مولانا فضل الرحمٰن سیکرٹری جنرل تھے، تو میں پھر سیکرٹری اطلاعات بنا۔ پہلے بھی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ لیکن اس کے بعد میری تعلیمی سرگرمیاں زیادہ ہو گئیں تو میں نے معذرت کر لی کہ میں کسی منصب پر کام نہیں کروں گا، ویسے کام کرتا رہوں گا۔ ۱۹۹۰ء میں، میں نے منصب چھوڑ دیا تھا۔ غیر متحرک کا معنی یہ ہے کہ عہدہ چھوڑ دیا ہے، ویسے کام کر رہا ہوں۔ کچھ دن پہلے کا لطیفہ ہے کہ میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے ملنے کے لیے گیا تو میں نے اس دفعہ جو رکنیت فارم پر کیا ہے اس کا ذکر چل پڑا، مولانا عطاء الرحمٰن صاحب کہنے لگے کہ یہ تو غیر متحرک ممبر ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ کہتے ہیں کہ میں غیر متحرک ہوں، مگر ان سے زیادہ متحرک ہے کون؟ مجھے کئی دفعہ منصب کی پیشکش ہوئی ہے لیکن میں نے کہا کہ میں فری لانسر ٹھیک ہوں، رکن ہوں، کام کر رہا ہوں۔
سوال: ابھی جب انٹرویو کی بات ہوئی تو آپ نے پوچھا کتنا وقت؟ میں نے کہا ایک گھنٹہ تو آپ نے کہا کہ اتنی لمبی تو میں تقریر بھی نہیں کیا کرتا، تو اسی سے ایک سوال ذہن میں آیا کہ میں نے پچھلے آٹھ دس سال میں جتنا آپ کو سنا ہے، آپ زیادہ سے زیادہ دس پندرہ منٹ میں بات ختم کر دیتے ہیں، اس کی وجہ بتائیں۔ اور دوسرا سب سے لمبی تقریر اگر آپ نے کوئی کی ہے تو وہ کتنی لمبی ہے۔
جواب: میرا جمعہ کا معمول پینتیس سے چالیس منٹ تقریر کا ہے، میری جمعہ کی تقریر پینتیس منٹ کی ہوتی ہے، چھتیسویں منٹ پر کہہ دیتا ہوں کہ باقی بات اگلے جمعے۔ جبکہ عام جلسوں میں بیس پچیس منٹ میں جو بات کہنی ہوتی ہے، کہہ دیتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں دوسرے علماء سے بھی کہا کرتا ہوں کہ ٹو دی پوائنٹ بات کیا کرو، لوگوں کو مختصر بات یاد رہتی ہے، لمبی باتیں بھول جاتے ہیں۔ میرا شروع سے مزاج یہی ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دور کی بات ہے کہ ایک دفعہ ہم چار پانچ ساتھیوں کا مقابلہ ہوا کہ مختصر وقت میں پوری بات کون کرتا ہے۔ اس میں مولانا سعید الرحمٰن علویؒ تھے، میں تھا، دو تین ساتھی اور تھے، ایک موضوع ہم چار پانچ مقرروں کے ذمے لگا تو میں نے سات منٹ میں بات پوری کر دی۔ اس پر مفتی صاحبؒ نے بہت شاباش دی کہ اصل آج کا دور یہ ہے کہ بات پوری کرو اور وقت تھوڑا لو۔ یہ ہماری باقاعدہ ٹریننگ ہوتی تھی کہ تھوڑے سے وقت میں پوری بات کہہ دیں، کیونکہ لمبی تقریر سے لوگوں کو وقتی طور پر تو لطف آتا ہے مگر باتیں یاد نہیں رہتیں۔
لمبی تقریر کا ایک لطیفہ ذکر کر دیتا ہوں۔ خانیوال میں جلسہ تھا، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ نے خطاب کرنا تھا، ان سے پہلے میری تقریر تھی۔ میں نے اپنے حساب سے بیس پچیس منٹ کا مواد ذہن میں سیٹ کیا اور تقریر شروع کر دی۔ وہاں میزبانوں سے غلطی ہو گئی، حضرت حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تقریر ختم کرواؤ تاکہ اسٹیج پر جاؤں، جبکہ انتظامیہ والوں نے کہا کہ آپ جائیں گے تو وہ تقریر ختم کر دے گا۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں جبکہ میزبان یہ کہہ رہے ہیں، لیکن مجھے کوئی نہیں بتا رہا۔ میں حضرت کا انتظار کرتا رہا کہ آ رہے ہیں، ابھی آتے ہیں، یا اللہ! کیا کروں میری لمبی تقریر کی عادت ہی نہیں ہے، وہاں میں نے سوا گھنٹہ تقریر کی۔ لیکن حضرت نہیں آئے تو بالآخر میں نے تقریر ختم کر دی۔ یہ میری یادداشت میں لمبی ترین تقریر ہے جو میں نے پبلک جلسے میں کی۔ میٹنگز میں تو لمبی لمبی گفتگو کرتا ہوں، کہیں سیمینار ہو تو کسی موضوع پر دو دو گھنٹے بھی گفتگو کرتا ہوں، لیکن پبلک جلسے میں میری سب سے لمبی تقریر وہ ہے اور وہ بھی مجبورًا تھی۔
سوال: ایک تو آپ نے بتایا کہ مقابلے کے طور پر سات منٹ تقریر کی، ویسے جو کانفرنسز وغیرہ ہوتی ہیں اس میں آپ کی مختصر تقریر کتنی دیر کی ہوئی ہے؟
جواب: ۱۹۸۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں آل پارٹیز کانفرنس تھی، میں کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ سیالکوٹ میں مشترکہ جلسہ تھا، جس میں دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، شیعہ سب شریک تھے۔ وہاں قادیانیوں نے ایک مسجد بنائی تھی اس کا مسلمانوں سے جھگڑا بھی چل رہا تھا۔ حضرت مولانا ضیاء القاسمی صاحبؒ اسٹیج سیکرٹری تھے، انہوں نے میرا اعلان کیا کہ دو منٹ تقریر کریں گے۔ اب صرف دو منٹ میں بات کہنی تھی تو میں نے مسجد کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ میں نے کہا کہ آپ کے سیالکوٹ میں مسجد کا کیا جھگڑا چل رہا ہے، ایک مسجد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی بنی تھی مسجد ضرار، اس کی بنیاد بھی کفر اور تفریق پر تھی، تو حضورؐ نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا؟ میں نے پبلک سے سوال کیا تو کہنے لگے کہ وہ مسجد گرا دی تھی۔ میں نے کہا کہ گرانے کے بعد کیا کیا تھا؟ لوگوں نے کہا جلا دی تھی۔ میں نے کہا کہ تمہارے پاس ماچس نہیں ہے؟ پٹرول نہیں ملتا تمہیں؟ مجھے کیا دیکھ رہے ہو؟ اس پر تقریر ختم کی اور اگلے دن مسجد گر گئی تھی۔
سوال: آپ کے مختلف ممالک کے دورے ہوتے ہیں، اس میں بھی آپ گفتگو کرتے ہیں۔ آپ کا یہ جو ما شاء اللہ ہنس مکھ مزاج ہے جو کہ عمر کے ساتھ ساتھ کم نہیں ہو رہا، بلکہ یا تو بڑھ رہا ہے یا وہیں پر رکا ہوا ہے۔ حالانکہ ہمارے ہاں عموماً عوام میں علماء کے متعلق یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہ بہت سخت ہوتے ہیں، اور عموماً ہم نے دیکھا ہے کہ خصوصاً جب وہ بزرگ ہو جاتے ہیں تو اس وقت تو بہت درشت مزاج ہو جاتے ہیں۔ آپ کو میں دیکھ رہا ہوں کہ داڑھی میں مجھے کوئی کالا بال نظر نہیں آ رہا سب سفید ہیں، آپ کی شخصیت میں یہ عنصر کہاں سے آیا؟
جواب: یہ اصل تربیت تو والد صاحبؒ کی ہے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑی سختی سے تلقین کیا کرتے تھے کہ موقف مضبوط رکھو، الفاظ نرم سے نرم بولو اور لہجہ ہمدردانہ رکھو۔ ان کی یہ تلقین ہوتی تھی اور پھر میرا تجربہ بھی ہے کہ جو بات نرمی سے سمجھائی جا سکتی ہے، سختی سے نہیں سمجھائی جا سکتی۔ میرا زیادہ مزاج لطیفوں کا ہے، میں بات کو کسی نہ کسی لطیفے کے انداز میں بیان کرتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ بات سمجھ آگئی ہے۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ گوجرانوالہ گرین ٹاؤن میں مولانا حافظ محمد یوسف صاحب ہمارے ساتھی ہیں، ان کی بچی نے قرآن پاک حفظ مکمل کیا تو اپنے والد صاحب سے کہا کہ میں نے استاذ جی کو آخری سبق سنانا ہے یعنی مجھے۔ میری مصروفیت کی وجہ سے وقت کی کوئی ترتیب نہیں بن رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی پوتی کہتی ہے کہ میں نے سبق سنانا ہی استاذ جی کو ہے، اور کسی کو سنانا ہی نہیں ہے۔ خیر میں نے وقت نکالا اور سبق سننے گیا۔ میں نے کہا کہ اس سے پوچھیں کہ میرا اصرار کیوں کر رہی ہے؟ شہر میں اور بھی بڑے علماء ہیں۔ مولانا یوسف صاحب نے اس سے اصرار کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کیونکہ استاذ جی تقریر میں لطیفے سناتے ہیں۔ میں نے تقریب میں بچی کا سبق سنا اور پھر بچی کو الگ بٹھا کر اس کے ذوق کے مطابق اسے کچھ لطیفے سنائے کہ اس نے میرا انتخاب لطیفوں کی وجہ سے کیا ہے۔
میرا عام انداز یہ ہے کہ میں ہلکے پھلکے انداز میں بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور کسی مثال یا لطیفے سے وہ بات جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔
سوال: پچھلے دنوں میں آپ کی ایک گفتگو سن رہا تھا، جس میں آپ نے کہا کہ یہ دور مناظرے کا نہیں، مکالمے کا دور ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ مناظرے میں نتیجہ کوئی نہیں نکلتا۔ مناظرے کا ایک دور تھا، ہم نے وہ پورا دور گزارا ہے، میں نے مناظرے دیکھے ہیں، لیکن اب کسی مناظرے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ میں کہتا ہوں کہ بحث و مباحثہ مکالمے کے انداز میں ہونا چاہیے۔ علمی مکالمہ ہو اور گفتگو بریفنگ کے انداز میں ہو۔ میں عام طور پر دو جملے کہا کرتا ہوں: مناظرہ نہیں مکالمہ اور فتویٰ نہیں بریفنگ۔
سوال: آپ نے کوئی مناظرہ کیا؟
جواب: میں نے کبھی مناظرہ نہیں کیا، حضرت والد صاحبؒ بھی مناظرہ نہیں کرتے تھے، تحریری مکالمہ کرتے تھے۔
سوال: ہم نے آپ کو دیکھا کہ مختلف یونیورسٹیز میں اور آڈیٹوریمز میں آپ کے لیکچرز ہوتے ہیں اور عوامی طور پر لوگ، اسٹوڈنٹس حتیٰ کہ پروفیسرز اور ڈاکٹرز بھی آپ کو سنتے ہیں، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ہم میں کوئی ایسی کمی ہے جس کی وجہ سے ہمارے جو علماء بن رہے ہیں وہ صرف مسجد کے منبر تک محدود ہیں، ان کی رسائی ان اسٹیجز تک کیوں نہیں ہو رہی جن تک آپ کی رسائی ہے؟
جواب: اصل بات یہ ہے کہ یہ مزاج کی بات ہے۔ گفتگو کا اصول یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح پر بات کی جائے یعنی یہ دیکھ کر کہ اس کی ذہنی سطح کیا ہے، دائرہ کیا ہے؟ اس کو آج کی زبان میں فریکوینسی سیٹ کرنا کہتے ہیں۔ ہم ہر جگہ اپنی زبان میں بات کرتے ہیں۔ جو ہماری منبر کی زبان ہے وہی لیکچر کی زبان ہے، جو لیکچر کی زبان ہے وہی کسی مناظرے کی زبان ہے۔ میں علماء کرام سے درخواست کیا کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو باقاعدہ ٹریننگ دیتا ہوں کہ زبان ایک نہیں ہونی چاہیے، تاجروں میں تاجروں کی زبان میں بات کرو، وکلاء میں وکیلوں کی زبان میں بات کرو، اس سطح پر بات کرو اور یہ دیکھو کہ یہ کون سی بات سمجھیں گے۔ میرا الحمد للہ شروع سے مزاج یہ ہے کہ میں پہلے ماحول دیکھتا ہوں کہ یہ کون سی زبان سمجھیں، کس لہجے میں سمجھیں گے، اس کے مطابق بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اکثر اللہ پاک کامیابی دیتے ہیں۔
سوال: الشریعہ میگزین کا تھوڑا سا پس منظر بتائیں، اس کو کب شروع کیا اور کیا سوچ کر شروع کیا؟
جواب: ہم نے اس کا آغاز ۱۹۸۹ء میں کیا تھا کہ ہمیں علمی مسائل پر مکالمہ کرنا چاہیے اور پیش آمدہ مسائل پر مختلف آراء اکٹھی شائع کرنی چاہئیں۔ ہم نے شروع سے اس کا یہ ماحول رکھا ہے اور اس میں اپنے خلاف مضامین بھی شائع کیے ہیں۔ ایک دفعہ کسی نے کہا آپ کے خلاف الشریعہ میں مضمون چھپا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں چھپا ہوا ہے، میں نے خود چھاپا ہے۔ اپنے خلاف بات بھی سننی چاہیے۔ میرا شروع سے مزاج یہ ہے کہ کسی علمی مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے اور مختلف آرا اکٹھی شائع ہونی چاہئیں تاکہ قاری کو ساری باتیں پڑھ کر فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ مکالمہ اور مکالمہ بھی علمی انداز میں، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے اسی پر ہم نے الشریعہ کا آغاز کیا تھا اور الحمد للہ اس میں درجہ بدرجہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
سوال: حضرت! جس طرح آپ نے بتایا کہ آپ نے اپنے خلاف مضمون اپنے میگزین میں چھاپا، لوگوں کو اشکالات بھی ہوتے ہیں، اس میگزین پر بھی لوگوں کو بہت زیادہ اشکالات ہیں، وہ اسی نقطۂ نظر سے ہیں کہ ہمارے ہاں تو یہ ٹرینڈ ہے کہ جو میری سوچ ہے، میں اپنے ادارے کو اسی تک محدود رکھوں گا، اس میں کسی دوسرے بندے کی سوچ شامل نہیں ہوگی، یعنی میرے ذریعے سے لوگوں تک پہنچے گی بھی نہیں۔ جبکہ آپ کے میگزین میں ایسا ہوا کہ بہت ساری آراء ایسی بھی آئیں جس سے شاید آپ خود بھی متفق نہیں ہوتے۔ لیکن لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں جو آگیا اس کا مطلب ہے کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے، اور مولانا زاہد الراشدی بھی اس کو مانتے ہیں، حالانکہ نام سے ظاہر ہے کہ مکالمہ ہے، اس میں لوگوں کی علمی آرا آئیں گی، لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو ہضم نہیں کیا جاتا اور اسی وجہ سے اس پر بہت زیادہ تنقید ہوتی ہے۔ اس پر کہا جاتا ہے کہ آپ ایک عام قاری کو جس کو ان چیزوں کا پتہ نہیں ہے، اس کو اس میں الجھا رہے ہیں اور اس کا ذہن منتشر ہو رہا ہے۔ اس کو آپ کیسے جسٹیفائی کریں گے؟
جواب: ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک نقطۂ نظر کے ساتھ دوسرا نقطۂ نظر بھی قاری کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ اس کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ میں اپنا نقطۂ نظر اس پر کیوں ٹھونسوں؟ اس لیے میں اپنے ساتھ دوسرا موقف بھی دیتا ہوں کہ یہ بھی پڑھو اور یہ بھی پڑھو، فیصلہ قاری نے کرنا ہے، جو سمجھ میں آتا ہے وہ کرو۔ میں اس کو درست نہیں سمجھتا کہ ہم نظری اور اختلافی مسائل میں اپنا نقطۂ نظر قارئین پر مسلط کریں۔
سوال: آپ کتنے بھائی ہیں؟ باقی بھائی کیا کرتے ہیں؟ یہ سوال رہ گیا تھا۔
جواب: ہم نو بھائی تھے، ایک فوت ہو گئے، آٹھ بھائی زندہ ہیں، الحمد للہ۔ سب بھائی حافظ عالم ہیں اور علمی کام کر رہے ہیں۔
سوال: آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟
جواب: دو بیٹے ہیں، ایک عمار خان اور دوسرا عامر خان۔ عمار خان کی مصروفیات اور تگ و دو آپ کے سامنے ہے۔ میرا کمپیوٹر کا سارا کام چھوٹا بیٹا عامر خان کرتا ہے، حافظ ہے اور کمپیوٹر (پروگرامر اور) ڈیزائنر ہے اور میرے سارے کام وہی کرتا ہے۔
سوال: عمار صاحب کے متعلق اگر گفتگو کریں تو اب جو آپ نے اپنا ذہن بتایا، وہ ظاہر ہے کہ آپ کے بعد ان میں منتقل ہوا اور ان کی بہت سی آرا ایسی ہیں جن سے آپ خود بھی متفق نہیں ہوتے، اور لوگ بھی اس پر تنقید کرتے ہیں، جبکہ میرے خیال سے بہت ساری تنقید آپ کو ان کی وجہ سے سہنی بھی پڑتی ہے، تو آپ نہیں سمجھتے کہ یہ جو مکالمے کا دروازہ آپ نے کھولا، اس کی وجہ سے عمار صاحب کہیں بہت دور چلے گئے۔
جواب: دیکھیں ایک ہے اختلافِ رائے۔ وہ صاحبِ علم ہے، صاحبِ مطالعہ ہے۔ اختلاف کا حق تو اس کا ہے، اختلاف کے حق کی بنیاد پر مسائل میں اس سے میں بھی اختلاف کرتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے اختلاف کرتا ہے، لیکن میں کسی کو اس بنیاد پر اختلاف کے حق سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس کی بات کا اس کو جواب دیتا ہوں۔ کبھی میں نے یہ نہیں کہا کہ کیوں لکھا ہے۔ اختلاف اس کا حق ہے، اس نے لکھا ہے تو اس کی رائے ہے۔ میرا سب کے ساتھ معاملہ یہی ہے کہ جائز حدود میں رائے کا اظہار کرو اور اختلاف کرو۔ چاہے میرے ساتھ اختلاف کرو۔ جو بھی میرے ساتھ اختلاف کرتا ہے کبھی میں نے اس کو ڈانٹا نہیں ہے۔ کیونکہ رائے کا حق ہر صاحبِ مطالعہ کا ہے۔ میں نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میں جب باقی سب لوگوں کا رائے کا حق تسلیم کرتا ہوں اور رائے کا احترام کرتا ہوں تو کیا عمار کو اس لیے روک دوں کہ میرا بیٹا ہے؟ نہیں، اس کا بھی حق ہے۔
سوال: وہ حق تو ان کو ہے، لیکن بطور والد کیا آپ ان کو ان چیزوں پر سمجھاتے بھی ہیں؟
جواب: ہاں مسائل پر ہماری گفتگو چلتی رہتی ہے۔
سوال: جو لوگوں کے اندر یہ چیز ہے کہ بہت سارے ان کے پوائنٹ آف ویو ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ آپ بھی اس کو مانتے ہیں، تو پھر لوگ آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں، جو میں بھی سمجھتا ہوں کہ ناانصافی پر مبنی ہے کہ آپ ان سے علمی اظہارِ لا تعلقی کریں۔
جواب: یہ ممکن نہیں ہے۔ رائے کے حق پر لا تعلقی کا اظہار کیوں کروں؟ اس کا رائے کا حق ہے، میں اس سے اختلاف کرتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں ہے، یہ بات یوں ہے۔
سوال: آپ نے کبھی عوامی سطح پر بھی کوئی ایسا مضمون لکھا جو ان کی کسی رائے کے رد کے طور پر ہو؟
جواب: ہاں بالکل بہت سارے مضامین ہیں، ایک ہی پرچے میں دونوں کے مضمون اکٹھے چھپتے ہیں، میری رائے اور ہوتی ہے اس کی رائے اور ہوتی ہے۔
سوال: ابھی آپ کا ایک مضمون شائع ہوا، غالباً ’’ریاست مدینہ کے کلمہ گو غیر مسلم‘‘ اس پر بہت تنقید ہوئی اور کہا یہ جا رہا ہے کہ آپ نے عمار صاحب سے متاثر ہو کر یہ لکھا۔ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے وہ فیس بک پر اس چیز کو لے کر چل رہے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔
جواب: میں نے اس سلسلہ میں پہلا مضمون ۱۹۸۹ء میں لکھا تھا جب عمار خان چودہ سال کا تھا۔ میرا شروع سے موقف یہ ہے۔ دیکھیں، میں اصولی بات عرض کرتا ہوں کہ ہم نے قادیانیوں کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے کہ ان کو مرتد قرار دے کر قتل نہیں کریں گے بلکہ غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کریں گے، تو کیا یہ شریعت کا فیصلہ ہے؟ خلفاء راشدینؓ کے فیصلے کیا تھے؟ حضرت صدیق اکبرؓ نے قتال کیا تھا تو ہم انہیں متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت کے طور پر کیوں قبول کر رہے ہیں؟ تمام امت متفق ہو کر انہیں شہری کے طور پر کیوں قبول کر رہی ہے؟ یہ عالمی ماحول کی وجہ سے ہے۔ ہم نے اپنی پوری روایت چھوڑی ہے اور ڈاکٹر اقبالؒ کا موقف اختیار کیا ہے کہ بطور غیر مسلم شہری کے قبول کرو اور ہم نے قبول کیا ہے۔ جب ہم اصولی فیصلہ قادیانیوں کے بارے میں اقبالؒ کی تحریک پر کر رہے ہیں اور اپنا روایتی موقف سے ہٹ کر کر رہے ہیں تو جزوی مسائل پڑ اڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ ان کا کون سا حق ہے اور کون سا نہیں ہے؟
اس لیے ایک بات یہ ہے کہ جب ہم نے اصولی طور پر عالمی ماحول قبول کیا ہے اور عالمی ماحول کو دیکھ کر موقف طے کر رہے ہیں تو جزوی مسائل میں عالمی ماحول کو کیوں نہیں دیکھ رہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ ۱۹۸۴ء کے بعد یہ سارے معاملات عالمی اداروں کو منتقل ہو گئے ہیں۔ ۱۹۸۴ء تک قادیانیت کے مسئلہ پر ہمارے ہاں چار دائرے تھے: (۱) پہلے مناظرہ کا دائرہ تھا جس میں علامہ انور شاہ کاشمیریؒ، پیر مہر علی شاہؒ اور مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ تھے۔ (۲) پھر ہم عدالتوں میں گئے ہیں۔ (۳) عدالتوں کے بعد ہم پارلیمنٹ میں گئے ہیں، پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں فیصلہ کر دیا۔ (۴) پھر جب ۱۹۸۴ء میں ہم نے قادیانیوں پر پابندی لگائی تو وہ عالمی اداروں میں چلے گئے۔
اب قادیانیت پر ساری بحث عالمی اداروں میں ہوتی ہے، یو این میں ہوتی ہے، یورپی یونین میں ہوتی ہے، انٹرنیشنل ہیومن لاء کمیشن میں ہوتی ہے اور ایمنسٹی میں ہوتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہم وہاں کیوں نہیں جا رہے؟ وہاں ہم میں سے کسی کی نمائندگی نہیں ہے۔ عالمی اداروں میں سے کسی بھی ادارے میں قادیانی اپنا مسئلہ لے کر جاتے ہیں تو نہ وہاں حکومتِ پاکستان دفاع کے لیے جاتی ہے اور نہ کوئی پرائیویٹ جاتا ہے، لہٰذا وہ یکطرفہ فیصلہ کر دیتے ہیں اور یکطرفہ فیصلہ کرنے میں ان کو آپ کیا قصوروار ٹھہرائیں گے کہ میں جب جا کر موقف ہی نہیں پیش کر رہا ہوں تو اداروں نے یہی فیصلہ کرنا ہے۔ ۱۹۸۴ء کے بعد کی صورتحال یہ ہے کہ قادیانیت کا کیس عالمی اداروں کو منتقل ہو گیا ہے۔ اب ہر بحث عالمی اداروں میں ہوتی ہے اور اس بحث میں ہمارا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری نمائندہ نہیں ہوتا تو عالمی ادارے اگر یکطرفہ فیصلہ کر لیں تو قصور کس کا ہے؟ اور وہ جب فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہ نافذ ہوگا کیونکہ ہم بین الاقوامی معاہدات کا حصہ ہیں۔ میری یہ گزارش بہت سے دوست نہیں سمجھ رہے کہ جب ہم ریاستی طور پر بین الاقوامی معاہدات کا حصہ ہیں، انہیں چیلنج نہیں کر رہے اور ان میں پیش آنے والے کیسوں میں ہم اپنے موقف کے لیے پیش بھی نہیں ہو رہے تو ان کے فیصلوں سے انحراف عملی طور پر کیسے ہو سکتا ہے؟ میں دو مثالیں دیتا ہوں:
(۱) ۱۹۸۵ء کی بات ہے مرزا طاہر احمد جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن میں گئے اور درخواست دی کہ پاکستان میں ہمارے شہری حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن میں ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی درخواست آتی ہے تو اس ملک کے سفیر کو بلاتے ہیں دفاع کے لیے۔ اس وقت جنیوا میں ہمارے سفیر منصور احمد قادیانی تھے۔ اس پر سپریم کورٹ کے وکیل ریاض گیلانی صاحب، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور میں نے مشاورت کی کہ اس سے تو بیڑا غرق ہو جائے گا۔ اس وقت وزیر مذہبی امور راجہ ظفر الحق صاحب تھے۔ ہم تینوں راجہ صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ راجہ صاحب! ادھر سے مدعی مرزا طاہر احمد ہے اور مدعا علیہ منصور احمد ہے، کیس کا فیصلہ کیا ہوگا ظاہر ہے۔ اس کو روکیں، اپنا وفد بھیجیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم ابھی تیاریاں کر رہے تھے، فائل ورک میں لگے ہوئے تھے کہ ادھر فیصلہ ہو گیا۔ جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن نے فیصلہ دے دیا کہ فی الواقع پاکستان میں قادیانیوں کے شہری حقوق پامال کر دیے گئے ہیں۔ اور میں یہ بھی آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس وقت دنیا کا جو ادارہ بھی قادیانیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، وہ اس فیصلے کی بنیاد پر کرتا ہے جہاں ہماری نمائندگی نہیں تھی، ہماری نمائندگی منصور احمد کر رہا تھا۔ ہمارے خلاف بین الاقوامی ادارے جتنے بھی فیصلے کرتے ہیں سب کی بنیاد جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن کا فیصلہ ہے۔ جب تک اس فیصلے کو ہم چیلنج نہیں کریں گے، جب تک اس کے متبادل فیصلہ نہیں لائیں گے اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔
(۲) جب کہ دوسری طرف جنوبی افریقہ میں سپریم کورٹ میں یہی بحث آئی تھی تو گورنمنٹ پاکستان فریق بنی تھی اور ہمارے دینی حلقے بھی فریق بنے تھے تو وہاں ہم جیت کر آئے تھے۔
اس لیے میرا کہنا یہ ہے کہ جہاں ہم نے نمائندگی کی ہے، ہم نے کیس جیتا ہے اور جہاں نمائندگی نہیں کی وہاں کیس ہارا ہے۔ ہم اس کو کیوں محسوس نہیں کر رہے۔
اگلی بات یہ ہے کہ ابھی چند سال پہلے ایک خبر آئی کہ کچھ بین الاقوامی این جی اوز نے اقوام متحدہ کو درخواست دی ہے کہ اقوام متحدہ باقاعدہ پاکستان کو روکے کہ وہ کیوں خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی بنتی ہے، کمیٹی اس پر غور کرتی ہے، سفارشات مرتب کرتی ہے، وہ سفارشات جنرل اسمبلی میں آتی ہیں، قرارداد ہوتی ہے اور پالیسی طے ہو جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نور الحق قادری صاحب تھے، میں خود ان سے ملا ہوں، درخواست دی ہے، وفد ملوایا ہے کہ حضرت! نمائندگی کا اہتمام کریں۔ اگر اقوام متحدہ کی کمیٹی نے سفارشات مرتب کر دیں اور جنرل اسمبلی میں قرارداد کر دی تو آپ کے لیے انکار کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ اس بات کی طرف کوئی نہیں آتا، نہ گورنمنٹ اور نہ ہماری دینی جماعتیں۔ جب ہم افریقہ جا سکتے ہیں تو جنیوا اور نیویارک کیوں نہیں جا سکتے؟ میرا موقف یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی بات کو صرف رد کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں تک رسائی حاصل کریں، تاکہ ہم اپنی بات کہہ سکیں، اپنا موقف پیش کر سکیں اور اپنی نمائندگی ہم خود کریں۔
چند دن قبل میں اسلام آباد گیا، اور اسلام آباد کے علماء سے یہ بات کی ہے۔ میں نے کہا کہ میرا مطالبہ تو یہ ہے کہ وفاقی مذہبی وزارت میں باقاعدہ ایک سیل قائم ہونا چاہیے کہ بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کے دستوری قوانین کے حوالے سے جو مقدمات آتے ہیں ان کی پیروی کرے۔ مثلاً ناموسِ رسالت کے قانون کے حوالے سے پاکستان ہدف ہے، ختمِ نبوت کے قوانین کے حوالے سے، قصاص اور دیگر شرعی قوانین کے حوالے سے پاکستان نشانہ ہے کہ یہاں جو بھی شرعی قانون نافذ ہوتا ہے وہاں ان پر نقد کیا جاتا ہے، ان مسائل پر ریاست کو فریق بننا چاہیے، ہمارے دستور کا تقاضا بھی یہ ہے۔ میں اس مطالبے پر دوستوں کی حمایت حاصل کر رہا ہوں کہ وفاقی وزارت مذہبی امور یہ ذمہ داری قبول کرے کہ جو بھی کیس ناموسِ رسالت کے حوالے سے ہو، ختمِ نبوت کے حوالے سے ہو، قصاص کے حوالے سے ہو یا شرعی قوانین کے حوالے سے ہو کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں تو حکومتِ پاکستان فریق بنے اور وزارتِ مذہبی امور میں ایک سیل موجود ہو جو علماء کو اکٹھا کر کے وہاں دفاع کا اہتمام کرے، یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ ہم نہیں کر رہے تو یکطرفہ فیصلے ہو رہے ہیں اور ہم پر نافذ ہو رہے ہیں۔
سوال: اس حوالے سے تو بہت بڑی ذمہ داری ان سیاسی مذہبی جماعتوں کی بھی تو بنتی ہے جو ان حکومتوں کا حصہ بھی رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں کر پاتے؟
جواب: یہ ذمہ ان کی ہی بنتی ہے۔ ان کی بھی نہیں، ان ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ایک بات اور شامل کر دوں، سچی بات ہے کہ میں تو اس مسئلے میں بہت پریشان ہوں۔ میں امریکہ بہت جاتا رہا ہوں، اب نہیں جا رہا ہوں۔ میں نے امریکہ کے کچھ علماء سے درخواست کی کہ آپ اس کو فورم بنائیں اور اس محاذ کو سنبھالیں، سارا کام میں گوجرانوالہ میں بیٹھ کر کروں گا۔ اس انٹرنیٹ کے دور میں یہ کوئی مشکل نہیں ہے، میں نے کہا کہ ہوم ورک اور پیپر ورک میں دوں گا، آپ صرف اقوام متحدہ میں بطور مسلم نمائندے کے کوئی ٹائیٹل اختیار کریں اور پاکستان کے عوام کے نمائندے کے طور پر پیش ہوں، لیکن میں انہیں قائل نہیں کر پا رہا، میرا رونا یہ ہے۔
سوال: بالکل بجا ہے، یہ وہ چیز ہے جس کی طرف میرے خیال سے ہمارے ۹۹.۹ فیصد علماء اور عوام کی توجہ نہیں ہے اور آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ جہاں نمائندگی ہی نہیں ہوگی تو وہاں تو پھر جو مرضی ہوتا رہے۔ لیکن آتے ہیں آپ کے اس کالم کی طرف ’’مسلمان ریاست کے غیر مسلم شہری کلمہ گو‘‘۔
جواب: میں نے اس میں واقعات لکھے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
سوال: نہیں وہ ٹھیک ہے، لیکن کیا آپ کا اشارہ قادیانیوں کی طرف ہے؟
جواب: نہیں، میرا تو تصور ہی نہیں ہے۔ میں نے اس میں واقعات لکھے ہیں اور کوئی واقعہ غلط نہیں ہے۔ میں نے لکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہ ہے، اس کو خواہ مخواہ کھینچ کے ادھر لے جانا تکلف محض ہے۔ کیا مسلم ریاست مدینہ نہیں تھی؟ کیا اس میں وہ طبقہ نہیں تھا جو مسلمان کہلاتا تھا اور قرآن پاک نے کہا کہ یہ مسلمان نہیں ہے؟ بالکل تھا تو حضورؐ نے اسے کیسے ڈیل کیا؟ اس کو قادیانیوں پر فٹ کرنے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔
سوال: اصل میں اس کی شاید ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں جہلم کے ایک سکالر نے اپنی گفتگو کا یہ ٹائٹل دیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ قادیانی کلمہ گو غیر مسلم ہیں اور قیامت والے دن یہ بطور امت ہی پیش ہوں گے، لیکن آگے پل صراط پر جا کر ان کی علیحدگی ہوگی۔ اس طرح کا کچھ عنوان تھا۔
جواب: میں نے وہ نہیں پڑھا اور نہ ہی ان صاحب کا موقف میرے علم میں ہے۔ میں نے تو اپنے حساب سے بات کی ہے۔ اور انہوں نے پل صراط کا منظر دیکھا ہوگا، ہم نے تو نہیں دیکھا ہوا۔ لیکن میں ایک اور چھوٹی سی بات شامل کر دوں کہ ایک آدمی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ ختمِ نبوت کے منکرین کو کیا شمار کریں گے؟ یہ سوال مجھ سے ہوا ہے مگر میں نے جواب نہیں دیا۔ اب آپ کے چھیڑنے پر جواب دے رہا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسیلمہ کذاب کا خط آیا۔ خط لے کر دو آدمی آئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ”اتشھدان انی رسول اللہ“ مجھے اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا مانتے ہیں۔ پھر پوچھا کہ مسیلمہ کو بھی اللہ کا رسول مانتے ہو؟ انہوں نے کہا مانتے ہیں، تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا ”لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما“ اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہاری گردنیں مار دیتا۔ مرتد ہونے کی سزا ”لضربت اعناقکما“ تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارا کیوں نہیں ہے؟ ان کے قتل کرنے میں جو رکاوٹ بنی وہ ایک بین الاقوامی ضابطہ تھا۔ منکرین ختم نبوت کے بارے میں تو حضور نبی کریمؐ نے اس کا لحاظ رکھا ہے کہ یہ قتل کے مستحق ہیں لیکن میں نہیں مار رہا کیوں کہ ضابطہ یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا۔
ایک بات اور شامل کر لیتا ہوں، عبداللہ بن اُبی کیا کچھ نہیں کرتا رہا، اس کو قتل کرنے کی حضرت عمرؓ نے کم از کم تین دفعہ اجازت مانگی ہے، حضرت خالد بن ولیدؓ نے الگ اجازت مانگی ہے، سعد بن معاذؓ نے الگ اجازت مانگی ہے کہ یا رسول اللہ! اجازت ہو تو اس کی گردن اڑا دیں۔ لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت نہیں دی اور یہ جملہ کہا جو بخاری شریف میں ہے کہ لوگ کہیں گے کہ محمد تو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر رہا ہے، اس سے اسلام کا امیج بگڑے گا۔ یہاں بھی حضورؐ نے عبد اللہ بن اُبی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر نہیں دی کہ لوگوں میں تاثر غلط ہو گا۔ تو کیا ہمیں اپنا تاثر صحیح نہیں رکھنا؟ میں پھر بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ کرو، میرا موقف یہ نہیں ہے کہ یوں نہ کرو۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ آپ مل بیٹھ کر اس پر فیصلہ کریں، اجتماعی دینی قیادت بیٹھے اور بیٹھ کر موقف طے کریں کہ کیا کرنا ہے۔
سوال: مذہبی جماعتیں تو کہتی ہیں کہ یہ تو ہو چکا، سب کچھ طے ہو چکا کہ ان کو شعائرِ اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
جواب: ۱۹۸۴ء تک طے ہو چکا، ۱۹۸۴ء کے بعد کس نے طے کیا ہے؟ اس میں بین الاقوامی قوانین کا کہاں لکھا ہے۔ اب بین الاقوامی تقاضے آئیں گے تو اسے ۱۹۸۴ء تک لے جائیں گے؟ وہ تو اب تقاضا کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ حق دو یا نہ دو۔ میں کہتا ہوں کہ اس نئی صورتحال کے بارے میں پھر سے مل بیٹھ کر اجتماعی فیصلہ کرو کہ جو بین الاقوامی تقاضے ہیں ان کو کیسے ڈیل کرنا ہے، قبول کرنا ہے یا رد کرنا ہے؟ کیا کرنا ہے فیصلہ تو کرو۔ فیصلہ قیادت نے کرنا ہے، کسی ایک پارٹی نے فیصلہ نہیں کرنا۔ فیصلہ وہ قبول ہوگا جو سارے مکاتبِ فکر مل کر کریں گے، بلکہ صرف مکاتبِ فکر نہیں، ان کے ساتھ وکلاء، اور تاجر برادری بھی مل کر فیصلہ کریں گے تو فیصلہ سنا جائے گا۔ سارے تقاضوں کے جواب میں ”ہمارا موقف یہ ہے“ کہنا اتنی بات کافی نہیں ہے کیونکہ اسے دنیا کے سامنے بھی تو پیش کرنا ہے۔
سوال: جو موقف ہم نے طے کیا کہ وہ شعائرِ اسلام استعمال نہیں کر سکتے وغیرہ تو یہ موقف ہم دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔
جواب: لیکن وہ اس کی تعبیر نہیں مان رہے۔ جو نئے اشکالات ہوتے ہیں تو ان کو جواب دیں۔ میرا موضوع یہ ہے کہ جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس پر اجتماعی قیادت بنے، فورم بنے جو بیٹھ کر فیصلہ کرے اور اجتماعی موقف دے۔
سوال: یہ بھی ایک سوال بیچ میں رہ گیا کہ عمار صاحب کا جو غامدی صاحب کی طرف رجحان بنا، کہتے ہیں کہ جو والد ہوتا ہے ظاہر ہے وہی اپنی اولاد کی تربیت بھی کرتا ہے، اس کو لے کر بھی چلتا ہے تو آپ، معذرت کے ساتھ، کہیں یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی طرف سے کچھ کوتاہی ہوئی کہ وہ اس طرف چلے گئے؟
جواب: میں حضرت والد صاحبؒ کے دائرہ کار میں نہیں ہوں تو کیا یہ کوتاہی والد صاحب کی ہے؟ آپ نے آج کی گفتگو کی ابتدا یہاں سے کی تھی کہ میں نے اپنے والد صاحبؒ سے مختلف راستہ اختیار کیا، تو کیا اسے والد صاحبؒ کے کھاتے میں ڈال دوں گا؟
سوال: لیکن وہ راستہ اس نوعیت کا تو نہیں تھا۔
جواب: ان کا راستہ وہ تھا، میرا یہ ہے، میں اس دائرے میں نہیں جا رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے میری غلط تربیت کی ہے؟ انہوں نے مجھے رائے کا حق دیا ہے، میں نے استعمال کیا ہے۔ میں عمار خان کو رائے کا حق دے رہا ہوں، وہ استعمال کر رہا ہے، اور اس کی ہر غلط رائے سے اختلاف کرتا ہوں۔
سوال: آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کو یہ کرنا چاہیے؟
جواب: رائے کا حق دینا چاہیے، رائے پر جبر نہ کریں، رائے سے اختلاف کریں۔
سوال: یعنی دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک ہے کہ آپ کسی کو زبردستی اپنی طرف لائیں اور ایک ہے کہ آپ اس کو قائل کرنے کی کوشش کریں، یعنی اگر آپ کو کہیں لگتا ہے تو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن زور زبردستی یا یہ والے معاملات نہ ہوں۔ اتنا ہی فرق ہے؟
جواب: میں یہی کہتا ہوں۔
سوال: آپ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کی ساری صورتحال دیکھتے آئے، تحریکِ نفاذِ شریعت اور شریعت بل یہ ساری چیزیں آپ کی آنکھوں کے سامنے سے گزریں۔ پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے، مسلمان دین سے محبت کرنے والے ہیں، لیکن یہاں دن بدن بجائے اس کے کہ شرعی قوانین نافذ ہوں یا ملکی قوانین شریعت کے قریب جائیں، وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ اس کی سب سے بڑی وجہ کیا سمجھتے ہیں؟
جواب: اسٹیبلشمنٹ۔ کیونکہ نفاذِ اسلام میں اسٹیبلشمنٹ سنجیدہ نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں تینوں طبقے بیوروکریسی، فوج اور سیاسی قیادت، ان میں کوئی بھی نفاذِ اسلام میں سنجیدہ نہیں ہے۔
سوال: تو اس میں مذہبی جماعتوں کو بھی آپ شامل کر رہے ہیں؟
جواب: مذہبی جماعتیں وقت گزارنے کی کوشش کرتی ہیں، تھوڑا بہت لگی رہتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ میں مذہبی جماعتیں نہیں ہیں، یہ اپنی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے اجتماعی طور پر دو فیصلے کیے تھے اس پر قائم ہیں: بائیس نکات اور تحفظِ ختمِ نبوت۔ ان کے علاوہ اور کسی مسئلے پر ہم نے اجتماعی جدوجہد کی بھی ہے؟ کسی مسئلے پر سنجیدہ ہو کر ہم نے اجتماعی جدوجہد نہیں کی۔ مثلاً قصاص کا مسئلہ اقوام متحدہ میں زیر بحث آیا، اقوام متحدہ نے آپ کو صاف منع کیا کہ قصاص ختم کرو، تو اس پر ہمارا مذہبی جماعتوں کا کوئی اجتماعی موقف سامنے نہیں آیا۔ میں کہتا ہوں کہ ہم بوقتِ ضرورت اکٹھے ہو جاتے ہیں اور پھر بوقتِ ضرورت الگ الگ بھی ہو جاتے ہیں۔
سوال: معذرت کے ساتھ کچھ چیزیں بیچ میں رہ گئیں، میں یہ چاہ رہا تھا کہ جو جو عنوانات میرے ذہن میں اس حوالے سے ہیں وہ ہم کلیئر کریں۔ سانحہ لال مسجد جو ہوا، اس حوالے سے آپ کا نام کیپیٹل ٹاک میں آیا، آپ نے گفتگو کی، آپ ان مذاکرات میں بھی شامل رہے، اس میں بھی آپ کے کردار کو میڈیا پر بڑے منفی انداز میں پیش کیا گیا، خصوصاً آپ کا یہ جملہ کہ ہم تو سونے چلے گئے تھے اور صبح آئے تو پیچھے فیصلہ بدلا ہوا تھا۔
جواب: نہیں، یہ کسی نے غلط منسوب کیا ہے۔ فیصلہ بدلا ہوا آنے تک ہم وہیں تھے۔ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحبؒ نے پوری رپورٹ لکھی ہے اور میں نے بھی پوری رپورٹ لکھی ہے، دونوں رپورٹیں قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں، پڑھ لیں۔ ہم آخر تک وہیں تھے۔ فیصلہ ہو گیا تھا، سارے معاملات طے ہو گئے تھے، لیکن جب پرویز مشرف نے فیصلہ ویٹو کر دیا تو ہم نے کہا چلیں، پھر وہاں کیا کرنا تھا؟
سوال: اس میں ایک تو ہے آپریشن کا فیصلہ، وہ تو ہمیں پتہ ہے کہ انہی کے سر جاتا ہے، لیکن وہاں تک نوبت کا پہنچنا کہ پورے ملک کی مذہبی قیادت مل کر لال مسجد والوں کو اس چیز پر قائل نہیں کر پائی۔ ۔ ۔
جواب: نہیں، ہم نے سمجھوتہ کروا دیا تھا۔ بھئی! آپ دونوں رپورٹیں پڑھیں، ہم نے سمجھوتہ کروا دیا تھا، بات طے ہو گئی تھی، اس اجتماعی فیصلے کو وزیر اعظم شوکت عزیز صاحب نے قبول کر لیا تھا مگر پرویز مشرف نے ویٹو کر دیا تھا۔
سوال: آخر میں میں آپ سے یہ پوچھوں گا کہ پاکستان کا جو ایک قومی منظرنامہ ہے اور ایک عالمی منظرنامہ اس میں پاکستان آپ کو کہاں کھڑا ہوا نظر آتا ہے؟ آپ نے اپنی جوانی سے لے کر اب تک پوری عمر جدوجہد میں گزاری ہے۔ آج کی نوجوان نسل، مدرسہ سے حفظ کر کے نکلنے والا طالب علم، درسِ نظامی کر کے عالم بننے والا، دارالافتاء سے نکلنے والا مفتی اور کالج و یونیورسٹی سے گریجویٹ کر کے نکلنے والا عملی طور پر اس معاشرے کے لیے کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے؟
جواب: دونوں طبقے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کنفیوژن یہ ہے کہ ملک کا ایجنڈا کیا ہے؟ ہم اس وقت ڈانواں ڈول ہیں، اس وقت سی پیک کی لڑائی ہے اور ہم امریکہ اور چائنہ کے درمیان پنڈولیم بنے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم کسی ایک جگہ کھڑے نہیں ہوں گے، کنفیوژ ہی رہیں گے۔ ہم اِس کو بھی راضی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس کو بھی راضی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اپنا مفاد بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نہیں ہوگا۔ ہم امریکہ اور چائنہ کے درمیان ایک عالمی کشمکش میں پنڈولیم بنے ہوئے ہیں، ہمیں دو ٹوک ہونا ہو گا یا اِدھر یا اُدھر، اور عالمِ اسلام کے ساتھ مل کر امتِ مسلمہ کے مستقل کا ایجنڈا طے کرنا ہو گا۔
سوال: یہ تو ہو گئی قومی سطح کی چیز، ایک نوجوان، عام آدمی کیا۔ ۔
جواب: مسئلہ یہ ہے کہ حالات کا مطالعہ کرنے والے عام آدمی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کرنا کیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا ”یتحیر فیہا اللبیب“ دانشور بھی حیران و سرگرداں ہو جائے گا کہ کرنا کیا ہے۔ یہ کنفیوژن کون دور کرے گا؟ کنفیوژن دور کرنے والے حلقے اور افراد خود کنفیوژن پیدا کر رہے ہیں۔
سوال: آخر میں نوجوانوں کو کیا کہیں گے کہ وہ کیا کریں؟
جواب: نوجوانوں کو اپنے دین کے ساتھ اور ملک کے ساتھ کمٹمنٹ کا خیال رکھنا چاہیے، اور صورتحال سے میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ اسٹڈی کے ذریعے واقف ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، سوشل میڈیا تو ایسا ہی کرے گا۔
بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرًا۔