وطنِ عزیز میں نظامِ مصطفٰیؐ کی جدوجہد

   
جامع مسجد گلزارِ مدینہ و مدرسہ عریبہ، چڑھان، موضع دھنواں، ضلع کوٹلی، آزاد کشمیر
۷ اپریل ۲۰۲۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا محمد امین ، مولانا محمد نوید ساجد اور تمام دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے آج کی محفل کا انعقاد کیا اور آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات کا موقع عنایت کیا۔ میں اس کانفرنس کے عنوان ’’نظامِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے حوالے سے چار سوالات کے دائرے میں چند باتیں عرض کروں گا:

  1. پہلی بات یہ کہ نظامِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہے؟
  2. دوسری بات کہ ہم مسلمانوں کا آج کے دور میں اس سے کیا تعلق ہے؟
  3. تیسری بات کہ اس کے نفاذ کے حوالے سے اب تک کیا کچھ ہو چکا ہے؟
  4. چوتھی بات کہ اس کی راہ میں کیا رکاوٹیں چلی آ رہی ہیں اور ہم اپنی منزل تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ نے تئیس سال کی نبوی زندگی میں ایک ریاست اور اس کا ایک نظام دیا۔ اس ریاست کو ریاستِ مدینہ کہتے ہیں اور جو نظامِ زندگی دیا تھا اسے نظامِ شریعت کہتے ہیں، نظامِ مصطفٰی کہہ لیں، دینِ اسلام کہہ لیں۔ اس نظام کا مختصر تعارف ہمیں خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے خطبے کے چند جملوں میں مل جاتا ہے جو نظامِ مصطفٰیؐ کے بنیادی ستون ہیں۔

اسلامی ریاست کی بنیادیں کیا ہیں اور اسلام کا سیاسی نظام کیا ہے؟ مجھ سے جب اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو میری گزارش ہوتی ہے کہ تین خطبے اگر ہم بغور پڑھ لیں تو اس حوالے سے بنیادی سوالات کا جواب ہمیں مل جاتا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کا پہلا خطبہ اور حضرت فاروقِ اعظمؓ کا پہلا اور آخری خطبہ۔ آج کی سیاسی اصطلاح میں اسے پالیسی سپیچ کہہ لیں۔ یہ تینوں خطبے بخاری شریف میں موجود ہیں اور جو علماء کرام سیاسی نظام سے دلچسپی رکھتے ہیں میری ان سے گزارش ہوتی ہے کہ انہیں یہ خطبے بطور نصاب کے پڑھنے چاہئیں۔

پہلی بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ کیسے بنے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت کے لیے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کسی جنگ کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کیا، بلکہ ایک مجلس میں اس وقت کے امت کے نمائندوں اور طبقات نے باہمی مشاورت اور اعتماد کے ساتھ حضرت صدیق اکبرؓ کو امیر منتخب کیا تھا۔

بخاری شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشگوار ماحول میں بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے مجھ سے کہا، عائشہ! ابا جان کو بلاؤ اور بھائی کو بھی، میں کچھ باتیں لکھ دوں، ایسا نہ ہو کہ لوگ کچھ اور دعویٰ کر دیں، میں ابوبکر کے لیے خلافت کی جانشینی لکھ دوں۔ پھر فرمایا کہ رہنے دو ’’یابی اللہ والمومنون الا ابابكر‘‘ نہ اللہ کسی اور کو بننے دے گا اور نہ مومن کسی اور کو قبول کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو اللہ کی تقدیر پر اور عوام کے فیصلے پر چھوڑ دیا تھا اور یہ بڑی حکمت کی بات تھی کیونکہ اگر آپؐ حضرت صدیق اکبرؓ کو نامزد کر دیتے تو پھر قیامت تک نامزدگیاں ہی چلتیں۔

حضرت صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو مسجد نبوی میں انہوں نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا :

ایہا الناس، انی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم، فان احسنت فاعینونی، وان اسات فقومونی، الصدق امانۃ، والکذب خیانۃ، والضعیف فیکم قوی عندی حتی اریح علیہ حقہ ان شاء اللہ، والقوی فیکم ضعیف عندی حتی آخذ الحق منہ ان شاء اللہ، اطیعونی ما اطعت اللہ ورسولہ، فاذا عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم۔

فرمایا کہ میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ امیر بنا نہیں کرتے بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ اور ’’ولست بخیرکم‘‘ کا جملہ تو کسرِ نفسی میں تھا، اس لیے کہ اس منصب کے لیے ان سے بہتر کون تھا؟ دوسری بات فرمائی کہ میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق لے کر چلوں گا۔ یعنی ریاست اور حکومت کا نظام کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق ہو گا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ اگر قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت تم پر واجب ہے، اور اگر اس سے ہٹ جاؤں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ریاست اور رعیت کے درمیان کمٹمنٹ اور تعلق کی بنیاد قرآن و سنت ہے۔ اور چوتھی بات یہ فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں تو میرا ساتھ دو، اور اگر ٹیڑھا چلتا نظر آؤں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یعنی عوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کر سکتے ہیں اور انہیں حقِ احتساب حاصل ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت کے یہ چار بنیادی ستون ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبے میں یہی باتیں ارشاد فرمائیں لیکن اس میں یہ اضافہ کیا کہ میں اپنے پیشرو کے فیصلوں کا احترام کروں گا۔ مطلب یہ کہ میں پہلے سے چلے آنے والے تسلسل کو ختم کر کے نئے سرے سے آغاز نہیں کروں گا بلکہ اس تسلسل کو قائم رکھوں گا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا تھا کہ اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کر دو، یہی بات حضرت عمرؓ نے اپنے انداز میں فرمائی کہ اگر میں سیدھا چلوں گا تو میرا ساتھ دو گے، اور اگر ٹیڑھا چلوں گا تو کیا کرو گے؟ روایات میں آتا ہے کہ یہ جمعہ کا خطبہ تھا، حضرت عمرؓ نے جب یہ فرمایا تو ایک بدوی کھڑا ہوا اور اس نے نیام سے تلوار نکال کر لہرائی اور کہا ’’یابن الخطاب‘‘ اگر کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے مطابق چلے تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے اور اگر ٹیڑھے ہوئے تو اس تلوار کے ساتھ تمہیں سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ منبر پر کھڑے تھے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر فرمایا، یااللہ تیرا شکر ہے کہ میری رعیت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عمرؓ کو سیدھا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

نظامِ مصطفٰیؐ کے ساتھ ہمارا تعلق کیا ہے؟ ایک تعلق تو یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلم معاشرے میں کتاب و سنت کے احکام کو نافذ کرنا ہمارے لیے لازمی ہے ورنہ ہم مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ کوئی بھی مسلمان ریاست پابند ہے کہ قرآن و سنت کے تمام احکام اپنی سوسائٹی میں عملاً‌ نافذ کرے۔ ہم مسلمان عقائد و عبادات کے پابند ہیں، اخلاقی احکام کے پابند ہیں، اور شریعت و قانون کے بھی پابند ہیں ۔ اور جب قرآن و سنت کی بات آتی ہے تو اس میں کوئی ایسی تقسیم نہیں ہے کہ کچھ احکام کو تو ہم لازمی مان لیں اور کچھ کو اختیاری طور پر لیں۔ مثال کے طور پر ’’یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام‘‘ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اسے تو لازمی سمجھیں، لیکن اس کے ساتھ ’’یا ایہا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص‘‘ کو ہم اختیاری سمجھیں۔ قرآن کریم میں جیسے نماز فرض کی گئی ہے، ایسے دیگر احکام ہیں جیسے ’’وکتبنا علیہم فیہا ان النفس بالنفس‘‘ ، ’’والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘‘، ’’الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ‘‘۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور مسلم ریاست ہونے کی حیثیت سے یہ سب احکام لازمی ہیں۔

جب پاکستان قائم ہوا تھا تو ہم نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے کہ ہماری تہذیب و ثقافت، ہمارا عقیدہ، ہماری اخلاقیات ان سے مختلف ہیں، ہمیں الگ ملک بنوا دو، اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے کے ساتھ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک میں ہم اسلام کا قانون نافذ کریں گے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور اور ان کے ساتھ جو صفِ اول کی قیادت تھی انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس نئے وطن کو اسلامی نظام کا نمونہ بنائیں گے، اور ان کی حمایت میں جو علماء کرام تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا عبدا لحامد بدایونیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، حضرت پیر مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ ، وہ لوگوں کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ واقعی ایسا ہو گا اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اسلامی نظام کا اعلان قائد اعظم اور لیاقت علی خان کر رہے تھے اور اس کی ضمانت ہمارے علماء کرام دے رہے تھے۔ جبکہ پاکستان بننے کے بعد دستوری طور پر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں جو پہلا فیصلہ ہوا تھا اس کی بنیاد تین باتوں پر ہے:

  • حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے،
  • قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا،
  • اور حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔

یہ تینوں نظامِ مصطفٰیؐ کی بنیادیں ہیں۔ میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ ہم پاکستانی دوہرے پابند ہیں، کلمہ طیبہ پڑھ کر بھی پابند ہیں اور نظریہ پاکستان کے تحت بھی پابند ہیں۔

ایک بات اور شامل کرنا چاہوں گا کہ اس وقت کشمیر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پاکستان کی جغرافیائی تکمیل کشمیر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور آزادئ کشمیر کی تحریک کیا تھی، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، نیلا بٹ سے جو جہاد شروع ہوا تھا جس میں سردار عبد القیوم خان تھے، سردار ابراہیم تھے، مولانا غلام حیدر صاحب تھے، سردار سکندر حیات تھے، سردار اسلم تھے، اور بڑے بڑے لوگ تھے۔ کیا یہ جہاد صرف آزادی کے لیے تھا، یا نفاذِ اسلام بھی اس کا حصہ تھا؟ اس وقت دو باتیں کہی گئی تھیں، ایک اسلام کے نفاذ کی بات تھی اور دوسری پاکستان کے ساتھ الحاق کا وعدہ کیا گیا تھا۔

پاکستان کے قیام سے یہ باتیں شروع ہوئیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا، اس میں کیا رکاوٹیں پیش آئیں؟ مثلاً‌ سب سے بڑی رکاوٹ جس کا ابھی ایک بزرگ ذکر فرما رہے تھے کہ مولویوں پر یہ الزام ہے کہ یہ اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے خاص طور پر پاکستان میں نفاذِ اسلام کی دستوری و قانونی جدوجہد کے حوالے سے کیونکہ تمام مکاتبِ فکر کا اس پر اتفاق ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا قراردادِ مقاصد کسی ایک مکتبِ فکر نے منظور کی تھی؟ اکتیس علماء کرام کے بائیس نکات مرتب کرنے میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے جن میں حضرت مولانا سلیمان ندوی تھے، حضرت مولانا شمس الحق افغانی تھے، حضرت مولانا داؤد غزنوی تھے، حضرت مولانا عبد الحامد بدایونی تھے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے، حافظ کفایت حسین تھے، مفتی جعفر حسین تھے، پیر صاحب آف مانکی شریف تھے، پیر صاحب آف سرہندی مجددی ، پیر ہاشم صاحب تھے رحمہم اللہ تعالیٰ۔ کسی مکتبِ فکر کی قیادت پیچھے نہیں تھی۔

اور وہ بائیس نکات آج بھی قائم ہیں، آج تک چاروں پانچوں مکاتب فکر میں سے کسی ایک نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ ملی مجلسِ شرعی پاکستان ایک مشترکہ فورم ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری ؒ اور مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدؒ اس کے بانیان میں سے تھے، اس وقت اس کی صدارت میرے ذمے ہے، چند سال پہلے پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کی قیادتیں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم آج بھی ان بائیس نکات پر متفق ہیں۔

اسی طرح تحریکِ ختمِ نبوت کی تین بڑی تحریکیں ہیں، ۱۹۵۳ء میں، ۱۹۷۴ء میں، ۱۹۸۴ء میں۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، اس میں بھی تمام مکاتبِ فکر اکٹھے تھے۔ باہمی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن قومی و ملی معاملات کے ہر موقع اور ضرورت پر ہم اکٹھے ہوتے ہیں اور اتفاق کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ جھوٹ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا کہ مولوی اکٹھے نہیں ہیں۔ کیا ہم سود کے مسئلے پر اکٹھے نہیں ہیں، کراچی کا کنونشن آپ کو یاد ہو گا۔ کیا فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد میں سب نے اکٹھے ہو کر اتفاقی موقف نہیں دیا۔ الحمد للہ ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر بھی یہ ماحول ہے کہ ہم ہر موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

پھر اسلام کے نفاذ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس پر عرض ہے کہ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو اسلامی نظام کے ماحول میں نہیں جانا چاہتی۔ اس کے بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے ریمارکس کا ذکر کروں گا جو انہوں نے ایک کیس میں دیے تھے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس کا واحد حل گڈ گورننس ہے اور اس گڈ گورننس کے لیے ہمیں حضرت عمرؓ کے دروازے پر جانا ہو گا۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ جناب آپ کی تینوں باتیں ٹھیک ہیں لیکن میرے دو سوال ہیں:

  1. کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ حضرت عمرؓ کی گڈگورننس کے ماحول میں جانے کے لیے تیار ہے؟
  2. اور حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس کی تعلیم ہمیں کہاں سے ملے گی، کیونکہ ہم تو کسی کالج اور یونیورسٹی میں حضرت عمرؓ کی گڈ گورننس پڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

اس کے ساتھ ایک اور رکاوٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ جو بین الاقوامی معاہدات ہم نے کر رکھے ہیں، اقوام متحدہ کا منشور ہے، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن ہے، اور یورپی یونین کے مطابق ستائیس معاہدات ہیں جن پر ہمارے لیے پابندی کرنا لازمی ہے۔ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کا حال یہ ہے وہ درمیان میں سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی یونین، یونائیٹڈ نیشنز کا دباؤ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم معاہدات پر عملدرآمد کروائیں گے۔ ادھر سے عوامی دباؤ آتا ہے تو رک جاتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ ہم نہیں کر رہے۔ ہم اس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم نے قرآن و سنت کی بات ماننی ہے یا بین الاقوامی معاہدات کی بات ماننی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سے کہا گیا کہ مرد اور عورت میں مساوات ہے لیکن تمہارے ہاں امتیازی قوانین نافذ ہیں، انہیں ختم کرو۔

برطانیہ میں ایک فورم میں اس پر بحث ہو رہی تھی کہ مرد اور عورت میں مکمل مساوات ہونی چاہیے، میں بھی اس میں شریک تھا تو میں نے کہا کہ یہ بتائیں کہ

  • کیا مرد اور عورت کی ساخت ایک ہے؟
  • کیا دونوں کے قدرتی فرائض ایک جیسے ہیں، بچہ عورت نے پیدا کرنا ہے یا دونوں کر سکتے ہیں، اور دودھ کس نے پلانا ہے؟
  • اور کیا دونوں کی نفسیات ایک جیسی ہے؟

میں نے عرض کیا کہ جب دونوں میں یہ فرق موجود ہیں تو پھر قانون میں فرق کیوں نہیں ہوگا، یہ فرق مٹا دو تو قوانین کا فرق بھی ختم ہو جائے گا۔ بہرحال ہم سے مطالبہ ہوا کہ مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے اس لیے عورت کو بھی یہ حق دو۔ یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے، ایوب خان مرحوم نے عائلی قوانین نافذ کیے تو اس بین الاقوامی مطالبے کو شریعت کے ساتھ اس طرح ایڈجسٹ کیا کہ نکاح نامہ میں یہ سوال لکھ دیا گیا کہ کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ اور یہ بات شرعاً‌ درست ہے کہ اگر خاوند طلاق دینے کا یہ حق اپنی بیوی کو تفویض کر دے تو وہ بھی طلاق لے سکتی ہے۔ یہ کر کے ہم نے ان سے کہہ دیا کہ جی پاکستانی عورت کو اب طلاق کا حق حاصل ہے۔

جبکہ اس کے بعد سے اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ آپ کسی بھی نکاح میں بیٹھ کر دیکھ لیں کہ لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی۔ میں ایک شادی میں شریک تھا ، نکاح خواں فارم پر کر رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کہ لکھا ہے کہ کیا خاوند نے بیوی کو طلاق کا حق تفویض کر دیا ہے؟ میں نے کہا، تم کیا لکھنے لگے ہو؟ کہنے لگا، کراس لگا دوں گا۔ میں نے پوچھا ، کیا یہ سوال تم سے ہے؟ یہ سوال تو خاوند سے ہے جس نے اپنی بیوی کو اختیار دینا ہے یا نہیں دینا ہے۔ کہنے لگا، ہم تو ایسے ہی کرتے ہیں جی۔

آج سے پچیس سال پہلے جب اقوام متحدہ نے گولڈن جوبلی منائی تھی اور پچاس سالہ تقریبات منعقد ہوئی تھیں تو اس وقت او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے صدرملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد تھے۔ میں نے بین الاقوامی سطح پر مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے تین لیڈر دیکھے ہیں: مہاتیر محمد، ذوالفقار علی بھٹو، اور اب کسی حد تک رجب طیب اردگان۔ بہرحال مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر او آئی سی میں یہ تجویز دی تھی کہ ہم اقوام متحدہ کی تقاریب کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور ان کے سامنے دو مطالبات رکھتے ہیں : ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات جو ہم نے کر رکھے ہیں ان میں ہمارے عقیدے اور شریعت کے خلاف بہت سی باتیں ہیں، ہمارے ساتھ بیٹھ کر ان پر نظرثانی کرو۔ اور دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں میں طاقت کا توازن نہیں ہے، جن پانچ ممالک کے پاس مستقل طور پر ویٹو پاور ہے ان میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ میں اس کی قیادت کرتا ہوں، تم بائیکاٹ کے لیے تیار ہو جاؤ، ہم مذاکرات کی میز پر ان سے بات کریں گے، لیکن مسلم ممالک نے اس کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔

میں آپ سے یہ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں نفاذِ اسلام میں مولوی رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی معاہدات رکاوٹ ہیں۔ اور نفاذِ شریعت کی لڑائی یہاں مظفر آباد میں نہیں ہو رہی بلکہ نیویارک اور جنیوا میں ہو رہی ہے۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے جس پر میں نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔

آج کے ماحول میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں:

  1. ایک یہ کہ قوم کو ان مسائل پر باخبر رکھیں، اور یہ نظامِ مصطفٰیؐ اور شریعت کے قوانین کے حوالے سے علماء کرام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، کیونکہ بے خبری سب سے بڑی ناکامی ہوتی ہے۔
  2. اور دوسری بات یہ کہ ہم آپس میں متحد رہیں، اور میں پھر یاد دلانا چاہوں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا علماء نے متفقہ موقف نہ دیا ہو، ختمِ نبوت کا مسئلہ ہو، ناموسِ رسالت کا مسئلہ ہو، شرعی قوانین کے حوالے سے کوئی بات چلی ہو، علماء ہمیشہ اکٹھے ہوتے ہیں، گزشتہ پچاس سال سے میں اس جدوجہد میں شریک ہوں اور اس کا گواہ ہوں، الحمد للہ۔

اور میں تو علماء کو یہ ترغیب دیا کرتا ہوں کہ اگر علاقے کے تیس چالیس علماء کبھی کبھی چائے کے نام پر اکٹھے بیٹھے لوگوں کو نظر آجائیں تو سمجھیں کہ آپ کا پچاس فیصد کام ہو گیا ہے۔ الحمد للہ گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر ہمارا معمول بھی یہی ہے۔ میری درخواست یہ ہے کہ معاملات سے باخبر رہیں کیونکہ بے خبری ناکامی کی بڑی بنیاد ہوتی ہے، اور آپس میں جوڑ رکھیں، اور میری عوام سے بھی درخواست ہوتی ہے کہ علماء کو اکٹھے دیکھ کر خوش ہوا کریں اور کبھی کبھی خود آگے بڑھ کر انہیں اکٹھے بٹھایا کریں اورا ن کی حوصلہ افزائی کیا کریں۔ وحدت اور باخبری، آج ہمارے پاس یہی ہتھیار ہیں، انہیں استعمال کریں گے تو کم از کم کھلے کفر کو ہم روک سکتے ہیں، بلکہ الحمد للہ ہم روکے ہوئے ہیں، اور کبھی نفاذ کی منزل بھی آ جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

میں نے چند ٹوٹی پھوٹی چند باتوں کے ذریعے آپ حضرات کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور صورتحال سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک بات اور میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نفاذِ اسلام کے حوالے سے آزاد کشمیر کو بہرحال ترجیح حاصل ہے۔ مجھے اندرون و بیرون ملک جہاں کہیں بھی نفاذِ شریعت پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ ہمیں آزاد کشمیر کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

نفاذِ اسلام کے دو راستے ہیں: ایک یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کو ختم کر کے نیا نظام نافذ کیا جائے، یہ راستہ افغانوں نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پہلے سے موجود نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی جائے، اور آزادکشمیر نے یہی کیا ہے کہ سیشن جج کے ساتھ قاضی صاحب کو بٹھا دیا ہے اور دونوں شرعی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے جاری کرتے ہیں۔ میں اس تجربے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ میں سردار عبد القیوم خان اور حضرت مولانا محمد یوسف آف پلندری رحمہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشاورت میں کسی حد تک شریک بھی رہا ہوں۔

میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ آپ ہم سے ایک قدم آگے ہیں کہ آپ نے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے شریعت کے بہت سے قوانین کے نفاذ کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ ایک دفعہ برطانیہ میں بات چل پڑی، پروٹسٹنٹ بشپ ہیں ڈاکٹر روون ولیمز، انہوں نے برطانیہ میں مسلمانوں کے اس حق کی حمایت کی کہ انہیں نکاح و طلاق اور حلال و حرام کے مسائل میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر لندن میں ایک سیمینار ہوا اور سوال اٹھایا گیا کہ یہ کیسے ہو گا اور پہلے سے موجود سسٹم کے ساتھ یہ کس طرح ایڈجسٹ ہو سکے گا؟ میں نے وہاں عرض کیا کہ ایسے ہی جیسے آزاد کشمیر میں ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے کہ جج بھی بیٹھے ہیں اور قاضی بھی بیٹھے ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس نظام کو میں مثال کے طور پر پیش کیا کرتا ہوں، اور میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس کو مستحکم کریں اور نئی نسل میں شعور پیدا کریں، انہیں تیار کریں اور بتائیں کہ ہمارے بزرگوں نے کیا قربانیاں دی ہیں، کیا طریق کار اختیار کیا ہے، اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اللہ پاک ہمیں خیر کے کاموں پر استقامت نصیب فرمائیں اور اپنے خیر کے کام نئی نسل تک صحیح طور سے منتقل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter