پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کے ایک اہم اجلاس کی کارروائی ”نوائے قلم“ کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
پاکستان شریعت کونسل نے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی خفیہ ہاتھ پاکستان میں فوج اور دینی حلقوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر کے ترکی اور الجزائر جیسے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے دونوں طرف کے محب وطن اور اسلام دوست عناصر کو سنجیدگی کے ساتھ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ بات پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس مشاورت کی ایک قرارداد میں کہی گئی ہے جو گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں منظور کی گئی۔ یہ اجلاس کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ابو عمار زاہد الراشدی، مولانا حامد علی رحمانی، حاجی جاوید ابراہیم پراچہ، احمد یعقوب چوہدری، مولانا محمد ادریس ڈیروی، مولانا صلاح الدین فاروقی، مولانا حافظ مہر محمد، مولانا عبد الحلیم قاسمی، مولانا محمد رمضان علوی، مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر، مخدوم منظور احمد تونسوی، مولانا مفتی انعام اللہ ، ملک محمد شاہد اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں ملک بھر میں دینی جماعتوں کے کارکنوں اور علماء کرام کی بلاامتیاز گرفتاریوں، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی تلاش کی آڑ میں دینی مدارس و مراکز کے خلاف امریکی اتحاد کی عسکری کارروائیوں، خوف و ہراس کی کیفیت اور ووٹر فہرستوں کے فارم میں عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامہ کو ختم کرنے سمیت بہت سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے قانون کے دائرہ کے اندر رہ کر ان مقاصد کے لیے دینی جدوجہد کو منظم کیا جائے گا اور متعلقہ حلقوں کے ذمہ دار حضرات سے رابطہ کر کے دینی مفادات کے تحفظ اور فوج کے ساتھ دینی حلقوں کے تصادم کو روکنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کو نسل کے سیکرٹری جنرل ابو عمار زاہد الراشدی نے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے باعث پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دستور کی اسلامی دفعات کو غیر مؤثر بنانے، قادیانیت اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے بارے میں دستوری فیصلوں کو ختم کرانے اور ملک میں فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کے لیے ایک منظم پروگرام کے تحت کام جاری ہے اور ہر سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ پیشرفت ہو رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوئی خفیہ ہاتھ ملک کے دینی حلقوں کو فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی کیفیت میں لا کر الجزائر اور ترکی کی طرح پاکستان کی دینی قوتوں کو طاقت کے بل پر کچل دینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس لیے ملک کی دینی قیادت اس وقت شدید آزمائش سے دوچار ہے۔ کیونکہ جس طرح ہمارے لیے یہ بات ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص سے دست بردار ہو جائیں اور نفاذ اسلام کے لیے نصف صدی کی دستوری جدوجہد کے نتائج سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اسی طرح ہم اس بات کے متحمل بھی نہیں کہ فوج کے ساتھ دینی حلقوں کی محاذ آرائی کی صورت حال پیدا کر کے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیں۔ ہم اس وقت پل صراط پر چل رہے ہیں اور ہماری چھوٹی سی غلطی بھی ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان سے دو چار کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دینی قیادت کو مل بیٹھ کر اس صورتحال کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ملک کے عوام کو متوازن دینی راہنمائی مہیا کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کے سائے میں عافیت کی جگہ تلاش کرنا دینی روایات اور ملی مقاصد کے ساتھ بے وفائی کی بات ہوگی اور اسی طرح محاذ آرائی کی فضا پیدا کر کے فوج اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ بھی قومی مفادات کے منافی ہو گا۔ ہمیں اس کے درمیان متوازن راہ تلاش کرنا ہو گی اور ملک بھر کے دینی کارکنوں اور دیندار عوام کو مایوسی اور بے دلی کی فضا سے نکالنے کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہو گی۔
پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ملک کے دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے اور ہر ایسی بات سے گریز کرنا چاہیے جو دینی جماعتوں، حلقوں اور مراکز کے درمیان بعد پیدا کرتی ہو۔ انہوں نے علماء کرام سے کہا کہ وہ تین باتوں کی طرف سب سے زیادہ توجہ دیں۔
- ایک یہ کہ مثبت انداز میں عوام تک قرآن و سنت کی تعلیمات کو پہنچائیں اور اپنے خطبات جمعہ، دروس اور بیانات میں عام مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی احکام و قوانین سے واقف کرانے کی کوشش کریں۔
- دوسری بات یہ کہ نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیں اور دینی مدارس اور سکول ہر سطح پر قائم کر کے نئی پود کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنے کا اہتمام کریں۔
- اور تیسری بات یہ کہ رفاہ عامہ اور خدمت خلق کے کاموں کی طرف توجہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ معاشرہ کے نادار لوگوں کی خدمت اور رفاہ عامہ کی جدوجہد ہمارے دینی فرائض میں سے ہے، جس کی بجا آوری ہم نے بالکل چھوڑ دی ہے اور اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ملک میں ہزاروں این جی اوز متحرک ہو گئی ہیں جو تعلیم، صحت اور خدمت عامہ کے دیگر کاموں کی آڑ میں اپنے نظریات اور ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم قومی زندگی کے اتنے بڑے شعبے کو این جی اوز اور مسیحی مشنریوں کے حوالہ نہ کر دیں بلکہ خود آگے بڑھ کر رفاہ عامہ کے کاموں میں دلچسپی لیں اور ہر علاقہ میں اسلامی این جی اوز قائم کر کے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں عوام کی خدمت کا اہتمام کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دینی مدارس بھی این جی اوز کی حیثیت رکھتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں شاندار خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ لاکھوں نادار افراد کو خوراک اور رہائش کی سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں، لیکن اس کام کو دوسرے شعبوں میں بھی پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ غیرملکی سرمایہ سے کام کرنے والی این جی اوز کے غلط کاموں کا راستہ بھی روک سکیں۔
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد میں قبائلی علاقوں میں دینی مدارس کے خلاف فوجی ایکشن، عرب مجاہدین کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کی اندھادھند گرفتاریوں اور مجاہدین کو امریکہ کے سپرد کرنے کی کارروائیوں پر شدید احتجاج کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے جو گیارہ ستمبر کے بعد ہونے والے حالات اور دہشت گردی کے عنوان سے حکومت اور دینی حلقوں کے درمیان کشیدگی کے فروغ کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرے اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات تجویز کرے۔
قرارداد میں ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھی اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن کے قیام کے مطالبہ کی تائید کریں تاکہ ہم کسی خدانخواستہ بڑے سانحہ کے رونما ہونے سے پہلے ان اسباب و عوامل کو کنٹرول کر سکیں جو ملک و قوم کے لیے کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
ایک قرارداد میں کشمیر، فلسطین، چیچنیا، مورو اور دیگر مسلم خطوں کے مجاہدین کی جدوجہد کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دینے کی روش کی مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری محض اپنے یک طرفہ مفادات کی خاطر مجاہدین آزادی کو دہشت گرد قرار دے کر قوموں کی آزادی کی مسلمہ روایات کی نفی کر رہے ہیں اور اگر اس حوالہ سے امریکی موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو خود امریکہ کی جنگ آزادی بھی دہشت گردی قرار پا کر بلاجواز ہو جاتی ہے۔
قرارداد میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کا کردار ادا کرنے کی بجائے اپنا اقوام متحدہ کا کردار بحال کرے اور مسلم دنیا کے خلاف معاندانہ اور جانبدارانہ طرز عمل پر نظر ثانی کرے۔ نیز فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل کرائے۔
ایک اور قرارداد میں افغانستان کے بزرگ عالم دین مولانا محمد نبی محمدیؒ، بھارت کے بزرگ عالم دین مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور مولانا شہاب الدین ندویؒ اور پاکستان کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی رشید احمد لدھیانویؒ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملی و قومی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔