ترقی یافتہ دور میں بھی انسانی دماغ حرفِ آخر نہیں

   
تاریخ : 
۳۰ اکتوبر ۲۰۰۳ء

ہم نے گزشتہ شب دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکا کے دارالحکومت کے ایک علاقہ میں موم بتیوں کی روشنی میں نماز تراویح کا آغاز کیا۔ سپرنگ فیلڈ کے علاقہ میں مغرب سے تھوڑی دیر بعد بجلی منقطع ہوئی اور تراویح اور اس کے بعد بیان وغیرہ سے فارغ ہوئے تو اس کے بعد بجلی کا سلسلہ بحال ہو گیا۔ اس کی وجہ کوئی ٹیکنیکل خرابی بیان کی جاتی ہے اور دارالہدیٰ کے ڈائریکٹر مولانا عبدالحمید اصغر کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں بیس سالہ قیام کے دوران پہلا واقعہ ہے کہ نماز تراویح بجلی کی روشنی کے بغیر ادا کرنا پڑی ہے۔ باہر بارش ہو رہی تھی، اس لیے میں نے کہا کہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، اس لیے کہ بارش کے موقع پر ہمارے ہاں عام طور پر بجلی بند ہو جایا کرتی ہے۔ البتہ مجھے واشنگٹن ڈی سی کے اس ماحول میں گوجرانوالہ یاد آ گیا ہے، جہاں اس قسم کی صورتحال سے ہم اکثر دوچار ہو جایا کرتے ہیں۔

ابھی چند روز قبل ہم آمشوں کے علاقہ سے ہو کر آئے ہیں جہاں بجلی، فون اور گیس وغیرہ کا سرے سے استعمال ہی نہیں ہوتا اور ہزاروں خاندان اب سے دو سو برس پہلے کے ماحول میں بخوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ آمش امریکا کی ریاست پینسلونبیا کی ایک کاؤنٹی لنکاسٹر میں ہی رہتے ہیں، لیکن اب ان کے بارے میں ایک معلوماتی کتابچہ سے پتہ چلا ہے کہ کم و بیش نوے ہزار آمش امریکا کی بیس کے قریب ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور اسی طرز پر زندگی بسر کر رہے ہیں، جس کا تفصیل کے ساتھ گزشتہ کالم میں تذکرہ کیا جا چکا ہے۔

میرے ذہن میں خیال آیا کہ امریکا دنیا بھر میں ترقی اور اپنی من پسند تہذیب کو پھیلانے میں لگا ہوا ہے اور اس کے لیے اسے طاقت کے استعمال میں بھی کوئی حجاب نہیں ہے، لیکن اس کے اپنے داخلی ماحول میں ہزاروں خاندان امریکی پرچم کے زیر سایہ اس ترقی اور تہذیب کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور پرانی وضع پر رہ رہے ہیں، مگر اس پر امریکا کا قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی میڈیا کو جنبش ہوتی ہے۔

ایک دوست سے تذکرہ کیا تو اس نے کہا کہ کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان لوگوں کو جان بوجھ کر اس حالت میں رہنے دیا جا رہا ہو، تاکہ امریکی سوسائٹی کو ہر وقت یہ منظر نظر آتا رہے کہ مذہبی قیادت کی پیروی کرنے والوں کو زندگی کی سہولتوں اور سائنسی حقائق سے اس طرح آنکھیں بند رکھنا پڑتی ہیں۔ آمش لوگ چرچ کو اپنا لیڈر بتاتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چرچ ہی زندگی کے تمام معاملات میں ان کی رہنمائی اور قیادت کر رہا ہے۔ اس لیے اس طرز زندگی کا دوسرے لوگوں کی نظروں کے سامنے رہنا ضروری سمجھا گیا ہے، تاکہ مذہب کے بارے میں ان کے ان تصورات و جذبات کو قائم رکھا جا سکے، جو مذہب بیزاری اور انسانی معاشرہ کے اجتماعی معاملات سے مذہب کی لاتعلقی کی مہم کے ذریعہ گزشتہ دو تین صدیوں کے درمیان ان کے اذہان و قلوب میں بسائے گئے ہیں۔

مغربی دانشوروں اور خاص طور پر میڈیا کے ماہرین کا کمال یہ ہے کہ وہ عالمی رائے عامہ بالخصوص مغربی ممالک کے باشندوں کو یہ باور کرانے میں ابھی تک کامیاب ہیں کہ دنیا کے کسی حصے میں اگر سوسائٹی نے مذہب کو اپنا رہنما تسلیم کر لیا تو اس سے تاریخ کا وہ تاریک دور واپس آجائے گا جب سائنسی انکشافات کو بائیبل کی تعلیمات کے منافی قرار دے کر سائنسدانوں کو اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں اور رائے کے آزادانہ اظہار پر خدا سے بغاوت کا لیبل چسپاں کر کے اس کا ریاستی جبر کے ذریعہ گلا گھونٹ دیا جاتا تھا۔

یورپ میں اب سے تین سو برس قبل تک یہی ماحول تھا۔ پوپ کو خدا کے نمائندہ کا درجہ حاصل تھا، چرچ کا فیصلہ حتمی تصور ہوتا تھا، سائنسی تحقیقات اور انکشاف کو خدائی تعلیمات سے بغاوت سمجھا جاتا تھا اور اس سے بڑھ کر ستم یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم اور جبر و تشدد کو اکثر و بیشتر چرچ کی حمایت حاصل ہوتی تھی۔ عام انسان غلاموں بلکہ جانوروں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے اور بادشاہ اور جاگیردار کے مظالم اور انسانیت سوز سلوک کو ہر حالت میں برداشت کرنا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس ماحول میں جب بادشاہ اور جاگیردار کے خلاف عوامی بغاوت کے جذبات ابھرے اور آزادی کے متوالوں نے طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے ذریعے بادشاہت اور جاگیرداروں کا طوق گردن سے اتارنے میں کامیابی حاصل کی، تو اسی معرکے میں مذہب اور چرچ کی تابعداری کا جوا بھی گردن سے اتار پھینکا اور مذہب کو انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کر کے رکھ دیا۔

اس دور کے حالات کو سامنے رکھا جائے اور معاشرتی انقلاب اور تبدیلیوں میں مذہب اور چرچ کے کردار کو دیکھا جائے تو مذہب کے معاشرتی کردار سے مغربی سوسائٹی کی نفرت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسلام کو بھی اسی پر قیاس کیا جا رہا ہے اور دنیا کے کسی حصے میں اسلام کے معاشرتی اور اجتماعی کردار کے احیا کا کوئی امکان دکھائی دینے لگتا ہے تو مغرب کے اہل دانش اور میڈیا کار متحرک ہو جاتے ہیں اور یہ شور و غوغا شروع ہو جاتا ہے کہ تاریک دور ایک بار پھر واپس لایا جا رہا ہے اور تین سو سال قبل تک جاگیردار اور بادشاہ کے ساتھ مل کر عام لوگوں پر ظلم ڈھانے والا مذہبی رہنما معاشرہ کی قیادت پر قبضہ کرنے کے لیے پھر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر اس کو نہ روکا گیا تو ترقی اور تہذیب دونوں خطرے میں پڑ جائیں گی اور انسانی معاشرہ ظلم و جبر کے دور کی طرف لوٹ جائے گا۔

حالانکہ معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ سائنسی ترقی کے حوالے سے یہ بات تحقیق کے مراحل سے گزر کر حقائق کے دائرہ میں داخل ہو چکی ہے کہ یورپ کی سائنسی ترقی اور کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہی کی تمام تر جدوجہد کا دارومدار مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات پر ہے اور اس کا اصل سرچشمہ اندلس کے وہ تعلیمی اور تحقیقی مراکز ہیں، جن کی تحقیقی کاوشیں اندلس سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہونے کے بعد یورپی سائنس دانوں کی تحویل میں آگئیں اور انہوں نے محنت اور جدوجہد کے ساتھ ان پر عظیم الشان سائنسی ترقی کی بنیاد رکھ دی۔

اندلس اگر سیاسی میدان میں یورپ کی صلیبی قوتوں سے شکست نہ کھاتا اور اقتدار کے لیے مسلم حکمرانوں کی باہمی خانہ جنگی مسلم اندلس کو مسیحی سپین کی طرف واپس دھکیل دینے کی راہ ہموار نہ کرتی تو آج دنیا کی صورت حال مختلف ہوتی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور پیش قدمی کا پرچم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتا، لیکن میدان جنگ کی شکست نے یورپ میں مسلمانوں کی ذہنی، فکری اور ثقافتی شکست کا راستہ صاف کر دیا اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سائنس اور ترقی کی باگ ڈور بھی یورپی اہل دانش نے سنبھال لی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کے سائنسدانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور پیش قدمی کے لیے جاں گسل محنت کی ہے اور تمام تر موجودہ ترقی اور عروج کی عملی جدوجہد کا سہرا انہی کے سر بندھتا ہے، لیکن اس بات میں بھی کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے اس روشنی کی پہلی لو مسلمان سائنس دانوں کی جلائی ہوئی شمع سے حاصل کی تھی اور مسلم سائنس دانوں کی تحقیقات اور ریسرچ نے ہی انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بنیادی رہنمائی اور روشنی فراہم کی ہے۔

تہذیب و ثقافت کے محاذ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یورپ اور مغرب کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے انسانی سوسائٹی میں حریت اور آزادی کی شمع روشن کی، عام لوگوں کو ظلم و جبر کے سامنے کھڑا ہونے اور جبر و تشدد کو مسترد کرنے کا حوصلہ دیا اور خاص طور پر غلاموں اور عورتوں کو جانوروں جیسی زندگی سے نکال کر انسانوں کی صف میں کھڑا ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یورپ اور امریکا کی حد تک مغربی دانشوروں کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے اور ان کی اس عظیم جدوجہد اور کریڈٹ سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ خود یورپ نے آزادی کا یہ سبق کہاں سے سیکھا؟ اور عورتوں اور غلاموں کو انسان سمجھنے کا یہ درس کہاں سے لیا؟ تاریخ یہ کہتی ہے کہ اس کے ڈانڈے بھی اندلس کی دانش گاہوں اور تعلیم گاہوں سے ملتے ہیں اور اسلام نے ہی سب سے پہلے مغرب کے باشندوں کو بتایا ہے کہ وہ جانور نہیں بلکہ انسان ہیں۔ ان کے حکمران اور جاگیردار ان کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ظلم اور ناانصافی ہے اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ جبر و تشدد کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اور ظلم و ناانصافی کا مقابلہ کرتے ہوئے آزادی کی منزل کی طرف بڑھیں ۔

اسلام نے تو یورپ کی بیداری سے ایک ہزار سال قبل دنیا کو یہ سبق دے دیا تھا کہ حکمران اپنی رعیت کے مالک نہیں، بلکہ خادم ہوا کرتے ہیں۔ ان کی رائے اور فیصلوں سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے، عورتوں کو بھی تعلیم اور رائے کا وہ حق حاصل ہے جو مردوں کو میسر ہے اور غلام بھی زندگی کی ان سہولتوں کے حقدار ہیں جو دوسرے انسانوں کو حاصل ہیں۔

اس لیے آج مغرب کا دانش ور جب قرون مظلم کی مسیحیت اور اسلام کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ معاشرتی کردار کے حوالہ سے اسلام بھی وہی مزاج رکھتا ہے جو اب سے تین سو برس قبل تک یورپ میں مسیحیت کا رہا ہے، تو تاریخی حقائق اس پر چیخ اٹھتے ہیں اور انسانی سوسائٹی کا ماضی اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ مگر مغرب کے دانشوروں اور میڈیا ماہرین کا حوصلہ ہے کہ وہ اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور حقائق کو پروپیگنڈا کی دھند میں چھپانے کے لیے مسلسل مصروف کار ہیں۔ انسانی معاشرہ کے اجتماعی نظام کی باگ ڈور اس وقت مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ مغرب کے عام باشندے کو مسلسل دھوکے میں رکھا جا رہا ہے اور اسے جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کی بنیاد پر جھوٹ کو سچ سمجھنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ جبکہ مٹھی بھر افراد کا ایک گروہ سیاست، معیشت اور میڈیا کو کنٹرول کیے ہوئے ہے جو اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق عالمی رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے اور جس کے حق میں یا جس کے خلاف چاہے اسے استعمال کر لیتا ہے۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ مٹھی بھر یہودی ہیں جو عالمی نظام پر مسلط ہیں اور دنیا کے وسائل اور ذرائع پر کنٹرول حاصل کر کے پوری دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں۔ یہودی جو صدیوں تک یورپ کی مسیحی اقوام سے مار کھاتے رہے، مسیحی حکومتوں کے ریاستی جبر کا شکار ہوتے رہے، ان کے ہاتھوں ذبح ہوتے رہے، زندہ جلائے جاتے رہے اور خلافت عثمانیہ ان کے لیے پناہ گاہ بنی رہی۔ اب وہی یہودی مسیحیوں کے دل و دماغ اور وسائل و اسباب پر قبضہ کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ وسائل، قوت اور ذرائع مسیحیوں کے ہیں اور انہیں کنٹرول اور استعمال کرنے والا دماغ یہودی کا ہے جو مسلمانوں اور مسیحیوں کو آپس میں لڑا کر دنیا پر یہودیوں کی عالمی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہے۔

بات بہت دور نکل گئی، ہم نے اپنی گزارشات کا آغاز آمشوں کے ذکر سے کیا تھا اور عرض کیا تھا کہ موم بتیوں اور لالٹینوں کی روشنی میں زندگی بسر کرنے والے مسیحی آمشوں کا علاقہ دیکھنے کے چند روز بعد امریکا کے دارالحکومت میں موم بتیوں کی روشنی میں نماز تراویح ادا کرنا پڑی۔ یہ محض اتفاق ہے یا قدرت کی طرف سے کوئی اشارہ ہے کہ ترقی و کمال میں انسانی دماغ ہی حرف آخر نہیں ہے، بلکہ کائنات میں کچھ اور قوتیں بھی کام کر رہی ہیں جو حرکت میں آجائیں تو انسانی دماغ کا بنایا ہوا نظام بے بس ہو جایا کرتا ہے۔

اب سے ڈیڑھ ماہ قبل جب میں واشنگٹن آیا تھا تو ہوائی طوفان کے ہاتھوں واشنگٹن اور اس سے ملحقہ علاقوں کا ایک حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور اب جبکہ میں واپسی کی تیاری کر رہا ہوں تو ٹیکنیکل وجوہ کے حوالہ سے بجلی کی بندش کا منظر بھی دیکھ لیا ہے۔ خدا کرے کہ انسان اپنے وجود سے آگے بھی کچھ دیکھے اور خود کو ہر معاملہ میں حرف آخر سمجھنے کی بجائے کائنات کی اصل حکمران قوت کو پہچان کر اس کی اطاعت کی ضرورت محسوس کرے کہ کائنات میں انسان کا اصل مقام یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter