پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی تعلیمی شعبہ کے باذوق حضرات میں سے ہیں، میرے پرانے مقتدی اور حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے خصوصی عقیدت مند ہیں، اس لحاظ سے ’’وسیع المشرب‘‘ ہیں کہ استفادے کا تعلق تمام مکاتبِ فکر کے سنجیدہ علماء کرام سے رکھتے ہیں۔ ’’مشرق سائنس کالج‘‘ کے نام سے قائم کردہ ان کے تعلیمی نیٹ ورک میں سات ہزار کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں، حفظ قرآن کریم اور دینی و اخلاقی تربیت ان کے تعلیمی نظام کے نمایاں پہلو ہیں، قرآن کریم کا آسان انگلش میں ترجمہ کر سکتے ہیں، اور اردو اور انگلش کے باذوق نعت گو ہیں۔ مجھے وقتاً فوقتاً ان کے کالج میں اساتذہ، طلبہ اور طالبات سے مختلف موضوعات پر گفتگو کے لیے جانے کا موقع ملتا ہے۔ گزشتہ روز (۲۲ دسمبر کو) محرم الحرام کے حوالے سے ایک خصوصی نشست میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محرم الحرام اسلامی سن کا پہلا مہینہ ہے اور اس سے ہمارے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سال چاند کی گردش کے حساب سے ہے۔ ہجری اس لیے کہلاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں اس کی ابتدا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہوتی ہے، یعنی جب ہم ۱۴۳۱ھ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کو ۱۴۳۰ سال گزر چکے ہیں۔ اور ہماری بہت سی عبادات کے ایام کا تعین اس سال کے حساب سے ہوتا ہے، اس لیے یہ اسلامی سن بھی کہلاتا ہے۔
سال کا دوسرا حساب جنوری فروری کے حوالے سے، جو شمسی سن کہلاتا ہے، اس لیے ہے کہ اس کا حساب سورج کی گردش کے مطابق ترتیب پاتا ہے۔ اور اسے عیسوی سن بھی کہتے ہیں کہ اس کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ہوتا ہے اور ۲۰۰۹ء کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کو دو ہزار نو سال گزر چکے ہیں۔
ویسے ہماری عبادات کا تعلق سورج اور چاند دونوں کی گردش سے ہے، مثلاً نمازوں کے اوقات کا تعین سورج کی گردش کے حساب سے ہوتا ہے، اور عیدین اور رمضان کا تعین چاند کی گردش کے مطابق ہوتا ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ ایام کا تعین ہمارے ہاں چاند کی گردش سے ہوتا ہے، اور اوقات کا تعین ہم سورج کی گردش کے مطابق کرتے ہیں۔ رمضان کے ایام چاند کے حساب سے طے پاتے ہیں، مگر روزے کا دورانیہ اور سحر و افطار سورج کی گردش سے متعلق ہے۔ حج کے ایام چاند کی گردش سے متعین کیے جاتے میں، مگر حج کے مناسک کے اوقات سورج کی گردش کے ساتھ ساتھ ترتیب پاتے ہیں۔ ہماری عبادات کے ایام چاند کی گردش اور ہجری سال سے طے پاتے ہیں، اس کی بہت سے حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چونکہ چاند کا سال سورج کے سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کو سال کے ہر موسم کے روزے اور ہر موسم کا حج میسر آ جاتا ہے۔ ایک مسلمان بالغ ہونے کے بعد طبعی عمر پانے کی صورت میں سال کے ہر موسم کے روزے رکھ لیتا ہے۔
ماہِ محرم کے ساتھ ہماری تاریخ کی بہت ہی یادیں وابستہ ہیں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کی بھی ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی ہیں۔ مثلاً بخاری شریف کی ایک روایت میں آتا ہے کہ مکہ مکرمہ کے قریشی دس محرم الحرام کا روزہ رکھا کرتے تھے جسے عاشورہ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کے خیال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس دن آگ میں ڈالا گیا تھا اور آگ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے گلزار بنا دیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں، ان سے وجہ پوچھی گئی تو بتایا کہ اس روز بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں فرعون سے نجات ملی تھی اور فرعون اپنے لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق ہو گیا تھا، اس لیے یہ ان کا یومِ آزادی ہے اور وہ اس کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ
’’ہمارا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے زیادہ ہے، اس لیے ہم بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا کریں گے۔‘‘
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین دس محرم کو روزہ رکھتے تھے جو ابتدا میں فرض تھا، لیکن رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعد اس کی حیثیت نفلی روزے کی ہو گئی تھی۔ جبکہ آخری سال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’یہودیوں کے روزے سے ہمارے روزے کا فرق ہونا چاہیے، اس لیے اگلے سال سے ہم دو روزے رکھیں گے۔‘‘
لیکن اگلے سال سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ لہٰذا فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملا لینا چاہیے اور دس محرم کے ساتھ نو یا گیارہ محرم کا روزہ بھی رکھ لینا چاہیے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اسلامی تاریخ کے دو اہم واقعات محرم الحرام سے وابستہ ہیں اور ہر سال دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے انداز میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک واقعہ سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے جو یکم محرم الحرام کو ہوئی۔ اور دوسرا واقعہ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ خانوادہ نبوت کے دیگر مظلوم افراد کی شہادت کا ہے جو دس محرم یعنی عاشورہ کے روز کربلا میں پیش آیا، اور خانودۂ نبوت کے ان بے گناہوں کی مظلومانہ شہادت نے تاریخی سانحے کی حیثیت اختیار کر لی۔ سیدنا حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، اسلام کے دوسرے خلیفہ اور خلیفۂ راشد ہیں جن کی فضیلت و منقبت کی بے شمار روایات موجود ہیں، مگر میں ان میں سے صرف ایک کا حوالہ دوں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ زبانِ نبوت سے اس سند کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت کے بارے میں اور کچھ عرض کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پرورش پائی ہے۔ ان دونوں بھائیوں یعنی حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کا بچپن اپنے عظیم نانا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں گزرا ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جی بھر کے ان کے لاڈ اٹھائے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے اور آپ کے یہ دونوں نواسے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے اور کندھے پر اچھل کود میں مصروف تھے۔ میں نے یہ منظر دیکھ کر عرض کیا کہ
’’یا رسول اللہ! آپ کو ان نواسوں سے بہت پیار ہے؟‘‘
آپ نے بڑی محبت اور شفقت سے فرمایا کہ
’’یہ دونوں تو میرے پھول ہیں۔‘‘
ایک روایت میں آتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور سامنے میدان میں یہ دونوں بچے کھیل رہے تھے، اچھلتے کودتے یہ گر گئے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے برداشت نہ ہوا، خطبہ درمیان میں روک کر منبر سے اترے اور ان بچوں کو گود میں لے کر منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا کہ
’’میں خطبہ درمیان میں چھوڑ کر اس لیے گیا ہوں کہ مجھ سے ان پیارے بچوں کا گرنا برداشت نہیں ہو سکا۔‘‘
حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گود میں لے کر ان کا بوسہ لیا۔ حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے تعجب سے عرض کیا کہ
’’یا رسول اللہ! آپ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی بیٹے کا بوسہ نہیں لیا۔‘‘
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اگر خدا نے تمہارے دل میں شفقت اور رحم نہیں رکھا تو میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
روایات میں سنا کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مشابہت سینے سے اوپر کے حصے میں تھی، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مشابہت سینے سے نیچے کے دھڑ میں تھی۔ ایک روز حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان دونوں کو اٹھائے ہوئے بڑے ناز سے فرما رہی تھیں کہ
’’خدا کی قسم! یہ دونوں میرے باپ پر گئے ہیں، اپنے باپ پر نہیں۔‘‘
یہ محبت کی باتیں تھیں، ناز اور لاڈ کی باتیں تھیں، اور پیار اور شفقت کی باتیں تھیں۔ حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے مگر وقت کی قلت کے باعث محرم الحرام سے تعلق رکھنے والی دو عظیم شخصیتوں یعنی حضرت عمر فاروق اعظم اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے حوالے سے ایک بات آخر میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی تھے اور طبیبوں نے زندگی سے مایوس ہو کر وصیت کرنے کی بات کہہ دی تھی، اس حال میں ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے توجہ دلائی کہ ابا جان! صبح کی نماز میں زخمی ہونے کی وجہ سے آپ کی فجر کی نماز رہتی ہے وہ ادا کر لیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تیمم کر کے نماز ادا کرنا چاہی تو غشی طاری ہو گئی۔ دو تین بار ایسا ہی ہوا، مگر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ برابر توجہ دلاتے رہے کہ ابا جان! آپ کی فجر کی نماز رہتی ہے جو اس حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ادا کی۔
اسی طرح کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی عین حالتِ جنگ میں نماز ادا کی۔ اور کہا جاتا ہے کہ پہلا تیر انہیں نماز کی حالت میں ہی لگا اور بالآخر انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیا۔
اس لیے ہمارے لیے ان دونوں بزرگوں کا پیغام یہ ہے کہ دین پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں، اور نماز کی ہر حالت میں پابندی کریں کہ اسلام کا سب سے بڑا فریضہ یہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی حکومت اور عدل و انصاف کا جو معیار قائم کر لیا تھا اور جسے آج بھی تاریخ یاد کرتی ہے۔ سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حکومت اور نظام میں عدل و انصاف کے اسی معیار کو واپس لانے کے لیے اپنی اور اپنے خانوادہ کی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آج ان کا یہ مشن ہمارے ذمے قرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔