گکھڑ میرا آبائی شہر ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد ۱۹۴۳ء میں گکھڑ آ گئے تھے۔ میری ولادت ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو وہیں ہوئی۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا قیام ۱۹۵۲ء کے دوران عمل میں لایا گیا، اس سے قبل حضرت والد صاحب گکھڑ کی مرکزی جامع مسجد میں، جو اس وقت مسجد بوہڑ والی کہلاتی تھی، طلباء کو پڑھاتے تھے۔ پرانے مدرسوں کی طرز پر طلباء کی ایک تعداد مختلف علاقوں سے جمع ہو جاتی تھی اور والد صاحب انہیں صبح سے شام تک درس نظامی کے اسباق پڑھاتے تھے۔ اس دور میں درجہ بندی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی آج کے مدارس کی طرح کوئی باقاعدہ نظم ہوتا تھا۔ طلباء آ جاتے تھے، مسجد سے متعلقہ نمازی انہیں گھروں سے اس طرح کھانا مہیا کر دیتے تھے کہ کچھ طلباء خود ان کے گھروں سے کھانا لاتے تھے اور سب مل کر کھا لیتے تھے۔ مسجد جائے قیام ہوتی تھی اور استاذ محترم پڑھا دیا کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کا عام سطح کے مدارس کا نظم ہوتا تھا اور جس مسجد میں بھی کوئی تدریسی مزاج اور صلاحیت رکھنے والے صاحب خطیب و امام ہوتے تھے، وہاں ان کے گرد طلباء کی ایک جماعت موجود ہو جاتی تھی۔
مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے باقاعدہ قیام کے بعد گکھڑ کا یہ درس ختم ہو گیا اور حضرت والد محترم مدظلہ نے اسباق کے لیے گوجرانوالہ جانا شروع کر دیا، جہاں وہ ۲۰۰۰ء تک مسلسل تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد غالباً ۱۹۵۶ء یا ۱۹۵۷ء میں الحاج سیٹھی محمد یوسف صاحب آف گتہ مل راہوالی کی توجہ اور تعاون سے ”تجوید القرآن“ کے نام سے حفظ قرآن کریم کا مدرسہ گکھڑ کی مذکورہ مسجد میں قائم ہوا، جس میں قرآن کریم حفظ و ناظرہ کی باقاعدہ کلاس شروع ہوئی اور مقامی بچوں اور بچیوں کے ساتھ کچھ مسافر طلباء بھی رہنے لگے۔ اس مدرسہ کی سب سے پہلی کلاس میں میرا نام بھی شامل ہے۔ میں نے حفظ قرآن کریم اسی مدرسہ میں اکتوبر ۱۹۶۰ء میں مکمل کیا۔
کچھ عرصہ کے بعد ”قاری کلاس“ کے نام سے تجوید و قراءت کا کورس شروع ہوا۔ میں اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، اس لیے قاری کلاس سے استفادہ نہ کر سکا۔ البتہ اس کلاس کے دو استاذوں سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ حضرت مولانا غلام علی صاحبؒ سے میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم کی تعطیلات کے دوران ”گلستان سعدی“ اور ”فصول اکبری“ پڑھی اور حضرت مولانا قاری عبد الحلیم سواتی صاحب سے، جو آج کل بحرین میں ہوتے ہیں، کچھ روز قراءت میں مشق کی۔ طلباء کی تعداد زیادہ ہونے پر اس کلاس کے لیے ایک الگ مکان کرائے پر لیا گیا اور بعد میں مت کلاں روڈ پر، جسے اب بلدیہ گکھڑ نے ”مولانا سرفراز خان روڈ“ کا نام دے دیا ہے، عید گاہ کے ساتھ مدرسہ کی باقاعدہ عمارت تعمیر کی گئی، جہاں تجوید و قراءت اور اس کے بعد درس نظامی کے مختلف درجات کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔
حضرت والد صاحب مدظلہ کی صحت نے جب تک اجازت دی، مدرسہ کے معاملات کی خود نگرانی کرتے رہے اور ان کی معذوری کے بعد ہمارے چھوٹے بھائی مولانا حماد الزہراوی سلمہ اس ذمہ داری کو سنبھالے ہوئے ہیں، جو اچھے تعلیمی، اصلاحی اور تربیتی ذوق سے بہرہ ور ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل ہیں، گورنمنٹ ہائی سکول گکھڑ کے ٹیچر ہیں اور حضرت والد صاحب مدظلہ کی جگہ مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
اب گکھڑ کے کچھ احباب نے، جن میں دو خاندان بہت نمایاں ہیں، لیکن اپنے ناموں کی تشہیر نہیں چاہتے، اسی عید گاہ کے قریب ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کر کے ”معارف اسلامیہ اکادمی“ کے نام سے اس درس گاہ کی بڑی عمارت کی تعمیر کا آغاز کیا ہے، جس کا ایک حصہ مکمل ہونے پر گزشتہ جمعہ کو عمومی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں حضرت والد محترم مدظلہ بھی تشریف لائے اور دعا کے ساتھ تعلیمی سلسلہ کے ایک نئے دور کا افتتاح فرمایا۔ جبکہ میں نے موقع اور محل کی مناسبت سے کچھ گزارشات پیش کیں، جن کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس پرانی دینی درسگاہ کے تعلیمی نظام اور پروگرام میں اس پیشرفت پر اس کے منتظمین و معاونین اور خاص طور پر نئی عمارت کا انتظام کرنے والے افراد اور خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دو حوالوں سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
- ایک یہ کہ اس درسگاہ کے نئے تعلیمی نظام میں انگریزی زبان اور دیگر عصری علوم کو شامل کرنے کا عزم کیا گیا ہے، اس کی ضرورت کیا ہے؟
- اور دوسری یہ کہ اس میں پہلی کلاس طالبات کی شروع کی جا رہی ہے، اس کی اہمیت کیا ہے؟
جہاں تک ضروری عصری علوم کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کا مسئلہ ہے، ایک بات بطور تمہید عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں علوم کی یہ تقسیم کہ یہ دینی علوم ہیں اور یہ دنیاوی علوم ہیں، یہ تقسیم مجھے اسلامی تعلیمات میں کہیں دکھائی نہیں دی۔ پڑھتے پڑھاتے کم و بیش چالیس سال کا عرصہ گزرنے کو ہے، مگر دینی علوم اور دنیاوی علوم کی تقسیم اسلامی تعلیمات اور لٹریچر میں مجھے کہیں دستیاب نہیں ہوئی۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہمیں دو قسم کے علوم کا ذکر ملتا ہے، جنہیں علوم نافعہ اور علوم ضارہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دعا کی ہے اور علم ضارہ سے پناہ مانگی ہے۔ اس تقسیم کے اعتبار سے وہ تمام علوم جو انسان کو دنیا و آخرت میں نفع دینے والے ہیں مطلوب و مقصود ہیں، اور وہ علوم جو کسی حوالہ سے ضرر اور نقصان کا باعث بن سکتے ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہمیں علوم کی ایک اور تقسیم بھی ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ علم کس مقصد کے لیے حاصل کر رہے ہیں؟ اگر آپ قرآن کریم کا علم دنیاوی اغراض کے لیے حاصل کر رہے ہیں تو یہ دنیا کے لیے علم کا حصول ہے، اور اگر آپ بظاہر کسی غلط دکھائی دینے والی چیز کا علم حاصل کر رہے ہیں اور آپ کا مقصد اس سے دین و آخرت کا فائدہ ہے تو یہ دین کے لیے علم ہے۔ دین کے لیے علم حاصل کرنے اور دنیا کے لیے علم تلاش کرنے کی تقسیم تو ہمیں احادیث نبویہ میں ملتی ہے، مگر دینی علوم اور دنیاوی علوم کی کوئی تقسیم کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ اپنی بات سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ غالباً ۱۹۶۴ء کی بات ہے کہ فاتح قادیان استاذ العلماء حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ گوجرانوالہ تشریف لائے اور دفتر ختم نبوت میں علماء کرام اور طلباء کے لیے ”رد قادیانیت کورس“ کا اہتمام کیا گیا، جس میں ایک طالبعلم کے طور پر شرکت کی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی۔ حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ قادیانیوں کے خلاف سب سے بڑے مناظر تھے اور قادیان میں بیٹھ کر قادیانیوں کے خلاف کام کرنے کی وجہ سے انہیں ”فاتحِ قادیان“ کہا جاتا تھا۔ ہر وقت مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے اور قادیانی لٹریچر میں ڈوبے رہتے۔ ایک بار ان سے دل لگی کے طور پر عرض کیا گیا کہ باقی علماء قرآن کریم پڑھتے ہیں، حدیث پڑھتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں، مگر آپ ہر وقت مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں میں محو رہتے ہیں اور اس کی خرافات میں کھوئے رہتے ہیں۔ ہنس کر فرمانے لگے کہ بھئی! مجھے مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں پڑھنے پر اتنا ہی ثواب ملتا ہے، جتنا تم لوگوں کو ہدایہ اور مشکوٰۃ پڑھنے پر ثواب ملتا ہے۔
ان کا ارشاد بجا تھا، اس لیے کہ اصل بات مقصد کی ہے۔ ایک شخص قرآن کریم کی تعلیم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اعتراضات کا راستہ نکالے اور شکوک و شبہات پھیلائے تو اس کا قرآن کریم پڑھنا گمراہی اور گناہ کی بات ہے، اور دوسرا شخص شیطان کے حالات اور طریق واردات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ مسلمانوں کو اس کے مکر و فریب سے بچائے تو اس کا شیطان اور شیطانیت کا علم حاصل کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔
ہمارے ہاں علوم کے حوالہ سے ایک اور تقسیم بھی پائی جاتی ہے، جو درس نظامی کے نصاب کے بارے میں عام طور پر بیان کی جاتی ہے، وہ علوم عالیہ اور علوم آلیہ کی تقسیم ہے، یعنی وہ علوم جو اصل میں مقصود ہیں اور وہ علوم جو ان کے حصول کے لیے ذریعہ کے طور پر ضروری ہیں۔ جو علوم اصل مقصد ہیں وہ عالیہ کہلاتے ہیں اور جن علوم و فنون کا حصول ان علوم مقصودہ تک رسائی کے لیے ضروری ہے وہ آلیہ کہلاتے ہیں۔ علوم عالیہ کا تعلق وحی الٰہی سے ہے، یعنی قرآن کریم کا علم ، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کا علم اور قرآن و سنت سے ماخوذ احکام شرعیہ کا علم، یہ علوم مقصودہ ہیں۔ لیکن عربی گرائمر صرف و نحو، ادب، لغت، معانی اور دیگر علوم و فنون جو قرآن و سنت کے فہم کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے پڑھائے جاتے ہیں وہ علوم آلیہ اور ذرائع ہیں۔ علوم مقصودہ تو ہمارے ہاں متعین ہیں اور متعین رہیں گے، ان میں رد و بدل اور تغیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن علوم آلیہ یعنی اصلی علوم تک رسائی کے ذرائع ہمیشہ تغیر پذیر رہے ہیں اور بدلتے رہتے ہیں اور اس حوالہ سے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
- ایک یہ کہ مثلاً عربی کا علم اور اس کے متعلقات کا علم، اس کے دائرے ہر زمانے اور علاقے کے لیے الگ الگ ہوں گے۔ عرب علاقوں کے طلباء جن کی مادری زبان عربی ہے، ان کا نصاب غیر عرب علاقوں کے طلباء کے لیے جو عربی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں، ان سے بالکل مختلف ہو گا۔ اسی طرح قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے آج کے معیار کی عربی کافی نہیں ہو گی، بلکہ اس دور کی عربی جاننا ضروری ہو گی جس دور میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح فرمائی تھی۔
- دوسری بات یہ کہ مثلاً ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں یونانی فلسفہ اور منطق باقاعدہ طور پر شامل ہے اور اہتمام کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی جب یونانی فلسفہ و منطق کی کتابیں ترجمہ ہو کر ہمارے ہاں آئی تھیں اور معقولات کا دور شروع ہوا تھا۔ معقولات کی بنیاد پر اسلامی عقائد و احکام میں سامنے آنے والے شبہات و اعتراضات کا جواب دینے اور اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ منطق و فلسفہ کا علم حاصل کیا جائے اور ان کی زبان و اسلوب میں ان کے اعتراضات و شبہات کا جواب دیا جائے، جیسا کہ امام ابو الحسن اشعریؒ، امام ابو منصور ماتریدیؒ، امام غزالیؒ، ابن رشدؒ، ابن تیمیہؒ اور دیگر اکابر علماء امت نے دیا۔ یونانی فلسفہ و منطق کا قرآن و سنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے بہت سے قواعد و احکام اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں، لیکن ان علوم کا سیکھنا اور انہیں دینی تعلیم کے نصاب میں شامل کرنا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اس کے بغیر معقولات کے حوالہ سے اسلامی احکام و عقائد پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا اور مسلمانوں کو اپنے عقائد و احکام پر مطمئن رکھنا ممکن نہیں ہے۔
اس دور کے اسلامی لٹریچر تک رسائی اور اس کے فہم کے لیے آج بھی اس کی ضرورت ہے، لیکن آج عمومی سطح پر یونانی منطق و فلسفہ کی جگہ مغرب کے انسانی حقوق کے فلسفہ نے لے لی ہے۔ حریت و مساوات کا نظریہ اس کی جگہ میدان میں آ گیا ہے اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق اور آزادی کی تحریک نے بہت سے نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ ان مسائل نے مسلمان نوجوانوں اور جدید تعلیم یافتہ طبقوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا ایک جنگل آباد کر رکھا ہے۔ لیکن چونکہ وہ قرآن و سنت سے گہری عقیدت رکھتے ہیں، اس لیے اس کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتے۔ مگر آپ کسی پڑھے لکھے نوجوان کو کرید لیں اور اس کے ذہن تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں، وہاں آپ کو شکوک و شبہات کا ماحول ملے گا اور اسلام کے خلاف مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار کے ہمہ جہتی ماحول کی وجہ سے اس کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے میں ایک عرصہ سے گزارش کر رہا ہوں، بلکہ دہائی دے رہا ہوں کہ مغربی فلسفہ و ثقافت اور فکر و تہذیب کی باقاعدہ تعلیم کو دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں شامل کرنا اسی طرح ضروری ہو گیا ہے جیسے کسی دور میں یونانی منطق و فلسفہ کو دینی تعلیم کے نصاب کا حصہ بنانا ضروری سمجھا گیا تھا۔
جہاں تک زبان کا تعلق ہے، ہمیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب آنحضرتؐ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور نوجوان انصاری صحابی حضرت زید بن ثابتؓ نے ان کے سیکرٹری اور کاتب کی ذمہ داری سنبھالی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انہوں نے عبرانی زبان کی تعلیم حاصل کی اور یہ زبان انہوں نے مدینہ منورہ کے یہودی مدرسہ میں جا کر سیکھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری قوموں کی زبانوں سے واقفیت حاصل کرنا بھی ذمہ داری ہے۔ جب ہم اسلام کو پوری دنیا کا دین سمجھتے ہیں اور اس کی دعوت کو دنیا بھر کی تمام اقوام تک پہنچانا اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں، تو ایسی زبانوں کا حصول خود بخود ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے، جن کے ذریعہ ہم دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکیں۔
انگریزی آج کی بین الاقوامی زبان ہے اور پوری دنیا تک پیغام پہنچانے کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے، اس لیے ہم اپنے نصاب میں اسے نظر انداز نہیں کر سکتے، ورنہ ہم آج کے دور میں نہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے تقاضے پورے کر سکیں گے اور نہ ہی اسلام کے خلاف دن بدن بڑھنے والی فکری اور ثقافتی یلغار کا راستہ روک سکیں گے۔
اس کے ساتھ ہی میں طالبات کی تعلیم کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھ سے عام طور پر یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو کیا کچھ پڑھا سکتے ہیں اور انہیں کیا کچھ پڑھانا چاہیے؟ یا طالبات کی دینی تعلیم کا نصاب کیا ہونا چاہیے؟ میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ بچیوں کی دینی تعلیم کا نصاب وہی ہے جو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا اور پھر امت کو اس کی تعلیم دی تھی۔ وہ نو سال کی عمر میں نبی اکرمؐ کے حرم میں آئیں، نو سال حضورؐ کے گھر میں بیوی کے طور پر رہیں، جو دراصل ان کا تعلیمی دور بھی تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کم و بیش نصف صدی تک امت کو تعلیم دی اور ان کی مسند علم اپنے دور کی بڑی دینی درسگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔ ان کے بھانجے اور شاگرد حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے میں قرآن کریم کی تفسیر، حدیث و سیرت، میراث و فرائض، ادب و شعر، قبائل عرب کی تاریخ اور نسب ناموں اور طب میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔
میرے نزدیک طالبات کی تعلیم کے نصاب کی سب سے بہتر بنیاد یہی ہے، کیونکہ یہ وہ علوم ہیں جو حضرت عائشہؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں سیکھے اور نصف صدی تک پوری امت کو ان کی تعلیم دیتی رہیں۔
ان گزارشات کے ساتھ میں ”معارف اسلامیہ اکادمی“ کی نئی عمارت کی تعمیر اور اس میں طالبات کے لیے نئے کورس کے آغاز پر سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والد محترم دامت برکاتہم کے آباد کیے ہوئے اس گلشن کو قیامت تک آبادی اور ترقیات نصیب فرمائیں اور ملک بھر میں اسلام کی زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر خدمت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔