اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات اور ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد

   
نومبر ۱۹۹۵ء

۲۴ اکتوبر ۱۹۹۵ء کو اقوامِ متحدہ کا پچاسواں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے اور اس موقع پر جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے علاوہ بعض دیگر تقاریب کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کا قیام نصف صدی قبل عمل میں لایا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد اقوامِ عالم کے درمیان مفاہمت کا فروغ اور باہمی تصادم اور محاذ آرائی کا خاتمہ قرار دیا گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے اقوام کے درمیان انصاف اور رواداری کے لیے انسانی حقوق کا ایک چارٹر بھی منظور کر رکھا ہے جسے اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے، اور جس پر عملدرآمد کے لیے اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کی علمبرداری کے بلند بانگ نعرے کی آڑ میں اقوامِ متحدہ کی چھتری کے نیچے مغربی حکومتوں نے اس نصف صدی کے دوران مسلمانوں کی جان و مال اور حقوق کے ساتھ جو گلی ڈنڈا کھیلا ہے وہ بھی تاریخ کا ایک شرمناک اور سیاہ باب ہے۔ اور فلسطین، کشمیر، صومالیہ اور بوسنیا کے کھنڈرات کے ساتھ ساتھ خلیج کی جنگِ زرگری کے ہولناک نتائج نے آج اقوامِ متحدہ اور مغربی حکومتوں کے چہرے سے منافقت کا نقاب اتار دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملائشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد نے، جو عالمِ اسلام کے حوالے سے کبھی کبھی غیرت و حمیت کی بات کہہ جانے کا حوصلہ کر لیتے ہیں، مسلم حکومتوں کے سامنے یہ تجویز رکھی ہے کہ عالمِ اسلام کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے منافقانہ اور معاندانہ کردار کے خلاف احتجاج کے طور پر اقوامِ متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن ابھی تک سوڈان کے علاوہ کسی اور حکومت کو اسلامی غیرت و حمیت کے اظہار کی اس مہم میں ملائشیا کا ساتھ دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں اقتدار کی مسند پر براجمان لوگ خود مغرب کے تربیت یافتہ بلکہ نمائندہ ہیں، یا اس قدر خوفزدہ اور مرعوب ہیں کہ حق و انصاف کی بات کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، اسی لیے جناب مہاتیر محمد کی اس تجویز کو پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔

   
2016ء سے
Flag Counter