ان دنوں ہمارے استاذ محترم حضرت قاری محمد انور صاحب مدینہ منورہ سے پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں، وہ گزشتہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن الکریم کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔میں نے قرآن کریم ان سے حفظ کیا تھا جب وہ گکھڑ میں مدرسہ تحفیظ القرآن کے صدر مدرس تھے، یہ ۱۹۶۰ء کی بات ہے۔ گکھڑ کے اس مدرسہ میں، جو محترم الحاج سیٹھی محمد یوسف مرحوم کے تعاون سے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدر دامت برکاتہم کی زیر نگرانی قائم ہوا تھا، اس کے پہلے مدرس حضرت قاری اعزاز الحق امروہیؒ تھے جو ہمارے قرآن کریم کے سب سے پہلے استاذ تھے۔ مدرسہ کا انتظام شہریوں کی ایک کمیٹی کے پاس چلا آرہا ہے اور جب کہ ہمارے حلقوں کی روایت ہے کہ کمیٹیوں اور مدرسین کا مزاج آپس میں نہ ملنے کی وجہ سے بسا اوقات عجیب سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مختلف مدرسین آتے جاتے رہے مگر جب محترم قاری محمد انور صاحب تشریف لائے تو نہ صرف یہ کہ ٹھہراؤ پیدا ہو گیا بلکہ ان کے ذوق اور محنت کی وجہ سے مدرسہ نے اس حد تک ترقی کی کہ اب گکھڑ شہر اور اردگرد کے دیہات میں سینکڑوں حفاظ دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن میں اکثریت حضرت قاری صاحب کی شاگرد ہے۔
وہ ہمارے خاندانی استاذ بھی ہیں، ہم بارہ بہن بھائیوں کی اکثریت ان کی شاگرد ہے اور ان سے ہم نے قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ میں نے اکتوبر ۱۹۶۰ء میں قرآن کریم حفظ مکمل کیا جب میری عمر بارہ سال تھی اور حضرت قاری محمد انور صاحب کا اٹھتی جوانی کا دور تھا۔ ان کے آنے سے پہلے میں مختلف اساتذہ سے کم وبیش بیس پارے حفظ کر چکا تھا لیکن ان کی کیفیت ایسی تھی کہ قاری صاحب نے ازسرنو مجھے سارا قرآن کریم یاد کرایا اور اس کے ساتھ ساتھ تلفظ کی تصحیح اور تجوید کے ضروری قواعد کی تعلیم کا بھی نئے سرے سے اہتمام کیا۔ وہ سالہا سال تک گکھڑ میں قرآن کریم پڑھاتے رہے، پھر سیٹھی محمد یوسف مرحوم نے بیرونی ممالک میں قرآن کریم کے حفظ کے مدارس قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس پروگرام میں قاری محمد انور صاحب کینیا چلے گئے اور دو سال تک وہاں خدمات سرانجام دیں، اس کے بعد سیٹھی محمد یوسف ہی کے پروگرام کے تحت وہ مدینہ منورہ گئے اور اب تک وہاں قرآن کریم کی تعلیم و تدریس میں مصروف ہیں۔
یہ سطور لکھتے ہوئے ان کے گکھڑ کے دور کا ایک اہم واقعہ ذہن میں آگیا ہے جو ریکارڈ کے لیے تحریر کر رہاہوں کہ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران، جو پاکستان قومی اتحاد کے زیر اہتمام بھٹو حکومت کے خلاف چلائی گئی تھی اور بھٹو حکومت نے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) کے نام سے ایک مستقل فورس قائم کر رکھی تھی، گکھڑ میں ہر جمعہ کے بعد تحریک کے مطالبات کے حق میں جلوس نکالے جاتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ نماز جمعہ کے بعد والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی قیادت میں جلوس کا آغاز ہوا تو جی ٹی روڈ پر ایف ایس ایف نے جلوس کو روکنے کے لیے پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں۔ جلوس کو آگے بڑھتے دیکھ کر ایف ایس ایف کے کمانڈر نے زمین پر ایک لکیر کھینچ کر اعلان کیا کہ اس لائن کو عبور کرنے والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ایف ایس ایف کے سپاہیوں نے رائفلیں تان لیں اور فائر نگ کے لیے پوزیشن میں آگئے۔ اس لکیر کے پاس پہنچ کر والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے کہا کہ میں اپنی مسنون عمر (۶۳سال) پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کی تمنا رکھتا ہوں یہ کہہ کر وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس ممنوعہ لکیر کو پھلانگ کر آگے بڑھ گئے، ان کے ساتھ جن دو ساتھیوں نے یہ لکیر عبور کی ان میں سے ایک ہمارے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب تھے اور دوسرے جمعیۃ علماء پاکستان کے حاجی سید احمد ڈار مرحوم تھے، ان کا یہ عزم دیکھ کر ایف ایس ایف کی تنی ہوئی رائفلیں جھک گئیں اور جلوس پورے وقار کے ساتھ آگے روانہ ہو گیا۔
قاری صاحب محترم کو اﷲ تعالیٰ نے تدریس اور تربیت کا خصوصی ذوق عطا فرمایا ہے، گکھڑ کے لوگ اب تک انہیں یاد کرتے ہیں اور ان کی تربیت و شفقت کا فیض حاصل کرنے والے شاگردوں کے دلوں سے ہر وقت ان کے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ کینیا میں انہوں نے دو سال کام کیا اور جب امتحانات ہوئے تو ان کا مدرسہ تمام مدارس میں نتائج کے لحاظ سے اول تھا جس پر انہیں خصوصی سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ مدینہ منورہ میں ۱۴۲۵ھ میں کم وبیش ساڑھے چار سو کے لگ بھگ مدارس کے طلبہ میں مقابلہ ہوا جو حفظ قرآن کریم کا بہت مشکل مقابلہ ہوتا ہے، انہوں نے اس میں بھی اول پوزیشن حاصل کی جس پر انہیں سند سے نوازا گیا۔ مدینہ منورہ میں وہ تحفیظ القرآن کے مدرسہ میں پڑھاتے ہیں اور ان کے تعلیم یافتہ بعض قاری حضرات حرمین شریفین کی مساجد و مدارس میں امامت اور تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ میں نے کئی بار انہیں مسجد نبویؐ کے برآمدوں میں اپنے شاگردوں کی منزلیں سنتے ہوئے دیکھا ہے جو صرف ان کے لیے نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی بڑے اعزاز کی بات ہے۔
قاری صاحب محترم گذشتہ دنوں گکھڑ تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ تھوڑا سا وقت الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے لیے مرحمت فرما دیں تو ہم ان کے چند پرانے شاگرد ان کے ساتھ بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرلیں گے۔ چنانچہ ۲ مئی کو ان کے ساتھ ایک نشست کا پروگرام بن گیا اور ان کے شاگردوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر، لاہور کے نامور خطیب مولانا خورشید احمد گنگوہی، میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر اور قاری منہاج الحق خان راشد اور دیگر بہت سے علماء کرام اور قراء کرام شریک تھے۔
میں نے شرکاء محفل کو بتایا کہ حضرت قاری محمد انور صاحب میرے صرف حفظ کے استاد نہیں ہیں بلکہ تقریر و خطابت کا فن بھی میں نے ان کی وجہ سے سیکھا ہے۔ وہ قرآن مجید حفظ کرانے کے دوران ہمیں حضرت قاری محمد شریف صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا علم تجوید پر رسالہ زینت القرآن پڑھایا کرتے تھے اور ہم میں سے بعض کو کلاس میں کھڑا کر کے وہ سبق تقریر کے انداز میں سنتے تھے، میں نے وہاں سے خطابت کا آغاز کیا تھا۔ پھر حضرت قاری صاحب موصوف کے استاذ محترم حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحبؒ کبھی کبھار گکھڑ تشریف لاتے تو مسجد میں ان کی تقریر کا اہتمام ہوتا، قاری محمد انور صاحب اس موقع پر مجھے تقریر کے لیے کھڑا کر دیتے اور اس کی باقاعدہ پہلے سے تیاری کراتے۔ چنانچہ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب انہوں نے مجھے پہلی بار تیاری کرا کے ایک جلسہ میں اسٹیج پر کھڑا کیا تو میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور میں نے تقریر بھی ایسی کی تھی کہ بعد میں حضرت والد محترم مدظلہ کو اس کی صفائی دینا پڑی تھی کہ بچہ ہے جذبات میں ایسی باتیں کہہ گیا ہے۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ مجھے تقریر کا فن حضرت قاری محمد انور صاحب کی توجہ سے حاصل ہوا اور میں اس باب میں بھی ان کو اپنا استاذ سمجھتا ہوں۔
اس نشست میں مولانا خورشید احمد گنگوہی اور پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر نے پرانی یادیں تازہ کیں اور قاری صاحب کے ساتھ اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کیا اور حضرت قاری صاحب نے بھی اپنے ماضی کو کریدا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا اپنے علاقے کے بڑے زمیندار تھے جبکہ ان کے والد محترم کا شوق تھا کہ ان کا بیٹا حافظ قرآن ہو۔ انہوں نے اپنے علاقے کے ایک بڑے دینی مدرسہ دارالعلوم ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قاری محمد انور صاحب کو حفظ کے لیے داخل کرا دیا جہاں انہوں نے قرآن کریم کی تعلیم کا آغاز کیا جبکہ تجوید انہوں نے مدرسہ تجوید القرآن کوچہ کندی گراں لاہور میں حضرت قاری فضل کریم صاحبؒ اور حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحب سے پڑھی اور اس کے بعد تدریس کے لیے گکھڑ آگئے۔
اس تقریب میں تلاوت قرآن کریم کی سعادت مدرسہ نصرۃ العلوم کے شعبہ تجوید کے صدر مدرس مولانا قاری سعید احمد نے حاصل کی جو ملک کے معروف قراء میں شمار ہوتے ہیں اور بہت اچھے لہجے میں تلاوت کرتے ہیں، نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور تجوید و قرأت کے تجربہ کار استاذ ہیں۔ میں نے ان کا تعارف محترم قاری محمد انور صاحب سے کرایا تو اس موقع پر عرض کیا کہ حضرت یہ آپ کی چوتھی پشت ہے اس لیے کہ قاری سعید احمد صاحب ہمارے شاگرد ہیں بلکہ انہوں نے جن قاری صاحب سے قرآن کریم یاد کیا ہے وہ بھی ہمارے شاگرد ہیں، اس طرح وہ قاری محمد انور صاحب کی چوتھی تعلیمی پشت شمار ہوتے ہیں۔ قاری محمد انور صاحب نے بتایا کہ یہ بھی ان کے والد صاحب کی خواہش اور دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ وہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں قرآن کریم کی تدریس و خدمت میں مصروف ہیں اور یہ بات ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں حوالوں سے اعزاز و افتخار کا باعث ہے۔
مولانا خورشید احمد گنگوہی نے اپنے خطاب میں اس نکتہ کی طرف بطور خاص توجہ دلائی کہ یہ قرآن کریم کے فیضان کی وسعت ہے کہ ہم لوگ جو قاری صاحب کے شاگرد ہیں کسی درس یا تقریر میں حوالہ کے لیے بھی قرآن کریم کی کوئی آیت یا جملہ پڑھتے ہیں تو اس کا ثواب سب سے پہلے قاری محمد انور صاحب کے کھاتے میں لکھا جاتا ہے کیونکہ ہم نے قرآن کریم ان سے پڑھا ہے۔
الغرض استاذ محترم کے ساتھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں یہ نشست بہت پر لطف رہی، پرانی یادیں تازہ ہونے کے ساتھ بہت سے دوستوں کی طویل عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی حتیٰ کہ بعض پرانے دوستوں کو ایک دوسرے کو پہنچاننے میں دقت پیش آئی اور پھر استاذ محترم قاری محمد انور صاحب کی پر سوز دعا پر یہ بابرکت محفل اختتام پذیر ہوئی۔