بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا محمد یعقوب طارق کا شکر گزار ہوں کہ یاد فرمایا، حضرات علماء کرام کی زیارت ہوئی، آپ سے ملاقات ہوئی، اور ایک اچھی مجلس میں جہاں جامعہ فریدیہ کے فضلاء نے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری حاضری قبول فرمائیں۔ چند باتیں عرض کروں گا مگر ابتدا ایک لطیفے سے کروں گا۔ ہمارے نقیب حضرات کو بہت شوق ہوتا ہے کہ انہوں نے خطیب کو دعوت دینے کے لیے پانچ سات لقب بولنے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ لاہور میں جلسہ تھا، سٹیج سیکرٹری نے مجھے دعوت دینے کے لیے آٹھ دس لقب بول دیے، ان میں ایک لفظ تھا ”بین الاقوامی شخصیت“ میں نے گفتگو کے آغاز میں کہا کہ انہوں نے یہ بالکل ٹھیک کہا ہے، میں ان کا شکر گزار ہوں۔ میں واقعی بین الاقوامی شخصیت ہوں کہ میرا دادا پٹھان، دادی گجر، والدہ راجپوت اور سسرال ارائیں ہیں، میرے بین الاقوامی ہونے میں کیا شک ہے۔ میرے پاس چار سمیں ہیں جہاں جس کی ضرورت ہوتی ہو وہ استعمال کر لیتا ہوں۔
مجھ سے قبل مولانا معاویہ اعظم طارق نے جو گفتگو فرمائی ہے میں اس کی تائید میں صحیح بخاری کا ایک قول نقل کروں گا۔ امام بخاریؒ نے کتاب العلم میں امام ربیعۃ الرائےؒ کا یہ قول نقل کیا ہے ’’لا ینبغی لاحد عندہ شیء من العلم ان یضیع نفسہ‘‘ کہ جس آدمی کے پاس کچھ تھوڑا بہت بھی علم ہے اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضائع کرے۔ اس لیے کسی عالم دین کو جسے احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر مہربانی فرما رکھی ہے اور علم کا کوئی حصہ دے رکھا ہے تو اسے خود کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ اپنے آپ ضائع کرنے کی صورتیں مولانا نے آپ سے بیان کر دی ہیں، میں نہیں دہراؤں گا۔ صرف اتنی بات عرض کروں گا کہ آپ دین اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے کے طور پر معاشرے میں جا رہے ہیں تو اپنے آپ کو ضائع ہونے سے بچائیں، اپنا وقار، استغنا قائم رکھتے ہوئے اور اپنی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے دین، ملک اور قوم کی خدمت کریں۔ یہ میں نے پہلی بات مولانا صاحب کی بات کی تائید میں عرض کی ہے۔
اس کے بعد آج کے حالات کے تناظر میں امام بخاریؒ کی یہ بات ذکر کروں گا کہ بخاری شریف میں ان کا طرز استدلال اور دائرہ استدلال کیا ہے؟ کیوں کہ آج استدلال کے دائرے، معیارات اور لہجے تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ قرآن پاک کی بات تو ٹھیک ہے، قرآن پاک کے بعد کوئی اور بات ہم نہیں مانیں گے۔ ہمارا قرآن پاک پر ایمان ہے، حدیث پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، حدیث حجت نہیں ہے۔ سو، ڈیڑھ سو سال سے یہ بات چل رہی تھی، اب اس نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ اب کوئی شخص آپ کی بات پر یہ نہیں کہے گا کہ میں حدیث کو نہیں مانتا، بلکہ اب یہ صورتحال ہے کہ آپ کوئی مسئلہ بیان کریں گے تو جواب آئے گا کہ قرآن خاموش ہے۔ اس کا مطلب بھی وہی ہے کہ جو بات قرآن میں نہیں ہے میں اسے نہیں مانتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید، حدیث رسولؐ، آثار صحابہؓ اور آثارِ تابعینؒ، امت کے اجماعی تعامل، اور استدلال کے دائروں کو ذہن میں تازہ کر لیں۔
یہ بات نئی نہیں ہے بہت پرانی ہے۔ مسند دارمی کی روایت ہے کہ صحابی رسول حضرت عمران بن حصینؓ اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا، اس نے سلام عرض کیا اور کہا کہ میں نے ایک مسئلہ پوچھنا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے مسئلہ قرآن سے بتانا ہے۔ حضرت عمران بن حصینؓ ذرا جلالی بزرگ تھے۔ آپؓ نے اس سے کہا کہ پہلے یہ بتاؤ کہ آج تم نے فجر کی نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا دو رکعتیں۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟ اس نے کہا نہیں! تو آپؓ نے فرمایا کہ پھر دو رکعتیں کیوں پڑھی تھیں؟ پھر اس سے پوچھا کہ دو رکعتوں میں کتنے سجدے کیے تھے؟ اس نے کہا چار! آپ نے پوچھا کہ ان چار سجدوں کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ پھر چار سجدے کیوں کیے تھے؟ اس پر اس آنے والے نے سمجھ لیا کہ ٹھیک ہے بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ہر مسئلہ قرآن میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اُس زمانے اور آج کے زمانے کا فرق یہ ہے کہ اُس زمانے میں بات سمجھ میں آتی تھی تو انڈرسٹینڈ کر جاتے تھے، آج بات سمجھ میں نہیں آتی تو سٹینڈ ہو جاتے ہیں کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔
یہ جلالی اور الزامی جواب تھا، ایک جمالی جواب بھی عرض کرتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوفہ کی مسجد کے ہفتہ وار درس دیا کرتے تھے۔ ایک بار اپنے درس کے دوران یہ بات فرمائی کہ ”لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق اللہ“ کہ اللہ تعالیٰ نے گودنے والیوں، گدوانے والیوں، بال اکھاڑنے والیوں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔ یہ اس زمانے کا فیشن تھا کہ عورتیں دانت رگڑ کر چھوٹے کیا کرتی تھیں، بال اکھاڑا کرتی تھیں اور ہاتھوں پر نام گدوایا کرتی تھیں۔ جب حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے، تو اس پر ایک خاتون ام یعقوبؓ نے ان سے برسرعام سوال کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت کا ذکر کر رہے ہیں تو کیا یہ بات قرآن کریم میں موجود ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت کا ذکر قرآن میں ہی ہو سکتا ہے۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ کوئی ہمارے جیسا مولوی ہوتا تو کہتا کہ قرآن میں نہیں ہے تو پھر وہ خاتون جو کر سکتی تھی کرتی، لیکن جواب دینے والے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ تگڑے مولوی تھے، انہوں نے فرمایا کہ ہاں، یہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ اس خاتون نے کہا کہ میں نے بھی قرآن کریم پڑھا ہے اس میں یہ بات کہیں بھی نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ”ما قرأتیہ، لو قرأتیہ لوجدتیہ“ کہ تم نے قرآن کریم پڑھا ہی نہیں ہے اگر پڑھا ہوتا تو اس میں یہ مل جاتا۔ وہ عورت بولی کہ خدا کی قسم میں نے حرف بہ حرف قرآن کریم کی تلاوت کی ہے اس میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور ام یعقوبؓ کا مکالمہ ہو رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ہے، جبکہ وہ کہتی ہے کہ قرآن میں نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ تم نے قرآن مجید کی سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد پڑھا ہے ”ما اٰتکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا“ کہ یہ میرا رسول اور نمائندہ ہے، یہ تمہیں جو چیز دے وہ لے لو، جو کہے اسے مان لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ!؟ ام یعقوب نے کہا یہ تو میں نے پڑھا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق اللہ“ (کتاب اللباس، باب المستوشمۃ) یہ الفاظ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں اور حضورؐ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو وہ کہیں اسے مان لو۔ اس لیے یہ قرآن مجید کے لفظوں میں حصہ ہو یا نہ ہو، قرآن مجید کا مصداق ضرور ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ تفسیر قرطبی میں سورۃ الحشر کی اسی آیت کریمہ کے تحت درج ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص کو حالتِ احرام میں کوئی سلا ہوا کپڑا پہنے دیکھا تو اس سے کہا کہ حالتِ احرام میں مرد کو سلا ہوا کپڑا پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ اس شخص نے سوال کیا کہ کیا یہ مسئلہ قرآن میں ہے؟ آپؓ نے فرمایا ہاں قرآن میں ہے۔ اسے بھی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے یہی جواب دیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جس کام سے روکیں اس سے رک جاؤ‘‘ اور میں نے خود اللہ کے نبیؐ سے سنا ہے کہ مرد کے لیے حالتِ احرام میں سلا ہوا کپڑا پہننا جائز نہیں ہے، اس لیے نبی اکرمؐ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی طرف سے ہی ہے۔
حتیٰ کہ حضرت امام شافعیؒ جو اہل سنت کے چار بڑے ائمہ میں سے ہیں، اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ تفسیر قرطبی میں اسی آیت کے تحت حضرت امام شافعیؒ کا یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ کسی روز اپنی محفل میں موج میں آ کر فرما دیا کہ آج جو مسئلہ پوچھو گے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کروں گا۔ ایک شاگرد نے سوال کر دیا کہ استاذ محترم! حالتِ احرام میں بھڑ مارنا جائز ہے یا نہیں؟ حالتِ احرام میں کسی جانور کو مارنا درست نہیں، البتہ موذی جانور کو مارنے کی اجازت ہے۔ امام شافعیؒ نے جواب دیا کہ ہاں، حالتِ احرام میں بھڑ مارنا جائز ہے۔ اس نے سوال کیا کہ یہ قرآن کریم میں کہاں ہے؟ حضرت امام شافعیؒ نے سورہ الحشر کی مذکورہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میرا رسول جس کام کے کرنے کا حکم دے وہ کرو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ، جبکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے” علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین“ کہ میرے بعد میرے خلفائے راشدینؓ کی اتباع بھی تم پر لازم ہے۔ اور حالتِ احرام میں بھڑ کو مارنے کا یہ سوال خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطابؓ سے کیا گیا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ جائز ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ فرمان ”ما اٰتکم الرسول فخذوہ“ کے تحت داخل ہے اور سنتِ نبویؐ کا حصہ ہے اور ارشادِ نبویؐ قرآنی تعلیمات کا حصہ ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ بھی قرآن کریم کے احکام میں موجود ہے۔
تیسری بات یہ عرض کروں گا کہ آپ نے بخاری شریف ”انما الاعمال بالنیات“ سے لے کر ”ونضع الموازین القسط“ تک پڑھی ہے ۔ اس میں امام بخاریؒ کا طریقہ یہ ہے کہ حدیث بیان کر کے مسئلہ مستنبط نہیں کرتے، بلکہ مسئلہ بیان کر کے دلیل میں حدیث لاتے ہیں۔ یہ طرزِ استدلال فقہاء کا ہے۔ محدثین کا طریقہ کار یہ ہے کہ حدیث بیان کر کے مسئلہ نکالتے ہیں، اور فقہاء کا طریقہ یہ ہے کہ مسئلہ بیان کر کے دلیل میں حدیث لاتے ہیں۔ اور امام بخاری نے صحیح البخاری میں فقہاء کا طرز اپنایا ہے کہ ترجمۃ الباب میں اپنا موقف قائم کرتے ہیں اور اس پر حدیث سے دلیل لاتے ہیں۔ ”فقہ البخاری فی تراجمہ“ امام بخاری کا ترجمۃ الباب عنوان نہیں بلکہ ان کا فقہی موقف ہوتا ہے کہ اس مسئلے پر میرا یہ موقف ہے۔ اس پر پہلی دلیل قرآن مجید سے لاتے ہیں، دوسری دلیل حدیث مبارکہ سے اور تیسری دلیل آثارِ صحابہؓ اور آثارِ تابعینؒ سے لاتے ہیں۔ پہلی دلیل قرآن مجید ہے، اگر قرآن مجید کی کوئی آیت دلیل نہیں ہے تو دلیل حدیثِ نبویؐ ہے۔ اور ان دونوں کی وضاحت کے لیے آثار صحابہؓ اور آثار تابعینؒ لاتے ہیں۔ پہلی روایت سے لے کر آخری روایت تک امام بخاریؒ کی یہی ترتیب ہے۔ یہ اہل السنت والجماعت کا دائرہ استدلال ہے کہ قرآن مجید پہلی دلیل، حدیث مبارکہ دوسری دلیل اور آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین تیسری دلیل ہے۔ یہ تینوں ہماری دلیلیں ہیں۔ یہ ہمارا دائرہ استدلال ہے۔
آج کے دور میں اسے ذہن میں تازہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ آج آپ کو اسی قسم کے مسائل پیش آئیں گے کہ دلیل کہاں سے لائے۔ دلیل قرآن مجید سے، حدیث مبارکہ سے یا آثارِ صحابہ و تابعین سے لائیں گے۔
آپ نے بخاری شریف میں سب سے پہلے کتاب الایمان پڑھی ہے اور سب سے آخری کتاب ”کتاب التوحید والرد علی الجہمیۃ وغیرھم“ پڑھی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمانیات بھی ضروری ہیں اور غلط ایمانیات سے براءت بھی ضروری ہے۔ پہلا باب پازیٹو اور آخری باب نیگیٹو ہے۔ امام بخاریؒ نے کتاب الایمان میں ایمانیات بیان کیں اور کتاب التوحید والرد علی الجہمیۃ میں غلط عقائد اور عقائد کی غلط تعبیرات کا رد کیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف مثبت ایمان کافی نہیں ہے، بلکہ جس طرح صحیح کو صحیح کہنا ایمان کا حصہ ہے، اسی طرح غلط کو غلط کہنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ یہ بات آج کے دور کے حوالے سے اس لیے ضروری ہے کہ آج کے عالمی فلسفے کا ہم سے یہ مطالبہ ہے کہ پازیٹو بات کیا کرو ، نیگیٹو نہ کیا کرو۔ اپنی بات کرو، دوسروں کی نفی کیوں کرتے ہو؟ یہ صرف اخباری بات نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکی صدر بل کلنٹن اپنی صدارت کے دور میں جدہ تشریف لائے تھے اور علماء سے خطاب کیا تھا۔ انہوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ جب تک آپ عقیدے کی تلقین اور دوسروں کی نفی نہیں چھوڑتے ہماری آپ کے ساتھ پوری دنیا میں مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ آپ اپنے آپ کو صحیح کہیں، مگر دوسروں کو غلط نہ کہیں۔ میں نے اس پر اس زمانے میں لکھا تھا کہ یہی مطالبہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوا تھا۔ مکہ کے ستر سرداروں کا وفد جناب ابو طالب کے پاس آیا تھا کہ بھتیجے سے بات کراؤ۔ مذاکرات ہوئے تھے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل کی براہ راست ملاقات ہوئی تھی۔ کفارِ مکہ نے دو پیش کشیں کی تھیں۔
- انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر پابندیاں ختم کرتے ہیں، آپ حرم میں آ کر نماز پڑھیں، قرآن مجید کی تلاوت کریں ، آپ اللہ کی جتنی تعریف کریں، صفات بیان کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لیکن صرف یہ مہربانی کریں کہ ہمارے بتوں کو کچھ نہ کہیں، ہمارے خداؤں کی نفی نہ کریں۔
- دوسری پیشکش یہ کی کہ ہم آپ کے ساتھ حرم میں نماز میں شریک ہوں گے، عبادت میں شریک ہوں گے، لیکن کبھی کبھی آپ بھی ہمارے بتوں کی پوجا میں شریک ہو جایا کریں۔ اس پیشکش کے جواب میں سورۃ الکافرون نازل ہوئی: ’’قل یا ایھا الکافرون لا اعبد ما تعبدون ولا انتم عابدون ما اعبد ولا انا عابد ما عبدتم‘‘۔ یہ پوری سورت اس کی تردید میں آئی ہے۔
میں نے کالم میں لکھا کہ یہ سوال پرانا ہے۔ یہ سوال ابو جہل نے بھی کیا تھا جو آج کیا جا رہا ہے۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ ابھی مولانا معاویہ اعظم ذکر فرما رہے تھے کہ آج کی نئی نسل کے ذہنوں میں الحاد، زندقہ پرورش پا رہا ہے تو اس کا رد بھی ایمان کا تقاضا ہے۔
اس پر ایک بات ذہن میں آ گئی ہے عرض کر دیتا ہوں کہ نئی نسل گمراہ ہو رہی ہے تو دیکھنا چاہیے کہ اسے کون گمراہ کر رہا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ اگر آپ برتن خالی رکھیں اور اسے چوک میں رکھ دیں تو کیا آپ کسی کو روک سکیں گے کہ وہ جو مرضی ہو اس میں ڈال دے؟ اگر آپ نے برتن خود پر کیا ہو گا تو کوئی اس میں کچھ نہیں ڈال سکے گا، لیکن آپ نے اس میں کچھ نہیں ڈالا تو کسی کو کیسے روک سکیں گے؟ نئی نسل کے ذہن میں ہم نے کچھ نہیں ڈالا۔ میں سوسائٹی کی صورتحال عرض کر رہا ہوں کہ اس کے پیدا ہوتے وقت جو کلمہ اس کے کان میں پڑا تھا ہم نے اسے وہ نہیں یاد کرایا تو اگر آج کا بچہ گمراہ ہوا ہے تو بے خبری کی وجہ سے گمراہ ہوا ہے۔ ایک طرف سے بالکل خالی الذہن کہ ضروریات دین کی تعلیم بھی نہیں دی گئی اور دوسری طرف موبائل کی شکل میں گمراہی کا جنگل اسے تھما دیا گیا تو اسے گمراہ ہونے سے کونسی طاقت بچا سکتی ہے؟ لیکن اس گمراہی میں اس بیچارے کا قصور کیا ہے؟ میں اس حوالہ سے نئی نسل کا وکیل ہوں کہ اس کا قصور نہیں ہے، یہ ہمارا قصور ہے، نئی نسل گمراہ ہو رہی ہے تو ہماری حرکتوں کی وجہ سے گمراہ ہو رہی ہے۔ اس لیے میں عرض کروں گا کہ نئی نسل کو سنبھالیے، اسے ڈانٹنے اور دھتکارنے سے پرہیز کرتے ہوئے محبت اور پیار کے ساتھ اس کے برتن کو صاف کر کے اس میں صحیح چیز ڈالیے تو ٹھیک ہو جائے گا۔
میں نے عرض کیا ہے کہ امام بخاریؒ نے ہمیں دائرہ استدلال بھی بتایا ہے، اور بتایا ہے کہ ایمانیات کے تقاضے کیا ہیں؟ آج کا دور پھر ایمانیات کی تلقین اور ایمانیات کو پکا کرنے کا دور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام بخاریؒ کے اسلوب اور اہلِ سنت کے دائرہ استدلال کے مطابق اپنے فرائض صحیح طور پر سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔