قادیانیوں کی عالمی سرگرمیوں کے حوالے سے گزشتہ ایک کالم میں راقم الحروف نے کچھ معروضات پیش کی تھیں اور یہ عرض کیا تھا کہ قادیانیوں کی ان سرگرمیوں کو جو مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور پاکستان کے دستوری و قانونی فیصلوں کے خلاف لابنگ کے حوالے مسلسل سے جاری ہیں، ان پر نظر رکھنے، ان کے بارے میں حکمت عملی طے کرنے اور ان کے تعاقب کے لیے کوئی مربوط سسٹم دینی حلقوں میں موجود نہیں ہے۔ اور وہ تنظیمیں جو خالصتاً تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے کام کر رہی ہیں ان کی بھی اس طرف سنجیدہ توجہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس پر جناب اعجاز قاسمی نے روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والے مضمون میں تبصرہ کیا ہے جس میں سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ میری رفاقت و محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام مجھے ہی آگے بڑھ کر کرنا چاہیے اور اس کے لیے پیشرفت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس حسن ظن اور محبت پر میں قاسمی صاحب موصوف کا شکرگزار ہوں۔
جہاں تک مولانا چنیوٹیؒ کے ساتھ میری محبت و رفاقت کا تعلق ہے اس کا دائرہ تین عشروں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ یہ رفاقت سیاسی میدان میں بھی تھی کہ ہم دونوں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے اہم کارکنوں میں سے تھے، اور تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر بھی تھی جہاں ہم نے طویل عرصے تک دوستوں اور ساتھیوں کی طرح مل جل کر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ چنیوٹ کی بلدیاتی سیاست میں ایک مستقل تعارف رکھتے تھے اور ان کا دھڑا ’’مولوی گروپ‘‘ کے نام سے بلدیاتی سیاست میں متحرک تھا۔ وہ ایک دفعہ بلدیہ چنیوٹ کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے جبکہ بہت سی سیٹوں پر مولوی گروپ کے متعدد ارکان مختلف انتخابات میں منتخب ہو کر شہر کی خدمت کرتے رہے۔ وہ تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اب ان کی جگہ ان کے فرزند مولانا محمد الیاس چنیوٹیؒ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔
مولانا چنیوٹی کا بیک وقت تحریک ختم نبوت میں کردار اور عملی سیاست میں سرگرم حصہ ایک دور میں متنازعہ بھی رہا کہ ان سے بعض بزرگوں نے تقاضا کیا کہ وہ تحریک ختم نبوت کے کام کے لیے عملی سیاست سے دستبردار ہو جائیں مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، وہ یہ فرماتے تھے کہ میں دونوں کام بیک وقت کر سکتا ہوں۔ اس کشمکش میں جن دوستوں نے ان کا ساتھ دیا اور انہیں بھرپور سپورٹ کیا ان میں ایک نام راقم الحروف کا بھی ہے جو اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام کا سرگرم عہدیدار تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ نے اپنے اس عزم کو ثابت کر دکھایا اور زندگی بھر دونوں محاذوں پر بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ پنجاب اسمبلی میں دینی روایات کے تحفظ اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے تعاقب میں ان کی آواز مسلسل گونجتی رہی اور میرے نزدیک ان کے دو کارنامے اس حوالے سے نمایاں طور پر لکھے جانے کے قابل ہیں:
- ایک یہ کہ انہوں نے اسمبلی کے ذریعے قادیانیوں کے ہیڈکوارٹر ’’ربوہ‘‘ کا نام تبدیل کرایا،
- اور دوسرا یہ کہ وہ ایک موقع پر انتھک کوششوں کے ساتھ صوبائی اسمبلی سے یہ فیصلہ کرانے میں کامیاب ہوئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی نفاذِ اسلام کے سلسلے میں وہ سفارشات جو صوبائی اختیارات سے تعلق رکھتی ہیں، ایوان میں لا کر بحث کی جائے اور ان کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کیا جائے۔
اس فیصلے پر عمل نہ ہو سکا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں سرکاری پالیسی ہمیشہ سے یہ چلی آرہی ہے کہ کسی بھی سطح پر اس کی تجاویز کو عملی شکل اختیار نہ کرنے دی جائے۔ مگر ربوہ کے نام کی تبدیلی کے فیصلے پر عمل بھی ہوا جو تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جاری ہے، تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ان کی سرگرمیاں سب کے سامنے ہیں۔
مرزا طاہر احمد آنجہانی کے لندن منتقل ہونے کے بعد جب قادیانیوں کا سالانہ اجتماع لندن میں منعقد ہونا شروع ہوا تو مولانا چنیوٹی کا اضطراب قابل دید تھا اور وہ ہر قیمت پر لندن میں سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کے لیے کمربستہ تھے۔ انہوں نے مولانا عبد الحفیظ مکی، علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور مولانا ضیاء القاسمی کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے ’’ورلڈ ختم نبوت مشن‘‘ کے نام سے ایک فورم تشکیل دیا جس نے ۱۹۸۵ء میں لندن کے ویمبلے ہال میں جمعیۃ علماء برطانیہ کے تعاون سے پہلی سالانہ ’’عالمی ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا۔ اس کی مشاورت اور انتظامات میں راقم الحروف بھی ان بزرگوں کے ساتھ شریک کار رہا اور میرا لندن کا پہلا سفر مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ہمراہ اسی مقصد کے لیے ہوا تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ کا یہ معمول تھا کہ وہ تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی اہم اعلان یا تحریر شائع کرتے تو علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور راقم الحروف کے ساتھ مشاورت کو ضروری سمجھتے تھے اور ہمارے مشوروں کو تسلیم بھی کرتے تھے، اللہ تعالٰی ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اعجاز قاسمی صاحب کے اس مضمون سے مولانا چنیوٹیؒ کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہوگئیں جن میں سے کچھ کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے۔ جہاں تک ان کے دوسرے ارشاد کا تعلق ہے کہ عالمی سطح پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کے تعاقب کے کام کو میں خود سنبھالوں اور آگے بڑھ کر اس کام کی قیادت کروں، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ بحمد اللہ تعالٰی یہ کام میرے لیے مشکل نہیں ہے لیکن ۱۹۹۰ء کے بعد سے جب میں نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے منصب سے استعفٰی دیا تھا ’’قیادت‘‘ سے توبہ کر رکھی ہے اور توبہ شکنی کا کوئی خیال اپنے دل کے کسی گوشے میں موجود نہیں پاتا۔ میں نے خود کو دینی جدوجہد کے حوالے سے تیسری صف کے کارکنوں کے دائرے تک محدود کر رکھا ہے اور یہ نفاذ شریعت، تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس صحابہؓ سمیت دینی جدوجہد کے ہر شعبے کے لیے یکساں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ تدریسی اور فکری محاذ پر میں نے خود کو اتنا مصروف (مرکوز) کر لیا ہے کہ کسی دوسرے کام کے لیے وقت بھی نہیں ملتا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دینی جماعتوں کی بھرمار میں ایک نئی جماعت کا اضافہ کر کے میں مزید خلفشار کا باعث نہیں بننا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اور بیرون ملک بھی بحمد اللہ تعالٰی اچھا خاصا حلقۂ احباب رکھنے کے باوجود ہم ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کو باقاعدہ تنظیمی شکل دینے سے گریز کر رہے ہیں اور اسے محض ’’توجہ دلاؤ فورم‘‘ تک محدود رکھ کر اسی دائرے میں کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر ہمارے مسلکی حلقے میں اس وقت تین جماعتیں کام کر رہی ہیں:
- عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،
- انٹرنیشنل تحفظ ختم نبوت موومنٹ،
- عالمی مجلس احرار اسلام۔
- ان کے ساتھ اگر الحاج عبد الرحمان باوا صاحب کے لندن میں قائم کردہ ’’ختم نبوت مرکز‘‘ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی تعداد چار ہو جاتی ہے۔
تحفظ ختم نبوت سے متعلقہ تمام کام انہی کو کرنے چاہئیں اور ہم جیسے باقی کارکنوں کو ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ اور اگر ان تینوں جماعتوں کے ذمہ دار بزرگ میری اس ’’خطا‘‘ کو پیشگی معاف کرتے ہوئے ایک درخواست قبول کر سکیں تو یہ اپنے مشن کے ساتھ ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔ وہ یہ کہ یہ تینوں جماعتیں باہمی تعاون و شراکت کار کا راستہ اختیار کریں اور ایک ’’مشترکہ رابطہ کمیٹی‘‘ تشکیل دے کر تقسیم کار کا اہتمام کر لیں، اس کا بہرحال فائدہ ہوگا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو ان سب کا ہمیشہ سے خادم اور کارکن رہا ہوں اور ان شاء اللہ تعالٰی تازیست رہوں گا۔