خاندانی نظام کے حوالے سے ایک نشست سے گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ خاندانی نظام کے حوالے سے آج اس پہلو پر بات کرنا چاہوں گا کہ جب لڑکا لڑکی جوان ہو جائیں اور ان کی شادی ہو جائے تو کیا شادی شدہ ہو جانے کے بعد ماں باپ کا تعلق ان سے قائم رہتا ہے یا نہیں؟ یعنی اگر میاں بیوی کے معاملات میں کوئی گڑبڑ دیکھیں تو کیا وہ مداخلت کر سکتے ہیں یا نہیں؟ آج کا جدید فلسفہ یہ کہتا ہے کہ اب ماں باپ کا تعلق ختم، وہ جانیں اور ان کا کام، لڑکا لڑکی کے معاملات میں ماں باپ کا کوئی دخل نہیں ہے، نہ وہ کوئی ڈکٹیشن دے سکتے ہیں، نہ مشورہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی مداخلت کر سکتے ہیں۔ جبکہ اسلام کہتا ہے کہ نہیں! ماں باپ ہمیشہ کے لیے ماں باپ ہیں، وہ صرف جننے، پالنے اور پرورش کر کے جوان کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ زندگی بھر کے معاملات میں ان کا تعلق رہتا ہے۔ یہ نہیں کہ اولاد بالغ ہو گئی تو قصہ ختم، لڑکا لڑکی اپنے گھر میں اور ماں باپ اولڈ پیپلز ہوم میں گورنمنٹ کے مہمان۔
اس پر دو واقعات ذکر کرنا چاہوں گا کہ کیا اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کا رہنمائی اور مداخلت کا تعلق باقی رہتا ہے یا نہیں۔ خصوصاً لڑکی سے، کیونکہ لڑکا تو با اختیار ہوتا ہے اور لڑکی فطری طور پر کمزور ہوتی ہے، اسے جتنا مرضی پڑھا لیں وہ کمزور ہی رہے گی، سائنس نے ابھی تک کوئی ایسا فارمولا نہیں نکالا کہ عورت کو مرد سے زیادہ مضبوط کر دے۔ عورت چاہے امریکہ کی ہو یا چین کی اس نے عورت ہی رہنا ہے، اور مرد نے مرد رہنا ہے۔ کاغذوں میں جو مرضی لکھ دیں، کاغذی فارمولوں میں فرق سے حقیقت میں فرق نہیں پڑتا۔ عورت فطری طور پر کمزور ہے، سائیکالوجی میں بھی اور جسمانی طور پر بھی۔
اس کی تفصیل سے پہلے فقہ کا ایک مسئلہ عرض کرنا چاہوں گا۔ شادی ہو جائے تو اب لڑکی نے وہیں رہنا ہے جہاں اس کے خاوند نے رہنا ہے۔ خاوند کی مرضی ہے جہاں اس کی ملازمت، کاروبار یا رہائش ہے بیوی کو وہیں رکھے گا۔ مگر صاحبِ ہدایہ نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو اس کے ماں باپ سے اتنا دور نہیں لے جا سکتا کہ ماں باپ اس کا حال احوال نہ پوچھ سکیں ’’لان الغریبۃ توذٰی‘‘ کہ مسافر عورت کو تکلیف دی جائے گی پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ عورت کو تکلیف ہوتی ہے تو پوچھنے والے ماں باپ ہوتے ہیں، عورت کو ماں باپ کا سہارا ہوتا ہے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ اگر عورت کو کوئی تکلیف ہو تو پوچھنے والا کوئی ہو کہ کیوں زیادتی ہو رہی ہے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر عورت زیادتی کر رہی ہے تو اسے کوئی پوچھنے والا ہو کہ کیا کر رہی ہو۔ باقی دنیا کو چھوڑیں، ہمارے اس معاشرے میں کیا کوئی عورت ماں باپ کے سہارے سے دستبردار ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں، اور یہ اپنے گھر میں؟ نہیں! بلکہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اسے ماں باپ ہی سنبھالیں گے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس نے اپنی ایک بیوہ یا مطلقہ بیٹی سنبھالی، یا دو یا تین بیٹیاں عزت کے ساتھ سنبھالیں اور کوئی طعنہ وغیرہ نہیں دیا تو اس کے لیے جنت کا میں ضامن ہوں۔ یعنی آپؐ نے اسے عبادت اور نیکی کا کام قرار دیا یہ، یہ محض اخلاقیات نہیں ہیں۔ بیٹی کو طلاق ہو گئی تو والدین نے ہی اس کو سنبھالنا ہے اور سنبھالنا بھی چاہیے ۔ اس لیے میں نے کہا کہ جو بچی نکاح کر کے اپنے گھر چلی گئی ہے اس کو شادی کے بعد بھی ان دو باتوں کی ضرورت رہتی ہے کہ اگر اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو کوئی پوچھنے والا ہو کہ یہ زیادتی کیوں ہو رہی ہے۔ اور اگر یہ کسی کے ساتھ زیادتی کر رہی ہو تو کوئی اسے سمجھانے والا ہو کہ کیا کر رہی ہو۔ ان دونوں پہلوؤں پر ایک ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
بخاری شریف کی روایت ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر بہت سے قریش کے قبیلے، بلکہ سبھی مسلمان ہو گئے تھے۔ ان میں ابوجہل کا خاندان بھی تھا جو معزز اور چوہدری قبیلہ تھا۔ ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہؓ اور بیٹی بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ ابوجہل تو بدر میں قتل ہو گیا تھا۔ اس کی جوان بیٹی تھی۔ کسی نے حضرت علیؓ کو مشورہ دیا کہ آپ کا اس سے جوڑ ملتا ہے، اس سے نکاح کر لیں۔ حضرت علیؓ نے کہا میں سوچتا ہوں۔ یہ بات حضرت فاطمہؓ تک پہنچی۔ حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ میرے خاوند ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا چاہ رہے ہیں تو حضرت فاطمہؓ نے پہلے تو حضرت علیؓ سے بات کی کہ دیکھیں میں نے ابوجہل اور اس کے خاندان کا وہ دور دیکھا ہوا ہے جب وہ ابا جی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم ڈھاتے تھے۔ اب جب اس کی بیٹی میرے ساتھ ہوگی تو مجھے پچھلی باتیں یاد آئیں گی، مکے کا تیرہ سالہ مظالم کا دور میں نے لڑکپن میں دیکھ رکھا ہے اس لیے میرا اس کے ساتھ نباہ نہیں ہوگا۔ اس پر حضرت علیؓ چپ ہو گئے۔ پھر حضرت فاطمہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ بیٹیوں کا خیال بھی کیا کرتے ہیں یا نہیں۔؟ آپؐ نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو حضرت فاطمہؓ نے بتایا کہ یہ مسئلہ چل رہا ہے تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اچھا ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں۔ چنانچہ جناب نبی کریمؐ نے جمعہ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے اس معاملے کا پتہ چلا ہے، میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا، یہ معاملہ بھی حلال ہے، لیکن میری بیٹی ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نہیں رہ سکے گی۔ حلال حرام کا مسئلہ اور ہے اور ماحول کا مسئلہ اور ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ علیؓ اگر ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو میری بیٹی کو فارغ کر دے، ان کا اکٹھے نباہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے وہ پیشکش مسترد کر دی۔
میں اس پر عرض کیا کرتا ہوں کہ شادی نکاح میں صرف حلال حرام کی بات نہیں ہوتی بلکہ ماحول، مزاج اور بیک گراؤنڈ بھی دیکھنا چاہیے کہ نباہ ہو گا یا نہیں۔ میں نے یہ واقعہ اس حوالے سے عرض کیا ہے کہ اس موقع پر بیٹی کو تکلیف ہو رہی تھی تو بیٹی نے اپنے والد سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا تو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے گھر، میں اپنے گھر، بلکہ اس مسئلے کا ازالہ فرمایا کہ یہ معاملہ نہیں ہوگا۔ اس لیے جب بیٹی کو تکلیف ہو تو ماں باپ کا پہنچنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے، وہ معاملات کو بالکل کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کہیں بیٹی بھی گڑبڑ کر سکتی ہے تو ایسی صورت میں ماں باپ ہی اسے سمجھائیں گے، اس پر بھی ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔
بخاری شریف کی روایت ہے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنا واقعہ خود بیان کرتی ہیں کہ ہم غزوہ بنو مصطلق سے واپس آرہے تھے، پردے کے احکامات آ چکے تھے، میں اونٹ پر کجاوے میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ایک جگہ پڑاؤ کیا اور صبح فرمایا کہ چلو آگے چلتے ہیں یہاں پانی نہیں ہے، آگے جا کر کسی چشمہ پر وضو کریں گے اور فجر کی نماز پڑھیں گے۔ میں اپنی بہن حضرت اسماءؓ سے ہار ادھار لے کر آئی تھی، وہ ہار گم ہو گیا۔ عورتوں کا مزاج ہوتا ہے کہ کہیں سفر یا تقریب میں جانا ہو تو ہار یا سوٹ وغیرہ مانگ کر لے جاتی ہیں۔ حضورؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ تمہاری ماں نے ہار گم کر دیا ہے، پہلے ہار تلاش کرو پھر آگے چلیں گے۔ چنانچہ ہار کی تلاش میں سفر رک گیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ قافلے والوں کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا اور قریب کوئی چشمہ بھی نہیں تھا جہاں سے پانی لے لیتے، ادھر فجر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ لوگ ہار تلاش کر رہے تھے، خاصی دیر ہو گئی مگر ہار نہیں مل رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے سوچا کہ حضرت عائشہؓ رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، نماز کا وقت لیٹ ہو رہا تھا جبکہ تیمم کا حکم ابھی نہیں آیا تھا کہ تیمم کر کے نماز پڑھ لیتے، لیکن حضرت عائشہؓ سے کون بات کرے کہ ہار کو رہنے دیں۔ چنانچہ کچھ صحابہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے کہ حضرت! ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے، مقامِ ادب اور مقامِ احترام ہے لیکن آپ تو بیٹی کو کہہ سکتے ہیں کہ مہربانی کریں ہار کو رہنے دیں، اس کی وجہ سے قافلہ رکا ہوا ہے، یہاں پانی نہیں ہے، نماز قضا ہو رہی ہے اور سفر لیٹ ہو رہا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ابا جی میرے پاس کجاوے میں آئے، جبکہ جناب رسول کریمؐ بھی ادھر ادھر ہار تلاش کر کے تھک ہار کر کجاوے میں تشریف لائے تھے اور میری گود میں سر رکھ کر سو گئے تھے۔ ابا جی نے آکر مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ لوگ تمہاری وجہ سے مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں، صرف ڈانٹا ہی نہیں بلکہ میری کوکھ میں مکے بھی مارے۔ اتنے درد والے مکے تھے کہ میں تو مرنے لگی لیکن ہل نہیں رہی تھی کہ حضورؐ کی نیند خراب ہو گی۔ ابا جی کی ڈانٹ سہہ رہی ہوں اور مکے کھا رہی ہوں لیکن ہل نہیں رہی۔
اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ دیکھیں یہ بیٹی کس کی ہیں۔ غار میں گود ان کے والد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تھی جس میں جناب نبی کریمؐ کا سر تھا۔ وہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سانپ ڈس رہا تھا لیکن آپ ہل نہیں رہے تھے کہ حضورؐ کی نیند خراب ہو گی۔ حضرت عائشہؓ اسی باپ کی بیٹی تھیں تو وہ کیوں ہلتیں۔ اللہ کی قدرت! اللہ کا نظام ہے کہ ہار نہیں ملا تو حضورؐ نے فرما دیا کہ چھوڑو، چلو آگے چلتے ہیں۔ اس دوران تیمم کا حکم آ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آیت نازل کر دی کہ اگر پانی نہ مل رہا ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ یہ حکم اس موقع پر آیا۔ جناب نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو یہ حکم سنایا کہ اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی ہے لہٰذا تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں کجاوے میں تھی اور باہر ایک انصاری صحابی حضرت اسید بن حضیرؓ بلند آواز سے کہہ رہے تھے ’’ما ھی باول برکتکم یا آل ابی بکر‘‘ اے ابوبکر کے خاندان! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے، تمہاری وجہ سے ہمیں پہلے بھی بڑی برکتیں ملی ہیں اور اب تیمم کی برکت اور سہولت بھی تمہاری وجہ سے ملی ہے۔ تیمم کی اجازت صرف اس واقعہ والوں کو نہیں ملی بلکہ قیامت تک کے لیے پوری امت کو مل گئی، جس کا وقتی سبب حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ بنیں۔ سب نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی۔ اور پھر سفر کرنے کے لیے جب اونٹ کو اٹھایا تو ہار اونٹ کے نیچے پڑا تھا۔ جیسے محاورہ ہے بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں۔ نیچے ہار ہے، اوپر اونٹ ہے، اوپر کجاوہ ہے، اس میں حضرت عائشہؓ ہیں اور ہار کی تلاش پورے علاقے میں ہو رہی ہے۔
اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں کہ میں خبر دینا چاہوں تو زمین کے نیچے کی، آسمان کے اوپر کی اور ہزار سال بعد آنے والی خبریں دے دوں اور نہ دینا چاہوں تو اونٹ کے نیچے کی خبر بھی نہ دوں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزار سال بعد کی خبریں بھی دی۔ ایک جگہ بحث ہو رہی تھی کہ عرب صحرا میں سیلاب آیا ہے اور وہاں برف باری ہوئی ہے۔ تو میں نے کہا کہ جناب نبی کریمؐ نے چودہ سو سال پہلے اس کی خبر دے دی تھی۔ بخاری شریف کی روایت ہے آپؐ نے فرمایا ایک وقت آئے گا کہ پورا عرب صحرا، نہروں اور سبزہ زاروں میں تبدیل ہو جائے گا (مروجا وانھارًا) جو کہ شروع ہوگیا ہے۔
میں نے دو واقعات اس پر بیان کیے ہیں کہ اولاد کے جوان ہو جانے، شادی شدہ ہو جانے اور اپنے گھر بار والا ہو جانے کے بعد اولاد کے ساتھ ماں باپ کا تعلق ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ماں باپ کا تعلق زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ سپورٹ کا تعلق بھی کہ جہاں ضرورت پڑی اولاد کی سپورٹ کریں گے، اور نصیحت کا تعلق بھی کہ جہاں اولاد سے غلطی ہوگی وہاں اسے سمجھائیں گے اور ڈانٹیں گے۔ یہ بھی خاندانی نظام کا حصہ ہے۔