انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی نے ’’رائٹر‘‘ سے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام میں مختلف ملکوں کی مدد کرنے والے انڈر ورلڈ گروہ کا سراغ لگانے اور اسے ناکارہ بنانے کے لیے اٹامک ایجنسی پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ چند ہفتوں تک اس قابل ہو جائیں گے کہ ایٹمی پھیلاؤ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ملوث گروہ اور اس میں شامل افراد کو سامنے لے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کی کوششیں سخت دباؤ کا شکار ہیں، کیونکہ بلیک مارکیٹ نیٹ ورک ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کی تجارت میں ملوث ہے اور اس وقت ایٹمی ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹ وجود میں آ چکی ہے جو حساس ترین انٹیلیجنس نیٹ ورک کے تحت کام کر رہی ہے۔ ایک ملک اس کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور دوسرا ملک ان کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کرتا ہے اور پھر یہ ہتھیار کشتی کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک میں پہنچ جاتے ہیں، ان کی آخری منزل کوئی بھی جگہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نئے بین الاقوامی کنٹرول سسٹم پر اتفاق نہ کیا تو ایٹمی جنگ ہم پر کسی وقت بھی تھوپی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں ایٹمی سائنس دانوں کی ڈی بریفنگ جاری ہے اور وفاقی وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے شب قدر میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی پاسنگ آؤٹ پریٖڈ کے موقع پر اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سائنس دانوں کو ڈی بریفنگ مکمل ہونے تک رہا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں کی گرفتاری اور ڈی بریفنگ کے سلسلے میں ملک بھر میں ہونے والے احتجاج پر نظر ڈالی جائے تو اس کرب اور اضطراب کا ایک حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ایٹمی سائنس دانوں کو ڈی بریفنگ کے لیے زیر حراست لینے پر عوام کے کم و بیش ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ دینی، سیاسی اور سماجی راہنماؤں کی طرف سے احتجاجی بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور ہر سطح پر جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بعض راہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہمارے حریف بھارت نے، جس کی ایٹمی قوت کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا، اپنے سب سے بڑے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد الکلام کو صدر جمہوریہ کے منصب پر فائز کر رکھا ہے جب کہ ہمارے سب سے بڑے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کے دیگر رفقاء زیر حراست ہیں اور ڈی بریفنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ سارا جال پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے اور اسے نئی پابندیوں اور اقدامات کا نشانہ بنانے کے لیے پھیلایا گیا ہے جس کی تیاریاں ایک عرصے سے جاری تھیں اور پاکستان پر نہ صرف ایٹمی دھماکہ کرنے سے قبل اس حوالے سے شدید دباؤ تھا بلکہ اس کے بعد بھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام مسلسل دباؤ کی زد میں ہے۔ بعض ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حالیہ الزامات اور ان کے نتیجے میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں سے تفتیش اور ڈی بریفنگ کی یہ کارروائی اسی مہم کا حصہ ہے۔
بعض دوستوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ کارروائی پاکستان اور عالم اسلام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم اور اس شعبے میں نوجوانوں کے آگے بڑھنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس طرح پاکستان اور عالم اسلام جو پہلے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ معاصر اقوام سے بہت پیچھے ہیں، اس محاذ پر ان کی تھوڑی بہت نظر آنے والی پیشرفت کو بھی بریک لگ جائے گی۔ بہت سے احباب کو یہ شکوہ ہے کہ جو لوگ کل تک ہمارے محسن اور ہیرو تھے اور جنہیں تمغوں اور اعزازات سے نوازا جا رہا تھا، آج یکلخت ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے ہیں جس سے ہمارا قومی وقار مجروح ہوا ہے اور ہماری ساکھ گرتی جا رہی ہے۔ محب وطن شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بے چینی اور اضطراب سے دوچار ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے خلاف جس جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دیا ہے اور جس میں بہت کچھ قربان کر چکے ہیں، اس کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور خود ہمارے بہت سے حساس اور نازک معاملات اس کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں جبکہ اس عمل کو بریک لگنے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
ہمیں ان میں سے کسی بات سے اختلاف نہیں ہے اور اس معاملے کے یہ سارے پہلو ہمیں بھی اپنے اپنے درجہ میں درست محسوس ہو رہے ہیں، مگر ہم ایک اور حوالے سے اس مسئلے کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس بین الاقوامی قانون، ضرورت یا مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کیا جا رہا ہے، اس کی اصولی اور اخلاقی پوزیشن کیا ہے؟ اس ساری مہم کے پیچھے اس وقت بنیادی طور پر یہ سوچ کار فرما ہے کہ ایٹمی ہتھیار دنیا کے لیے خطرہ ہیں اور نسل انسانی کے لیے تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، اس لیے ان کا دائرۂ کار مزید نہیں پھیلنا چاہیے اور کسی ملک کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ اس قوت کے حصول کے لیے کوشش کرے۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی قوانین کا ایک ڈھانچہ موجود ہے اور اس کے تحت عالمی ادارے بھی کام کر رہے ہیں جن کی پابندی اور تابعداری کے لیے ساری دنیا پر زور دیا جا رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ عراق کو ان قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دی گئی ہے بلکہ لیبیا اور ایران کو ان کے سامنے سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ پاکستان بھی سرنڈر یا سزا کے انہی مراحل کی طرف تیزی سے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سوچ اور اس پر مبنی بین الاقوامی قوانین ہی سرے سے ناانصافی اور جانبداری پر مبنی ہیں، اس لیے ان کے تحت کی جانی کوئی بھی کارروائی نہ نتیجہ خیز ہوگی اور نہ انصاف اور اخلاقیات کے ضروری تقاضوں کو پورا کرنے والی متصور ہوگی۔
اس وقت عالمی سطح پر یہ منظر صاف دکھائی دے رہا ہے کہ انسانی آبادی کے کم و بیش ایک چوتھائی حصہ پر مشتمل عالم اسلام کو ایٹمی صلاحیت اور اس حوالے سے ٹیکنالوجی کی جدید ترین مہارت سے دور رکھنے کی عمداً کوشش ہو رہی ہے جس کی ایک واضح دلیل ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھارت اور اسرائیل نے بھی کی ہے اور ان کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، لیکن ان کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کی وہ فضا موجود نہیں ہے جو عراق، لیبیا، پاکستان اور ایران کے خلاف قائم کر دی گئی ہے اور جس کی شدت اور سنگینی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پھر عالم اسلام کی رائے عامہ اور اہل دانش کو جب یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ ان کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے والی قوتیں اور ان کے سیاسی معاملات و اختیارات کو اپنی مٹھی میں جکڑ لینے والی طاقتیں اپنے لیے تو ایٹمی قوت کا حق محفوظ رکھتی ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ صرف عالم اسلام اور تیسری دنیا کو ایٹمی صلاحیت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں، تو ان کے سامنے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی خواہش، اس کے لیے بنائے گئے قوانین اور ان پر عملدرآمد کے لیے قائم کیے جانے والے عالمی اداروں کی کوئی اصولی اور اخلاقی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ وہ اس سارے عمل کو اپنے خلاف جانبدارانہ، معاندانہ اور غیر اخلاقی طرز عمل تصور کرتے ہیں، اس لیے ان سے سرے یہ توقع رکھنا ہی فضول ہے کہ وہ ان قوانین کا احترام کریں گے اور ان کی پابندی کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔ طاقت اور دباؤ کے تحت کسی نظام اور قانون کو مسلط کر دینا اور بات ہے اور نظام و قانون کی اصولی و اخلاقی حیثیت کو تسلیم کرا کر ان کی پابندی کے لیے کسی کو آمادہ کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ ان دونوں باتوں میں فرق اتنا پیچیدہ نہیں ہے جو یکطرفہ ٹریفک چلانے والے عالمی راہنماؤں کی سمجھ سے بالاتر ہو، بلکہ اس مرحلہ تک پہنچ کر بات اور سنگین ہو جاتی ہے۔
سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے کسی یکطرفہ عمل کو جاری رکھنے پر اصرار معروف زبان میں ’’ہٹ دھرمی‘‘ کہلاتا ہے اور جب ہٹ دھرمی صاف نظر آ رہی ہو اور اس میں لچک یا نرمی کا کوئی پہلو محسوس نہ ہو رہا ہو تو کسی بھی انسانی سوسائٹی میں اس کا جو فطری رد عمل پیدا ہوتا ہے، اسے چند قوانین یا اداروں کے ذریعے روکنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے ردعمل کو روکنے کی ایک ہی صورت ممکن ہوتی ہے کہ اس عمل پر نظر ثانی کی جائے جس کے ردعمل کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا ہو، اس لیے اگر اقوام متحدہ کے ادارے، ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے خواہش مند عالمی لیڈر اور مسلم ممالک پر اس سلسلے میں مسلسل دباؤ بڑھانے والی قوتیں فی الواقع اس معاملے میں سنجیدہ ہیں اور ان کا مقصد واقعتاً یہی ہے کہ ایٹمی ہتھیار مزید نہ پھیلیں تو انہیں عالم اسلام کے شبہات اور شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا اور ایٹمی ہتھیاروں کے موجودہ عدم توازن پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ہم غیر ذمہ دار حکومتوں اور ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے چلے جانے کا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ باقی ملکوں کے بارے میں تو ابھی صرف امکان یا خطرے کی سطح کی بات ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کو غلط استعمال کر سکتے، ہیں جبکہ جو ملک اس غیر ذمہ داری کا عملاً مظاہرہ کر چکا ہے، وہ اس وقت سب سے بڑی ایٹمی قوت ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم وطن عزیز کے ان دانشوروں سے بھی عرض کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں کی ڈی بریفنگ کی کارروائی کے جواز پر دلائل دینے میں مصروف ہیں اور اسے وقت کی ضرورت قرار دے رہے ہیں کہ وہ ایٹمی صلاحیت کے بارے میں عالمی سطح پر غیر متوازن اور یکطرفہ نظام کو بھی بے نقاب کریں، کیونکہ فساد کی اصل جڑ وہی ہے اور اسے اکھاڑے بغیر دنیا میں امن کا کوئی بھی پروگرام آگے نہیں بڑھ سکتا۔