آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ

   
مجلس صوت الاسلام پاکستان
۲۰۱۷، ۲۰۱۸

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آپ حضرات کے ساتھ انسانی حقوق کے چارٹر کے حوالے سے گفتگو چل رہی ہے۔ میں نے بات کا آغاز کیا تھا کہ مغربی فلسفے اور انسانی حقوق کے موجودہ نظام کے ساتھ ہمارے چند اصولی تنازعات ہیں، انسانی حقوق کے چارٹر کی بنیاد پر، اور اقوام متحدہ کے اداروں نے اس چارٹر کی جو تشریحات کر رکھی ہیں اس بنیاد پر۔ ایک اہم مسئلہ عورت اور مرد کی مساوات کا ہے، اس میں ان کا اور ہمارا موقف کیا ہے، اس پر بات ہو چکی ہے۔

مذہبی آزادی اور مذہبی مساوات کے حوالے سے ایک بات تو یہ کی تھی کہ وہ مذہب کو معاشرے سے لاتعلق قرار دیتے ہیں۔ بنیادی اور اصولی جھگڑا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا معاملہ شخصی ہے اور عقائد، عبادات، اخلاقیات تک مذہب محدود ہے۔ معاشرہ، سوسائٹی، سماج، قانون، عدالت اور سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ہم مذہب کے معاشرتی احکام کی بات کرتے ہیں، مثلاً سیاست میں نمائندگی، یا عورت کی حکمرانی، یا حاکم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط کی بات کرتے ہیں، یا ہم تجارت میں سودی بینکاری کی بات کرتے ہیں، یا جب ہم عدالت میں حدود شرعیہ کے نفاذ کی بات کرتے ہیں، یہ سارے مذہبی حوالے ہیں، تو ان حوالوں کو مغرب نہیں مانتا۔ اس کا کہنا ہے کہ معاشرے کے اجتماعی معاملات سوسائٹی نے خود طے کرنے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ذریعے طے کرے یا جو بھی اتھارٹی ہو وہ طے کرے۔ مذہب کی بنیاد پر معاشرے کے اجتماعی معاملات طے نہیں ہونے چاہئیں۔ جبکہ ہمارے تو سارے معاملات ہی مذہب کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ تجارت، معیشت، سیاست، عدالت، سب معاملات میں ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی لیتے ہیں۔ یہ ہمارا مذہبی حوالے سے مغرب کے ساتھ تنازعہ ہے اور ہم جہاں بھی مذہب کے حوالے سے بات کریں گے تو ان کا اعتراض ہوگا کہ یہاں مذہب کا حوالہ درست نہیں ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال ذکر کرتا ہوں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے ہیں جن سے نفسیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ امریکہ کی ایک لوکل کونسل میں ایک مسلمان رکن بن گیا تو اس نے کہا میں تو کارروائی کا آغاز بسم اللہ سے کروں گا، قرآن پاک کی تلاوت سے کروں گا۔ دوسروں نے کہا کہ ہمارا بھی حق ہے کہ ہم بائبل سے اور گاڈ سے اور جیسس سے آغاز کیا کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے سے فیصلہ ہو گیا کہ ٹھیک ہے، جس دن یہ شروع کریں گے بائبل سے شروع کریں گے، اور جس دن مسلمان شروع کریں گے وہ قرآن کی تلاوت سے شروع کریں گے۔ لیکن یہ فیصلہ چیلنج ہو گیا کہ یہ چونکہ مذہب کے حوالے سے ہے، اس لیے یہ ملکی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ ان کی حساسیت کی بات کر رہا ہوں کہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں ایک چھوٹی سی بات بھی ان کے ہاں قابل برداشت نہیں ہے جو مذہب کے حوالے سے کی جائے۔ یہ مغرب کے ساتھ ہمارا دوسرا بنیادی تنازعہ ہے۔

ہمارا تیسرا تنازعہ آزادی رائے کے حوالے سے ہے۔ آزادئ رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا کہاں کہاں کیا کیا دخل ہے؟ انسانی حقوق کے چارٹر میں لکھا ہوا ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کا، رائے تک رسائی حاصل کرنے کا، رائے کو لوگوں تک پہنچانے کا، رائے کے لیے لابنگ کرنے کا، اور اس کی لوگوں کے سامنے وضاحت کرنے کا حق حاصل ہے۔ آپ رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن رائے کے حق سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ ان کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس آدمی کی رائے ٹھیک نہیں ہے، لیکن یہ بات کہ اسے رائے دینے کا حق نہیں ہے، یہ بات آپ کسی بھی معاملے میں نہیں کہہ سکتے۔ یہ آزادئ رائے کا ایک مستقل ٹائٹل ہے۔ اس پر ہمارا بڑا تنازعہ ہوتا ہے۔

جب ہم مذہب کی توہین، انبیاء کرامؑ، مذہبی کتابوں، یا مذہبی شخصیات کی توہین کو جرم قرار دیتے ہیں اور ان پر سزا کی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ رائے سے اختلاف کریں، لیکن کسی کو رائے کے حق سے محروم نہ کریں۔ اگر کسی کی رائے قرآن کے خلاف ہو گئی ہے تو اس کی اپنی رائے ہے، اسے اس کا اظہار کرنے دیں۔ اگر کسی کی رائے اللہ کے خلاف یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو گئی ہے تو اسے کہنے دیں۔ آپ کسی کو رائے اختیار کرنے سے، رائے کا اظہار کرنے سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ ہے بنیادی تنازعہ۔ اس پر جو ہمارے پریکٹیکل معاملات اور عملی مسائل ہوئے ہیں، ان میں سے وہ مقدمات جو پچھلے دس پندرہ سال میں میرے سامنے ہوئے، میں مغرب کا موقف سمجھانے کے لیے دو تین بیان کر دیتا ہوں۔

آپ جانتے ہیں کہ سلمان رشدی انڈین شہری ہے، اب بھی زندہ ہے، برطانیہ میں رہتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے۔ اس نے ایک کتاب لکھی ’’دی سیٹینک ورسز‘‘ (شیطانی آیات) اس کا اردو ترجمہ بھی ہوا۔ یہ ناول طرز کی کتاب ہے جس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کو، وحی کے نزول کو، جبریلؑ کی آمد کے واقعہ کو ناول کے انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اس میں اس نے جناب نبی کریمؐ، حضرت جبریلؑ کے حوالے سے بھی اور قرآنی آیات کے حوالے سے بھی بہت توہین آمیز لہجہ اختیار کیا ہے۔ آپ اس کتاب کے ٹائٹل ’’شیطانی آیات ‘‘ سے ہی اس کا اندازہ کر لیں۔ لہجہ اس قدر توہین آمیز ہے کہ میں اپنی بات آپ سے کرتا ہوں کہ میں اس کے اردو ترجمے کا انتظار کرتا رہا۔ جب مجھے میسر آیا تو میں تین چار صفحے سے زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ اسے پڑھنے کی میری ہمت نہیں پڑی، حالانکہ میں بڑا ٹھنڈا بندہ شمار ہوتا ہوں کہ سنتا بھی ہوں اور برداشت کرتا ہوں۔

چنانچہ اس پر احتجاج ہوا، لندن میں بہت بڑی ریلی نکالی گئی۔ دنیا بھر میں احتجاج ہوا، پاکستان میں بھی ہوا، اسلام آباد میں تو فوج اور مظاہرین کی لڑائی ہوئی۔ مطالبہ یہ تھا کہ کتاب پر پابندی لگائی جائے اور اس کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔

مغرب نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ توہین نہیں ہے، یہ رائے کا اظہار ہے، آپ اس کی رائے قبول نہ کریں۔ اس پر بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ سلمان رشدی پر بعض حضرات نے، جن میں امام خمینی صاحب بھی شامل ہیں، یہ فتوٰی دے دیا کہ یہ واجب القتل ہے، جو اس کو قتل کرے گا اس کو ثواب ہو گا اور ہم اتنے ہزار ڈالر اسے انعام بھی دیں گے۔ اس بات پر کہ یہ واجب القتل ہے اور قاتل کو انعام دیا جائے گا مختلف لوگوں نے انعام مقرر کیے، اس سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ پہلے تو گرفتاری کا مطالبہ تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ہم اظہارِ رائے پر پابندی نہیں لگاتے، یہ اس کا حق ہے۔ اب جب اسے واجب القتل قرار دیا گیا تو مغرب نے کہا کہ اس کی حفاظت کی ہماری ذمہ داری ہے، کہیں مسلمان اس کو قتل نہ کر دیں۔

یہ ایک بالکل نیا تنازعہ تھا کہ مسلمانوں نے اس کو قتل کرنے کا اعلان کیا ہے تو اب کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس وقت سے سلمان رشدی حکومت برطانیہ کی نگرانی اور حفاظت میں ہے۔ اس پر برطانوی حکومت خرچ بھی کرتی ہے، اس کو مستقل گارڈ دیا ہوا ہے، اسے پروٹوکول بھی دیتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی برطانیہ کے خرچے سے جاتا ہے، دنیا کی مختلف اسمبلیوں میں اس سے خطاب کروایا جاتا ہے اور سال میں ہزاروں نہیں لاکھوں پونڈ اس پر خرچ ہوتے ہیں۔ برطانوی حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم ایک آدمی کی حفاظت نہیں کر رہے، بلکہ ہم آزادئ رائے کے حق کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اس کا آزادئ رائے کا حق ہے جو مسلمان اس سے چھیننا چاہتے ہیں اور ہم آزادی رائے کے حق کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ابھی تک مطالبات اور مغرب کا انکار چل رہا ہے۔

دوسرا کیس مصر میں ہوا، مصر کے ایک ڈاکٹر ڈاکٹر نصر ابو زید ہیں، قاہرہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے ایک کتاب لکھی: ’’الوحی فی مواجھۃ العقل‘‘۔ اس میں وحی اور عقل کا تقابل کیا ہے۔ یہ فلسفیوں اور انبیاء و صلحاء کا پرانا جھگڑا چلا آ رہا ہے۔ ابتدائے انسانیت سے یہ چلا آ رہا ہے کہ وحی بنیاد ہے یا عقل بنیاد ہے؟ اسی پس منظر میں اس نے کہا کہ اصل عقل ہے، وحی کو عقل کے تابع رکھیں گے۔ جبکہ ہمارا موقف ہے کہ وحی اصل ہے۔ عقل کی نفی نہیں ہے، لیکن عقل بہرحال وحی کے تابع ہو گی۔ اس کتاب میں اس نے یہ کہا کہ وحی کی بات کرنے والوں کی عقل نہیں ہے۔ چونکہ ان کی عقل تک رسائی نہیں ہے، اس لیے وحی کی باتیں کرتے ہیں۔

اس میں سے اس کے دو جملے صرف بات سمجھانے کے لیے نقل کر رہا ہوں۔ ’’نقل کفر کفر نباشد‘‘۔ میں نے آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے تفصیل سے لکھا تھا کہ اس نے یہ یہ لکھا ہے، اس کا یہ یہ موقف ہے۔ میں اس کی بات کی سنگینی اور خباثت کو ظاہر کرنے کے لیے دو جملے نقل کر رہا ہوں۔ اس نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ’’جو آدمی آج ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے، خلائی جہاز پر جاتا ہے، نیٹ استعمال کرتا ہے، آج کی جدید ترین ٹیکنالوجی جس کی دسترس میں ہے، یہ مولوی لوگ اسے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس آدمی کی پیروی کرو جو خچر پر سواری کرتا تھا اور خیموں میں رہتا تھا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ دوسری بات سنگین ترین ہونے کے باوجود نقل کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ مسلمان ترقی نہیں کر رہے اور وہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک ان اساطیر اور خرافات سے نجات حاصل نہ کر لیں جن سے قرآن بھرا ہوا ہے۔

اس کی کتاب چھپی، مصر میں توہینِ رسالت جرائم میں نہیں ہے، اس پر کوئی سزا مقرر نہیں ہے۔ بہت سے ممالک میں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں موت کی سزا ہے۔ بعض ممالک میں تین سال، پانچ سال کی سزا ہے۔ قاہرہ کے جو دینی جذبہ رکھنے والے مسلمان وکلاء تھے، انہوں نے مشورہ کیا کہ اس کو قابو کرنا چاہیے۔ یہاں کوئی قانون نہیں ہے کہ اس کو پکڑ سکیں۔ قانون کی بات ہو تو وکیل کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں اور فتوے کی بات ہو تو مفتی صاحبان کوئی نہ کوئی جزیہ نکال لیتے ہیں۔ یہ فن ہوتا ہے۔ ان کے پاس کوئی قانون تو نہیں تھا، لیکن مصر میں فیملی لاز، خاندانی قوانین فقہ شافعی کے مطابق نافذ ہیں۔ ان وکلاء نے فیملی کورٹ میں دعوٰی دائر کیا کہ ڈاکٹر نصر ابو زید یہ خرافات والے جملے لکھنے کے بعد مرتد ہو گیا ہے اور اس کی بیوی جو مسلمان ہے وہ اس کے نکاح میں نہیں رہی۔ عدالت سے درخواست کی کہ ان کے خلاف نکاح کی تنسیخ کی ڈگری جاری کی جائے کہ یہ بطور میاں بیوی مصر میں زندگی نہیں گزار سکتے۔ وکلاء نے اس کو پھنسانے کا یہ راستہ نکالا۔

میں نے اس زمانے میں ایک اخبار میں اس جج کا ایک انٹرویو پڑھا جس نے فیصلہ کیا تھا۔ اس نے انٹرویو میں کہا کہ مجھ پر بڑا دباؤ تھا۔ ایک طرف میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان و عقیدہ تھا اور یہ بات کہ یہ مسلمان وکلاء ٹھیک بات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سے دوسرے حلقوں کا بہت دباؤ تھا، حتیٰ کہ میں اتنا دباؤ کا شکار ہوا کہ میں نے آخری فیصلہ یہ کیا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے عمرے پر جاتا ہوں، وہاں استخارہ کرتا ہوں، پھر فیصلہ کروں گا۔ میں نے ہمت کی اور عمرے پر گیا، وہاں استخارہ کیا، دعا کی، واپس آ کر فیصلہ کر دیا اور ڈگری جاری کر دی کہ اس کتاب کے مندرجات کی روشنی میں یہ شخص مسلمان نہیں رہا اور یہ میاں بیوی نہیں رہے، ان کا نکاح ختم ہو گیا ہے۔

قاہرہ کی فیملی کورٹ نے فیصلہ صادر کر دیا تو اس پر پوری یورپی یونین متحرک ہوئی کہ یہ تو آزادئ رائے کے خلاف ہے اور اس کی رائے کا حق مجروح ہو رہا ہے۔ اس کو یورپی یونین نے ڈنمارک میں پناہ دی۔ اس وقت سے اب تک وہ میاں بیوی صرف یورپی یونین کی پناہ میں نہیں ہیں بلکہ مہمان ہیں اور ان کی کفالت میں رہ رہے ہیں اور ٹائٹل یہ ہے کہ ہم نے اس کے آزادئ رائے کے حق کی حفاظت کی ہے۔

تیسرا کیس بنگلہ دیش میں ہوا۔ وہاں کی ایک خاتون مصنفہ تسلیمہ نسرین ہے۔ اس نے بھی ایک کتاب میں اس قسم کی خرافات لکھیں اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا۔ اس نے لکھا کہ ’’قرآن پاک کے بہت سے احکام آج کے دور سے مطابقت نہیں رکھتے اور آج کی دنیا کے نزدیک قابل اعتراض ہیں تو مسلمان علماء کو آپس میں مشورہ کر کے قرآن پاک کی ان آیتوں میں ترمیم کر دینی چاہیے تاکہ قرآن پاک آج کی دنیا کے لیے قابل قبول ہو جائے۔‘‘

بنگلہ دیش میں توہین مذہب جرم ہے اور اس کی سزا تین سال ہے۔ بنگلہ دیش کے علماء نے اس کے خلاف آواز اٹھائی، اس کے خلاف مظاہرے ہوئے، اسے گرفتار کیا گیا، مقدمہ چلا۔ اس پر بھی یورپی یونین متحرک ہوئی، یورپی یونین کے وزراء کا وفد باقاعدہ ڈھاکہ میں آیا۔ اس کو حوالات سے نکلوا کر اپنے ساتھ یورپ لے گئے، اسے سیاسی پناہ دی، اس کے تحفظ کا اعلان کیا۔ اب وہ قانوناً بنگلہ دیش تو نہیں جا سکتی، باقی دنیا میں وہ یورپی یونین کی کفالت اور حفاظت میں گھومتی پھرتی ہے اور یہاں بھی ٹائٹل یہ ہے کہ ہم آزادئ رائے کے حق کی حفاظت کر رہے ہیں۔

گوجرانوالہ کے ایک کیس کا حوالہ بھی دینا چاہوں گا۔ یہاں ایک تھانہ ہے کوٹ لدھا۔ اس کے ساتھ ایک گاؤں رتا دہتڑ ہے۔ ہمارے پرجوش، متحرک ساتھی ماسٹر عنایت اللہ وہاں رہتے ہیں۔ وہاں کچھ عیسائیوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی۔ رتا دہتڑ توہین رسالت کیس کے نام سے یہاں کے قانونی حلقوں میں معروف کیس ہے۔ ماسٹر عنایت اللہ صاحب نے تھانے میں رپورٹ درج کروا دی اور ان کو گرفتار کروا دیا۔ گوجرانوالہ چونکہ ہیڈ کوارٹر تھا، ہم نے کیس سنبھال لیا اور اس کے لیے عدالتی کام میں لگے ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ تک بات گئی اور ہائی کورٹ نے سزائے موت سنا دی، لیکن پوری مغربی لابیاں، وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، عاصمہ جہانگیر یہ سارے متحرک ہو گئے کہ یہ زیادتی ہے، اور ٹائٹل آزادی رائے اور انسانی حقوق کا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا اور لابی ان کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ اس دوران اسی کشمکش میں ان میں سے منظور مسیح قتل بھی ہو گیا، لیکن سلامت مسیح اور رحمت مسیح دو نوجوان لڑکے حراست میں تھے۔ کیس ابھی چل رہا تھا کہ یورپی یونین نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا کہ ان کو پاکستان سے باہر نکالنا ہے۔ صدر فاروق لغاری صاحب کا دور تھا، جرمنی کے وائس چانسلر یہاں آئے۔ بظاہر ایجنڈا اور تھا، لیکن انہوں نے کہا کہ میں ان لڑکوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ رات کے وقت ہائی کورٹ کے جج کو بلایا گیا، ان لڑکوں کی ضمانت منظور کروائی گئی، رات ہی جیل سے رہا کروا کر جرمنی حکومت کے خرچے پر ان کو جرمنی بھجوا دیا گیا اور اس وقت وہ جرمن حکومت کی نگرانی میں زندگی گزار رہے ہیں اور ٹائٹل وہی ہے آزادئ رائے اور انسانی حقوق۔

یہ چار کیس تو میرے سامنے کے ہیں۔ رتا دہتڑ کیس میں تو میں نے خود گوجرانوالہ میں مجلسِ عمل بنائی تھی، میں اس کا سیکرٹری تھا۔ یہ واقعات میں نے اس لیے بتائے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ جب آزادئ رائے کی بات کرتے ہیں تو آزادی رائے میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ اس پر ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آزادئ رائے تو ٹھیک ہے، ہم بھی اس کے قائل ہیں لیکن اس کی کچھ حدود ہیں۔ آزادی رائے کا یہ مطلب تو نہیں کہ جس آدمی کی جو مرضی میں آئے کسی کے خلاف کہہ دے۔

میں یہ بات عرض کیا کرتا ہوں کہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ میرا مغرب سے ہمیشہ سوال ہوتا ہے کہ توہین کو رائے میں آپ نے کب سے شامل کر لیا ہے؟ توہین تو مغربی دنیا میں بھی جرم ہے۔ بائبل میں تو باپ کی توہین پر بھی قتل کی سزا ہے۔ کسی کی اہانت، استہزا اور توہین تو دنیا کے ہر قانون میں جرم ہوتی ہے، اسے جرم کی فہرست سے نکال کر آزادئ رائے میں کیسے شامل کر لیا تم نے؟ برمنگھم جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے، وہاں سلمان رشدی کے خلاف تحریک کے زمانے میں ایک سیمینار میں گفتگو کر رہا تھا کہ ایک نوجوان کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مولوی صاحب! آپ یہ شور کیوں مچا رہے ہیں کہ اس کو یہ کرو وہ کرو۔ اگر آپ کے پاس دلیل ہے تو اس کی کتاب کا جواب لکھیں۔ اس نے کتاب لکھی ہے، تم بھی لکھ دو۔ میں نے وہیں اسٹیج پر کھڑے کہا کہ بیٹا! جواب دلیل کا ہوتا ہے، گالی کا جواب نہیں ہوتا۔

میں نے بات سمجھانے کے لیے اس کو مثال دی کہ بیٹا! میرے والد بڑے عالم ہیں، مصنف و محقق ہیں۔ اگر کوئی آدمی میرے پاس آ کر کہے کہ آپ کے والد صاحب نے فلاں کتاب میں یہ بات لکھی ہے، اس کا حوالہ صحیح نہیں دیا، یا حوالے سے استدلال صحیح نہیں کیا، یا فلاں بات انہوں نے دلیل کے خلاف لکھی ہے، تو میں اس کو جواب دوں گا اور میرا حق بنتا ہے کہ میں والد صاحب کا دفاع کروں۔ لیکن اگر خدانخواستہ کوئی آدمی میرے سامنے آ کر میرے والد کو گالی دے گا تو میں اس کو جواب دینے کے لیے لائبریری میں نہیں جاؤں گا، بلکہ الٹے ہاتھ کی اس کے منہ پر ماروں گا کہ بکواس بند کرو۔ دلیل کا جواب دلیل سے ہوتا ہے اور گالی کا جواب دلیل سے نہیں ہوتا۔

ہمارا موقف یہ ہے کہ مغرب ہمارے ساتھ یہ دھاندلی کر رہا ہے کہ اس نے رائے اور توہین کو گڈمڈ کر دیا ہے، حالانکہ رائے اور چیز ہے، توہین اور چیز ہے۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا۔ دنیا میں ہمارے خلاف یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مسلمان برداشت والے لوگ نہیں ہیں، بڑے جذباتی لوگ ہیں، اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ اس پر میں نے لکھا بھی ہے، لیکچر بھی دیے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اختلاف ہم نے ہمیشہ سنا ہے، برداشت کیا ہے، اس کا جواب دیا ہے، مباحثہ و مکالمہ کیا ہے، لیکن توہین نہ کبھی برداشت کی ہے، نہ کرتے ہیں اور نہ کریں گے۔

مستشرقین تین سو سال سے لگے ہوئے ہیں، یورپ کی یونیورسٹیوں میں اسلام پر اعتراض کی باتیں چل رہی ہیں، قرآن پاک کے احکام پر اعتراضات ہوتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر بہت سے اعتراضات ہوتے ہیں۔ ہم ان کا جواب دیتے آ رہے ہیں۔ اگر آپ یورپ کی یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے وہ مقالات، جن میں اسلام، قرآن اور آپؐ کی ذات گرامی سے اختلاف کیا گیا ہے، شمار کریں گے تو وہ سینکڑوں نہیں ہزاروں میں نکلیں گے۔ ہم نے ان کا جواب دیا ہے۔ دلیل کا جواب ہم دلیل سے دیتے آ رہے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ ہم اختلاف برداشت نہیں کرتے۔ ہم نے اختلاف سنا بھی ہے، اس کو برداشت بھی کیا ہے، اس کا جواب بھی دیا ہے۔ لیکن توہین نہ برداشت کی ہے اور نہ کریں گے۔ ہمارے معاشرے میں پچھلے سو ڈیڑھ سو سال میں سے مثال کے طور پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں، اس پر کہ جہاں دلیل کی بات ہوئی ہے تو ہم نے دلیل سے جواب دیا ہے اور جب توہین کے لہجے میں بات کی گئی تو ہم نے دلیل سے جواب نہیں دیا، بلکہ جس طرح دینا چاہیے تھا اسی طرح دیا ہے۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے معاصرین میں ایک ہندو پنڈت دیانند سرسوتی بڑے عالم، دانشور اور فلسفی آدمی تھے جو کہ ہندوؤں کے فرقہ آریہ سماج کے بانی تھے۔ جس طرح ہمارے ہاں دیوبندیوں کا بانی مولانا نانوتویؒ کو شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ ہے جو لاہور سے اردو میں چھپی ہے۔ اس کا ایک مستقل باب اسلام پر اعتراضات کا باب ہے۔ قرآن پاک پر، جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی پر اور اسلامی احکام پر تقریباً سو سے زیادہ اعتراضات کیے ہیں۔ عام فہم کامن سینس کے اعتراضات ہیں۔

مثال کے طور پر ایک اعتراض یہ لکھا ہے کہ مسلمان چودہ سو سال سے ابھی تک نماز میں کھڑے ہو کر یہی دعا مانگتے آ رہے ہیں ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کہ یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ابھی تک سیدھا راستہ مانگ ہی رہے ہیں، ان کو ملا نہیں ہے۔ جبکہ ہمیں سیدھا راستہ مل چکا ہے، اس لیے ان کے پیچھے نہ جاؤ بلکہ ہمارے پیچھے آؤ۔

ایک یہ اعتراض کیا کہ مسلمان بلاوجہ ہم ہندوؤں پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم پتھروں کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست ہیں، صنم کے گرد طواف کرتے ہیں۔ فرق یہی ہے کہ ہم پتھر کی مورتی بنا لیتے ہیں اور مسلمانوں نے پتھر کا مکان (کعبہ) بنایا ہوا ہے، اس کے گرد گھومتے ہیں، اس کا طواف کرتے ہیں۔ تم بھی پتھر پوجتے ہو، ہم بھی پتھر پوجتے ہیں۔

اس قسم کے سو سے زیادہ اعتراضات و اشکالات اس نے کیے۔ ہم نے نہ اس کے قتل کا فتوٰی دیا، نہ اسے قتل کیا، بلکہ اس سے مناظرے کیے ہیں۔ حضرت نانوتویؒ سے اس کے مناظرے ہوئے ہیں، اور مولانا نانوتویؒ نے اس کی کتاب کے جواب میں رسالے لکھے ہیں۔ ’’قبلہ نما‘‘ اسی قبلہ کے اعتراض پر ہے، اور بھی کئی رسالے ہیں۔ اس کے حضرت نانوتویؒ سے مناظرے اور تحریری مقابلے ہوئے۔

پنڈت دیانند سرسوتی کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے۔ دوسرے مکاتب فکر کے علماء نے بھی اس کو جواب دیے۔ اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے ستیارتھ پرکاش کے جواب میں ’’حق پرکاش‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اور بریلوی بڑے عالم ہیں مولانا نعیم الدین مراد آبادیؒ، انہوں نے بھی اس کے جواب میں کتاب لکھی ہے۔ چونکہ پنڈت دیانند سرسوتی کی اس کتاب میں دلیل سے بات کی گئی ہے، عقلی اعتراضات ہیں، تو ہم نے کتابوں کی صورت میں اس کا جواب دیا ہے۔

جبکہ اسی لاہور سے ایک کتاب چھپی جس کا نام ’’رنگیلا رسول‘‘ ہے، راج پال نے لکھی تھی۔ اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے، اس کا جواب غازی علم الدین نے دیا تھا اور اسی کو دینا چاہیے تھا۔

یہ فرق ہمارے ہاں ہے۔ اختلاف کی بات کو ہم نے ہمیشہ برداشت کیا ہے، جواب دیا ہے، لیکن توہین کبھی برداشت نہیں کی۔ معروف دانشور ہیں سر ولیم مور لندن سے، حضورؐ کی سیرت پر ان کی کتاب چھپی ’’دی لائف آف محمد‘‘ اس میں مصنف نے جتنے اعتراضات کیے سر سید نے جواب میں پوری کتاب لکھی ہے۔ لیکن سلمان رشدی کی کتاب کا کسی نے جواب نہیں لکھا، کیونکہ اس میں گالیاں ہیں، توہین ہے، استہزا اور طعن ہے۔

میں نے عرض کیا کہ یہ بنیادی مسئلہ ہے کہ رائے کسے کہتے ہیں، اختلاف کسے کہتے ہیں، اور استہزا اور طعن کسے کہتے ہیں؟ کون سی رائے کا حق ہے اور کون سی رائے کا حق نہیں ہے؟ مغرب یہ دھاندلی کر رہا ہے کہ توہین اور استہزا کو رائے قرار دے کر انبیاء اور مذہب کی توہین کا حق مانگ رہا ہے، جو ہم نہیں دیتے۔

اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھ لیں۔ جب مغرب سے بات ہوتی ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ دیکھو انبیاء کرامؑ تو بہت اونچی شخصیات ہیں، ساری کائنات کا خلاصہ ہیں۔ آج کے دور میں دنیا کے ہر ملک میں دو قوانین موجود ہیں:

ایک تحفظِ ناموس کا اور ہتکِ عزت کے خلاف داد رسی کا قانون۔ ہمارے ملک میں بھی ہے، امریکہ میں بھی ہے، روس اور چائنہ وغیرہ ہر ملک میں یہ قانون ہے کہ ملک کا کوئی شہری کسی شہری کے بارے میں یہ دعوٰی کرے کہ اس نے میری توہین کی ہے جس میری عزت مجروح ہوئی ہے، تو اس کا قانون موجود ہے۔ عدالت اسے انسانی حقوق کا چارٹر نہیں پڑھائے گی بلکہ اس کی درخواست وصول کرے گی، تحقیق کرے گی، اور اگر جرم ثابت ہو جائے تو توہین کرنے والے کو سزا دے گی۔

میں ان سے پوچھا کرتا ہوں کہ جب ایک عام شہری کی ہتکِ عزت جرم ہے تو کیا انبیاء کرامؑ کی ہتکِ عزت بھی جرم ہے یا نہیں ہے؟ جب میری ہتک عزت ہو تو عدالت تحقیق کرے گی، ثابت ہونے پر اس کو سزا دے گی۔ مجھے عزت کے تحفظ کا حق حاصل ہے، میری ہتک عزت کو قانون جرم کہتا ہے۔ حضرات انبیاء کرامؑ کی عزت و حرمت میں اور ہماری عزت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ہم اور ان میں ہے۔ اور توہین کے درجے میں بھی اتنا ہی فرق ہے، تو ان کی ہتک عزت جرم کیوں نہیں ہے؟ مغرب اس بات کو قبول نہیں کر رہا۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ میری توہین تو جرم ہے، انبیاءؑ کی توہین جرم نہیں ہے، نعوذ باللہ۔

دوسرا قانون ہے ازالۂ حیثیت عرفی کا قانون۔ یہ شخصی عزت و توہین سے ہٹ کر دوسرا قانون ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں معاشرے میں ستر سال سے رہ رہا ہوں، میری معاشرے میں ایک حیثیتِ عرفی ہے، لوگوں کی نظر میں ادب و احترام اور ایک مقام ہے۔ اگر کسی آدمی کی کسی بات سے یا کسی حرکت سے میری حیثیتِ عرفی مجروح ہوتی ہے، میرا معاشرتی اسٹیٹس اور معاشرے میں میرا مقام مجروح ہوتا ہے، تب بھی مجھے داد رسی کے لیے عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے۔ مجھے اپنے اسٹیٹس کے تحفظ کے لیے قانونی حق حاصل ہے، قانون میرے اس اسٹیٹس کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ قانون امریکہ اور برطانیہ میں بھی ہے، پاکستان میں بھی ہے۔

میرا ان سے سوال یہ ہوتا ہے کہ ظالمو! اوباما کی حیثیتِ عرفی ہے، ٹرمپ کی بھی ہے، پاکستان کے وزیر اعظم کی بھی ہے۔ اس کو کوئی زد پہنچے گی تو وہ عدالت میں جائے گا، قانون موجود ہے، عدالت داد رسی کرتی ہے۔ تمہاری اور میری حیثیت عرفی تو ہے، لیکن انبیاء کرامؑ کی بھی کوئی حیثیتِ عرفی ہے یا نہیں ہے؟ جو کائنات کی بزرگ ترین شخصیات ہیں ان کا بھی کوئی معاشرتی مقام ہے یا نہیں ہے؟ اس کا تحفظ بھی قانون کی ذمہ داری ہے یا نہیں ہے؟

بہرحال ایک ہمارا جھگڑا مغرب سے یہ چل رہا ہے اور اس کا سارا زور اس پر لگ رہا ہے کہ جو مذہب اور مذہبی شخصیات کے حق میں قوانین ہیں، جن میں مذہبی احکام کی توہین کو اور مذہبی شخصیات، انبیاء کرامؑ کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے، مغرب کا ان پر یہ اعتراض ہے کہ یہ قوانین آزادئ رائے کے منافی ہیں۔ آپ جب بھی مغرب کی این جی اوز کا اور لابیوں کا ایجنڈا اور مطالبات پڑھیں گے تو اس میں یہ مطالبہ ہو گا۔

ابھی پچھلے سال اقوام متحدہ کی کمیٹی نے باقاعدہ اجلاس کیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں مذہبی توہین کو جرم قرار دینے والے قوانین ختم ہونے چاہئیں۔ اس توہین مذہب میں قرآن پاک کی توہین بھی شامل ہے، بائبل کی بھی شامل ہے، جناب نبی کریمؐ کی بھی شامل ہے، حضرت عیسٰیٰؑ کی توہین بھی شامل ہے۔

الغرض ان کے نزدیک توہینِ مذہب کوئی جرم نہیں ہے، اس پر ایک لطیفہ سنا کر بات ختم کرتا ہوں۔ جس زمانے میں ناروے اور ڈنمارک کے خاکوں کی بات چل رہی تھی تو ناروے کے ایک صحافی نے لکھا کہ مسلمان خواہ مخواہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں تو حضرت عیسٰیٰؑ کی توہین پر کوئی غصہ نہیں آتا۔ یہ لوگ تو انجوائے اور دل لگی کرتے ہیں معاذ اللہ۔ میں نے اس پر اپنے لہجے میں جواب لکھا، تقریریں بھی بہت کیں، میں نے دو باتیں کہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اصل بات کنکشن کی ہے۔ کنکشن سلامت ہو تو سیٹ میں کچھ خرابی بھی ہو تو بھی ٹوں ٹوں کرے گا، چپ نہیں رہے گا۔ جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ ہمارا ایمان کا کنکشن الحمد للہ سلامت اور برقرار ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارا کنکشن اس درجے میں سلامت ہے کہ دنیا کا کوئی مسلمان قرآن پاک کی توہین اور جناب نبی کریمؐ کی ذات اقدس کی گستاخی برداشت نہیں کرے گا۔ میں نے کہا کہ تم اپنے کنکشن کی خیر مناؤ کہ کہیں آف تو نہیں ہو گیا۔

دوسری بات یہ کہ اپنے نبیؑ کے ساتھ ہمارا کنکشن کس درجے کا ہے اور تمہارا کس درجے کا ہے؟ تم اپنے کفارے کے عقیدے پر غور کرو۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ساری انسانیت گناہ گار ہے، حضرت عیسٰیٰؑ نے نسلِ انسانی کے گناہوں کا کفارہ سولی پر چڑھ کر دیا ہے۔ اب آگے فلسفہ یہ ہے کہ جو صلیب کے دائرے میں آئے گا وہ ہی کفارے کے دائرے میں بھی آئے گا، اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اور جو اس دائرے میں نہیں آئے گا وہ گناہ گار پیدا ہوا اور گناہ گار مرا۔ میں نے کہا کہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ بدمعاشیاں تم کرو اور سزا حضرت عیسٰیٰؑ بھگتیں۔ تمہارا اپنے نبی سے تعلق یہ ہے۔

اور ہمارے اپنے نبیؐ سے تعلق کی کیا نوعیت ہے، اس کا ایک واقعہ سے اندازہ کر لو۔ بخاری شریف کی طویل روایت ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خبیبؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کو مکہ والوں نے سزا دینے کا اعلان کیا، ان کو قتل کے لیے لایا گیا، درخت کے ساتھ باندھ کر قتل کیا جانے لگا تو کسی نے کہا خبیب! اگر تمہاری جگہ محمد ہوتے تو تمہاری جان چھوٹ نہ جاتی؟ تڑپ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا تم حضورؐ کے بارے میں یہ بات کر رہے ہو، خدا کی قسم مجھے سو جانیں مل جائیں اور ایک ایک کر کے میں قتل کیا جاؤں، مجھے یہ منظور ہے، اور میرے سو قتلوں کے عوض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے، یہ مجھے منظور نہیں ہے۔ تو یہ اپنے اپنے تعلق کی بات ہے۔

حضرات علماء کرام! میں نے آج کی نشست میں عرض کیا کہ آزادئ رائے کے حوالے سے ہمارا اور مغرب کا تنازعہ کیا ہے؟ یہ مغرب کے ساتھ نظری جنگ کا بھی اور عملی مسائل کی جنگ کا بھی تیسرا دائرہ ہے۔ چوتھے دائرے پر کہ غلامی کیا ہے، اس پر مغرب کا اعتراض کیا ہے اور ہمارا جواب کیا ہے؟ اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی، ان شاء اللہ العزیز۔

2016ء سے
Flag Counter