سودی نظام کی مشکلات اور اسلامی تعلیمات

   
خانقاہ نقشبندیہ جامعہ فیضان القرآن، شیخ ٹاؤن، گوجرانوالہ
۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے جن معاملات کو حرام اور ناجائز قرار دیا ان میں سود بھی شامل ہے جس کا رواج اس وقت عام تھا اور ذاتی قرضوں کے علاوہ تجارتی لین دین میں بھی سود چلتا تھا۔ جب سود کو حرام قرار دینے کا اعلان ہوا تو اس کے بارے میں یہ اشکال پیش کیا گیا کہ بیع اور کاروبار بھی تو سود کی طرح ہے، اس لیے اگر اشیا کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ جائز ہے تو رقوم کا تبادلہ بھی اسی طرح جائز ہونا چاہیے۔ اس کا جواب قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ نے دیا کہ ’’واحل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ اس کے ساتھ قرآن کریم نے سود کے بارے میں یہ بھی فرمایا ’’یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات‘‘ اللہ تعالیٰ سود کی کمائی کو کم کرتا ہے اور صدقات سے دولت کو بڑھاتا ہے۔ بلکہ ایک جگہ فرمایا کہ ’’وما اٰتیتم من رباً لیربو فی اموال الناس فلا یربوا عند اللہ‘‘ تم سمجھتے ہو کہ سود سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے اور زکوٰۃ سے کمی ہوتی ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے، سود سے دولت کم ہوتی ہے اور زکوٰۃ و صدقات سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے کسی چیز کے نرخ میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ صرف گنتی کا اضافہ ہوتا ہے، جبکہ اصل چیز گنتی نہیں قدر (value) ہوتی ہے۔ مثلاً اب سے نصف صدی قبل ایک تولہ سونے کی قیمت ڈیڑھ پونے دو سو روپے کے لگ بھگ تھی، اب وہ گنتی میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے حالانکہ سونا وہی ایک تولہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سود کی شکل میں جس چیز کو تم اضافہ سمجھتے ہو اللہ کے ہاں وہ کمی کا سبب بنتا ہے، اور زکوٰۃ و صدقات کی صورت میں تمہیں جو کمی نظر آتی ہے حقیقت میں اللہ تعالیٰ اسے برکت و اضافہ کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

اس حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے دو تین واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں جس سے اس کے بارے میں اسلام کا مزاج سمجھا جا سکتا ہے:

طائف کے قبیلہ بنو ثقیف کے سردار جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ منورہ آئے تو کلمہ پڑھنے کے لیے کچھ شرائط بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ ہم سود کا کاروبار نہیں چھوڑیں گے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ دوسری قوموں کے ساتھ ہماری تجارت سود کے حوالے سے ہوتی ہے جو جاری نہیں رہ سکے گی، اس لیے ہمیں سود کی حرمت کے قانون سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔ مگر نبی کریمؐ نے ساری شرائط مسترد کر دیں اور انہیں اسلام قبول کرنے کے لیے ان شرائط سے دستبردار ہونا پڑا جن میں سودی نظام کے جاری رہنے کی شرط بھی تھی۔

اسی طرح نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا اس میں رسول اکرمؐ نے ان پر یہ شرط عائد کر دی کہ وہ اسلامی ریاست میں سود کا کاروبار نہیں کر سکیں گے۔

مگر جہاں معاملات میں کوئی رکاوٹ نظر آئی وہاں نبی اکرمؐ نے متبادل صورت بھی بیان فرمائی ہے کیونکہ جہاں مجبوری ہو وہاں راستہ نکالنا پڑتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلالؓ عمدہ قسم کی کھجوریں لائے تو آپؐ نے پوچھا کہ ہمارے ہاں تو عام طور پر یہ عمدہ کھجوریں نہیں ہوتیں، تم کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرے پاس عام قسم کی کھجوریں ہی تھیں مگر میں آج آپ کی خدمت میں عمدہ کھجوریں پیش کرنا چاہتا تھا، اس لیے عام کھجوریں دو صاع دے کر ان کے بدلے میں ایک صاع کے حساب سے میں یہ عمدہ کھجوریں خریدی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو تم نے سود کا معاملہ کیا ہے۔ ’’عین الربواٰ‘‘ یہ تو عین سود ہے۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ اگر میرے پاس عام کھجوریں ہیں اور میں ان کے عوض اچھی کھجوریں لینا چاہتا ہوں تو برابر تو کوئی نہیں دے گا، میں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ رقم کے بدلے میں وہ بیچ دو اور اس رقم کے ساتھ یہ خرید لو تو سود نہیں رہے گا۔ یعنی اگر تبادلہ ایک سودے کی بجائے دو الگ الگ سودوں کی صورت میں ہو تو وہ سود نہیں ہو گا اور جائز ہو جائے گا۔

اسی طرح ایک سال خیبر کی زکوٰۃ و عشر اور دیگر سرکاری واجبات وصول کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے وہاں سے وصولی کر کے لائے تو وہ سب عمدہ کھجوریں تھیں۔ حضورؐ نے پوچھا کہ ’’اکل تم خیبر ھکذا؟‘‘ کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہوتی ہیں؟ نمائندہ نے وہی جواب دیا جو حضرت بلالؓ نے دیا تھا کہ عام کھجوریں دگنی دے کر ان کے بدلے میں یہ عمدہ کھجوریں میں نے خریدی ہیں۔ نبی کریمؐ نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ یہ سود کا معاملہ ہے اور درست نہیں ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پھر تبادلہ کیسے ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ درہم و دینار کے بدلے بیچ کر ان کے بدلے یہ خرید لو تو معاملہ درست ہو جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں کسی سطح پر سودی کاروبار یا لین دین کی تو کوئی صورت جائز نہیں ہے، مگر جہاں کوئی رکاوٹ بن جائے تو متبادل صورتیں بھی موجود ہیں، اس لیے سودی نظام سے نجات حاصل کرنے میں جو مشکلات اور مسائل درپیش ہیں ان کے لیے فقہاء کرام سے رجوع کر کے ان کا حل تلاش کرنا چاہیے اور ان اشکالات کو سودی نظام کے خاتمہ میں رکاوٹ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter