وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے بارے میں زیر سماعت مقدمہ کو غیر متعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے اور چیف جسٹس صاحب نے اس کے ساتھ یہ ریمارکس دیے ہیں کہ جس دور میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت کے حالات مختلف تھے اس لیے ان حالات میں نافذ کیے گئے قوانین و احکام کو آج کے دور پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، جبکہ مقدمہ کے التوا کے اسباب میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے ’’ربٰوا‘‘ کی جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ مروّجہ سود سے مختلف ہے اور بینک انٹرسٹ کی شرعی حیثیت کا تعین اس حوالہ سے مشکل ہے ،اس لیے جب تک ربٰوا، سود اور بینک انٹرسٹ کے بارے میں کوئی واضح بات طے نہ ہو جائے اس مقدمہ کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقدمہ کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ دستور پاکستان میں حکومت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں رائج غیر شرعی سودی نظام و قوانین کے جلد از جلد خاتمہ کے لیے فوری اقدامات کرے لیکن ۱۹۷۳ء میں جاری کی جانے والی اس دستوری ہدایت پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ اس دوران مختلف سوالات اٹھائے گئے جن میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ مروّجہ سودی نظام کو متبادل سسٹم طے کیے بغیر ختم کر دینے سے ملک کا معاشی نظام معطل ہو جائے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل نظام کا جامع ڈھانچہ مرتب کر کے پیش کر دیا جسے تمام متعلقہ حلقوں نے قابل عمل قرار دیا اور امید کی جانے لگی کہ اب سودی نظام سے ملک و قوم کو نجات دلانے کی کوئی صورت نکل آئے گی۔ لیکن بات آگے نہ بڑھی تو بعض دینی حلقوں نے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جہاں ایک اور سوال سامنے لایا گیا کہ قرآن و سنت میں جسے ’’ربوٰا‘‘ قرار دے کر حرام قرار دیا ہے، مروّجہ بینک انٹرسٹ پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل اس سے قبل قرار دے چکی ہے کہ بینک انٹرسٹ ’’ربوٰا‘‘ کی ہی ایک شکل ہے اور بینکاری کے نظام کو اس انٹرسٹ سے پاک کرنا شرعی اور دستوری تقاضہ ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں بھی تفصیلی بحث کے بعد یہی فیصلہ ہوا اور عدالت نے حکومت کو سود سے متعلقہ قوانین کو شریعت کے مطابق تبدیل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایلیٹ بینچ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ نے بھی وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو سودی قوانین ختم کرنے اور وفاقی شرعی عدالت کا پیش کردہ متبادل نظام نافذ کرنے کا حکم دیا۔
اس پر ملک کے کچھ مالیاتی اداروں نے سپریم کورٹ میں اس فیصلہ پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی، اس اپیل کی سماعت کے لیے عدالتی روایات سے ہٹ کر اصل فیصلہ صادر کرنے والے بینچ کی بجائے نئے شریعت ایلیٹ بینچ کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے وفاقی شرعی عدالت کو اس کیس کی نئے سرے سے سماعت کا حکم دیا اور کم و بیش اٹھارہ سال کی طویل عدالتی کاروائیوں کے بعد معاملہ پھر ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر واپس چلا گیا۔ خاصہ عرصہ انتظار کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی تو ان تمام نکات کو ازسرنو زیر بحث لانا ضروری سمجھا گیا جن پر دو عشروں تک اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعہ بینچ میں بار بار بحث ہو چکی ہے اور فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یہ سوالات ملک بھر میں سرکردہ علماء کرام کو پھر سے بھجوائے گئے جن پر تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کے مشترکہ علمی فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے مختلف مکاتب فکر کے جید مفتیان کرام کی مشاورت کے ساتھ اس سوالنامہ کا متفقہ جواب وفاقی شرعی عدالت کو بھجوایا، جبکہ مقدمہ میں دینی حلقوں کی وکالت اور نمائندگی کرنے والے گروپوں نے بھی ان نکات پر سیر حاصل بحث کی۔ مگر نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کہ حالات کے بدل جانے اور ’’ربوٰا‘‘ کی تعریف کے حوالہ سے ازخود پیدا کیے جانے والے کنفیوژن کا سہارا لے کر مقدمہ کی سماعت کو غیر معینہ عرصہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا، حالانکہ یہ دونوں باتیں حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حالات یہی تھے کہ قرض اور تجارت دونوں شعبوں میں سود کا معاملہ جاری تھا، نبی کریمؐ نے اس جاری سودی نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کر کے غیر سودی معیشت کا نظام قائم فرما دیا تھا جو کہ کم و بیش بارہ سو سال تک ریاست و حکومت کی سطح پر دنیا کے مختلف حصوں میں پوری کامیابی کے ساتھ جاری رہا ہے۔
جہاں تک ربوٰا کی تعریف کا تعلق ہے، اسے بعض حلقوں کی طرف سے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی مگر اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان تینوں اس کے بارے میں واضح فیصلہ کر کے بینک انٹرسٹ کو ربوٰا قرار دے چکے ہیں، مگر ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رٹ مسلسل جاری ہے۔ ربوٰا کی تعریف اور اس کے اطلاق پر امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے انحراف کرتے ہوئے اس کے ازسرنو تعین کی بحث پر اس کج بحثی کی یاد تازہ ہو گئی ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی خود ساختہ نبوت کا جواز پیش کرنے کے لیے ’’خاتم النبیین‘‘ کے قرآنی ارشاد کے بارے میں شروع کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس قرآنی اصطلاح کا مفہوم سمجھنے میں پوری امت نے ہر دور میں غلطی کی ہے اور اس کا صحیح مفہوم وہی ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے بیان کیا ہے۔
سودی نظام کی نحوست اور تباہ کاریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں جس کا ادراک و احساس عالمی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی ماحول میں غیر سودی معیشت کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں، مگر اس ماحول میں بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام کے تسلسل کو جاری رکھنے پر اصرار جاری ہے اور اس سے نجات حاصل کرنے کی کوششوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔ جس پر تمام مکاتب فکر کی دینی قیادتوں کو بطور خاص توجہ دینی چاہیے، چنانچہ تمام دینی و علمی مراکز اور حلقوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور ملک و قوم کو ملعون و منحوس سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے کردار ادا کریں۔