قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت کا معاملہ

   
سوشل میڈیا
۳ مئی ۲۰۲۰ء

اینکر: السلام علیکم۔ حضرت! میرا نام عمران صدیقی ہے اور شفیق بھائی سے میرا تعلق ہے۔ اصل میں ہمارا اس حوالے سے موضوع چھڑا ہوا تھا کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں داخل کرنے کی گورنمنٹ کی کوشش تھی یا پھر ایک سوچ یا رائے تھی کہ انہیں اس کمیشن میں ڈال دیا جائے تاکہ ان کے جو مائنارٹیز کے رائٹس ہیں، جو پاکستان میں بڑے محدود رائٹس ہیں کہ وہ ڈائریکٹ الیکشن میں الیکٹ نہیں ہو سکتے اور نہ الیکشن لڑ سکتے ہیں، کیونکہ مسلمان بن کر، مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو کر سازشی معاملات کرنا زیادہ نقصان دہ ہے تو وہ مسلمان بن کر اپنے مذہب اور اپنے لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں اور اس طرح سازش کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے تو یوں یہ محدود ہو جائیں گے اور اقلیت میں شامل ہو جائیں گے تو اس طرح سازشوں کا راستہ رکے گا۔ میرا تعلق پی ٹی آئی سے ہے تو ہمارے کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی تھی کہ اس طرح ان کا راستہ رکے گا، آپ اپنی رائے کا اظہار فرمائیے گا، اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب: وفاقی وزارت مذہبی امور نے جو نیا اعلان کیا ہے کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں نہیں لیا جائے گا، انہوں نے سفارش کر دی ہے، اس کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے، میں بھی خیر مقدم کرتا ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک مغالطہ جو ملک بھر میں پھیلایا گیا ہے، پھیلتا جا رہا ہے اور مختلف حضرات سوال کرتے ہیں، میں اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر قادیانی ممبر بن جائے گا تو یہ عملاً خود کو غیر مسلم تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا تو یہ بات ہمارے فائدے کی ہے اور ان کے نقصان کی ہے، لہٰذا اس کو قبول کر لینا چاہیے۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ نہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جو ممبر بنایا جا رہا ہے، یا بنانے کی تجویز تھی، اب کہا ہے کہ نہیں ہے، تو یہ ایک فرد کا معاملہ ہے، جماعت کے نمائندے کے طور پر نہیں بلکہ ملک کے ایک فرد کے طور پر اس قادیانی کو کمیشن کا ممبر بنایا جائے گا۔ ہم یہ کہتے رہیں گے کہ یہ ان کا نمائندہ ہے اور وہ کہتے رہیں گے کہ ہمارا نمائندہ نہیں ہے۔

ہم اس سے پہلے یہ تجربہ کر چکے ہیں۔ بھٹو مرحوم کے زمانے میں ہم نے ۱۹۷۴ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ایک قادیانی بشیر طاہر کو قومی اسمبلی کا ممبر منتخب کروایا تھا، وہ ممبر رہے ہیں۔ ایک قادیانی پنجاب اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ ہم نے ان کو اسی طریقے سے ممبر بنوایا تھا جیسے ہم اب قادیانیوں کو کمیشن کا ممبر بنوا رہے ہیں۔ مگر قادیانیوں نے انکار کر دیا تھا کہ یہ ہمارے نمائندے نہیں ہیں، یہ ایک فرد ہے۔ انہوں نے صرف انکار نہیں کیا تھا بلکہ بائیکاٹ کر دیا تھا کہ ہم دستوری پراسس کے مطابق ووٹ درج نہیں کروائیں گے۔ جب ہم ایک تجربہ کر چکے ہیں تو اب اس قسم کا دوسرا تجربہ دہرانے کی کیا ضرورت ہے؟ میری پہلی بات یہ ہے کہ وہ ایک فرد ہے، نہ وہ کہہ رہا ہے کہ میں مسلمان نہیں ہوں اور نہ جماعت اس کو تسلیم کر رہی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ پاکستان میں آپ صرف ٹیکنیکل طور پر یہ بات کہہ سکیں گے کہ ہم نے انہیں اقلیتوں میں شمار کر دیا، جبکہ دنیا بھر میں قادیانی خود کو مسلمان کہتے رہیں گے۔ اور ۱۹۷۴ء کے بعد سے قادیانیوں نے دنیا میں جو کنفیوژن اور دھند پھیلا رکھی ہے اور اس دھند میں اپنا کام کر رہے ہیں، وہ کنفیوژن کنفرم ہو جائے گا۔ آپ کہتے رہیں گے کہ ہم نے شامل کر دیا ہے، وہ کہتے رہیں گے کہ ہم نے تسلیم نہیں کیا، ہم نہیں مانتے اور ہم دستور کے پراسس پر آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ کنفیوژن اور تنازعہ بڑھے گا، اس لیے جب تک جماعت احمدیہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کرتی، اس وقت تک کسی قادیانی کو ہم اپنی طرف سے (الیکٹ) کر دیں تو یہ بات کا حل نہیں ہے، بلکہ معاملہ کو بگاڑنے والی بات ہے۔

میں ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا۔ دیکھیں، دستور تو دستور ہے، بنیادی بات ہے۔ امریکہ میں بے شمار لوگ رہائشی ہیں، شاید کروڑوں میں ہوں جنہیں غیر قانونی رہائشی کہا جاتا ہے۔ وہ ملک میں رہتے ہیں، سارے کام کاج کرتے ہیں، لیکن ان کو شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ امریکہ ان کو دستور کے مطابق شہری حقوق نہیں دے رہا، نہ دینے کو تیار ہے، کیوں کہ وہ ملک کے دستور کے دائرے میں نہیں آتے۔ جب تک وہ ملک کے شہری نہیں بنیں گے انہیں حقوق نہیں ملیں گے، اور وہ شہری بنیں گے امریکہ کے دستور کو تسلیم کر کے۔

بلکہ میں ایک اور بات عرض کرنا چاہوں گا کہ شہری بننے کے دو مرحلے ہیں: ایک یہ ہے کہ کوئی آدمی اس ملک کے دستور کو تسلیم کرتے ہوئے شہری بننے کی درخواست دیتا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس ملک کا سسٹم بھی اس کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ فیصلہ تو سسٹم نے کرنا ہے کہ یہ شہری ہے یا نہیں۔ کسی بھی ملک کا شہری بننے کے لیے اور شہریت کے حقوق حاصل کرنے کے لیے پہلا درجہ یہ ہے کہ وہ خود درخواست دے کہ میں ملک کا شہری بننا چاہتا ہوں، پھر سسٹم اس پر غور کر کے فیصلہ دے کہ یہ سسٹم اس کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا، اس کے بعد شہری بنے گا اور اس کے حقوق ہوں گے۔ کسی ملک کے شہری بننے اور شہری حقوق کی بنیاد دستور ہوتا ہے۔ جبکہ قادیانی اس ملک کا دستور تسلیم نہیں کر رہے ہیں، اور اگلا مرحلہ وہ درخواست دیں گے تب آئے گا کہ سسٹم ان کو قبول کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ اس کے بغیر ہم سب کچھ کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات اصول اور قانون کے خلاف ہے۔ دنیا بھر کے ہر ملک میں اس ملک کے دستور کے مطابق شہری حقوق حاصل کرنے کے لیے اس ملک کے دستور کو تسلیم کرنا اور دستور کے دائرے میں آنا پہلی شرط ہوتی ہے۔

ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ ذرا غور فرمائیں کہ نہ قادیانی فرد بول رہا ہے، نہ جماعت بول رہی ہے، نہ چناب نگر کا قادیانی ہیڈ کوارٹر بول رہا ہے اور نہ مرکز کا ہیڈ کوارٹر بول رہا ہے، ان کا کوئی فرد ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکال رہا، ان کی طرف سے اور ان کے خلاف ہم بٹ گئے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے ہیں، یہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اگر وہ بات کریں اور ان کی وکالت کی جائے تو بات کسی درجے میں سمجھ آتی ہے، مثلاً قادیانی ایک موقف اختیار کرتے ہیں، کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے، کوئی اس کی حمایت کرتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، مگر جبکہ وہ کچھ کہہ ہی نہیں رہے، ہم یکطرفہ طور پر ساری باتیں کرتے جا رہے ہیں، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ ان سے کچھ کہلوائے بغیر اور ان کا موقف معلوم کیے بغیر یہ یکطرفہ وکالت کس بات کی وکالت ہے؟ ان کی وکالت کرتے ہیں تو ان سے موقف تو پوچھیں کہ ان کا موقف کیا ہے؟ یہ یکطرفہ وکالت ٹھیک نہیں ہے۔

میں گزارش کروں گا کہ حضرات غور فرمائیں۔ یہ کنفیوژن کو بڑھانے والی بات نہیں ہونی چاہیے۔ سادہ سی بات ہے کہ جس دستور کے تحت کسی دستوری ادارے میں قادیانیوں کو نمائندگی دی جا رہی ہے یا ملک کے حقوق میں ان کو حصہ دار بنایا جا رہا ہے تو وہ اس دستور تسلیم کریں، اس کے بعد تمام حقوق لیں۔

آخر میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں قادیانیوں کے شہری حقوق سے کوئی انکار نہیں ہے، ہم اس کے پہلے داعی ہوں گے کہ اگر وہ دستور کو تسلیم کرتے ہیں تو دستور کے تحت جو شہری، سیاسی اور معاشی حقوق ملک کی دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں، وہ پورے کے پورے حقوق انہیں عملاً دیے جائیں۔ اس میں اگر کہیں رکاوٹ ہو گی تو ہم بات کریں گے، یہ ہماری ذمہ داری ہے، لیکن میری درخواست یہ ہے کہ کنفیوژن کو مت بڑھائیں اور قادیانیوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ ملکی سطح پر اور قومی سطح پر کنفیوژن اور الجھاؤ کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں سے ٹیکنیکل فائدے اٹھائیں اور ہم خواہ مخواہ ان کے وکیل بن جائیں۔

2016ء سے
Flag Counter