کیا دینی مدارس غیر ضروری ہیں؟

   
جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۲ نومبر ۲۰۰۷ء

(۲۱ شوال المکرم ۱۴۲۸ھ کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر اساتذہ و طلبہ کے اجتماع سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ہم آج اپنے اس مدرسہ میں نئے تعلیمی سال کا آغاز کر رہے ہیں ،اس مناسبت سے میں آج کی دنیا میں دینی مدارس اور ان کے تعلیمی نظام کے حوالہ سے اٹھائے جانے والے ایک اہم سوال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ وہ سوال یہ ہے کہ ان دینی مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اور جن مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے ان کا ہمارا عملی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور ہمیں زندگی میں پیش آنے والی ضروریات میں سے وہ کس ضرورت کو پورا کرتے ہیں؟یہ سوال اٹھانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ چونکہ ان مدارس کی تعلیمات کا ہماری عملی زندگی اور اس کی ضروریات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ان مدارس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ مدارس قوم کی کوئی مثبت خدمت کرنے کی بجائے غیر ضروری مضامین پر قوم کے ایک بڑے حصے کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

یہ سوال نہ صرف پاکستا ن میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیر بحث ہے اور ابھی حالیہ سفر امریکہ کے دوران میرے ساتھ گفتگو میں وہاں کے بعض حلقوں نے بھی اس سوال کی طرف توجہ دلائی ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے۔

دینی اور عصری علوم کی ضرورت

مجھے سکول،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اور ان میں پڑھائے جانے والے مضامین کی ضرورت ،افادیت سے کوئی انکار نہیں ہے اور میں ان عصری تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے علوم وفنون کو انسانی زندگی کے لیے ضرورت کے مضامین سمجھتا ہوں۔ مثلاً ریاضی ہماری ضرورت ہے، زبان ہماری ضرورت ہے، سائنس ہماری ضروت ہے، ٹیکنالوجی ہماری ضرورت ہے، میڈیکل سائنس ہماری ضرورت ہے، انجینئرنگ ہماری ضرورت ہے، اور ان کے علاوہ ان اداروں میں پڑھائے جانے والے علوم وفنون ہماری زندگی اور سوسائٹی کے لیے از حد ضروری ہیں جن کے بغیر نہ ہم اپنی زندگی کا نظام باقی رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سوسائٹی کے ارتقاء اور ترقی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اس لیے سکول ،کالج ،یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے تمام علوم وفنون اور مضامین کی اہمیت و ضرورت کو میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں اور انہیں انسانی سوسائٹی اور زندگی کے لیے ضروری علوم تصور کرتا ہوں۔ لیکن کیا سکول،کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے مضامین اور علوم ہماری زندگی کی تمام ضروریات کا احاطہ کرتے ہیں؟اس میں مجھے کلام ہے او ر آج کی گفتگو میں اسی پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔

عصری تعلیمی اداروں کے مضامین اور علوم و فنون ہماری بہت سی ضروریات کو پورا کرتے ہیں لیکن ہماری بہت سی ایسی ضروریات بھی ہیں جن سے ہمیں روز مرہ سابقہ پیش آتا ہے مگر سکول،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اس سلسلہ میں ہماری سرے سے کوئی راہ نمائی نہیں کرتی۔ مثلاً میڈیکل سائنس کا موضوع انسانی جسم ہے کہ اس مشینری کی ہیئت ترکیبی کیا ہے، اس کا میکنزم کیا ہے، یہ جسم کیسے کام کرتا ہے، کیسے خرابی سے دوچار ہوتا ہے، اور اس خرابی کو کیسے دور کیاجا سکتا ہے؟ میڈیکل سائنس اس موضوع پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے کام کر رہی ہے اور اس نے بہت ترقی اور پیش رفت کی ہے لیکن تمام تر ترقی کے باوجود میڈیکل سائنس ہمیں ہمارے جسم کے بارے میں صرف دو سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے۔ ایک یہ کہ یہ مشینری کیاہے؟ اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے کام کرتی ہے؟

ان دو سوالوں کا جواب حاصل کرنا ہمارے لیے ضروی ہے اور ہم اس جواب سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن ایک سوال ان سے پہلے ہے اور ہمارے لیے اس سوال کا جواب معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ مشینری کس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے؟ اس کی تخلیق کا مقصد و ایجنڈا کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب میڈیکل سائنس کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس سے کوئی بحث کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم، طبقہ یافرد اپنے وجود میں آنے کا مقصد معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا تو یہ اس کی مرضی ہے لیکن ہم اس سوال کا جواب ضروری سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس سوال کاجواب ہمیں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ علوم صحیح معنوں میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی بجائے دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔

اسی طرح اس کائنات کے حوالہ سے بھی سائنس صرف ’’کیا ہے اور کیسے ہے؟‘‘ کے دو جوابات تک محدود رہتی ہے اور اگر چہ اس کی اس تگ و دو اور ریسرچ سے ہم اپنی عملی زندگی میں بہت فائدے اٹھاتے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی مسلسل ترقی کے باعث بہت سی سہولتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں، لیکن یہ کائنات کیوں ہے؟کے سوال کاجواب بھی سائنس کے پاس نہیں ہے۔ اس سوال کاجواب بھی ہمیں وحی الٰہی میں ملتا ہے ،آسمانی تعلیمات میں ملتا ہے اور قرآن وسنت میں ملتاہے جن کی تعلیم سکول، کالج اور یونیورسٹی کی بجائے ان دینی مدارس میں دی جاتی ہے اور یہ دینی مدارس ہی انسان کو اس کے اور کائنات کے مقصد وجود سے آگاہ کرتے ہیں۔

اس مسئلہ کو ایک اور حوالہ سے بھی دیکھ لیا جائے کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہیں، اس میں ہمارے اردگرد وہ دنیا بھی ہے جو ہمارے محسوسات، مشاہدات، مدرکات اور معقولات کے دائرے میں آتی ہے، اور وہ دنیا بھی ہمارے ارد گرد موجود اسی ماحول میں موجود و متحر ک ہے جو ہمارے محسوسات اور معقولات سے بالاتر ہے۔ مثلاً ہم اپنے عقائد کی رو سے فرشتوں کا وجود تسلیم کرتے ہیں،جنوں اور شیطانوں کے وجود کا اقرار کرتے ہیں، قرآن و سنت کی رو سے ان غیبی مخلوقات کا ایک وسع ترین نیٹ ورک موجود ہے جو ہمارے ارد گرد ماحول میں مسلسل مصروف عمل رہتا ہے اور ہمیں ان کے ساتھ رابطہ رکھنے، اس سسٹم کے خیر کے پہلوؤں سے فائدہ اٹھا نے اور شر کے پہلوؤں سے بچنے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے ۔

اسی طرح ہم اپنے ماحول میں برکت اور نحوست کے دو لفظ ہمیشہ استعمال کرتے ہیں اور صرف الفاظ کی حد تک نہیں بلکہ ان کے اثرات کو اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں اور ان کا مشاہد ہ بھی کرتے ہیں لیکن کائنات میں اللہ تعالیٰ کے پھیلائے ہوئے اس وسیع ترین غیبی نظام کے بارے میں نہ آکسفورڈ یونیورسٹی معلومات فراہم کرتی ہے، نہ کیمریج یونیورسٹی میں یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے، اور نہ ہی ہارورڈ یونیورسٹی کے مضامین میں یہ بات شامل ہے۔ اس غیبی نظام کے نیٹ ورک اور اس سے استفادہ کے طریقوں کے بارے میں اگر کہیں راہ نمائی ملتی ہے تو ان دینی مدارس میں ملتی ہے جو شب و روز ا ن باتوں کی تعلیم دیتے ہیں کہ فرشتے ہمارے گھر وں میں کیسے آتے ہیں اور کیسے چلے جاتے ہیں، وہ کن کاموں پر راضی ہوتے ہیں اور کن باتوں پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ اور شیطانوں کی آمد ورفت کیسے ہوتی ہے، زندگی میں برکات کے حصول کا کیا طریقہ ہے اور نحوست سے بچنے کے لیے کیا کچھ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ باتیں ہماری ضروریات کا حصہ ہیں اور اگر مغرب کی طرح ہم خدا نخواستہ ان کے سرے سے انکار کے مقام تک نہیں جا پہنچے تو پھر ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے ان ضروریات کو صرف اور صرف دینی مدرسہ پورا کرتا ہے اور سکول وکالج کی تعلیم ان ضروریات کے حوالہ سے ہماری راہ نمائی نہیں کرتی۔

دینی اور عصری علوم کی حدود

میں ایک اور پہلو سے بھی اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہوں گا کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہماری بہت سی ضروریات کو پورا کرتی ہے اور ہماری عملی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے بارے میں ہماری راہ نمائی اور مدد کرتی ہے لیکن اس تعلیم کی تمام تر افادیت و ضرورت اس دنیا کی زندگی تک محدو د ہے اور اس کی تمام تر تحقیق و ریسرچ ہماری آنکھ بند ہونے تک ہے، آنکھ بند ہوتے ہی اس تعلیم کی افادیت منقطع ہو جاتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد قبر کی زندگی، حشر کی زندگی، قیامت کا مرحلہ، اور جنت و جہنم کے مراحل سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے عقید ہ کے مطابق اس دنیا کی زندگی بہت عارضی و محدود ہے اور آنے والی زندگی بہت طویل اور حقیقی ہے۔ آپ ایک چھوٹی سی بات سے اندازہ کر لیجیے کہ مریض کی سانس جب تک چل رہی ہے ڈاکٹر صاحبان اس کے گرد موجود ہیں، علاج سے متعلقہ مشینیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن جونہی سانس کارشتہ ٹوٹ جاتا ہے، ڈاکٹر صاحبان وہاں سے اٹھ جاتے ہیں اور ادویات و مشینیں بھی سب ہٹا لی جاتی ہیں۔ گویا میڈیکل سائنس اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ دیتی ہے کہ میرا کام یہاں ختم ہوگیا ہے، ا س سے آگے مولوی صاحب کا کام ہے اسی لیے اب انہیں بلایا جائے۔ چنانچہ پھر اگلے مراحل کے لیے مولوی صاحبان کو بلایا جاتا ہے۔

پھر سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم اس محدود زندگی کی جن ضروریات کا احاطہ کر تی ہے وہ بھی صرف محسوسات، مشاہدات اور معقولات کے دائروں تک محصور ہیں۔ جبکہ زندگی صرف اس کا نام نہیں ہے اور اس سے آگے روحانیات اور وجدانیات بھی ہماری عملی زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں جن سے یہ عصری تعلیم سرے سے کوئی بحث نہیں کر تی۔ ایک مثال سے بات سمجھیں کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جسے دل کہتے ہیں، میڈیکل سائنس اسے انسانی جسم کی مشینری کا مرکز قرار دیتی ہے جس کی حرکت پر پورے بدن کی حرکت کا مدار ہے۔ یہ دل حرکت کرتا ہے تو جسم کی حرکت بھی صحیح رہتی ہے لیکن اگر دل کی حرکت غیر متوازن ہو جائے تو پورے جسم کا نظام غیر متوازن ہو جاتا ہے ۔

اسی طرح روحانی دنیا بھی دل ہی کو انسانی وجدانیات کا مرکز قرار دیتی ہے خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ان فی الجسد رمضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدالجسد کلہ الا وھی القلب‘‘ کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جسے دل کہا جاتا ہے وہ اگر صالح ہے تو جسم کا سارا نظام صالح ہے اور اگر وہ فاسد جو جائے تو پورے جسم کا نظام فاسد ہو جاتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضورؐ اس ارشاد گرامی میں میڈیکل سائنس کا کوئی اصول تو بیان نہیں فرمارہے بلکہ انسان کی اصلاح و ہدایت کے حوالہ سے گفتگو فرمارہے ہیں۔ جبکہ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم دل کی ظاہری حرکت، اس کے نظام اور اس کے میکنزم کے بارے میں بہت ضروری اور مفید معلومات فراہم کرنے اور ہماری بھرپو رہنمائی کرنے کے باوجود اس کے باطنی نظام کے حوالہ سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور اس سلسلہ میں راہ نمائی اور معلومات کے لیے ہمیں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو سکول اور کالج کی بجائے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہیں اور وہی ہمیں اس کی کماحقہ تعلیم فراہم کرتے ہیں ۔

دنیوی اور اخروی زندگیوں کا تناسب

میں اس موقع پر یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس دنیا کی محدود زندگی اور اگلی دنیا کی طویل زندگی کے درمیان تناسب کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ ہم اپنے نفع و نقصان کا کوئی صحیح معیار طے کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنی دنیا میں ایک ہزار سال شمار کرو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایک دن کے برابر ہے۔ اس سے اندازہ کر لیجیے کہ ہم جس زندگی کو ۷۰ سال، ۸۰ سال اور ۹۰ سال کے پیمانے سے ماپتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ایک دن میں کیا حیثیت رکھتی ہے؟ اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں سائنس بھی دکھاتی ہے ،میں اپنے حالیہ سفر امریکہ کے دوران ہیوسٹن میں ناسا کے خلائی تحقیقاتی مرکز میں گیا اور وہاں خلائی شٹل میں داخل ہو کر اس کے کاک پٹ کا ماحول بھی دیکھا۔ اس موقع پر ہمیں بتا یا گیا یہ شٹل خلاء میں اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ زمین کے گرد سفر کرتی ہے کہ اس کے خلاء باز ہر ۴۵ منٹ میں طلوع آفتاب یا غروب آفتاب دیکھ سکتے ہیں۔ جب ناسا کے دورے میں ہمیں بریفنگ دینے والے صاحب یہ بتا رہے تھے تو میرا ذہن فورًا قرآن کریم کی اس ارشاد کی طرف متوجہ ہو گیا کہ

وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ (سورہ الحج ۲۲ ۔ آیت ۴۷)

’’ اور ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار برس کے برابر ہوتا ہے جو تم گنتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت قرآنی میں بتایا ہے کہ جب تم اگلے جہان میں آنکھ کھولو گے اور وہاں کھڑے ہو کر اپنی دنیا کی زندگی کا اندازہ کرو گے تو تمہیں یوں محسوس ہو گا کہ دنیا میں صرف دن کا پہلا حصہ یا پچھلا پہر گزار کرآئے ہیں۔

كَاَنَّـهُـمْ يَوْمَ يَرَوْنَـهَا لَمْ يَلْبَثُوٓا اِلَّا عَشِيَّةً اَوْ ضُحَاهَا۔ (سورہ النازعات ۷۹ ۔ آیت ۴۶)

’’جس دن اس (قیامت) کو دیکھ لیں گے (تو یہی سمجھیں گے کہ دنیا میں) گویا ہم ایک شام یا اس کی صبح تک ٹھہرے تھے۔‘‘

یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی ضروریات کا تعین کرتے وقت حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے اور اس دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے تناسب کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ بعض صوفیا کرامؒ فرماتے ہیں کہ اس دنیا کے لیے اتنی محنت کرو اور اتنا سامان فراہم کرو جتنا تم نے یہاں رہنا ہے اور اگلی زندگی کے لیے اتنی تیاری کرو جتنا تم نے وہاں رہنا ہے۔ اب آپ خیال فرمائیں کہ میں کسی شہر میں گیا ہوں اور مجھے وہاں صرف تین دن رہنا ہے تو تین دن کے حسا ب سے ہی انتظام کروں گا، اور اگر مجھے وہاں ایک سال رہنا ہے تو انتظامات بھی ایک سال کے حساب سے ہوں گے۔ لیکن اگر میں نے کسی شہر میں مستقل طور پر رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے میرے انتظامات تین دن یا ایک سال کے حساب سے نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ہمیں اپنی زندگی کی ضروریات کاتعین کرتے وقت آخرت کی طویل اور حقیقی زندگی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

میں مغرب کی بات نہیں کرتا اس لیے کہ مغرب تو آخرت کی زندگی کے تصور سے ہی فارغ ہو گیا ہے اس لیے وہ اگر اپنی تمام تر ضروریات کو اس دنیا کی زندگی تک محدود سمجھ کر اپنی تعلیمی ضروریات کو بھی اسی دائرے میں طے کرتا ہے تو اس کی بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کا معاملہ مغرب سے مختلف ہے، ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں، آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، قبر اور حشر پر ایمان رکھتے ہیں، روحانیات پر ایمان رکھتے ہیں، فرشتوں پر ایمان رکھتے ہیں، بر کت و نحوست پر ایمان رکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب ان سب باتوں پر ہم ایمان رکھتے ہیں تو ان کے حوالہ سے معلومات حاصل کرنا اور ان کے نفع نقصان کے نظام کو سمجھتے ہوئے اس کے دائرے میں اپنی زندگی کی ترجیحات طے کرنا ہماری ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیمات اور ان میں پڑھائے جانے والے علوم و فنون کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں ہے لیکن حقائق کی دنیا میں ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ جبکہ ہماری زندگی کی ضروریات کا ایک بہت بڑا دائرہ وہ ہے جو سرے سے ان عصری تعلیمی نظام کے ایجنڈے میں ہی شامل نہیں ہے اور ان کے بارے میں ہمیں ضروری معلومات جن علوم و فنون اور مضامین کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے وہ ان دینی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس طر ح یہ مدارس انسانی زندگی اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات کے ایک بڑے حصہ کو پورا کرتے ہیں اور نسل انسانی کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔

دینی علوم کے اساتذہ و طلباء کی خدمت میں

ان گزارشات کے ساتھ میں دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ سے عرض کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، کسی منفی پروپیگنڈے کو خاطر میں نہ لائیں، کسی قسم کی مایوسی کو قریب نہ آنے دیں، اور پورے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ یہ یقین رکھتے ہوئے دینی علوم کی تدریس و تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں کہ وہ انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت کو پورا کررہے ہیں، انسانی سوسائٹی کی بہت بڑی خدمت کرر ہے ہیں، اور دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے نسل انسانی کی فلاح و نجات کے لیے محنت کرر ہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مدارس کو نسل انسانی کی یہ خدمت جاری رکھنے کی توفیق دیں اور نتائج و ثمرات کے ساتھ ساتھ قبولیت سے بھی بہرہ ور فرمائیں،آمین۔

اس کے بعد میں طلبہ سے بطور خاص یہ عرض کرنا چاہوں گا جب کہ آپ حضرات دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور بہت بڑی ذمہ داری اپنے سر لے رہے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ نیت صحیح ہو اور اس کے مطابق محنت بھی صحیح ہو۔ اگر نیت صحیح نہیں ہوگی تو محنت بیکار جائے گی، اور اگر محنت نہیں ہو گی تو نیت بے مقصد ہو جائے گی۔ دین کی تعلیم سے ہماری تین بنیادی اغراض ہونی چاہئیں:

  1. سب سے بڑی غرض یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔
  2. اس کے بعد یہ کہ ہم اس حاصل کردہ علم کے مطابق عمل کر کے اپنی دنیا اور آخرت کی اصلاح کر لیں۔
  3. اور پھر یہ کہ ہم نے دین اور علم کی یہ امانت دوسرے لوگوں تک پہنچانی ہے۔

آپ حضرات نے یہ محاورہ تو سن رکھا ہو گا کہ ’’نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان‘‘۔ حکیم کامل نہیں ہو گا تو جان کے لیے خطرہ ہو گا اور مولوی ناقص ہو گا تو ایمان کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ نیم ملا سے مراد ایسا شخص ہے جس کی تعلیم ناقص رہی ہے، جس نے محنت نہیں کی، تکرار نہیں کیا، مطالعہ نہیں کیا، اسباق میں صحیح حاضری نہیں دی، استاد کی بات توجہ سے نہیں سنی اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر یہ کام نہیں ہوں گے اور دوسرے کاموں میں وقت ضائع کرتے رہیں گے تو علم ناقص رہ جائے گا، علم ادھورا ہو گا، تعلیم نامکمل ہو گی، اور پھر عالم دین کی بجائے ’’نیم ملا‘‘ بنیں گے، لوگوں کی ہدایت کی بجائے گمراہی کا ذریعہ بنیں گے، اپنا بھی بیڑہ غرق کریں گے اور دوسروں کا بھی بیڑہ غرق کریں گے۔ اسی لیے اس ذمہ داری کے احساس کے ساتھ تعلیم حاصل کریں اور اس کے لیے محنت کریں کہ کل ہم نے دین کے بارے میں لوگوں کی راہ نمائی کرنی ہے، لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ بننا ہے اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے ہماری اصلاح ہو، تعلیم مکمل ہو، مضامین پر عبور ہو، اور علم میں رسوخ حاصل ہو۔

پھر طلبہ سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس ماحول میں آپ رہتے ہیں آپ کے ار د گرد کے لوگ، مسجد کے نمازی، محلہ کے باشندے اور آپ کو بازاروں میں چلتے پھرتے دیکھنے والے لوگ آپ کو دین کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ آپ کی ہر بات اور ہر حرکت دین کی طرف منسوب ہوتی ہے، آپ کی طرف دیکھ کر لوگ دین کے بارے میں تاثر قائم کرتے ہیں اور رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہماری کوئی حرکت اور ہمارا کوئی عمل دین کے لیے نقصان اور ہمارے اکابر اور بزرگوں کے لیے بدنامی کا باعث نہ بن جائے۔ اگر ہماری وجہ سے کوئی شخص دین سے متنفر ہو گا یا ہمارے اکابر اور بزرگوں سے بد ظن ہو گا تو اس کی ذمہ داری سے ہم بری الزمہ نہیں ہو سکیں گے۔

ان گزارشات کے ساتھ ہم سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تعلیمی سال خیر و عافیت اور ذوق و توفیق کے ساتھ مکمل کرنے کی توفیق دیں اور ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کا سایہ صحت و سلامتی کے ساتھ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھیں کہ یہ گلشن اور اس کی آبادی سب انہی بزرگوں کا فیض ہے اور انہی کی جدوجہد اور محنت کا ثمرہ طیبہ ہے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter