جدہ سے نیویارک تک سعودی عرب ایئر لائنز کی تیرہ گھنٹے کی نان سٹاپ فلائٹ ہے، اس پر نیویارک سے جدہ کا سفر میں نے اٹھارہ سال قبل کیا تھا، مگر جدہ سے نیویارک کا سفر کرنے کا اس سال موقع ملا۔ اتنی لمبی نان سٹاپ فلائٹ کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔ مسلسل چودہ پندرہ گھنٹے سیٹ پر بیٹھے رہنے سے تھکاوٹ اور اکتاہٹ کی جو کیفیت ہوتی ہے، اس تصور نے مزید اضافہ کر رکھا تھا کہ نیویارک کے جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر امیگریشن اور کسٹم حکام کا سامنا پیش آنے والا ہے۔ دو سال قبل میں جب یہاں آیا تھا تو تفتیش کے لمبے مرحلے سے گزرنا پڑا تھا، مگر اس بار خیر ہوئی کہ امیگریشن اور کسٹم دونوں کے مراحل میں ایک ایک دو دو رسمی سوالات سے بات آگے نہ بڑھی اور میں کسی پریشانی یا الجھن کے بغیر اپنا سامان اٹھائے ایئر پورٹ سے باہر آ گیا۔
امریکی ایئر پورٹس پر سامان کی ٹرالی مفت میں نہیں ملتی، بلکہ دو یا تین ڈالر مشین میں ڈالنے پڑتے ہیں۔ جدہ میں مجھے یہ بات یاد تھی، اس لیے اپنے میزبان قاری محمد اسلم شہزاد صاحب سے، جو میرے ہم زلف ہیں اور بنی مالک کی ایک مسجد میں سالہا سال سے امامت و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، میں نے اپنے قیام کے آخری روز کئی بار ذکر کیا کہ کچھ تھوڑے سے پیسے تبدیل کروانے ہیں، مگر نہ انہیں یاد رہا، نہ ہی میں یاد رکھ سکا اور جب طیارہ جدہ ایئر پورٹ سے اڑ کر کافی سفر طے کر چکا تھا تو یاد آیا کہ میرے پاس تو صرف ریال ہیں، ڈالر ایک بھی جیب میں نہیں ہے، ٹرالی کیسے حاصل کروں گا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا؟ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ نیویارک ایئر پورٹ پر میں نے اپنا سامان وصول کیا تو ٹرالی میسر نہ تھی، جبکہ میرے پاس ایک بڑے بیگ اور ایک دستی بیگ کے ساتھ زم زم کا ایک کین بھی تھا۔ لاچار خود ہی سارا سامان اٹھانا پڑا اور شاید ایک وجہ یہ بھی بنی کہ کسٹم کے کاؤنٹر پر کھڑی خاتون نے ایک سفید ریش بوڑھے کو اتنا سامان خود اٹھائے آتے دیکھا تو میرے پُر کیے ہوئے کسٹم کارڈ پر ایک نظر ڈالی اور ایک آدھ سوال پر اکتفا کرتے ہوئے بائی بائی کہہ دیا۔
کئی بار خیال آیا کہ متعلقہ امریکی حکام تک یہ بات پہنچاؤں کہ باہر سے آنے والے انٹرنیشنل مسافروں کے لیے ہوائی اڈوں پر سامان کی ٹرالی بلامعاوضہ فراہم کی جانی چاہیے۔ اگر لاہور ایئر پورٹ یہ خدمت کر سکتا ہے تو نیویارک کے ایئر پورٹ کو بھی اسے بوجھ محسوس نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ معاوضہ بہت زیادہ ضروری ہو تو سامان وصول کرنے والے ہال میں کرنسی کے تھوڑے بہت تبادلے کی سہولت ضرور مہیا ہونی چاہیے۔
ایئر پورٹ پر میرا بیٹا عامر خان دو بزرگ دوستوں مولانا حافظ اعجاز احمد اور بھائی برکت اللہ صاحب کے ہمراہ مجھے لینے کے لیے موجود تھا۔ ان کے ہمراہ کوئنز کے علاقے میں ”دارالعلوم نیویارک“ میں پہنچا۔ دارالعلوم نیویارک کے بارے میں اس کالم میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے چند باذوق دوستوں نے، جن میں برکت اللہ بھائی سرفہرست ہیں، درس نظامی کا یہ مدرسہ قائم کر رکھا ہے، اور میں جب بھی نیویارک آتا ہوں تو عام طور پر میرے میزبان یہی دوست ہوتے ہیں۔ دارالعلوم میں ان دنوں سالانہ امتحان میں رہا ہے اور میری آمد کی اطلاع پا کر انہوں نے مجھے بھی ممتحنین کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ تقریری امتحان ہے اور آج (پیر کو) ان سطور کی تحریر سے فارغ ہو کر میں نے علم الصیغہ، دروس البلاغۃ، قصص النبیین اور سیرت النبیؐ کے طلبہ کا امتحان لینا ہے۔
میں جمعرات کو یہاں پہنچا تھا، اس روز مکمل آرام کیا۔ جمعۃ المبارک کے اجتماع سے دارالعلوم میں خطاب کیا، جبکہ نماز جمعہ کے بعد بروک لین کی مکی مسجد میں جانا ہوا، جو نیویارک کی پرانی مساجد میں سے ہے۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست حافظ محمد صابر صاحب اس مسجد کے بانیوں میں سے ہیں اور خطابت کے فرائض بھی کم و بیش ربع صدی سے سرانجام دے رہے ہیں، جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں پڑھتے رہے ہیں، انتھک سماجی کارکن ہیں اور مسلم کمیونٹی کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں، سرکاری حلقوں میں بھی مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں، آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کے باضابطہ سیاسی مشیر ہیں، آزادئ کشمیر کی جدوجہد کے متحرک رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں اور مکی مسجد میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام اور مشائخ عظام کو خطاب کے لیے دعوت دیتے رہتے ہیں۔ میں سب سے پہلے ۱۹۸۷ء میں یہاں آیا تو اس مسجد میں کم و بیش ایک ہفتہ مسلسل قادیانیت پر درس دیے، تب سے یہاں کے منتظمین اور نمازی مجھ سے مانوس ہیں۔ جب بھی آتا ہوں، ایک آدھ جمعہ یا درس کے لیے مکی مسجد میں حاضری ضروری ہو جاتی ہے۔
میں نے نیویارک پہنچتے ہی حافظ محمد صابر صاحب سے رابطہ کیا تو بڑے خوش ہوئے اور بتایا کہ کل جمعہ کی نماز کے بعد ہم مکی مسجد کی تعمیرِنو کے کام کا آغاز کر رہے ہیں، اس کے لیے ایک باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے، اس لیے آپ دارالعلوم میں جمعہ پڑھنے کے فوراً بعد یہاں آ جائیں۔ میں جب بھائی برکت اللہ صاحب اور عامر خان کے ہمراہ مکی مسجد پہنچا تو امریکہ کے معروف مسلم رہنما امام سراج وہاج خطاب کر رہے تھے۔ سراج وہاج سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے لیڈر ہیں، نومسلم ہیں، پہلے نبوت کے دعویدار الیجا محمد کے ساتھ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو صحیح العقیدہ مسلمان ہوئے اور بڑے حوصلے اور جرأت کے ساتھ مسلمانوں کی راہ نمائی کر رہے ہیں۔ بروک لین میں ان کا اپنا مرکز اور مسجد ہے، میں نے کئی سال قبل اس مرکز میں حاضری دی تھی اور امام سراج وہاج سے انٹرویو بھی کیا تھا۔ طویل عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ اپنے خطاب میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مشکلات کے ذکر کے علاوہ ان کے حل کے سلسلے میں رہنمائی کر رہے تھے۔ ان کے بعد گجرات پاکستان سے تشریف لانے والے نوجوان عالم دین مولانا صاحبزادہ شہباز چشتی نے تعمیرِ مسجد کی اہمیت پر خطاب کیا۔ میرے بارے میں حافظ محمد صابر صاحب نے اعلان کیا کہ ان کا تفصیلی درس مغرب کی نماز کے بعد ہو گا اور اب یہ مکی مسجد کی تعمیرِنو کے کام کا دعا کے ساتھ آغاز کریں گے۔
اس کے بعد تقریب کے شرکاء اس مقام پر جمع ہوئے جہاں سے پرانی مسجد کو شہید کرنے کے لیے کھدائی کا کام شروع کیا جا رہا تھا۔ ہم سب نے وہاں دعا کر کے کھدائی کا آغاز کیا۔ میں دعا کے موقع پر سوچ رہا تھا کہ ہم نے اس تقریب کو عنوان تو تعمیرِنو کے آغاز کا دیا ہے، مگر عملاً کھدائی (تخریب) شروع کر رہے ہیں۔ یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ تعمیرِنو کے لیے تخریب ضروری ہوتی ہے۔ جب تک پہلا ڈھانچہ زمین بوس نہ ہو، نئی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔ مگر پورے عالم اسلام میں ہم نے نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پرانے نوآبادیاتی نظام کو جوں کا توں باقی رکھتے ہوئے اس کی مرمت پر تعمیرِنو کا بورڈ آویزاں کر رکھا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم امتِ مسلمہ کی تعمیرِنو کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہوئی کہ حسنِ اتفاق سے مکی مسجد بروک لین کی تعمیرِنو کے آغاز کی تقریب میں شرکت کا موقع مل گیا۔ مکی مسجد کے لیے چار مکان خریدے گئے ہیں، مجموعی طور پر بائیس ہزار مربع فٹ کا رقبہ باقاعدہ تعمیر میں شامل ہو گا، ایک سال میں مسجد کی تعمیر مکمل ہو گی اور کم و بیش چار ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔
مغرب کی نماز کے بعد میں نے مسجد کی تعمیر ہی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کیں، خاص طور پر مسجد نبویؐ کی اس تعمیرِنو کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا، جو امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی تھی۔
ہفتہ کا دن ہم نے دارالعلوم میں گزارا، البتہ بروک لین کے ایک میڈیکل سنٹر میں حافظ محمد صابر صاحب کے اصرار پر میڈیکل چیک اپ کے لیے حاضری دی۔ ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب لاہور سے تعلق رکھتے ہیں، ممتاز معالجین میں سے ہیں اور علمائے کرام کے ساتھ خصوصی مہربانی فرماتے ہیں۔ مجھے کچھ عرصے سے کولیسٹرول کی زیادتی کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے، جس کی وجہ سے صحت کے حوالے سے مختلف مسائل پیش آتے رہے ہیں۔ میرے پاکستانی معالجین نے مجھ سے گوشت چھڑوا رکھا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے دال سبزی پر گزارہ کر رہا ہوں۔ اب دیکھیں ڈاکٹر اعجاز صاحب میرے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں کہ یہ بھی بہرحال لاہور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
اتوار کو صبح کی نماز کے بعد بظاہر کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں نے اور عامر خان نے تھوڑی دیر سونے کا پروگرام بنا لیا، مگر ابھی لیٹے ہی تھے کہ بھائی برکت اللہ صاحب آئے اور بتایا کہ اتوار کو صبح ہم سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جایا کرتے ہیں، ہم بھی تیار ہو گئے۔ دارالعلوم سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا اچھا خاصا قافلہ تھا۔ اتوار کو یہاں چھٹی ہوتی ہے اور اس دن کے پہلے حصے کا مصرف ان دوستوں نے یہ رکھا ہوا ہے۔ سمندر کے کنارے پہنچے تو بے شمار لوگ کنڈیاں اور جال لیے وہاں اس کام میں مصروف تھے۔ خوب گہما گہمی تھی اور بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اپنے اپنے ہتھیار سنبھالے مچھلیوں کا شکار کر رہے تھے۔
ہمارے گوجرانوالہ کے پرانے دوست قاری محمد یوسف عثمانی صاحب کے فرزند عزیز محمود نیویارک میں رہتے ہیں، وہ اس وقت مجھ سے ملنے کے لیے آ رہے تھے، ہم نے فون کر کے ان کا رخ بھی سمندر کے کنارے کی طرف موڑ دیا، وہ ملاقات کے لیے وہیں پہنچے۔ میں نے محمود میاں کی والدہ محترمہ کی وفات پر ان سے تعزیت کی۔ کچھ دیر ہم اکٹھے رہے اور مچھلی کے شکار کی گہما گہمی سے محظوظ ہوتے رہے۔ ہمارے قریب ہی ایک ہندو خاندان نے ڈیرہ لگا لیا، معلوم ہوا کہ وہ پوجا پاٹ کے لیے آئے ہیں۔ اور بھی بعض حضرات اسی مقصد کے لیے آئے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور اپنا تعارف کرایا، لکھنؤ سے تعلق رکھتے ہیں، ڈاکٹر نیگندراپی ڈوبے ان کا نام ہے، سال کا کچھ حصہ نیویارک میں گزارتے ہیں اور ہیلتھ کے حوالے سے کسی این جی او کے سربراہ ہیں۔ ان سے مختصر گفتگو ہوئی۔
ظہر کے وقت ہم نے جرسی سٹی میں رہنے والے ایک دوست میاں بشارت صاحب کے ہاں حاضری کا وعدہ کر رکھا تھا۔ وہ گوجرانوالہ کے قلعہ دیدار سنگھ ٹاؤن کے ناظم میاں طارق اور حلقہ گکھڑ کے سابق ایم پی اے میاں مظہر جاوید کے بھائی ہیں اور نیویارک میں کنسٹرکشن کا بزنس کرتے ہیں۔ جمعہ کے روز مکی مسجد بروک لین میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔ حافظ محمد صابر نے بتایا کہ میاں بشارت کی والدہ محترمہ کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا ہے، اس لیے میں بھی ان کے ہاں جانا چاہتا ہوں اور آپ کے ساتھ چلوں گا۔ چنانچہ اتوار کو دوپہر کا کچھ وقت ان کے ہاں گزارا، ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت اور دعائے مغفرت کی۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور دوست بھی اس موقع پر موجود تھے، ان کے ساتھ پاکستان کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیالات ہوا۔
آج دوپہر کو دارالعلوم نیویارک کے چند طلبہ کا امتحان لینے کے بعد نماز مغرب بروک لین کی ایک مسجد میں پڑھنے کا پروگرام ہے، جہاں مختصر بیان ہو گا اور کل صبح واشنگٹن کے لیے روانہ ہو جائیں گے، جہاں مولانا عبد الحمید اصغر نے دار الہدیٰ میں شام کو ایک اجتماع کا اہتمام کر رکھا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔