تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر ایک بات عرصہ سے محسوس کر رہا ہوں اور کبھی کبھار نجی محافل میں اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے مگر اب اس احساس میں قارئین کو شریک کرنے کو جی چاہ رہا ہے، وہ یہ کہ ہر استعمار کا الگ مزاج ہوتا ہے اور اس کے اظہار کا اپنا انداز ہوتا ہے، ہم نے برطانوی استعمار کے تحت دو صدیاں گزاری ہیں، ایک صدی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ماتحتی میں اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ تاج برطانیہ کی غلامی میں گزار کر ۱۹۴۷ء سے آزاد قوم کی تختی اپنے سینے پر لٹکائے ہوئے ہیں۔ مقامی آبادی کے مختلف طبقوں اور گروہوں سے کام لینا ہر استعمار کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے، کچھ سے ظاہری طور پر اور کچھ سے مخفی دائروں میں کام لیا جاتا ہے۔ تاریخ برطانوی استعمار کا مزاج یہ بتاتی ہے کہ جن سے خفیہ طور پر کام لیا جائے ان کی رازداری برقرار رکھی جائے، ان کی عزت اور بھرم پر کوئی حرف نہ آنے دیا جائے اور کام لے چکنے کے بعد بھی ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے۔ مثلاً خفیہ سرکاری دستاویزات کو مورخین و محققین کے لیے عام کرنے میں کم از کم تیس سال کے وقفہ کا ایک مقصد یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ خفیہ طور پر استعمال ہونے والے اپنی زندگی میں رسوا نہ ہونے پائیں۔ جبکہ برطانوی استعمار کے لیے مختلف حوالوں سے استعمال ہونے والے خاندانوں اور گروہوں کے ساتھ اب بھی ان کے سابق آقاؤں کے اچھے مراسم دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک گروہ کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی نے خدا جانے کس ترنگ میں آکر ملکہ وکٹوریہ کے نام ایک عرضداشت میں خود کو ’’برطانیہ کا خودکاشتہ پودا‘‘ لکھ دیا تھا اور اسے اپنی کتابوں میں شائع بھی کر دیا تھا، جسے اب تک ان کا گروہ بھگت رہا ہے، ورنہ عام طور پر ایسا نہیں ہوا۔
جبکہ امریکی استعمار کا مزاج اس سے مختلف دکھائی دیتا ہے اور چونکہ ہم اسی کے دور میں گزر بسر کر رہے ہیں اس لیے محسوس بھی زیادہ ہوتا ہے، وہ یہ کہ امریکہ نے اپنے بہت سے آلۂ کار افراد اور گروہوں کو خود ننگا کیا ہے، ان سے کام لینے کا راز افشا کیا ہے، اور کام لے چکنے کے بعد انہیں برباد اور رسوا کرنے میں بھی کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ فلپائن کے مارکوس، ایران کے رضا شاہ پہلوی، اور ویت نام کے جنرل نکوڈین ڈیم اس کی چند مثالیں ہیں۔ خاص طور پر ایسے آلۂ کار جنہوں نے کسی مرحلہ پر امریکی ایجنڈے سے اختلاف کی جرأت کی، یا معاملہ سمجھ آنے پر پیچھے ہٹنے کا عندیہ دیا۔ عراق و افغانستان میں سابقہ اور موجودہ حکمت عملی کا تضاد اس ’’امریکی اسٹائل‘‘ کا شاہکار نظر آتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم نے کچھ عرصہ قبل دیکھی کہ جب پاکستان میں مذہبی فرقہ واریت کے ایک پہلو کو امریکی مقاصد کے لیے اجاگر کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی، اس کے لیے کچھ افراد کو سپورٹ کیا گیا، انہیں امریکہ بلا کر بریف کرنے کا اہتمام بھی ہوا، اور اس حوالہ سے اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے سے چند ہزار ڈالر کی ادائیگی کی خبر اخبارات میں سامنے آئی، تو امریکی سفارت خانہ اسے خفیہ یا کم از کم گول مول رکھنے کا تکلف نہ کر سکا اور اعلانیہ تصدیق فرما دی۔ جس کا ہمیں تو بہرحال فائدہ ہوا کہ وہ مہم وہیں ختم ہو گئی مگر امریکی استعمار کے مزاج اور طریق کار کے اس پہلو سے خاطر خوا واقفیت ہوگئی۔
دینی مدارس کو بین الاقوامی ایجنڈے کے تابع کرنے کی مہم ایک عرصہ سے جاری ہے اور ہماری ہر حکومت اس میں بقدر ظرف و حوصلہ کچھ نہ کچھ حصہ ڈالتی آرہی ہے مگر اب اس میں زیادہ سنجیدگی دکھائی دینے لگی ہے جس کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں۔ اور نئی حکمت عملی کا ایک حصہ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی موجودہ اور اصلی قیادتوں کو کنٹرول کرنے یا کم از کم دباؤ میں رکھنے کے لیے متبادل قیادتوں کا ہوا دکھایا جائے اور کچھ نہ کچھ نقل و حرکت بھی مدارس و مساجد کے عنوان سے سامنے لائی جاتی رہے۔ چند سال قبل ’’فورتھ شیڈول‘‘ میں کچھ لوگوں کو ڈال کر کہا جاتا رہا کہ فلاں صاحب اگر آپ کی ضمانت دے دیں تو لسٹ سے آپ کا نام نکالا جا سکتا ہے، چنانچہ بہت سے نام اس پراسیس کے تحت نکالے گئے جن کا بڑے فخر کے ساتھ ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس سال عید الاضحٰی کے موقع پر کچھ شہروں میں مدارس سے کہا گیا کہ فلاں ’’قائد‘‘ کے کہنے پر آپ کو کھالیں جمع کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔
یہاں تک تو خیر نارمل بات ہے کہ ان کاموں میں پیشرفت کا ایک یہ طریقہ بھی ہے، مگر یہ بات ہضم کرنے کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے کہ ملکی سطح کے بھرپور نمائندہ اجتماعات میں ایسے حضرات سے یہ کہلوانا بھی ضروری سمجھا گیا کہ وفاقوں کی قیادتوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیجئے اور ان کی پروا نہ کیجئے، ہم آپ کے سپاہی ہیں، آپ دینی مدارس کے سرکاری اداروں کے ساتھ الحاق کا حکم نافذ کر دیں، عملدرآمد ہم کرائیں گے۔ میں تب سے ورطۂ حیرت میں ہوں اور اس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہیں پا رہا جبکہ اس ’’امریکی اسٹائل‘‘ کے نظارے پر یہ فارسی مصرعہ بار بار ذہن کی اسکرین پر نمودار ہو رہا ہے کہ: