بیرونی مداخلت پر مالدیپ کی مذمت

   
۲۹ جولائی ۲۰۱۵ء

اے پی پی کی ایک خبر کے مطابق مالدیپ کے صدر عبد اللہ یامین نے ملکی معاملات میں مغربی مداخلت کی شدید مذمت کی ہے۔ مالدیپ کے پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر عبد اللہ نے ترقی یافتہ ممالک پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے جزیرے پر اپنے قوانین اور معیارات مسلط کر رکھے ہیں۔ کچھ ممالک اور عالمی ادارے مالدیپ کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تقریب میں ہمسایہ ملک سری لنکا کے صدر متھری پالا سری سینا بھی موجود تھے۔ صدر عبد اللہ نے کہا کہ مغربی ملکوں نے مالدیپ کے نظام عدل اور استحکام پر اعتراضات کیے ہیں جبکہ ہمارے مذہب، ثقافت اور روایات سے مطابقت نہ رکھنے والے نظریات کی حمایت نہ کرنے پر وہ ہماری مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

مالدیپ بحر ہند میں سری لنکا کے جنوب مغرب میں واقع سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر کا ایک مجموعہ ہے جس کا سرکاری نام ’’جمہوریہ مالدیپ‘‘ ہے۔ اس نے ۱۹۶۵ء میں برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کی۔ مجموعی رقبہ تین سو مربع کلو میٹر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے اور آبادی تین چار لاکھ کے درمیان ہے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ آزادی سے قبل وہاں بادشاہی نظام تھا اور بادشاہت کو برطانوی دور میں اندرونی خود مختاری حاصل تھی، جبکہ آزادی کے بعد سے مالدیپ میں صدارتی جمہوریت کا نظام قائم ہے۔ سارک تنظیم کے قیام کے دوران مالدیپ کے سابق صدر مامون عبد القیوم خاصے متحرک رہے ہیں اور مالدیپ کا دارالحکومت مالے ۱۹۹۰ء میں سارک تنظیم کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔

صدر عبد اللہ یامین نے مالدیپ کے یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور مغربی ملکوں کی مداخلت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی صرف مالدیپ تک محدود ہے۔ بلکہ دنیا کے ان تمام ملکوں کو ترقی یافتہ ملکوں سے یہی شکایت ہے جو غیر ترقی یافتہ یا غریب ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی حوالہ سے ان ترقی یافتہ ملکوں کے محتاج ہیں۔ اور ان کی اس احتیاج سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ثقافت، عقائد اور روایات کو نظر انداز بلکہ پامال کرتے ہوئے ان پر مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلط کیا جا رہا ہے۔ البتہ مسلمان ممالک اور معاشرے چونکہ اپنے عقیدہ و ثقافت کے ساتھ گہری محبت اور بے لچک کمٹمنٹ رکھتے ہیں اور ان کا دین ایک زندہ و توانا مذہب کے طور پر دنیا بھر کی انسانی سوسائٹی میں موجود و متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تحفظ و بقا اور فروغ و نفاذ کے لیے پوری قوت کے ساتھ مزاحمت بھی کر رہا ہے، اس لیے اسلام اور مسلمانوں کا یہ احتجاج عالمی سطح پر محسوس ہو رہا ہے اور مغربی فلسفہ و ثقافت کی وہ یلغار جو دنیا کی تمام ثقافتوں، روایات اور عقائد کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کے لیے گزشتہ دو صدیوں سے جاری ہے وہ عملاً اسلام اور مغرب کے درمیان ثقافتی جنگ (سولائزیشن وار) کا رنگ اختیار کر چکی ہے اور دنیا کے ہر خطے میں اس کا کسی نہ کسی شکل میں اظہار ہوتا رہتا ہے۔

مسلم ممالک کے حکمران تو عموماً اس سلسلہ میں خاموش ہی رہتے ہیں مگر مسلم معاشروں کی دینی و فکری قیادتوں کی صدائے احتجاج ہر سطح پر بلند ہو رہی ہے اور دنیائے اسلام کے سبھی دینی حلقے اور ادارے تمام تر باہمی اختلافات اور تنوع کے باوجود اپنے عقائد اور تہذیبی روایات بالخصوص خاندانی نظام کے تحفظ و بقا کے لیے یک آواز ہیں۔ اس وقت معروضی صورت حال یہ ہے کہ اس فکری، تہذیبی اور ثقافتی یلغار کو اقوام متحدہ سمیت بیشتر عالمی اداروں کی پشت پناہی اور تعاون حاصل ہے۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت منقار زیر پر ہے، اسلامی سربراہی کانفرنس کی تنظیم مسلسل کومے میں ہے، مگر دینی و فکری قیادتیں بہرحال حرکت میں ہیں اور کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں۔

اس فکری اور تہذیبی کشمکش کا گزشتہ دو صدیوں کا تناظر دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر بات صرف ظاہری اسباب کی ہوتی اور اسباب و وسائل پر ہی اس کا انحصار ہوتا تو اسلامی تہذیب و ثقافت خدا نخواستہ کب کی دم توڑ چکی ہوتی اور مسلم معاشرے بالخصوص ان کا خاندانی نظام مکمل طور پر مغربی ثقافت کے رنگ میں رنگا جا چکا ہوتا۔ مگر اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات صرف لائبریریوں کی زینت نہیں بلکہ ان کے پڑھنے پڑھانے اور ان پر روز مرہ زندگی میں عمل کا سلسلہ بھی ہر طرح کی کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود ہر دائرے میں اور ہر سطح پر قائم و جاری ہے۔ اس کی ایک جھلک رمضان المبارک میں قرآن کریم کی پوری دنیا میں اہتمام کے ساتھ تلاوت و قراءت ، اور حج کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں کی حرمین شریفین میں والہانہ حاضری اور عقیدت و محبت کے گہرے جذبات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے مغرب کی تہذیبی یلغار کو مسلم معاشروں میں بالآخر پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر مغربی قیادت کی تلملاہٹ اب دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے، وما تخفی صدورھم اکبر۔

ماضی قریب میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے، جو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سربراہ بھی رہے ہیں، عالمی سطح پر مغرب کی فکری و تہذیبی دھاندلیوں کے خلاف کئی بار آواز بلند کی۔ اور وہ مسلم حکمرانوں کو اس سلسلہ میں سنجیدہ توجہ کے لیے تیار کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور مسلم حکمرانوں کی مجموعی حیثیت کو ’’کومے‘‘ سے نکالنے میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب غالباً دنیا کے سب سے چھوٹے مسلم ملک مالدیپ کے صدر نے صدائے احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رکھنے کی جرأت کی ہے جس پر وہ ہم سب کے شکریہ اور تحسین کے مستحق ہیں۔ مگر جب تک مسلم ممالک کی اعلیٰ سطحی قیادتیں مہاتیر محمد اور عبد اللہ یامین کے اس درد و کرب کو محسوس نہیں کرتیں اور اس کا مداوا کرنے کے لیے سنجیدگی اختیار نہیں کرتیں تب تک صورت حال میں کسی بنیادی تبدیلی کی بظاہر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔ البتہ صدر عبد اللہ یامین کی اس جرأت رندانہ پر انہیں سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter