صدر سردار فاروق احمد لغاری کی طرف سے بے نظیر حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی توڑ کر ۳ فروری کو نئے انتخاب کے اعلان کے بعد یہ بحث ایک بار قومی حلقوں میں چل پڑی ہے کہ پہلے انتخاب ہونا چاہیے یا پہلے احتساب کو مکمل کیا جانا چاہیے۔
یہ بحث ایک بار پہلے بھی ۱۹۷۷ء میں ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک کے بعد جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے دور میں چھڑی تھی اور بہت سے سیاسی راہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات سے پہلے احتساب کا عمل مکمل کیا جائے، جس پر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے انتخابات ملتوی کر دیے تھے اور احتساب کا عمل بہت جوش و خروش کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ احتساب کا عمل بھی کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے راستہ میں ہی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گیا اور انتخابات بھی دس سال تک نہ ہو سکے۔
پھر ۱۹۸۵ء میں انتخابات کا عمل شروع ہوا اور کہا گیا کہ سب سے بہتر احتساب وہ ہے جو عوام ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں، لیکن ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۳ء تک آٹھ سال کے عرصہ میں قوم چار مرتبہ عام انتخابات کے مرحلہ سے گزری اور بار بار انتخابات کا یہ عمل بھی حالات میں کوئی بہتری نہ لا سکا، بلکہ حالات کا تجزیہ کیا جائے تو صورتحال پہلے سے زیادہ بدتر ہوتی چلی گئی ہے۔ ملک کا حکمران طبقہ ابھی تک وہی ہے، نظامِ حکومت اور طرزِ حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، اور چہرے بھی وہی ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ باری باری سامنے آ رہے ہیں۔
اس لیے ایک عام آدمی کے لیے تو انتخاب یا احتساب میں سے کسی میں بھی کوئی کشش یا امید کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا، اور وہ حیران و پریشان ہے کہ کونسا راستہ اختیار کرے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ نہ انتخاب ہے نہ احتساب، بلکہ مسائل کی اصل جڑ یہ ہے کہ ملک کا اجتماعی نظام بدستور وہی چلا آ رہا ہے جو فرنگی استعمار نے نوآبادیاتی دور میں اپنے مخصوص مفادات کے لیے ہم پر مسلط کیا تھا۔ اور اس نظام کو چلانے والی کلاس بھی متعین ہے جو جاگیرداروں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی صورت میں باری باری عوام پر حکمرانی کرنے اور نوآبادیاتی نظام کے تحفظ کے لیے سامنے آتی رہی ہے۔
گزشتہ دس برس میں تھوڑی سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اس تکون کو توڑ کر ملک کے صنعتکار طبقہ نے بھی اقتدار کی لائن میں لگنے اور اپنی باری پکی کرانے کے لیے تگ و دو شروع کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ نصف صدی کے دوران ملک کے نظام، اور نظام کو چلانے والے مخصوص گروہوں میں کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ اور یہ طبقات انتخاب یا احتساب دونوں صورتوں میں باہمی مفادات کے تحفظ کے لیے اندرونِ خانہ اکٹھے ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نہ انتخاب ملک میں کسی تبدیلی کا ذریعہ بنتا ہے اور نہ احتساب کا کوئی عمل کسی نتیجے تک پہنچتا ہے۔
اس لیے ضرورت ایک ایسی عوامی جدوجہد کی ہے جو عوام کو نظام کی تبدیلی اور ’’حکمران طبقہ‘‘ سے نجات کے لیے تیار کرے، اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ساتھ نوآبادیاتی سسٹم اور اس کے محافظوں کو راستہ سے ہٹایا جائے۔ تاکہ ملک میں صحیح معنوں میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہو جو اسلام کے عادلانہ نظام کا نفاذ کر کے لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا کر سکے، اس کے علاوہ ملک میں حالات کی تبدیلی کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔