وفاقی وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر کا شکریہ ادا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ دینی جماعتوں اور علماء کے خلاف ان کی تلخ و تند زبان اور دھمکیاں رنگ لا رہی ہیں۔ اگرچہ یہ رنگ وہ نہیں ہے جو دھمکیاں دیتے ہوئے ان کے ذہن میں ہوتا ہے، مگر کسی بات کا الٹا اثر بھی تو آخر اثر ہی ہوتا ہے جس سے گفتگو کے رائیگاں جانے کا تاثر باقی نہیں رہتا۔
سنی تحریک کے سربراہ مولانا محمد سلیم قادری کے وحشیانہ قتل کے بعد سے بعض حلقوں کی خواہش بلکہ مسلسل کوشش ہے کہ اسے ملک میں دیوبندی بریلوی کشمکش کا عنوان بنا کر دینی قوتوں کے مابین محاذ آرائی کا ایک نیا بازار گرم کر دیا جائے، اور دینی مراکز اور جماعتوں کے خلاف ایک عرصہ سے چھریاں تیز کرنے والے عناصر بے صبری کے ساتھ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب دیوبندی اور بریلوی آپس میں الجھیں اور انہیں اس بہانے مذہبی جماعتوں اور مدارس و مراکز پر چڑھ دوڑنے کا موقع ملے، مگر انہیں عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ جس کے اسباب میں مختلف مکاتبِ فکر کی اعلیٰ دینی قیادت کے دانش و تدبر اور معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسلامی تشخص پر مسلسل دانت پیستے ہوئے عالمی حلقے اور کسی حد تک ہمارے وزیر داخلہ صاحب محترم کا تند و تیز لہجہ بھی شامل ہے۔
اس فضا میں کراچی میں مولانا نورانی، مولانا فضل الرحمٰن، قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق نے مل بیٹھ کر حکومت کو تیس جون تک سودی نظام بہرصورت ختم کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ اور بائیس مئی کو فلیٹینر ہوٹل لاہور میں جمعیت علماء اسلام ضلع لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں ڈاکٹر اسرار احمد، لیاقت بلوچ، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور دیگر رہنماؤں نے سودی نظام کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے پر یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کے عوامی بائیکاٹ کی مہم منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کے عزم کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کے لیے پیغام بھی ہے جو دینی قوتوں کو باہم محاذ آرائی کرنے اور ان کی کشمکش کی آڑ میں پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے بے چین ہیں۔
اور اس کے ساتھ یہ خبر بھی ہر باشعور شہری اور دینی جذبہ رکھنے والے ہر کارکن کے لیے حوصلہ بخش ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی جون کے وسط میں تمام دینی جماعتوں کی مشترکہ سربراہ کانفرنس طلب کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں گزشتہ روز (تین مئی) ہمدرد کانفرنس سنٹر لاہور میں جمعیت علماء عربیہ پاکستان کی ایک تقریب میں شریک ہو کر خوشی ہوئی جو دینی مدارس کے مختلف بورڈز یعنی وفاق المدارس العربیہ، وفاق المدارس السلفیہ، تنظيم المدارس الاسلامیہ، اور رابطہ المدارس العربیہ کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات اور شیلڈز دینے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان کا فکری تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے اور وہ اپنے جواں ہمت سربراہ جناب ضیاء الرحمان فاروقی کی قیادت میں اپنے فکر کا دائرہ وسیع کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتبِ فکر کے دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں باہمی رابطہ و مفاہمت اور اشتراک و تعاون کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل رہتی ہے۔ اسی جذبہ کے ساتھ مذکورہ بالا تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں مرکز علومِ اسلامی منصورہ کے مولانا عبد المالک خان، دارالعلوم نعیمیہ کراچی کے مولانا مفتی منیب الرحمان نعیمی، جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے میاں نعیم الرحمان، جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ کے علاوہ راقم الحروف نے بھی اظہار خیال کیا، جب کہ مختلف وفاقوں کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دیے گئے۔
اس موقع پر دینی مدارس کے معاشرتی کردار، دینی علوم اور اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے ان کی جدوجہد اور دینی مدارس کے خلاف عالمی لابیوں کی مہم کے اسباب و عوامل کا ذکر کیا گیا۔ اور اس امر کی ضرورت و اہمیت کا بطور خاص تذکرہ ہوا کہ مختلف مکاتبِ فکر کے دینی مدارس کے طلبہ کے باہم مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے جذبات و احساسات سے واقف ہونے کے لیے مشترکہ اجتماعات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں پروفیسر مولانا منیب الرحمان نعیمی کی دو باتوں کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھوں گا۔
- ایک تو یہ کہ علم میں پختگی اور وسعت مطالعہ کی طرف طلبہ کو زیادہ توجہ دینی چاہیے، کیونکہ مسائل ہمیشہ جہل سے پیدا ہوتے ہیں اور جوں جوں علم کا دائرہ وسیع ہوتا ہے جہل و عصبیت کا دامن سمٹتا چلا جاتا ہے۔
- دوسری بات ان کی یہ تجویز ہے کہ دینی مدارس کے مختلف مکاتب کے وفاقوں کے سالانہ امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کا اس کے بعد ایک مشترکہ اور اعلیٰ امتحان کا بھی اہتمام ہونا چاہیے تاکہ زیادہ صلاحیتوں والے نوجوان مزید نکھر کر سامنے آئیں اور بھرپور حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ دینی خدمت کے لیے آگے بڑھ سکیں۔
اس تجویز پر ہم اس کالم میں اس سے قبل اظہار خیال کر چکے ہیں اور خود ہماری تجویز بھی یہی ہے، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان وفاقوں کے ذمہ دار حضرات باہمی مشورہ سے خود ہی کوئی راستہ نکالیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ بہرحال مختلف حوالوں سے دینی حلقوں کے مابین مفاہمت و اشتراک اور تعاون و ارتباط کا مسلسل فروغ ایک خوش آئند امر ہے جو دینی قائدین کے حوصلہ و تدبر کی علامت ہے اور اس میں ایک حد تک ہمارے وزیر داخلہ محترم کے دھمکی آمیز بیانات اور طعن و تشنیع سے بھرپور لہجہ کا بھی حصہ ہے جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔