سونامی، قطرینا اور اب زلزلہ: پوری نسل انسانی کے لیے ایک اشارہ

   
۱۸ اکتوبر ۲۰۰۵ء

زلزلہ کی خبر میں نے واشنگٹن میں سنی۔ دارالہدیٰ سپرنگ فیلڈ میں حسب معمول درس حدیث کی مصروفیات میں تھا کہ ایک نمازی نے خبر دی کہ پاکستان میں زلزلہ آیا ہے اور اسلام آباد میں خاصا نقصان ہوا ہے۔ دارالہدیٰ کے دفتر میں انٹرنیٹ پر بعض پاکستانی اخبارات دیکھے تو پتہ چلا کہ نقصانات کا دائرہ صرف اسلام آباد تک ہی محدود نہیں، بلکہ ہزارہ اور آزاد کشمیر کے بہت سے علاقے اس زلزلے کی زد میں آئے ہیں اور جانی و مالی نقصانات کی وسعت و شدت کا ابھی پوری طرح اندازہ نہیں ہو رہا۔ گوجرانوالہ میں گھر فون کیا تو بتایا گیا کہ گوجرانوالہ اور لاہور تک کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ زلزلہ کی شدت اس قدر تھی کہ مرکزی جامع مسجد کے مینار بری طرح جھول رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ہمارے اوپر آ گریں گے۔ مسجد کے صحن میں حوض کا پانی اچھل کر مسجد میں پھیل گیا تھا اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے گیٹ پر بعض چھوٹے مینار زمین بوس ہو گئے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خبروں کی شدت بڑھنے لگی اور زلزلے کی قیامت خیزی کا دائرہ وسیع تر دکھائی دینے لگا۔ تشویش و اضطراب طبعی بات تھی، ہزارہ سے تعلق رکھنے والے بعض دوستوں نے وہاں کی صورتحال بتائی تو اپنے اعزہ و اقرباء کے حوالے سے بھی تشویش بڑھتی گئی اور فون کے ذریعے تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ نو اکتوبر کو اپنے بیٹے عامر خان راشدی کے ہمراہ نیو جرسی پہنچا اور ایسٹ ونڈسر کے علاقہ کی ایک مسجد میں نماز تراویح ادا کی تو وہاں پاکستانی دوستوں سے مزید تفصیلات معلوم ہوئیں۔ وہاں پاکستانی بھائی دوستوں کو زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے فکرمند اور متحرک دیکھ کر اطمینان ہوا کہ مصیبت کا شکار ہونے والے پاکستانی اس آزمائش اور مصیبت میں بے سہارا نہیں ہیں، بلکہ دنیا بھر میں ان کے مسلمان اور پاکستانی بھائی ان کی امداد و تعاون کے لیے فکرمند ہیں۔

دس اکتوبر کو میری لندن کے لیے فلائٹ تھی۔ چھ گھنٹے کی فلائٹ تھی، مگر اس طرح کہ افطاری بھی جہاز میں کی اور سحری بھی جہاز میں ہوئی، اس لیے کہ درمیان کے فرق کے پانچ گھنٹے غائب ہو گئے تھے۔ طیارے پر سوار ہوا تو افطاری کا وقت تھا، اس کے صرف پانچ گھنٹے بعد فضا میں ہی سحری کا وقت ختم ہو رہا تھا۔ یونائیٹڈ ایئر کی فلائٹ تھی، اس لیے ان سے کوک، جوس، پانی اور چائے کے سوا کچھ نہیں لے سکتا تھا۔ نیو جرسی میں میرے میزبان جناب عبدالوحید نے جن کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے اور ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں، افطاری اور سحری کا سامان دے دیا تھا، اس لیے کوئی دقت نہیں ہوئی اور جب چھ گھنٹے کی پرواز کے بعد لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترا تو سورج طلوع ہو چکا تھا۔

ایئر پورٹ سے ساؤتھ آل پہنچا، ظہر تک آرام کیا اور ظہر کی نماز میں مسجد ابوبکر میں حاضری دی تو معلوم ہوا کہ جبوڑی ہزارہ کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا سید غلام نبی شاہ بھی موجود ہیں۔ جبوڑی زلزلہ میں زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔ ان سے ملاقات کر کے حالات معلوم کیے اور ان سے تعزیت کی۔ زلزلے کی تفصیلات اتنی ہولناک تھیں کہ کلیجہ منہ کو آتا تھا مگر صبر کے سوا کیا چارہ تھا۔ بالا کوٹ کے ساتھ ہمارا فکری اور قلبی تعلق ہے، اس کی تباہی کی دل خراش داستان نے دہلا کر رکھ دیا۔ حضرت مولانا قاضی خلیل احمد ہمارے بہت پرانے دوست ہیں، ان کے خاندان کے ساتھ جو بیتی، اس نے الگ اندوہناک کیا۔ ساؤتھ آل میں ہی جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم حضرت مولانا فضل رحیم صاحب، دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کے مہتمم مولانا اشرف علی اور جامعہ خالد بن ولید وہاڑی کے مہتمم حضرت مولانا ظفر احمد قاسم سے ملاقات ہو گئی۔ دو ماہ قبل دارالعلوم تعلیم القرآن کے سالانہ جلسہ میں وعدہ اور ارادہ کے باوجود شریک نہیں ہو سکا، اس پر مولانا اشرف علی سے معذرت کی۔ دوسرے دو بزرگوں سے پاکستان کی صورتحال، زلزلہ کی تباہ کاریوں اور دیگر بہت سے امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

حضرت مولانا منصوری کے ہاں حاضری ہوئی تو انہیں سب سے زیادہ مضطرب پایا۔ وہ خبریں اہتمام سے سنتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ اہم خبروں سے اپنے قریبی احباب کو بھی باخبر رکھتے ہیں۔ ان سے وقتاً فوقتاً معلومات ملتی رہیں۔ بزرگ عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کو پتہ چلا تو فون پر خیریت معلوم کی اور صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت اسلامیہ میں اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کے احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کو اس سمت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر عام لوگوں کے ایمان و یقین اور حوصلہ کو باقی رکھنے کے لیے بھی خصوصی محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ محنت علماء کرام ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔

مولانا سنبھلی کے بھانجے اور ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کے مدیر مولانا یحییٰ نعمانی بھی ان دنوں لندن میں ہیں، انہوں نے فون پر بات کی اور زلزلہ کے جانی و مالی نقصانات پر گہرے صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی کہ علماء کرام کو سیاست میں حکمران طبقے کا حریف بنے بغیر بھی اصلاح احوال کے لیے انہیں مثبت دعوت دینے کا اہتمام کرنا چاہیے اور علماء کرام کی ایک جماعت کو یہ فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔

میرے پاس لندن میں صرف دو دن تھے، اس لیے بہت سے حضرات سے خواہش کے باوجود ملاقات نہ کر سکا اور صرف فون کے رابطوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ مولانا منصوری کی رہائش گاہ پر ہی مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری تشریف لے آئے، ان کا تعلق مظفر آباد کی وادی نیلم سے ہے۔ ان کی برادری کے آٹھ افراد ایک مقام پر اور پندرہ افراد دوسرے مقام پر زلزلے میں جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ اور خاندان کے دیگر افراد کا اس وقت تک کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ان کا اضطراب دیکھا نہیں جا رہا تھا، مگر صبر و حوصلہ کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اور خود پاکستان جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ساؤتھ آل کے محمد اشرف خان صاحب کا تعلق ضلع باغ کے علاقہ بیس بگلہ سے ہے۔ ان کے خاندان کے بعض افراد جاں بحق ہوئے ہیں، مکانات گر گئے ہیں، مسجد و مدرسہ بھی زلزلہ کا شکار ہوئے ہیں اور وہ بھی وطن جانے کے لیے پابہ رکاب تھے۔

مسجد ابوبکر ساؤتھ آل کے نمازی اور منتظمین بھی پاکستان کے زلزلہ زدگان کے لیے امداد کی رقوم جمع کرنے میں مصروف تھے اور انہوں نے ”سیدنا ابوبکر ریلیف فنڈ“ قائم کر لیا ہے۔ دوسری جگہوں کے مسلمان اور پاکستانی بھی پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اس مہم میں مصروف ہیں۔ زلزلہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی وسعت، ہمہ گیری اور شدت اپنی جگہ پر ہے، لیکن اس پر پاکستانی اور بیرون ملک مسلمانوں اور پاکستانیوں نے جس بیداری اور اضطراب و بے چینی کا اظہار کیا ہے، اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عام مسلمان اور عام پاکستانی میں آج بھی انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کا جذبہ موجود ہے اور اگر انہیں صحیح قیادت میسر آ جائے تو مسلمان اس گئے گزرے دور میں بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق ”جسد واحد“ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔

مجھے گیارہ اکتوبر کو مسجد ابوبکر اور بارہ اکتوبر کو مرکزی جامع مسجد ساؤتھ آل میں نماز تراویح کے بعد کچھ گزارش کرنے کے لیے کہا گیا۔ مسجد ابوبکر کے ذمہ دار حضرات کی فرمائش تھی کہ زلزلہ کے حوالے سے بھی کچھ عرض کروں۔ میں نے گزارش کی کہ زلزلہ، طوفان اور اس قسم کی دوسری قدرتی آفات اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں، جن کے پیچھے بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں اور ان حکمتوں کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، مگر کچھ باتوں کی طرف اس حوالے سے ذہن جاتا ہے:

  1. ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب نسل انسانی کا ایک بڑا حصہ قیامت کی حقیقت اور وقوع سے غافل ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ قیامت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا کر یاددہانی کروا دیتے ہیں کہ ایک بڑا زلزلہ بپا ہونے والا ہے، بڑا طوفان آنے والا ہے اور بہت بڑی تباہی اور افراتفری مچنے والی ہے۔ اس کو یاد رکھو اور اس کے لیے تیاری کرو۔ اس حوالے سے آج کی دنیا کی مجموعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو صورتحال یہ ہے کہ نسل انسانی مجموعی طور پر قیامت کے تصور سے بیگانہ اور اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین سے غافل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کے تین مختلف حصوں میں سونامی، قطرینا اور زلزلہ کی جھلکیاں تھوڑے تھوڑے سے وقفے کے ساتھ دکھائی ہیں جو اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غصہ اس وقت کسی ایک علاقے اور قوم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پوری نسل انسانی کے ساتھ ہے۔ اس لیے ہمیں اس اشارے کو سمجھنا چاہیے اور پوری نسل انسانی کو توبہ و استغفار اور آسمانی تعلیمات و احکام کی طرف واپس لانے کی تدبیریں اختیار کرنی چاہئیں۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیوں میں ذکر فرمایا ہے کہ زلزلے کثرت سے آئیں گے اور ان کی تباہ کاریوں کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔ اس لیے ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے اور مادی اور روحانی دونوں حوالوں سے اس سے بچاؤ کی صورتیں اختیار کرنی چاہئیں۔
  3. تیسری بات یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جب معاشرے میں خباثتوں کا ظہور عام ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب سب پر آئے گا۔“ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے، تب بھی سب پر عذاب آئے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ہاں! جب بھی خباثتوں کی کثرت ہوگی اور روکنے والا کوئی نہیں ہو گا تو ایسا ہی ہو گا۔“

ہمیں ان حوالوں سے صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے امت کو مجموعی طور پر توبہ و استغفار کے راستے میں لانے کی کوشش کرنی ہو گی، کیونکہ توبہ و استغفار ہی ایسی چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter