جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران حسب سابق چند روز کراچی میں گزارنے کا موقع ملا اور دو تین دن لاہور کی مصروفیات میں گزر گئے۔ اس کی مختصر رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
۲۲ تا ۲۵ فروری پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں مختلف عنوانات پر مسلسل فکری نشستوں کے لیے پابند کر رکھا تھا۔ چار روز کے دوران کم و بیش سات نشستوں میں متعدد عنوانات پر گفتگو ہوئی۔ جبکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر ایک عمومی نشست میں انہوں نے حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے استعمال میں آنے والا ایک جبہ بھی تبرک کے طور پر عطا فرمایا بلکہ پہنایا جو میرے لیے یقیناً سعادت اور برکت کے ساتھ ساتھ اعزاز کی بات بھی ہے۔ میں نے اس موقع پر شرکاء محفل کو بتایا کہ یہ اعزاز مجھے خود حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ان کے دست مبارک سے دو مرتبہ حاصل ہو چکا ہے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ عام جلسوں میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کی دستار بندی کیا کرتے تھے۔ ایک بار جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور میں اور دوسری بار مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ایسا اتفاق ہوا کہ مختلف علماء کرام کی حضرت درخواستیؒ نے دستار بندی کی۔ مگر جب میری باری آئی تو کوئی رومال یا دستار باقی نہیں بچی تھی۔ حضرت درخواستیؒ نے دونوں بار اپنے سر سے ٹوپی اتار کر میرے سر پر پہنا دی۔ دونوں ٹوپیاں میرے پاس موجود ہیں اور ان میں سے ایک ٹوپی میں جمعہ کے روز دستار کے نیچے عام طور پر پہنا کرتا ہوں۔ اس ٹوپی کا تو حضرت درخواستیؒ نے مختلف شہروں میں اپنے خطابات میں یہ کہہ کر تذکرہ بھی فرمایا کہ ’’میں نے راشدی والوں کو اپنی ٹوپی پہنا دی ہے اور اب وہ اڑا پھرتا ہے۔‘‘
اس دوران ایک روز ٹنڈوالہ یار کے قدیمی علمی مرکز دارالعلوم اسلامیہ کے اساتذہ کی دعوت پر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کے ہمراہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ظہر کے بعد علماء کرام اور طلبہ کی بھرپور نشست میں ہم دونوں نے گفتگو کی۔ پاکستان کے بعد قائم ہونے والے ابتدائی تعلیمی مراکز میں یہ دارالعلوم حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ، اور حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ جیسے عظیم محدثین کی تدریسی جولانگاہ رہا ہے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اسی درسگاہ کے فاضلین میں سے تھے اور ان کی زبان سے اکثر اس درسگاہ اور اس کے مایہ ناز اساتذہ کا تذکرہ سننے کو ملتا تھا۔
حیدرآباد کے پرانے دوستوں مولانا ڈاکٹر سیف الرحمن ارائیں اور مولانا ڈاکٹر عبد السلام قریشی سے بھی وہاں ملاقات ہوئی اور بہت سی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ ٹنڈوالہ یار جاتے ہوئے راستہ میں سپر ہائی وے پر نوری آباد کے قریب حضرت مولانا زر ولی خان کا زرعی فارم ہے۔ ہمارے رفیقِ سفر مولانا رشید احمد درخواستی اور حافظ محمد عباس کی ادھر نظر گئی تو دیکھا کہ مولانا زر ولی خان کی گاڑی کھڑی ہے، گویا وہ بھی موجود ہیں۔ ہم نے وہاں تھوڑی دیر رکنے کا پروگرام بنا لیا، حضرت مولانا زر ولی خان موجود تھے، دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مختصر سی نشست میں مختلف امور پر بات چیت ہوئی اور ’’جنگل میں منگل‘‘ کے اس ماحول میں چائے پی کر ہم وہاں سے رخصت ہوگئے، جبکہ حسن اتفاق سے وہ دن بھی منگل کا ہی تھا۔
لانڈھی کے مولانا حافظ اقبال اللہ، مولانا خطیب عبد الرحمن، مولانا لیاقت علی شاہ، اور مولانا قاری حضرت ولی ہمارے پرانے رفقاء میں سے ہیں۔ ان کا تقاضہ ہوتا ہے کہ کراچی کا سفر ہو تو جامعہ عثمانیہ لانڈھی میں ضروری حاضری دی جائے۔ اس بار بھی ایسا ہوا اور وہاں جاتے ہوئے کورنگی میں ایک پرانے دوست مولانا قاری محمد یونس کی اہلیہ محترمہ کی وفات پر ان سے تعزیت کا موقع بھی مل گیا۔ وہ جمعیۃ علماء اسلام کے بہت پرانے کارکنوں میں سے ہیں اور معروف ثنا خوان رسولؐ مولانا انس یونس کے والد گرامی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔۲۶ فروری کو صبح ایئرپورٹ پہنچانے والوں میں مولانا حافظ اقبال اللہ کے ساتھ مولانا حضرت علی بھی تھے جو گوجرانوالہ میں ایک عرصہ تک پڑھتے رہے ہیں۔ انہوں نے قائد آباد میں جامعہ قائم کیا ہے جسے دیکھنے کو جی چاہتا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔البتہ وہ ملاقات کے دوران حضرت والد محترمؒ ، حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ ، اور دیگر اساتذہ کی بہت سی یادیں تازہ کرتے رہے۔
لاہور پہنچا تو ایوان اقبالؒ میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس کا میدان گرم تھا۔ حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی دامت برکاتہم، مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج اور مولانا محمد الیاس چنیوٹی کے جلو میں ملک بھر سے آنے والے کارکنان ختم نبوت کا ہجوم تھا۔ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ ایوان اقبالؒ پہنچا تو جسٹس (ر) نذیر اختر قادیانیت کے حوالہ سے پر مغز گفتگو کر رہے تھے۔ ان کے بعد مولانا سید کفیل شاہ بخاری اور دیگر بعض اصحاب دانش کے خطابات سنے، اور مغرب کے وقت مختصر گفتگو کی سعادت حاصل کر کے گوجرانوالہ واپسی کے لیے روانہ ہوگیا۔
یکم مارچ اتوار کو حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم کے قائم کردہ جامعہ ملیہ شاہدرہ کا سالانہ پروگرام تھا۔ حضرت علامہ صاحب مدظلہ باذوق بزرگ ہیں، ہر سال اپنے اس پروگرام کو کسی نہ کسی بزرگ کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں جس سے علماء کرام اور کارکنوں میں اپنے بزرگوں اور اکابر کے ساتھ وابستگی کا احساس تازہ رہتا ہے۔ اس سال یہ سالانہ جلسہ امیر المومنین حضرت سید احمد شہیدؒ کی نسبت سے ہوا اور علامہ صاحب محترم نے شہدائے بالاکوٹ کی جدوجہد اور قربانیوں کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ معروف روحانی پیشوا حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی نقشبندی دامت فیوضہم مہمان خصوصی تھے۔ مولانا عبدا لرؤف فاروقی اور دیگر سرکردہ علماء کرام شریک محفل تھے۔ جبکہ موسم کی خرابی اور مسلسل بارش کے باوجود علماء کرام اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ میں نے حضرت سید احمد شہیدؒ کی حیات و خدمات کے بعض پہلوؤں پر اظہار خیال کی سعادت حاصل کی۔
وہاں سے فارغ ہو کر قرطبہ چوک میں میسج ٹی وی کے آفس میں حاضری دی۔ یہ ٹی وی چینل ہمارے لندن کے پرانے دوست جناب کامران رعد اور ان کے رفقاء نے دینی مقاصد کے لیے قائم کیا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اس کی نشریات جاری رہتی ہیں جو ’’میسج ٹی وی ڈاٹ ٹی وی‘‘ کے ایڈریس پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔ لاہور آفس کے انچارج جناب عبد المتین ہیں، انہوں نے بتایا کہ چالیس سے زیادہ ممالک میں یہ نشریات سنی جاتی ہیں اور پاکستان کے اہم دینی اجتماعات کی رپورٹنگ بھی اس کے پروگراموں کا حصہ ہوتی ہے۔ مجھ سے تقاضہ تھا کہ ’’اسلام اور ریاست‘‘ کے موضوع پر آج کل جو بحث چل رہی ہے اس کے حوالہ سے کچھ گفتگو ریکارڈ کراؤں۔ اس کی تعمیل کی اور وحدت روڈ پر مجلس احرار اسلام کے مرکز میں حاضر ہوگیا جہاں شہداء ختم نبوت کی یاد میں سالانہ کانفرنس جاری تھی۔ پیر جی حضرت سید عطاء المہیمن شاہ بخاری اور ان کے رفقاء مجلس احرار اسلام کے تسلسل اور شہداء ختم نبوت کی یاد کو جس حوصلہ و تدبر کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں اسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور ان کے پروگراموں میں شرکت کو ہمیشہ سعادت سمجھتا ہوں۔
اسی روز عشاء کے بعد وحدت روڈ پر مصطفی ٹاؤن کی مسجد نمرہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جلسہ تھا۔ شاعرِ اسلام سید سلمان گیلانی نے اپنے والہانہ کلام سے حاضرین کو گرمایا اور میں نے ’’ویلفیئر اسٹیٹ اور سیرت نبویؐ‘‘ کے عنوان پر قدرے تفصیلی گفتگو کی۔ جبکہ اگلے روز صبح تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ عاکف سعید کے دفتر میں ان کے ساتھ ایک مشاورت میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، حاجی عبد اللطیف چیمہ، جناب مرزا محمد ایوب بیگ اور حافظ محمد بلال کے ہمراہ شرکت ہوئی۔ اس مشاورت میں سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے اس حالیہ بیان کے مضمرات کا جائزہ لیا گیا کہ دستور پاکستان کا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ ہماری مشترکہ رائے یہ قائم ہوئی کہ دستور کے کسی بنیادی ڈھانچے کے وجود سے انکار ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی اہمیت کو مجروح کرنے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو مشکوک بنانے کے مترادف ہے جس کا تمام دینی و سیاسی حلقوں کو نوٹس لینا چاہیے۔ چنانچہ اس کے لیے سیاسی و دینی حلقوں اور رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز طے پائی اور اس کی کچھ تفصیلات پر غور کیا گیا۔